حجت الاسلام فخر زادہ کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے پروگرام کا انعقاد

زبانی تاریخ؛ واقعات بیان کرنے سے لیکر تاریخ لکھنے تک

مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-03-05


ایرانی زبانی تاریخ کی سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام سعید فخر زادہ کے 33 سالوں تک  انقلاب اسلامی اور دفاع مقدس کے واقعات لکھنے کو سراہتے ہوئے خراج تحسین پیش کرنے کے لئے "سعی سعید" نامی پروگرام، اتوار کی شام، 4 فروری 2018ء کو تسنیم نیوز ایجنسی کی طرف سے تہران کے فسلطین چوک پر واقع مسجد امام صادق (ع) کے کوثر ہال میں منعقد ہوا۔

تسنیم نیوز ایجنسی کے ثقافتی سیکریٹری حسین جودوی، پروگرام کے سب سے پہلے مقرر تھے۔ انھوں نے کہا: "شروع کے سالوں میں جب میں نے رپورٹنگ کا کام کسی ایک خبر رساں ایجنسی میں شروع کیا تھا، دفاع مقدس اور انقلاب اسلامی کی فضا سے دلچسپی کے باعث میرا آرٹ گیلری میں آنا جانا بہت تھا اور میں بہت سے دوستوں کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا جن میں سے ایک جناب فخر زادہ تھے۔ جناب فخر زادہ نے اُن ہونے والی ملاقاتوں میں کہا  تھا کہ میں اپنا گھر بیچنے کیلئے تیار ہوں اور اُس کا پیسہ ثقافتی کاموں پر خرچ کروں، اُن کے چہرے اور بات کرنے کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ سنجیدہ ہیں اور مذاق نہیں کر رہے ۔ وہ یہ کام کرنے کیلئے تیار تھے اور اس پیسوں کو انقلاب اسلامی کی ثقافت بڑھانے کیلئے خرچ کرنے کیلئے آمادہ تھے۔"

 

زبانی تاریخ، بہت سی تحریفات میں رکاوٹ

انقلاب اسلامی کے مجاہدوںمیں سے ایک جواد منصوری پروگرام کے اگلے مقرر تھے۔ انھوں نے پہلوی حکومت میں کئی سال زندان میں گزارے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد وہ ڈپلومیٹ اور سیاسی مسائل کے تجزیہ نگار بن گئے  اور انھوں نے انقلاب اور تاریخ معاصر کی شناخت پر متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ "سال ہای بی قرار" (بے قراری کے سال) نامی کتاب جو اُن کی جدوجہد کی یادوں پر مشتمل ہے، بہت مشہور کتاب ہے۔ جناب منصوری نے کہا: "شاید میں یہ بات جرائت کے ساتھ کہہ سکوں کہ انقلاب اسلامی اوردفاع مقدس کے نتیجہ میں رونما ہونے والے اتفاقات میں سے ایک زبانی تاریخ کا سامنے آنا ہے؛ میری بات کا مطلب یہ نہیں کہ زبانی تاریخ اس سے پہلے نہیں تھی اور ایک دم وجود میں آگئی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اتنی بڑی مقدار، کیفیت، اثر گزاری، اہتمام اور سرمایہ نہیں تھا، ایک چھوٹی سی حد میں محدود افراد کے ساتھ تھی اور اس کے لکھنے والے زیادہ تر ایسے لوگ  تھے  جو حاکمانہ نظام میں تھے، لیکن وہ زبانی تاریخ جو انقلاب کے بعد شروع ہوئی، اُس نے زیادہ تر انقلابی فوجیوں، لوگوں، زحمت اٹھانے والوں، فداکاروں اور مجاہدین پر اکتفاء کیا۔ اس سلسلے نے آہستہ آہستہ تکمیل کے مراحل طے کئے اور صرف واقعہ بیان کرنے سے یہ کام ایسے مقام پر پہنچا کہ پورا مکتب بن گیا اور آج کل یونیورسٹی میں ایک سبجیکٹ بن چکا ہے۔ زبانی تاریخ آج ایسی سمت گامزن ہے کہ جو لوگ اس موضوع کو اختیار کریں، وہ صاحب نظر بنیں اور اس کام کو تاریخ نگاری کے مکتب کے عنوان سے درج کرائیں۔ جس زمانے میں یہ کام شروع ہوا اُس وقت اسے اتنا سراہا نہیں گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ کہا کرتے تھے: "ہم نے کچھ کام کئے ہیں، اچھے یا برے، اسے بیان نہ کرو تاکہ خدا کیلئے باقی رہے اور ریاکاری بھی نہ ہو۔" اس کام کو سنجیدگی کے ساتھ انجام دینے کیلئے پرہیز کرتے تھے، لیکن جناب فخر زادہ اور اُن کے دوستوں کا وجود ایسی فکر کو شکست دینے میں مؤثر ثابت ہوا۔"

جناب منصوری نے مزید کہا: "انقلاب کی کامیابی  کے 15 سال بعد تک، انقلاب سے پہلے جدوجہد کرنے والوں کیلئے کوئی کام انجام نہیں پایا تھا، اصلاً اس کام کی انجام دہی کے بارے میں بات ہی نہیں ہوئی تھی اور وہ لوگ بھی اس کام کے درپے نہیں تھے۔ اس کام میں زیادہ تر توجہ دفاع مقدس پر تھی۔ تدریجاً مخالف پارٹیوں کے واقعات، انقلاب کے بعد کے واقعات اور بالآخر انقلاب سے پہلے کے واقعات بیان ہوئے۔ وہ بات جو اہمیت کی حامل ہے، یہ ہے کہ زبانی تاریخ کے تدریجاً وسیع ہونے کے علاوہ،  کیفیت، گہرائی اور متن کے لحاظ سے بھی تدریجاً تبدیلی آئی ہے۔ آج کل جن کتابوں کی طباعت ہو رہی ہے، سن 1980 کی دہائی کتابوں سے بہت مختلف ہیں، کم سے کم کچھ کتابوں کو تو معتبر تاریخی منابع  کے عنوان سے یاد کیا جاسکتا ہے؛ مثال کے طور پر، عزت اللہ مطہری (عزت شاہی) کے واقعات کی کتاب، انقلاب سے پہلے رونما ہونے والے واقعات اور کچھ انقلاب کے بعد پیش آنے والے واقعات کے تجزیہ پر بہت ہی بہترین کتاب ہے۔ ان کتابوں میں وہ کہانی سنانے اور یاد دلانے والا عنصر نہیں ہے۔ آیت اللہ خمینی (رہ) سن  1982ء میں پریشان تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انقلاب کے واقعات میں تحریف ہوجائے اور لوگ اسے بھلا دیں، لہذا انھوں نے مرکز اسناد کی تاسیس کا حکم صادر کیا اور زبانی تاریخ بہت سی ہونے والی تحریفات  میں رکاوٹ بن گئی اور یہ بات باعث بنی کہ انقلاب کے مخالفین بھی سیکھ جائیں  اور تاریخ لکھنا شروع کردیں، لیکن انھوں نے اپنے انداز اور طریقے سے گذشتہ نظام کے بارے میں افسانوی واقعات کو بہت ہی تندی اور سختی کے ساتھ بیان کیا ہے، لیکن قابل توجہ نکتہ جو ہے، یہ ہے کہ ہماری حکومتی مشینریاں اب تک اس قضیے کی نسبت تقریباً غافل رہی تھیں  اور یونیورسٹیاں اور تعلیمی مراکز اس طرف کوئی توجہ نہیں کرتے تھے؛ البتہ کچھ عرصہ پہلے ایک یا دو یونیورسٹیوں میں انقلاب اسلامی اور زبانی تاریخ کا موضوع شروع ہوا ہے کہ انہیں اپنی جگہ بنانے کیلئے ایک زمانہ لگے گا، لیکن ان افراد نے جو کام کیا ہے اور  جس صبر و حوصلہ سے اسے آگے لے گئے ہیں، ایک باقی رہنے والا کام ہے۔ اس کام کی ذمہ داری جناب فخر زادہ کے اوپر تھی۔ اور انھوں نے سن 70 اور سن 80 میں رونما ہونے والے واقعات پر اکتفاء نہیں کیا اور اس قضیہ پر کام کیا۔ آج ہم حتی ملک سے باہر اور دنیا کی دوسری یونیورسٹیوں میں، زبانی تاریخ کے نظریہ کی بحث کو تاریخ نگاری میں ایک علمی نظریہ کے عنوان سے  پیش کرسکتے ہیں  اور ہمیں چاہئیے کہ ہم  اپنے کامیاب نمونوں اور مثالوں کو پیش کریں۔"

جناب منصوری نے آخر میں کہا: "ہمیں زبانی تاریخ کو ایک محدود پرگروام سے نہیں دیکھنا چاہئیے، زبانی تاریخ ہمارے معاشرے کے پیچیدہ اور مشکل واقعات  کا تجزیہ و تحلیل پیش کرسکتی ہے، اس شرط کے ساتھ کہ اس کو بنانے والا ضروری ہوش و حواس رکھتا ہو۔ آرٹ شعبے کے علاوہ، دوسرے مراکز نے بھی زبانی تاریخ کی طرف قدم بڑھایا ہے اور اہم نکتہ یہ ہے کہ آرٹ شعبے کے کام نے دوسروں پر اثر ڈالا ہے۔ ادبیات، تاریخ نگاری اور ہماری تاریخ کے اس دور کی محصولات پر جناب فخر زادہ کا بہت بڑا حق ہے۔"

 

زبانی تاریخ کو مختلف دریچوں سے دیکھا جاتا ہے

حجت الاسلام فخر زادہ کے 33 سالوں تک  انقلاب اسلامی اور دفاع مقدس کے واقعات لکھنے کو سراہتے ہوئے خراج تحسین پیش کرنے والے "سعی سعید" نامی پروگرام میں  ایک اور مقرر جناب امیر ناصر آراستہ تھے۔ اُن پر انجمن تعلیمات جنگ کے سربراہ کی ذمہ داری ہے۔ یہ انجمن شہید صیاد شیرازی کے توسط سے قائم کی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ جناب امیر ناصر آراستہ اسلامی جمہوریہ ایران کی زمینی افواج میں مسلح افواج کے کمانڈرکے فوجی مشیر بھی ہیں۔ انھوں نے کہا: "ایک شخص نے کہا: "ہمارا تعلق اُن غوطہ خوروں سے ہے جنہوں نے فاو فتح کرنے کیلئے نہر اروند سے عبور کیا، نامردوں نے ایک گولی کے برابر بھی ہمیں سپورٹ نہیں کیا اور حتی ہمارے لیے ایک جہاز بھی نہیں بھیجا جو ہمارے سروں پر پرواز کرتا، ہم اکیلے ہی پانی میں اترے!" میں نے اُس سے کہا کہ زبانی تاریخ کو مختلف دریچوں اور مناظر سے دیکھا جاتا ہے؛ شہید بابائی یا شہید ہمت جیسے لوگ جو ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے ہیں، وہ ایک دریچے سے جنگ کو دیکھتے ہیں اور اُنہیں کچھ چیزیں دکھائی دیتی ہیں، کوئی ایک بٹالین میں کام کر رہا ہے، وہ ایک دریچے سے دیکھتا ہے، ایک سادہ سا سپاہی جس کے ہاتھ میں آر پی جی تھی اور جو اپنے سینے کو سپر بنایا ہوا ہے، وہ جنگ کو ایک گروہ اور دستے کے دریچے سے دیکھتا ہے۔ یہ سب لوگ صحیح دیکھتے ہیں، لیکن ممکن ہے کہ کم دیکھیں۔ جو شخص گروہ میں واقعات کو دیکھ رہا ہے، ممکن ہے کہ  وہ ایک بٹالین یا ایک ہیڈ کوارٹر میں ہونے والے وقعات کو نہ دیکھ پائے؛ مہارت اُس شخص کے پاس ہے جو ان سب کو جمع کرلے اور زبانی تاریخ کو پیش کرے۔ میں نے اُس سے کہا اگر وہ جہاز لیکر آپ کے اوپر آجاتے اور گولے برساتے، آپ کے آپریشن کا راز فاش ہوجاتا، وہ نامرد تھے، اُن لوگوں نے جاکر کہیں اور آپریشن کیا اور دشمن کو اپنی طرف متوجہ کیا تاکہ آپ لوگ دشمن کو پتہ چلے بغیر اروند سے گزر جائیں اور اُنہیں غفلت میں ڈال دیا۔ جس نے ان دریچوں کو سازگار اور متناسب بنایا اور زبانی تاریخ کو بغیر تحریف ، کمی ، بیشی اور مبالغہ آرائی کے پیش کیا، وہ جناب فخر زادہ ہیں۔"

اس پروگرام میں ادارہ تبلیغات اسلامی کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین سید مہدی خاموشی، آرٹ شعبے کے سربراہ محسن مؤمنی شریف اور ثقافتی، سیاسی اور فوجی حدود میں فعال افراد جیسے مجتبی رحمان دوست، علی ططری، علی رضا کمری، رضا امیر خانی، احمد دھقان، فتح اللہ جعفری، عباس سلیمی نمین، محسن کاظمی، گل علی بابائی، سردار علی ناظری، احمد توکلی وغیرہ نے شرکت کی۔

"خانہ ہنرمندان" کے سربراہ مجید رجبی معمار نے حجت الاسلام فخر زادہ کو ایک مخلص خدمت کرنے والا عالم اور باعث ثمر قرار دیا۔ محسن مؤمنی شریف نے بھی کہا کہ شہید صیاد شیرازی، جناب فخر زادہ کو ایک بے تکلف انسان سمجھتے تھے۔ یونیورسٹی کے استاد عباس ملکی نے اجتماعی اور شریف انڈسٹریل یونیورسٹی کے سیاسی طلبہ اور اساتید کی جدوجہد کے اندارج  کے بارے میں حجت الاسلام فخر زادہ کی تاثیر کے بارے میں بتایا اور  داستان نگار احمد دہقان نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا کہ "حجت الاسلام فخر زادہ  نے شہید صیاد شیرازی سے ہونے والے انٹرویو میں اس طرح سے عمل کیا کہ پڑھنے والا شہید صیاد شیرازی کی سربراہی کے زمانے میں چلا جائے اور شہید صیاد اُس زمانے کے واقعات کو اس طرح بیان کریں  کہ جیسے انہیں ابھی اسی وقت سربراہی ملی ہو۔" آئیڈیل بنانے والے دفتر کے مرکزی انچارج محسن شاہ رضائی نے بھی کہا کہ حجت الاسلام فخر زادہ کی نگاہ  مستقبل پر ہے اور تاریخی محقق اور لکھاری علی رضا کمری نے کہا: "یہ مجلس حکایت کی تلاش، حکایت کی چاہت، حکایت بیان کرنے والے اور انقلاب اسلامی اور دفاع مقدس کے باوفا راوی کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے برپا ہوئی ہے۔"

حجت الاسلام سعید فخر زادہ کے 33 سالوں تک  انقلاب اسلامی اور دفاع مقدس کے واقعات لکھنے کو سراہتے ہوئے خراج تحسین پیش کرنے والے"سعی سعید" نامی پروگرام  کے آخر میں تسنیم نیوز ایجنسی، آرٹ شعبے اور مختلف اداروں کی طرف سے  اُن کی زحمتوں اور کوششوں کی قدر دانی کی گئی۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3647



http://oral-history.ir/?page=post&id=7681