سردار محمود کمن سے بات چیت

میرے کمانڈر کی یادیں

گفتگو: مہدی خانبان پور
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-02-01


سردار محمود کمن نے اس انٹرویو میں ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کے قارئین کیلئے اپنے واقعات کے بارے میں بتایا ہے۔ انھوں نے کئی سالوں تک اسلامی جمہوریہ ایران کی مقدس فوج کے لباس میں، شہید کمانڈر ، لیفٹیننٹ کرنل علی صیاد شیرازی کے ساتھ محاذوں پر ذمہ داری انجام دی اور اس وقت اپنے تجربوں کو کلاس کی صورت میں اس ملک کے طالب علموں اور معماروں تک منتقل کر رہے ہیں۔

 

آپ اپنا تعارف کروائیں

میرا نام محمود کمن ہے، میں مشہد میں پیدا ہوا  اور میرے دو فرزند ہیں۔ میں نے  سن 1968 میں کیڈٹ کالج سے اپنی پڑھائی مکمل کی۔ خلیج میں میری ڈیوٹی کی جگہ ہمیشہ فارس سے کردستان  اور سنندج رہی، میں صرف ایران کے مشرق میں نہیں رہا۔ میری اصلی فیلڈ ٹیلی فون ایکسچینج تھی۔ میں انقلاب سے پہلے ٹیلی فون ایکسچینج کی فیلڈ میں تھا، میری شہیدصیاد شیرازی سے کیڈٹ کالج میں جان پہچان ہوئی اور اس کے بعد ہم نے امریکا میں ایک ساتھ تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے مجھے ٹیلی فون ایکسچینج سے باہر نکالا اور  مجھے انتظامی امور سونپ دیئے۔ انقلاب کے بعد میرے تمام کام تقریباً انتظامی امور کو دیکھنا تھا۔  میں نے اپنی ڈیوٹی کے 31 سالوں میں سے، 24 سال کمانڈر اور منیجر کے عہدے پر گزارے،  لیفٹیننٹ سے لیکر  گروپس اور بٹالین کی مسئولیت  اور اُس کے بعد انتظامی امور کی ذمہ داری۔ یہ تمام عہدے اُس وقت تھے جب شہید صیاد شیرازی بری افواج کے کمانڈر انچیف تھے اور ہم سے کام لیتے تھے؛ ہم بھی لوگوں کی خدمت  کرتے تھے۔

 

آپ کب فوجی میں بھرتی ہوئے؟

ایک ہائی اسکول تھا جو دوسرے تمام ہائی اسکولوں کی طرح طالب علموں  کو داخلہ دیتا تھا۔ آج کی طرح کہ ہائی اسکولوں کے دو دورے ہیں، اُس زمانے میں بھی فوجی ہائی اسکول دوسرے دورے سے طالب علموں کو بھرتی کرلیتا، لیکن میں ہائی اسکول کے چھٹے سال یا آج کل کے بارہویں سال میں فوجی ہائی اسکول میں داخل ہوا۔ یہ ہائی اسکول زمینی افواج  کے افسروں کے زیر نظر چلتا تھا۔

 

وہاں کون سی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں؟

وہی کتابیں جو دوسرے ہائی اسکولوں میں پڑھائی جاتی تھیں۔ ہمیں پڑھایا جانے والا نصاب اور ہماری کتابیں مختلف نہیں تھیں، صرف کچھ گھنٹوں کیلئے ہمیں معاشرتی نظام اور فوجی ٹریننگ کی تعلیم دی جاتی اور تھوڑی بہت فائرنگ کی ٹریننگ۔ ہمارا زیادہ تر وقت ہائی اسکول کی پڑھائی میں صرف ہوتا تھا۔ جب فوجی ہائی اسکول میں ہماری پڑھائی مکمل ہوئی اور ہم نے ڈپلومہ حاصل کرلیا، ہم نے کیڈٹ کالج میں داخلے کیلئے دوسرے لڑکوں کی طرح انٹری ٹیسٹ دیا۔ مجھے یاد ہے کہ فوجی ہائی اسکول کے  ہم 100 لڑکوں نے انٹری ٹیسٹ دیا تھا کہ جس میں سے ہمارے 70 لوگ قبول ہوئے تھے۔

 

کیا آپ کو فوجی بننے کا شوق تھا؟

ہاں، چونکہ میرے دو بھائی فوجی تھے اور اُن میں سے ایک خلاء بان تھا۔ میں فوجی یونیفارم کا دیوانہ ہوگیا  اور مجھے سبز رنگ کا کیپ (ٹوپی) بہت پسند تھی۔ میں نے ہرے کیپ والی ٹریننگ(کمانڈو ٹریننگ) کا ایک مختصر ٹریننگ کورس بھی کیا۔ میری ماں ہمیشہ کہتی تھی: تمہارے دماغ میں عقل نہیں ہے! میں کہتا: کیوں؟ وہ کہتیں: تمہارا بھائی کسی چیز کے ساتھ پرواز کرتا ہے، لیکن فضا میں تمہارے پاؤں کے نیچے کچھ نہیں!

 

آپ نے  جو کمانڈو ٹریننگ کی اسکا کوئی واقعہ یاد ہے؟

ہاں، مجھے یاد ہے جب شاہ نے سعودی عرب کے بادشاہ کو ایران آنے کی دعوت دی تھی۔ انقلاب سے پہلے 12 دسمبر کا دن، فوجی ڈے ہوتا تھا۔ ہم اس دن پرواز کرتے تھے۔ کرج ہائی وے پر ایک جگہ بنائی گئی تھی اور شاہ، سعودی عرب کے بادشاہ کو لیکر آیا تھا تاکہ ایرانی افواج کی قدرت کو دکھائے۔ پیراشوٹنگ کے عمل میں کچھ ہدایات ہیں کہ اگر ہوا 10 نیٹیکال مائل سے زیادہ ہو، تو ہمیں چھلانگ لگانے کا حق نہیں ہے،  خاص طور سے اٹومیٹک پیراشوٹ کے ساتھ۔ اٹومیٹک پیراشوٹ میں  ہوائی جہاز کے کیبن میں ہی کاربن  دبا دیتے ہیں اورچھلانگ لگا دیتے ہیں، وہ خود ہی کھل جاتا ہے اور پھر پیراشوٹ کے ہینڈل کی ضرورت نہیں  ہوتی۔

اُس دن صبح آٹھ بجے ہم لوگ ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ میں سیکنڈ لیفٹیننٹ تھا۔ میرے خیال سے تقریباً 1970ء یا 1971ء کا سال تھا ۔ صبح ہم سے کہا گیا کہ پرواز انجام دینی ہے۔ جب ہم پیراشوٹ پہن لیتے تو ہمیں  پیراشوٹ کی بیلٹ کو بہت مضبوطی سے باندھ لینا پڑتا تھا؛ ہم اُن لوگوں کی طرح ہوجاتے جن کے کب نکلا ہوتا ہے۔ ہم آدھے گھنٹے تک اسی حالت میں رہے، پھر کہا گیا: چونکہ ہوا بہت تیز چل رہی ہے، پرواز انجام نہیں دی جائیگی۔ ہم نے صبح آٹھ بجے سے لیکر دوپہر کے دو بجے تک کئی مرتبہ پیراشوٹ کو پہنا اور دوبار اُتار دیا۔  سعودی عرب کا بادشاہ دوپہر کے دو بجے وہاں پہنچا اور اعلان کیا گیا کہ حتماً چھلانگیں لگائی جائیں۔ C130 طیارے پرواز کیلئے تیار تھے۔ ہم تقریباً تین بٹالین جہاز پر سوار ہوئے اور کودنے کیلئے تیار تھے۔ میرے بڑے بھائی جو فوجی نہیں تھے وہ میری والدہ کے ساتھ آئے ہوئے تھے  تاکہ مجھے پیراشوٹ کے ذریعے اُترتا ہوا دیکھیں۔ میری والدہ نے اُن سے کہا: محمود کہاں ہے؟ میرے بھائی بھی آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں: وہ اوپر پیراشوٹرز کے درمیان ہے۔ پھر میری والدہ کہتی ہیں: مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ اُن میں سے کونسا محمود ہے؟  صحیح کہہ رہی تھیں کیونکہ جب ہم چھلانگ لگاتے ، آسمان سیاہ ہوجاتا۔ تین پیراشوٹر بٹالینز یعنی تقریباً ہزار لوگ۔ حقیقت میں بہت ہی عجیب اور دلچسپ منظر ہوجاتا ہے۔  ہم طیارے کے تینوں دروازوں سے چھلانگ لگاتے تھے، ایک طیارے کا پچھلا دروازہ اور دو طیارے کی دائیں اور بائیں طرف والے دروازے۔  اب آپ حساب لگائیں اتنی تیز ہوا کے ساتھ ہم نے کرج کے ہائی وے پر چھلانگ لگائی۔ میں مہر آباد کے جنوب میں ایک بوڑھی عورت کے گھر کی چھت پر اُترا۔ میری قسمت اچھی میرا پیراشوٹ ایک درخت میں پھنس گیا۔ پیراشوٹنگ میں، آسمان میں کچھ نہیں ہوتا، خاص طور سے آٹومیٹک پیراشوٹ تو بہت محفوظ ہوتا ہے۔ جو کچھ ہوتا ہے وہ زمین پر ہوتا ہے۔ جب آپ زمین پر پہنچنے ہیں، اگر آپ نے صحیح وقت پر کلپس کو نہیں کھولا، پیراشوٹ ایک سرکش گھوڑے کی مانند کہ جس کی رکاب میں آپ کا پیر پھنس گیا ہو، آپ کو کہیں بھی لے جاسکتا ہے اور ہر طرح کے ضرر کا امکان ہوتا ہے۔

جب میں درخت میں پھنسا اور میں نے کلپوں کو کھولا، میں زور سے اُس بوڑھی خاتون کے مٹی سے بنے گھر کی چھت پر گرا، اس طرح سے کہ میرے جوتے مٹی سے بنی اُس چھت میں تین سینٹی میٹر اندر تک گھس گئے۔ میں نے  پیراشوٹ کو سمیٹنا شروع کیا اور پھر اوپر سے صحن میں دیکھنے لگا۔ میں نے دیکھا یہ خدا کی بندی صحن میں ہے۔ میں نےکہا: اماں جان میں کس طرف سے نیچے آؤں؟ انھوں نے اپنے سر کو اٹھایا اور بولیں: تم وہاں اوپر کیا کر رہے ہو؟ میں نے کہا: خدا کی قسم کچھ نہیں کر رہا، ہوا مجھے یہاں لے آئی! سارے پڑوسی جمع ہوگئے تھے اور لوگ تھوڑا سا ڈر بھی گئے تھے، یہاں تک گاڑی آئی اور مجھے لے گئی۔

ہمارے یہاں ایک افسر تھا جس کا نام قرہ گوزلو تھا جو چھلانگ لگانے میں بہت ماہر اور بٹالین کا انچارج تھا۔ اُس نے فرانس میں آزاد چھلانگ میں پہلی پوزشین لی تھی، لیکن  افسوس کے ساتھ اُس دن شدید ہوا کی وجہ سے، وہ مہرآباد ایئرپورٹ کے رن وہ پر اترتا ہے اور اُس کا پیراشوٹ کئی مرتبہ اُسے زمین پر پٹختا ہے اور اُس کےدماغ پر چوٹ لگتی ہے۔ رات کو جب ہم وآپس چھاؤنی پہنچے، ہمیں پتہ چلا مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد 33 ہے۔ میرے خیال سے تین لوگ مرے تھے اور اُن میں سے ایک افسر قرہ گوزلو تھا۔ باقی افراد زخمی ہوگئے تھے۔

 

کیڈٹ کالج سے پڑھائی ختم کرنے کے بعد آپ کہاں گئے؟

میں نے وہاں سے فارغ ہونے کے بعد  خصوصی کورس شروع  کیا۔ نئے تعلیمی نظام میں اُسے  ماسٹرز کہتے ہیں۔ نمبروں، پرسنٹج (فیصد) اور اسی طرح  ذہنی ٹیسٹ کی بنیاد پر ہم لوگ مختلف فیلڈز میں تقسیم ہوتے۔  میں بھی ٹیلی فون ایکسچینج گروپ میں قبول ہوا۔ فارغ ہونے کے بعد اچھے نمبروں کی وجہ سے اور چونکہ میں سیکنڈ آیا تھا، میں مشترکہ اسٹاف میں منتقل ہوگیا اور ڈیوٹی شروع کردی۔

 

آپ کس سال عازم امریکا ہوئے؟

میں نے کچھ عرصہ مشترکہ اسٹاف میں ڈیوٹی انجام دی۔ فوج  امریکا سے کورسز خرید لیتی تھی اور اسٹوڈنٹس کو بھیجتی تاکہ وہاں سے پڑھ کر آئیں۔ جیسے خلاء بان لوگ جو امریکا میں ٹریننگ حاصل کرتے تھے، ہمیں بھی مختلف ٹریننگ کورسز کیلئے بھیجتے تھے۔ یہ بات رہ نہ جائے کہ اکثر ماسٹر کا رتبہ حاصل کرنے والے ایرانی افراد ہوتے چاہے خلاء بان ہوں یا دوسرے۔ ٹیلی فون ایکسچینج کی فیلڈ میں بھی ایک ٹریننگ کورس آیا جس کا نام  الیکٹرونک کی بحالی (Electronic maintenance)تھا۔

میں سن  1973ء میں لینگویج کالج سے  فارغ ہوچکا تھا۔ فوج کا ایک مخصوص کالج تھا۔ چھ مہینے تک صرف لینگویج کورس ہوتا تھا۔ اساتذہ، سب کے سب انگریزی زبان تھے۔ کلاس میں کوئی بھی فارسی میں بات نہیں کرتا تھا، خاص طور سے  بات چیت (Conversation) کی کلاس میں۔ ہم صبح آٹھ بجے سے لیکر دوپہر دو بجے تک کلاسوں میں ہوتے اور صرف انگلش سیکھتے تھے۔ سمی و بصری (Audiovisual) صورت میں پڑھایا جاتا تھا۔ امتحانات بھی سمی و بصری صورت میں منعقد ہوتے تھے۔ میں نے سن  1973ء میں لینگویج کا یہ کورس مکمل  کرلیا تھا۔ جب ختم ہوا، مشترکہ اسٹاف نے اعلان کیا  " الیکٹرونک کی بحالی " کا ایک کورس آیا ہے  اور دلچسپی رکھنے والے آفیسرز اس ٹریننگ کورس میں شرکت کرسکتے ہیں۔ جب میں امتحان دینے گیا، میں نے دیکھا بہت سے لوگوں نے شرکت کی ہے۔ کہا گیا یہ کورس زمینی افواج کیلئے ہے اور جو کوئی اس کورس کو کرے گا، اُسے زمینی افواج میں منتقل ہونا پڑے گا۔  مشترکہ اسٹاف اپنے فوجیوں کو زمینی افواج کے سپرد نہیں کرتی تھی۔ میں امتحان میں پاس ہوگیا۔ بری افواج کی طرف سے ایک لیٹر آیا کہ یہ طالب علم پاس ہوگیا ہے ، اگر آپ چاہیں تو یہ اس دورے کو گزار لے ، واپس آنے کے بعد، اسے حتماً برّی افواج کے کالج میں پڑھانا ہوگا اور پھر یہ مشترکہ اسٹاف میں وآپس نہیں جائیگا۔ مشترکہ اسٹاف نے کہا ہمیں اس سپاہی کی ضرورت ہے، لیکن ہمیں اس دورے کی بھی ضرورت ہے، ہم خود اس دورے کو خرید لیتے ہیں۔ مشترکہ اسٹاف نے دورے کو خرید لیا، لیکن اس میں تھوڑا وقت لگ گیا۔ اگر ہر امتحان کے بعد چھ مہینے کا عرصہ بیت جائے، وہ امتحان باطل ہوجاتا تھا اور چونکہ دورے کی خریداری میں وقت لگ گیا، میرا امتحان باطل ہوچکا تھا۔ میں مجبور تھا کہ دوبارہ امتحان دوں۔ میں نے دیکھا اس بار بھی امتحان دینے کیلئے بہت سارے لوگ ہیں۔ خدا میری والدہ کی مغفرت کرے، وہ سادات گھرانے سے تھیں۔ میں نے صبح اپنی ماں سے کہا: میرے لئے دعا کریں، چونکہ یہ دورہ میرا حق ہے۔ میں ایک دفعہ اس دورے میں پاس ہوچکا ہوں، دعا کریں ایک بار بھی پاس ہوجاؤں۔

امتحان کے دو مرحلے تھے، پہلا مرحلہ خود ایرانی افراد کے توسط سے منعقد ہوتا تھا اور دوسرے مرحلے کو امریکی امتحان لیتے تھے۔ پہلا مرحلہ، صبح کے وقت منعقد ہوا۔ میں صبح 10 بجے امتحان  کی جگہ سے جو زمینی افواج کے لینگویج کالج کی عمارت تھی، نا اُمید باہر نکلا۔ میں وآپس چھاؤنی نہیں گیا۔ گھر کی طرف جانے والی شاہراہ پر چل پڑا۔ ایک بجے کا وقت ہوگا، میں نے سوچا کہ فون کرکے دیکھتا ہوں، کیا نتیجہ نکلا ہے؟ امتحان کے ایک گھنٹے بعد قبول ہونے والوں کا اعلان ہوجاتا تھا۔ میں نے پبلک بوتھ میں دو ریال کے سکے کو ڈالا اور زمینی افواج کے امتحانی مرکز  فون کیا جہاں کا انچارج فوج سے باہر کا آدمی تھا۔ ایک کرنل نے فون اٹھایا۔ میں نے کہا: میں کمن ہوں۔ جیسے ہی میں نے کہا کمن ہوں، اُس نے کہا:ارے میاں! کچھ خبر ہے صبح سے اب تک کہاں غائب ہو، ہم اِدھر سے اُدھر تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ میں نے کہا: کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا: پہلے مرحلے میں صرف تم پاس ہوئے ہو۔ تم کل صبح آٹھ بجے مشیر کے دفتر جاؤ گے اور دوسرے مرحلہ کا امتحان دو گے۔ اگلے دن صبح گیا۔ ایک امریکی افسر آیا۔ اُس نے تعجب کے ساتھ مجھ سے کہا: "صرف ایک آدمی؟ میں نے کہا: ہاں! اُس نے امتحان لینا شروع کیا۔ ٹیسٹ بھی بہت سخت تھا۔ کانوں میں ہیڈ فون لگاؤ گے، سوالوں کو سنوگے اور جوابات لکھو گے۔ اگر تھوڑا وقت لگا، تین سوال چھٹ جائیں گے۔ میرے ٹیسٹ میں آدھے گھنٹے سے 45 منٹ لگے۔ اُس کے بعد، اُس نے جواب نامہ رکھا اور میرے پرچے  کو چیک کرنے لگا۔ اُس نے کہا: کچھ دنوں بعد انٹرویو کیلئے آجانا۔ جب میں کمرے سے باہر نکل رہا تھا اُس نے مجھ سے کہا: جاؤ جاکر ٹکٹ لے لو۔ میں خوشی خوشی گھر آیا۔ جو بھی تھا میری ماں کی دعاؤں کی وجہ سے تھا کہ میں دوبارہ پاس ہوگیا۔

 

امریکا میں آپ نے جناب صیاد شیرازی سے  کیسے ملاقات کی؟

میرے امریکا جانے کے ساتھ، صیاد شیرازی، توپخانے (آرٹلری)کے اعلیٰ دورے کیلئے قبول ہوئے اور انہیں بھی ٹریننگ کیلئے امریکا  بھیجا گیا تھا۔  صیاد کیڈٹ کالج میں مجھ سے ایک سال سینئر تھے، لیکن ہم ایک دوسرے کو پہچانتے تھے اور دو سال تک  ایک ساتھ رہے تھے۔ ہم ایک ساتھ ورزش کرتے تھے۔ صیاد ورزش کرنے والا، میرا دوست اور قریبی تھا۔ ایک دلچسپ بات، میں آپ کو لوگوں کے عقائد کے بارے میں بتاتا ہوں۔ اُن کے عقائد بہت مضبوط اور گہرے تھے۔ کیڈٹ کالج میں جب رمضان کا مہینہ آتا تھا ، کہا جاتا روزہ رکھنے والوں کی تعداد بتائی جائے۔ ہم چوبیس گھنٹے کالج میں رہتے تھے، صرف جمعرات ، جمعہ کو گھر جاتے تھے اور جمعہ کو مغرب کے وقت ہمیں واپس کیڈٹ کالج آنا ہوتا تھا۔ کیڈٹ کالج کا کمانڈر، ناظم تھا۔ اگر وہ زندہ ہیں، خدا اُنہیں سلامت رکھے، اگر اس دنیا سے چلے گئے ہیں تو خدا اُن کی مغفرت کرے۔ انقلاب کے ماجرے میں انھوں نے شاہ پر کچھ ٹکڑے اچھالے  اور شاہ نے انہیں کیڈٹ کالج سے نکال دیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ شاہ نے بہت غلطیاں کی ہیں۔ وہ رمضان المبارک کے مہینے میں حکم دیتے  کہ سحری اور ا فطاری کیلئے تازہ کھانا بناکر تقسیم کیا جائے۔ مسجد نہیں تھی،  لیکن  ہسپتال میں تقریباً بڑا ہال تھا،ہم وہاں نماز پڑھتے تھے۔ صیاد شیرازی روزہ رکھنے والے لوگوں میں سے تھے، ہم ڈائننگ ہال میں افطاری اور سحری ایک ساتھ کرتے تھے۔

 

امریکا کے سفر کے بارے میں بتائیں؛ آپ کس سال عازم امریکا ہوئے؟

میرے خیال سے سن  1975ء تھا۔  میں تقریباً 10 مہینے امریکا میں رہا اور وہاں الیکٹرونک کی بحالی کا کورس مکمل کیا۔ ایران سے تین افسر تھے، 22 افسر امریکائی اور سات یا آٹھ لوگ دوسرے ممالک سے جیسے ترکی، سعودی عرب، پاکستان، فلپائن، لائبریا اور دوسرے ممالک کہ جنہیں اصطلاح میں ہم پیمان آفیسرز کہتے تھے۔ یہ دوسرے ممالک کے آفیسرز، ہر مہینے کے شروع میں مالی ادارے جاتے اور تعلیمی اخراجات کی بابت ملنے والے پیسے دریافت کرلیتے۔ صرف ہم ایرانی تھے کہ جن کے پیسے ایران سے، امریکا میں ٹیلی فون ایکسچینج کالج کے سیگنل ٹاور میں ان کے   بچت اکاؤنٹ میں بھیجے جاتے تھے اور ہم وہاں جاکر  پیسے نکال لیتے تھے۔ ہم تعلیمی اخراجات کی بابت ملنے والے پیسوں کی لائن میں لگنے والوں میں سے نہیں تھے۔ ایک پاکستانی افسر تھاجس کی مجھ سے بہت دوستی ہوگئی تھی اور وہ مجھے بہت پسند کرتا تھا۔ حتی ایک دن جب میں کسی دورے پر گیا ہوا تھا، وہ بہت دور تک پیدل چل کر میرے خطوط لینے آیا۔ اُس نے اُن خطوط کو دروازے کے نیچے سے کمرے میں ڈال دیا تھا۔ اُسے ایرانی بہت اچھے لگتے تھے، لیکن اُسی زمانے میں ہماری سعودیوں سے نہیں بنتی تھی، اُن میں سے ایک میجر الحربی تھا  اور دوسرا افسر القمدی۔ القمدی نارمل آدمی تھا، لیکن الحربی ہمیشہ بحث کرنے میں لگا رہتا۔ الحربی وہابی تھا۔ جب بھی آتا ایک نئی بحث شروع کردیتا، القمدی اجازت نہیں دیتا، وہ کہتا: ہم دونوں مسلمان ہیں اور بحث کرنے کی  ضرورت نہیں ہے۔ جمعہ کو ظہر کے وقت ہماری کلاس ختم ہوجاتی۔ یہ میجر الحربی جمعہ کو عصر سے لیکر پیر کی صبح تک مست رہتا تھا۔ اس دن صبح سروس آتی تاکہ ہم اُس پر کالج تک جائیں۔ ہمیں اُسے لاتیں گھونسے مار کر اٹھانا پڑتا۔ اکثر دفعہ تو وہ سروس سے رہ جاتا اور پھر ٹیکسی سے آتا۔

 

آپ کون سے صوبے میں تھے؟

ہم صوبہ جارجیا  کے شہر آگوسٹا میں فورڈ کورڈون نامی چھاؤنی میں تھے۔ آگوسٹا ایک مذہبی شہر تھا۔

 

آپ کس سن میں امریکا سے واپس آئے اور کہاں پر کام شروع کیا؟

1976ء کے شروع میں وآپس آیا۔ میں امریکا جانے سے پہلے  اسپیشل فورس میں تھا، لیکن اس پر توجہ کرتے ہوئے کہ میں ٹیلی فون ایکسچینج کالج میں قبول ہوا تھا، میں اسپیشل فورس سے نکل گیا۔ پڑھائی مکمل ہونے کے بعد مجھے دوبارہ فورس میں آنے کی اجازت نہیں دی گئی، کہنے لگے: تم کالج میں رہے ہو، تمہیں پڑھانا چاہیے۔ مشترکہ اسٹاف نے بھی ہمیں برّی افواج کے حوالے نہیں کیا۔ ہم کچھ عرصے تک آزاد صورت میں جاتے رہے یہاں تک کہ ہمیں اعلیٰ دورے کیلئے بھیج دیا گیا۔ میں اعلیٰ دورے میں دوسرے نمبر پر آیا۔ فورس میں قانون ہے کہ پہلی سے چوتھی پوزیشن حاصل کرنے والوں کو پڑھانے کیلئے کیڈٹ کالج میں رکھ لیتے تھے، مجھے بھی رکھ لیا گیا۔ میں ٹیلی فون ایکسچینج کالج میں پڑھانے لگا یہاں تک کہ سن 1979ء میں انقلاب آگیا۔

 

ہمیں انقلاب کے واقعات کے بارے میں بتائیں

ہماری چھاؤنی شمال کے لویزان میں جاویدان گارڈ کی جگہ تھی۔ میں آپ کو افسر سلامت بخش اور ایک سپاہی عابد کے بارے میں بتاتا ہوں۔ میرے خیال سے ان دونوں نے ایسا کام کیا کہ شاہ نے ایران سے فرار کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ شاہ  کے گھر والوں کے محلوں اور کمروں کی حفاظت کی ذمہ داری گارڈ جاویدان کے ذمہ تھی۔ جب عاشور والے دن گارڈ جاویدان میں یہ حادثہ پیش آیا تو شاہ کو پتہ چل گیا کہ اب یہاں نہیں رہا جاسکتا۔ حادثہ یہ تھا: فوجی حکومت کا اسٹاف گارڈ جاویدان میں تھا، سپاہی امید عابد اور افسر سلامت بخش نے دوپہر کے کھانے کے وقت اسلحے سے حملہ کردیا اور بالکل اس وقت جب فوجی حکومت کے ارکان وہاں موجود تھے، سب پر برسٹ کھول دیئے۔ کچھ لوگ مارے گئے ، البتہ یہ دونوں بھی شہید ہوگئے۔ ہم گارڈ جاویدان کی شمالی چھاؤنی میں تھے۔ جب یہ حادثہ رونما ہوا، ہم سب کو چھاؤنی میں روک لیا گیا ، کسی کو باہر جانے کی اجازت نہیں تھی اور چھاؤنی کا محاصرہ کرلیا۔ جب گارڈ جاویدان میں یہ حادثہ رونما ہوا، شاہ سمجھ گیا کہ اب معاملہ گڑبڑ ہے اور اب جانا چاہیے۔ یہ حادثہ سن 1978ء کے دسمبر میں رونما ہوا اور شاہ  16 جنوری 1979ء کو ایران سے چلا گیا۔

میرے ساتھ ٹریننگ کرنے والا ایک ساتھی، جس کے نام پر ایک شاہراہ  بھی ہے، یوسف کلاہدوز، گارڈ جاویدان کا افسر تھا۔ قوچان کا رہنے والا تھا۔ یہ گارڈ جاویدان کی پہلی بٹالین کے تیسرے رکن کے آپریشن کا افسر تھا؛ پہلی بٹالین یعنی گارڈ جاویدان کی بہترین اور مثالی ترین بٹالین۔ جب بادشاہ کے گھر والے جزیرہ کیش جاتے تھے، یہ بٹالین بھی جاتی تھی۔ کلاہدوز نے فوجی حکومت کے دور میں ایک رات  جاکر توپ کی  ایک ایک پنوں کو نکال لیا تھا۔ ٹینکوں میں گولے پھینکنے کے لئے پنیں نہیں تھیں اور صرف اُن کا آہنی ڈھانچہ باہر جاتا تھا، یہ اُن حادثوں میں سے ہے جو گارڈ جاویدن میں رونما ہوا تھا۔

سروان طباطبائی نامی میرا ایک اور دوست تھا۔ میں ان سے دو سال سینئر تھا۔ ہمارے گھر نزدیک تھے۔ ہم دونوں ٹیلی فون ایکسچینج کے ٹریننگ سنٹر میں تھے اور میں پڑھایا کرتا تھا۔ یہ بھی  حمل و نقل کے آفیسر تھے۔ صبح، ایک دن میں گاڑی لاتا تھا، ایک دن ہم اُس کی گاڑی پر چھاؤنی جاتے۔ ہمارے گھر قیطریہ میں تھے۔ ایک دن جب میں نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا تو دیکھا بہت سارے پمفلٹ میرے گھر کے باہر پڑے ہوئے ہیں۔  افواہ پھیل گئی تھی کہ فوج لوگوں پر حملہ کرنا چاہتی ہے؛ امام نے اعلان کیا کہ یہ افواہ ساواک نے اڑائی ہے اور فوج لوگوں کا حصہ ہے۔ میں نے پمفلٹ اٹھائے اور انہیں گاڑی میں ڈال دیا۔ طباطبائی کے گھر کے دروازے پر پہنچا، وہ آکر گاڑی میں بیٹھا۔ میں نے کہا: مجید پیچھے سیٹ پر دیکھو۔ اُس نے پلٹ کر دیکھا اور کہا: یہ کیا ہے؟ انہیں کہاں لے جا رہے ہو؟ میں نے کہا: میرے گھر کے باہر پڑے ہوئے تھے۔ میری گاڑی کے اوپر ایک کھلنے والا دروازہ تھا۔ میں نے مجید سے کہا: میں گاڑی کے چھت کا دروازہ کھولتا ہوں، تم تھوڑے تھوڑے پمفلٹ باہر پھینکتے رہو۔ ہم نے یہ کام کیا اور چھاؤنی تک تمام پمفلٹوں کو پھیلا دیا، سوائے دو پمفلٹ کے! ہم ان دو پمفلٹوں کو چھاؤنی میں لے گئے تاکہ دوسرے ساتھی بھی پڑھ لیں۔

 

22 ستمبر 1980ء والے دن جب جنگ شروع ہوئی آپ کہاں تھے؟

22 ستمبر کو  لویزان کی چھاؤنی میں تھا، ٹیلی فون ایکسچینج اور الیکٹرونکس کے ٹریننگ سنٹر میں تھا۔ ہماری چھاؤنی کے اوپر بھی بمباری ہوئی۔ میں پانچ مہینے سے اسی چھاؤنی میں پڑھانے میں مصروف تھا۔ دستور آیا اور مجھے کردستان کے 28 ویں ڈویژن میں منتقل کردیا۔ میرا عہدہ بھی ٹیلی فون ایکسچینج کی 464 ویں بٹالین کے افسر کا تھا۔ میں اپنی ڈیوٹی کی جگہ پہنچا اور میں نے سن  1983ء تک   وہاں ڈیوٹی انجام دی۔ جب میں ٹیلی فون ایکسچینج کی بٹالین میں تھا، ڈویژن کے ایکسچینج سے رابطہ کرنا میرا کام تھا۔ ڈویژن کی چار بریگیڈ تھیں، ایک بریگیڈ مریوان میں، ایک  بریگیڈ سقز میں اور دو بریگیڈ سنندج میں۔ ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر سنندج میں تھا۔ چھاؤنی ایک وادی میں بنی ہوئی تھی۔ چھاؤنی کی بائیں طرف آویدر کی بلندی تھیں اور دائیں طرف سلامت آباد کی بلند یاں۔ بالکل سامنے سہ راہ مریوان تھا اور اُس کے پیچھے شہر تھا۔

ہماری بٹالین کو ایکسچینج کے کام کے علاوہ دو جگہوں کی حفاظت کا کام بھی دیا ہوا تھا، ایک سہ راہ مریوان اور  دوسرا سہ راہ بیجار۔ سہ راہ مریوان پر، دو چیک پوسٹوں  اور سترہ اٹھارہ سپاہی اورکچھ درجہ دار آفیسرز کے ساتھ ہماری ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ سہ راہ مریوان کی چیک پوسٹ پر ایک ڈیوٹی دینے والا درجہ دار افسر تھا جس کا نام حلال زادہ تھا۔ میں بٹالین کے آپریشن کا افسر  بھی تھا اور میں اس چیک پوسٹ کی نسبت  بہت زیادہ  حساس تھا۔ اسی لئے میں خود پانی کی گاڑی  لیکر جاتا تاکہ دیکھوں کون ہے، کون نہیں ہے اور کون چیک پوسٹ کو چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ چونکہ بہت ہی خطرناک علاقہ تھا۔ اسی سہ راہ مریوان والی چیک پوسٹ پر، ہمارے ایک سپاہی کو چاقو سے شہید کردیا تھا۔ بہت مہم تھا کہ وہ اپنی ڈٰیوٹی کی جگہ کو ترک نہ کریں۔

اُس دن صبح دس بجے میں نے دیکھا سرجنٹ حلال زادہ ڈویژن میں آیا ہوا ہے۔ میں نے کہا: آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ اُس نے کہا: میجر صاحب مجھے حمام جانا ہے۔ میں نے کہا: حمام سے فارغ ہوکر فوراً واپس جاؤ۔ میں پانی کا ٹینکر لیکر جا رہا ہوں، تم بھی جلدی آجاؤ۔ اگر تم وہاں نہیں ہوئے تو پھر میں جانوں اور تم! خلاصہ وہ حمام جانے کے بعد اوپر چلا گیا۔ ہمارے پاس ایک کمرہ تھا جس کا نام آپریشن روم تھا، بہت بڑا تھا؛ تقریباً سات آٹھ میٹر چوڑائی اور 15 میٹر لمبائی  اور اُس میں ایک U شکل کی میز تھی۔ اُس دن طے تھا کہ سنندج میں موجود تمام فوجی اداروں کا  اس کمرے میں ایک کمیشن منعقد ہو۔ چونکہ سنندج میں سب زیادہ پر امن جگہ 28 واں ڈویژن تھا۔ کمرے کے ایک کونے میں Prc77 وائرلیس  لگا تھا جو فضائی خطرے کا اعلان کرنے والے چینل سے مربوط تھا۔ Prc77  کے نیچے ایک خشک بیٹری لگی ہوئی تھی؛ بالکل عمارت میں لگنے والی اینٹ کی طرح اور اُسی چوڑائی ، لمبائی میں ، پیکنگ ہوئی صورت میں۔ اس کمرے کے دو دروازے تھے؛ ایک ڈویژن کمانڈر کے کمرے کے ساتھ، دوسرا کمرے کی دوسری سائیڈ پر۔ بچھی ہوئی میز کا سرہانہ ڈویژن کمانڈر کے کمرے کی طرف تھا اور وائرلیس، اس کے کنارے لگا ہوا تھا۔ ڈویژن کے سیکریٹری جنرل کا نگہبان افسر کا تعلق ٹیلی فون ایکسچینج سے نہیں تھا۔ حلال زادہ ایک بیٹری ہاتھ میں لئے جلسے والے کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے: میں ٹیلی فون ایکسچینج بٹالین سے آیا ہوں، مجھے وائرلیس کو چیک کرنا ہے۔ وہ خشک بیٹری کو اپنی جگہ سے نکالتا ہے اور ہاتھ سے بنی ہوئی بمب کی بیٹری کو اُس جگہ لگا دیتا ہے۔ اُس کے بعد اُسے بجلی کے پلگ میں لگا دیا ہے۔ چونکہ نگہبان افسر، ایکسچینج سے نہیں تھا، وہ متوجہ نہیں ہوا  کہ بیٹری کو چارج ہونے یا بجلی کی ضرورت نہیں ہے۔ اصل میں گھڑی بمب کو شہری بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ حلال زادہ کمرے سے باہر نکلتا ہے اور گاڑی پر بیٹھ کر شہر سنندج سے نکل جاتا ہے۔ بٹالین کمانڈر چھٹی پر تھا اور مجھے جلسے میں شرکت کیلئے جانا تھا۔ میں 20 منٹ پہلے پہنچ گیا۔ میں کمرے کے کونے میں، ڈویژن کمانڈر کے دروازے کے سامنے کھڑا ہوا تھا اور لوگوں سے بات کر رہا تھا۔ میں بھی متوجہ نہیں ہوا کہ کیوں خطرے کا اعلان کرنے والا وائرلیس سیٹ بجلی سے لگا ہوا ہے۔ ڈویژن کمانڈر کے کمرے کا دروازہ کھلا اور بتایا گیا: جنابان، اجلاس منعقد نہیں ہوگا، اپنے اپنے یونٹوں میں وآپس چلے جائیں۔ میرے کمرے سے نکلنے کے چند منٹوں بعد، وہاں دھماکہ ہوا۔ آنکھوں کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ دھوئیں اور گرد غبار نے سب جگہ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ میں فوراً عمارت سے باہر نکل گیا۔ افسوس کے ساتھ کہ کچھ لوگ شہید ہوگئے اور کچھ  لوگ جن میں ڈویژن کمانڈر بھی تھے، زخمی ہوئے۔ ہم نے حلال زادہ کو ڈھونڈنے کیلئے اپنا پورا شہر چھان مارا، لیکن نہیں معلوم  وہ کہاں فرار کر گیا تھا۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ وہ منافقین میں سے تھا اور اُس کے سامان میں سے بہت سے خطوط ملے جن سے پتہ چلا اُس کا گروہ منافقین سے رابطہ تھا۔ اس کا نام حلال زادہ تھا، لیکن وہ بالکل اپنے نام کے برخلاف تھا۔

 

آپ کب تک سنندج میں رہے؟

میں سنندج کے ڈویژن میں تھا کہ کھریزک میں C130 طیارے کے سقوط اور ولی اللہ فتاحی کے شہید ہونے کا حادثہ پیش آیا۔ اُس زمانے میں صیاد شیرازی غرب میں ہونے والے آپریشن کے کمانڈر تھاے اور غرب میں ہونے والے آپریشن کا ہیڈ کوارٹر کردستان کے، ڈویژن اسٹاف میں تھا۔ اس حادثہ کے بعد ایک دن میں غرب کے آپریشنل اسٹاف میں تھا، ایک شخص نے پیچھے سے میری آنکھوں پر ہاتھ رکھا۔ اُس نے کہا: تم مجھے نہیں پہچانتے؟ میں نے جیسے ہی اُن کی آواز سنی، میں بولا: عالی جناب، آپ ہمارے سرپرست جناب صیاد شیرازی ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے گلے ملے۔ انھوں نے کہا: تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ میں نے کہا: میں سنندج کے ڈویژن میں ہوں۔ اُس زمانے میں دستور صادر ہوا تھا کہ یہ زمینی افواج کے کمانڈر انچیف بنیں۔ صیاد بھی اپنے فوجیوں کا انتخاب کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا: تمہیں فوج کی مینجمنٹ میں منتقل ہونا چاہیے۔ انھوں نے مجھے مرکز زمینی افواج کے سپورٹنگ کمانڈر کے طور پر منتخب کیا۔ سنندج کا جنوب سے فرق یہ تھا کہ آپ کے چاروں طرف محاذ اور ناامنی تھی، لیکن جنوب میں صرف ایک طرف محاذ  تھا۔

 

ہمیں جناب صیاد شیرازی کے بارے میں بتائیں

میں آپ کو صیاد شیرازی اور ابو الحسن بنی صدر کا واقعہ سناتا ہوں۔صیاد نے دستور دیا کہ سنندج کا ڈویژن پریڈ کرے۔ زمینی افواج کے مرکز اور صدر سے دستور لیا جا چکا تھا۔ بنی صدر نے اس کی مخالفت کردی تھی۔ اُس نے کہا تھا: مسئلہ متنازع ہوجائے گا۔ صیاد جو کردستان آپریشن کے کمانڈر تھے، انھوں نے کہہ دیا: کام کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ ہمیں کہا گیا: حتماً پریڈ کرنی ہے۔ ہمارے پاس چار بٹالین تھیں اور ہم نے اُن کا تعارف کروا دیا تھا۔ علاقائی لوگوں کو پریڈ کے پروگرام میں نہیں لائے تھے، چونکہ شہر میں اُن کے گھر والے موجود تھے، ممکن تھا اُنہیں کوئی صدمہ پہنچے۔ ہم تمام جگہوں سے فوجیوں کو لائے تھے، تہران سے، اصفہان، شیراز، کردی اور لوری۔ 3 فروری والے دن ہم سے کہا گیا :آج پریڈ ہے۔  ہمیں جنگی لباس اور سامان لے لینے چاہیے تھے۔ پھر کہا گیا: پریڈ انجام نہیں دی جائے گی، بعد میں پڑید کا دن مشخص کیا جائے گا۔ اُس وقت آیت اللہ مہدوی کنی – خدا اُن کی مغفرت کرے – سنندج میں تھے۔ انھوں نے کہا پریڈ 7 فروری کو ہوگی۔ ہم بھی تیار ہوگئے اور جیسا کہ کمانڈر چھٹی پر تھے، مجھے اُن کی جگہ بٹالین کے  آگے آگے چلنا تھا۔ ایک ایسی روڈ تھی جو سنندج ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر سے سیدھی ایک چوراہے تک جاتی تھی۔ ہمیں وہ راستہ طے کرنا تھا تاکہ  تاکہ ڈویژن ہیڈ کوارٹر کے غربی دروازے سے داخل ہوں۔ ہم گئے اور ہم نے سڑک پر پریڈ انجام دی۔تمام بیج والے، کمانڈرز اور بریگیڈیئر جو بہت ہی اچھے اور دیندار افراد تھے، وہ پریڈ میں آگے آگے چل رہے تھے۔ سب کے پاس ہینڈ گرنیڈ اور اسلحہ موجود تھا تاکہ اگر کوئی حادثہ پیش آئے تو ہم دفاع کرسکیں۔ ہم نے پریڈ مارچ کی اور شہر میں داخل ہوئے۔ چوراہے کا چکر لگا کر دوبارہ ڈویژن میں وآپس آگئے۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔

اُسی دن شام کو، میں عام لباس میں شہر کا چکر لگانے کیلئے گیا۔ میں نے دیکھا تمام سینماؤں کے دروازوں پر میرا نام لکھا ہوا ہے۔ لکھا ہوا تھا: جن لوگوں نے پریڈ کی ہے، یہ مجاہدین خلق کے مخالف افسران ہیں، یہ لوگ تمہیں نمائش دکھانے آئے ہیں۔ اے غیرتمند کردوں! اے ڈیموکریٹ والوں! اور اے غرب کی پارٹیوں! کان کھول کر سن لو۔ سنندج اس طرح کی پارٹیوں سے بھرا پڑا تھا کہ الحمد للہ صیاد کی مہربانی سے سب کا شیرازہ بکھر گیا ہے اور صیاد شیرازی سربلند ہوگیا ہے۔ ہم نے یہ پریڈ مارچ کی اور کوئی حادثہ بھی پیش نہیں آیا اور پریڈ کو دیکھنے کیلئے لوگ بھی آئے ہوئے تھے۔

سن 1983ء میں، میں زمینی افواج کے ہیڈ کوارٹر میں صیاد کے پاس آیا اور سیکیورٹی کا مسئول بن گیا۔ اس سے پہلے، 25 مارچ 1982ء کو کہا گیا: آپ فورس میں انٹرویو کیلئے تشریف لائیں۔ میں بھی عام سے لباس میں چلا گیا تھا۔ انھوں نے رہنمائی کی اور کہا: آپ ہیومن ریسورسز میں ڈپٹی سیکریٹری کے دفتر چلے جائیں۔ میں دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک مرتبہ دھماکے کی آواز آئی۔ میں  نے ہیومن ریسورسز کے ڈپٹی سیکریٹری سے کہا:کرنل صاحب یہ دھماکہ ہوا ہے؟ انھوں نے کہا: نہیں جناب، چھٹ پر اینٹی ایئر کرافٹس گنیں اپنا کام کر رہی ہیں۔ جب دوسرے دھماکے کی آواز آئی، میں نے کہا: کرنل صاحب، یہ دھماکے کی آواز ہے گولیوں کی نہیں۔ خلاصہ میں کمرے سے باہر آگیا۔ فورس کی عمارت اس طرح کی تھی کہ تمام دفاتر ایک کے اوپر ایک بنے ہوئے تھے اور سیڑھیوں اور لفٹوں نے اُنہیں الگ کیا ہوا تھا۔ میں جیسے ہی باہر آیا، میں نے ایک جوان کو دیکھا جس نے کلاشنکوف کی نالی کو اپنے کوٹ سے باہر  نکالا ہوا تھا اور اُس کے دستے کو پکڑا ہوا تھا اور کہہ رہا تھا: مردہ باد افواج، مجاہدین خلق کی مخالف! وہ فرشید صبری نامی ایک سپاہی تھا۔ پچھلی رات، منافقین کے پانچ چھ افراد کو اپنی گاڑی کے پچھلے حصے میں بھر کر فوجی عمارت میں لے آیا تھا اور موٹر روم اور کانفرنس ہال  کے پیچھے ایک کمرے میں انھیں چھپایا ہوا تھا۔ اُس دن قرار تھا جناب صیاد ایرانی فوجیوں کے ہاتھوں عراقیوں فوجیوں کے اخراج پر پانچویں ریڈار سنٹر کی کامیابی کے بارے میں تقریر کریں  لیکن دھماکوں کی وجہ سے تقریر کا پروگرام خراب ہوگیا۔ وہ افراد جو چھپے ہوئے تھے، وہ حملہ کرنے کیلئے کھانے کے میس (ہال) میں گئے  اور وہاں کے کارکنوں پر فائرنگ کرنا شروع کردی۔ پھر عمارت کے نویں فلور پر گئے جہاں بورڈ آف ڈائریکٹر کا دفتر تھا۔ نگہبان افسر، ڈپٹی افسر اور بہت سے لوگوں کو شہید  کیا اور فوج کے ہیڈ کوارٹر کے کنارے سے فرار کر گئے۔ یہ تمام کام سپاہی فرشید صبری کے حکم پر ہوا تھا۔ یہ سپاہی جیسا کہ  کسی ایک سربراہ کا سپاہی تھا، اس لئے اس کی گاڑی چیک نہیں ہوتی تھی، اس نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور اُنہیں گاڑی کے پچھلے حصہ میں چھپا کر عمارت کے اندر لے آیا تھا۔ اُس کے بعد یہ واقعہ رونما ہوا۔

میں صیاد کے ساتھ ہی رہا یہاں تک کہ اُنھوں نے سن 1983ء میں عید کی رات مجھ سے کہا: تمہیں جنوب آنا پڑے گا۔ جس طرح سنندج میں زمینی افواج کا اسٹاف تھا اُسی طرح جنوب میں بھی تھا۔ میں گیا اور جنوب ہیڈکوارٹر کا آپریشن کمانڈر بن گیا ، میں سن  1985ء تک اُن کے پاس کام کرتا رہا۔ شہید صیاد، لوہے اور فولا کا بنا ہوا تھا۔ جنگی علاقے میں 20 سے 25 دنوں میں راتوں کو صرف دو گھنٹے سویا کرتے تھے۔ جب میں ان کے ساتھ تھا،  نہ سونے کی وجہ سے بے تاب ہوگیا تھا۔ جب وہ کسی جلسے یا تقریر کیلئے جاتے، میں تھوڑا سا سونے کیلئے کسی جگہ کو ڈھونڈ لیتا۔

میرے پاس شہید منفرد نیاکی کا ایک بہت ہی اچھا واقعہ ہے۔ یہ زمینی افواج میں سب سے زیادہ ضعیف افسر تھے اور 92 ویں ڈویژن کے کمانڈر۔ یہ ڈویژن حساس ترین ڈویژنوں میں سے ایک  تھا۔ ایک آپریشن میں پتہ چلا کہ اُن کی 18 سالہ بیٹی کا انتقال ہوگیا ہے۔ جب صیاد کو اس بات کا پتہ چلا تو انہیں بہت افسوس ہوا۔ اُس نے مجھے دستور نامہ دیا اور کہا: تم ہیڈ کوارٹر جاؤ۔ نیاکی کو حکم نامہ سناؤ گے۔ وہاں رہتے ہوئے ڈویژن کی ذمہ داری کے سلسلے میں اُن کی نیابت کو قائم رکھو گے۔ پھر  ایوی ایشن ادارے سے ہماہنگی کرو گے تاکہ وہ اہواز تک ہیلی کاپٹر کے ذریعے اور پھر وہاں سے فورا C130 کے ذریعے تہران میں اپنے بیٹی کے جنازے میں پہنچ جائیں۔ ان تمام کاموں کو انجام  دینے کے بعد مجھے اطلاع دو گے۔ میں نے بھی ان کی اطاعت کی۔

میں ہیڈ کوارٹر میں داخل ہوا۔ میرا ایک مقیم نامی  دوست تھا جس نے میرے ساتھ ٹریننگ کی تھی ، اس وقت 92 ویں ڈویژن  میں ٹیلی فون ایکسچینج  کا افسر تھا۔ میں جب بھی وہاں جاتا، پہلے اُس کے پاس جاتا  اور اُس سے خیریت دریافت کرتا۔ ابھی میں بیٹھا ہی تھا کہ صحرائی فون  کی گھنٹی بجی۔ میرے دوست نے فون اٹھایا۔ وہاں سے کہا گیا: کمن کو فون دیدو۔ وہ پہلے وہاں کیوں آیا؟ میں نے ٹیلی اٹھایا۔ نیاکی نے کہا: اب تم پہلے اپنے دوست کے پاس چلے گئے، اُس کے بعد میرے پاس آؤ گے؟ میں نے کہا: کرنل صاحب ابھی آتا ہوں۔ وہ زمین کی نچلی پناہ گاہ میں بیٹھے ہوئے تھے، ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ اُن کی بیٹی کا انتقال ہوا ہے۔ میں نے جاکر اُنہیں حکم نامہ تھمایا۔ جیسے ہی نامہ پڑھا، لکھنا شروع کردیا۔ پھر کاغذ کو تہہ کرکے لفافے کے اندر رکھ دیا۔ میں نے کہا: کرنل صاحب، آپ اس وقت کمانڈر کے حکم کے تحت فوجیوں کو میرے سپرد کریں۔ پھر میں آپ کی خدمت میں ہوں کہ آپ کو ہیلی کاپٹر پر سوار کروں اور پھر  میں پرسکون ہوکر فوج کے کمانڈر کے پاس واپس جاؤں اور انہیں رپورٹ پیش کروں۔ انھوں نے کہا: نہیں جناب، میں نے تمام چیزیں لکھ دی ہیں۔ آپ جاکر اُن سے کہیں کہ میں اپنا کام انجام دے رہا ہوں۔ انھوں نے نامہ مجھے دیا اور کہا: فوج کے کمانڈر کو میرا سلام پہنچا دینا۔ میں نے کہا: افوہ کرنل صاحب! انھوں نے کہا: اگر نہیں جاؤ گے ، تمہیں دوپہر کے کھانے کیلئے روک لوں گا۔ میں بھی کھڑا ہوا اور خدا حافظی کرکے پناہگاہ سے باہر آگیا۔ پھر میں اپنے دوست کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا لفافہ کھلا ہوا ہے۔ میں نے نامہ کھولا اور اپنے دوست کے ساتھ پڑھا۔ میں بھی رویا اور میرا دوست بھی۔ انھوں نے اس طرح لکھا تھا: "بسمہ تعالی۔ میں اپنے فرزند کے بارے میں فوج کے کمانڈر کی توجہ پر اُن کا شکر گزار ہوں، 92 ویں ڈویژن کے تمام افراد، میرے فرزند ہیں۔ میرے گھر والے کفن، دفن اور سوم اور دسویں کے کام انجام دیں لیں گے۔ ان حساس حالات میں، میں اپنی ڈیوٹی کی جگہ کو ترک نہیں کروں گا۔ آپ کا مخلص مسعود منفرد نیاکی" انھوں نے حتی اپنا عہدہ تک نہیں لکھا تھا۔ وہ بہت ہی دیندار اور فوج کے سب سے ضعیف افسر تھے۔ جب صیاد کو یہ بات پتہ چلی، وہ ایک دم نڈھال ہوگئے۔ انھوں نے کہا: ہمیں کیسے لوگوں کا سامنا ہے؟! اب صدام آکر دیکھے کہ اُس کا مقابلہ کیسے لوگوں سے ہے۔ ہمارے پاس ایسی مثالیں بہت ہیں۔ میں ایک اور واقعہ سناؤں۔

رحیم رحمانی، اسپیشل فورس کے کمانڈر،  ایک ٹکڑا اُن کے پیٹ میں لگ گیا تھا۔ انھوں نے اپنی کمر کے گرد ایک بڑی سی شال باندھی ہوئی تھی۔ اُن کی حالت بالکل بھی ٹھیک نہیں تھی۔ چہرے کا رنگ اُڑ چکا تھا۔ وہ اپنے ایک میٹر اور 90 سینٹی میٹر قد  اور چوڑے کندھوں کے ساتھ، پیلے پڑ چکے تھے۔ صیاد نے آکر مجھے بتایا: رحیم رحمانی شہید ہونے والا ہے، تم جاکر اُس کی ذمہ داری اُس کے جانشین پر لگادو اور پھر اُسے دزفول لے جاکر ہسپتال میں ایڈمت کردو۔ اُس کے بعد مجھے اطلاع کرو۔

وہ ابو قریب کے ٹیلوں پر کام کرتے تھے۔ گرمیوں کا موسم تھا اور شدید گرمی  پڑ رہی تھی۔ عراق کی طرف سے، بہت ہی بری بو آتی تھی۔ میں رحیم کی بیرک میں گیا۔ میں نے کہا: سلام رحیم جان۔ اُس نے کہا: واہ واہ، اپنی ماں کے لاڈلے تم یہاں کیا کر رہے ہو؟  میں نے کہا: رحیم جان میں تمہاری خیریت دریافت کرنے آیا ہوں اور اُسے پوری بات بتائی۔ میں نے کہا: تمہیں میرے ساتھ آنا ہوگا، گاڑی تمہارے انتطار میں ہے۔ اُس کے بعد ہم ہیلی کاپٹر کے ذریعے دزفول جائیں گے تاکہ تم ہسپتال میں ایڈمٹ ہوجاؤ۔ انھوں نے کہا: تمہاری قسم نہیں جاؤں گا، مجھے اپنے دونوں بچوں کی قسم میں نہیں جاؤں گا!میرے سپاہی دوبدو جنگ کر رہے ہیں، جب اُنہیں پتہ چلے گا رحیم رحمانی چلا گیا ہے، اُن کا حوصلہ ختم ہوجائے گا، وہ تسلیم ہوجائیں گے۔ پھر، مجھے پرسوں قیدی دینے پڑیں گے۔ جاؤ اپنا کام کرو! میں نہیں چلوں گا۔ میں نے پوری کوشش کی لیکن وہ نہیں آئے۔ انھوں نے کہا: اگر مجھے عزل بھی کردو! لیکن میں ایسے حالات میں بھیجے نہیں ہٹوں گا۔

 

صیاد شیرازی کے ساتھ انجام دیئے جانے والے آپریشن کے بارے میں بتائیں

میں زیادہ تر آپریشنوں میں جناب صیاد کے ساتھ آپریشن روم اور ہیڈکوارٹر کے سپورٹنگ روم میں ہوتا ؛ بیت المقدس، رمضان او رخیبر آپریشن۔ بیت المقدس آپریشن میں جب ہم صیاد کے ساتھ خرم شہر میں داخل ہوئے، عراقیوں کی چائے کے کپ ابھی  تک گرم تھے۔ ہمارے افراد نے اتنی تیزی سے عمل کیا تھا کہ اُنہیں اپنی چائے پینے تک کا موقع نہیں ملا تھا۔ میں نے کہا: کرنل صاحب کپ ابھی تک گرم ہیں۔   وہ تھوڑا سا ہنسے اور کہا: کہیں پی نہ لینا!

میں آپ کو بیت المقدس آپریشن میں ایک انٹرویو کے بارے میں بتاؤں۔ میرے ساتھ ٹریننگ کرنے والے ایک ساتھی تھے جن کا نام بریگیڈیئر مرتضی نبوی تھا، خدا اُنہیں  سلامت رکھے۔ وہ دنیا میں رائج زبانوں میں سے تین پر عبور رکھتے تھے؛ انگریزی، فرانسوی اورعربی۔ خرم شہر کی فتح کے بعد ایک عراقی جنرل کو بٹھایا ہوا تھا اور اُس سے انٹرویو لے رہے تھے۔ جنرل نے کہا: ٹیلی فون کے ذریعے مجھے بتایا گیا کہ ایران کی طرف سے کچھ آوازیں آرہی ہیں، اپنے حواس قابو میں رکھو۔ میں نے کہا: مخبروں نے مجھے کچھ نہیں بتایا، فی الحال کوئی مشکل نہیں ہے۔ جیسے ہی میں نے فون کاٹا، میں نے دیکھا دو جوان میری بیرک میں داخل ہوئے اور کہنے لگے: چلئیے!بسیج کے افراد نے دنیا میں ہونے والی تمام جنگوں کے نظریات کو بدل کر رکھ دیا تھا۔

 

شہید صیاد شیرازی میں کیا خصوصیات تھیں؟

ان کے اندر اپنی خاص خصوصیات تھیں۔ میں اُن کی ریٹائرمنٹ تک اُن کے ساتھ تھا۔ جب وہ ریٹائر ہوئے، کمانڈرانچیف کے خصوصی مشیر بن گئے۔ جنگ کے بعد بھی ہمارا اور اُن کے گھر والوں کا آنا جانا تھا۔ جنگ کے زمانے میں انھوں نے ایک سال مجھ سے کہا: چلو کچھ دن آرام کرلو، شاید میں تم سے کسی نئی جگہ استفادہ کرنا چاہوں۔ انھوں نے مجھے دس بارہ دن کی چھٹی دیدی۔ میں 19 مارچ والے دن، رات کے وقت اپنے گھر پہنچا۔ میں رات کا کھانا کھانے میں مصروف تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ میری زوجہ نے فون اٹھایا اور مجھ سے کہا: جلدی سے آؤ، صیاد کا فون آیا ہے۔ میں نے فون پکڑا اور کہا: جی کرنل صاحب؟ انھوں نے کہا: چھٹیوں میں کہاں جاؤ گے؟ میں نے کہا: مشہد۔ انھوں نے کہا: مشہد نہیں جاؤ، شیراز چلے جاؤ۔ میں نے کہا: شیراز؟ انھوں نے کہا: ہاں، لیکن ایک شرط  ہے، میرے گھر والوں کو بھی ساتھ لے جانا۔ پانچ سالوں سے گھر میں پڑے ہیں۔ میں نے کہا: ضرور! انھوں نے کہا: میں جگہ کے بارے میں بتادوں گا، اور جو خرچہ ہوگا اُس کا حساب بھی کرلوں گا، پھر ہم ایک ساتھ بیٹھ کر حساب کرلیں گے۔ اور ہاں میری گاڑی اپنے ساتھ لے جانا۔ ایک  ہلکے پیلے رنگ کی، 57 ماڈل کی پیکان (گاڑی کا نام) تھی جس کی نمبر پلیٹ اصفہان کی تھی۔ انھوں نے کہا: گھر والوں کیلئے ہوائی جہاز کا ٹکٹ لے لو۔ خود تم ایک رات قبل گاڑی لیکر چلے جانا تاکہ اگلے دن جب وہ ایئرپورٹ پہنچے  تو تم وہاں پر ہو۔ میری زوجہ نہیں مانی۔ کہنے لگی: ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے۔ صیاد کی زوجہ اور اُس کے بچے ہوائی جہاز میں چلے گئے، ہم گاڑی کے ذریعے۔ جب ہم شیراز ایئرپورٹ کی پارکینگ میں  پہنچے، میں نے سنا کہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے مجھے بلایا جا رہا ہے۔ میں پارکینگ کے دروازے سے اندر داخل ہوا۔ میں نے دیکھا ایک صاف ستھری بنز اور ایک صاف ستھری پیکان اور لال ٹوپی والے دو سپاہی کھڑے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ وہ ہمیں لینے آئے ہیں۔ میں نے کچھ نہیں کہا۔ میں صیاد کے گھر والوں کو لینے گیا۔ ہم سب صیاد کی پیکان میں سوار ہوگئے۔ جب ہم پارکینگ سے باہر جا رہے تھے، میں نے دیکھا کرنل کریمی ہماری گاڑی کی کھڑکی کو کھٹکھٹا رہا ہے۔ اُس نے کہا: ہم نے تمہیں اتنی آوازیں دی، تم نے کیوں نہیں سنا؟ میں نے کہا: میرا دھیان گھر والوں کی طرف تھا، میں نے نہیں سنا۔ انھوں نے کہا: اس طرح کیوں؟ ہم نے تمہارے لئے گاڑی تیار کی ہے۔ اچانک صیاد کی زوجہ بولیں: ہمیں چھوڑو، ہمیں کسی مسافر خانہ یا کسی جگہ جانے دو۔ کہنے لگے: نہیں۔ بہرحال  آرمی کلب تک ہمیں پروٹوکول میں لے گئے۔ چار دن گزر گئے  پھر صیاد بھی آگیا۔ جب وہ مہمان خانے کے سامنے پہنچے  تو دیکھا یہاں پر دو گاڑیاں پارک ہوئی وی ہیں اور فوجی سیلوٹ ما رہے ہیں۔ وہ آگے آئے اور کرنل کریمی سے ہاتھ ملایا۔ جیسے ہی میرے پاس پہنچے مجھ سے ہاتھ ملایا اور میرے کان میں کہا: میرے گھر والے تو ان گاڑیوں میں سوار نہیں ہوئے؟! میں نے کہا: نہیں سرکار، مجھے دھیان ہے۔ انھوں نے کہا: بس پھر مجھے خود کو دو دفعہ چومنے  دو۔ واقعاً  پر خلوص تھے اور بغیر کسی لالچ کے اپنا کام انجام دیا۔ بالکل ہی عجیب اخلاق کے مالک تھے؛ جو کام بھی کرنا چاہتے تھے، پہلے دو رکعت نماز ادا کرتے۔ بہت مخلص تھے۔

 

آپ نے ان کی شہادت کی خبر کب سنی؟

مجھے خود پتہ چل گیا۔ ہمارے گھر کے نزدیک  ایک بچہ بھاگ رہا تھا، میں نے کہا: کیا ہوا ہے؟ اُس نے کہا: صیاد کو مار دیا۔ میرا دل جل اٹھا۔

صیاد کے خلوص کے بارے میں آپ کو مزید بتاتا ہوں۔ ایک آپریشن بہت اچھے طریقے سے انجام نہیں پایا تھا، لہذا رات کو آپریشن کی ٹریننگ رکھی گئی۔ آپریشن کی ذمہ داری خود اُن پر تھی۔ ہم رات کے کھانے پر شیراز کے 55 ویں ایئربورن بریگیڈ کے مہمان تھے اور رات گیارہ بجے کے بعد ہم آپریشن کا جائزہ لینے گئے اور واپس آگئے۔ گاڑی کے اندر میں آگے تھا اور وہ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ محافظین کی گاڑی بھی ہماری گاڑی کے آگے چل رہی تھی۔ انھوں نے کہا: ہیڈ کوارٹر چلتے ہیں۔ ہمارے دو ہیڈ کوارٹر تھے، دزفول ہیڈکوارٹر اور برغازہ ہیڈکوارٹر۔ میں سمجھا کہ وہ برغازہ کے ہیڈکوارٹر کے بارے میں کہہ رہے ہیں جو بیابان کے بیج میں تھی۔ ہم پہنچ گئے۔ اچانک صیاد نے کہا: یہاں کیوں آگئے؟ واپس دزفول چلو۔ میں بھی واپس ہولیا۔ صبح ساڑھے چار بجے ہم دزفول پہنچے۔ انھوں نے کہا پانی گرم کرسکتے ہو، میں نہالوں۔ میں نے کہا: ضرور۔ ہمارا کلب ہمارے سیکیورٹی مرکز کی جگہ تھا، اُس میں ایک پمپ تھا جو دز کی نہر سے متصل تھا۔ یہ نہر  دزفول سے گزرتی تھی اور اُس کا پانی بھی بہت ٹھنڈا تھا۔ میں نے جاکر پمپ کو لگایا۔ پمپ کے مسئول کو بھی اٹھایا تاکہ وہ پمپ کو چلائے۔ پھر میں اُن کے پاس گیا اور کہا: کوئی کام تو نہیں ہے؟ انھوں نے کہا: تمہارا شکر گزار ہوں۔ میں نے کہا: ہم نے اپنا وظیفہ انجام دیا۔  میں نے پمپ کے مسئول سپاہی کو بیدار کیا، ہم نے پمپ کو اسٹارٹ کیا اور پانی گرم ہے۔میں نے دیکھا اچانک اُن کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ  گئیں۔ میں اس چیز کو کبھی نہیں بھلاؤں گا۔ انھوں نے کہا: یہ تم نے کیا کیا؟! وہ بہت غصے میں آگئے تھے۔ میں نے کہا: کرنل صاحب، ڈیوٹی انجام دی ہے؛ جیسے اس وقت میں آپ کے سامنے ہوں۔ انھوں نے کہا: تمہاری بات الگ ہے، تم نے سپاہی کو کیوں اٹھایا؟! اچھا اب جاؤ۔ میں بھی باہر آگیا۔ دزفول میں دودھ کی بالائی بہت مزے کی ہوتی ہے۔ صبح سات بجے میں آواز دی۔ میں اُن کے پاس گیا۔ انھوں نے کہا: آؤ ناشتہ کرو۔ میں نے کہا: میں ناشتہ کرلیا ہے۔ انھوں نے کہا: زیادہ اتراؤ نہیں، آؤ بیٹھ کر کھاؤ۔ ناشتہ کرتے وقت ہم نے ایک دوسرے سے بات کی۔

 

اگر کوئی بات رہ گئی ہے تو بیان فرمائیں

میں نے سن 1971ء میں شادی کی۔ میں اپنی زوجہ کا بہت شکر گزار ہوں۔ بچوں کو انھوں نے بڑا  کیا ہے۔ میں بالکل بھی اپنے بچوں کے پاس نہیں رہا۔ میری بیوی سارے کام انجام دیتی تھی۔

شہید صیاد چہرہ دیکھ کر دل کا حال جان لیتے تھے۔ ایک دن میری زوجہ نے مجھے فون کیا۔ جب میں نے جاکر فون اٹھایا اور اُس کی خیریت دریافت کی، مجھے پتہ چل گیا کہ وہ بات نہیں کرپا رہی۔ اُس نے کہا: میری عقل داڑ میں درد  ہو رہا ہے، میں سڑک کے پاس والی کلینک گئی تھی۔ ڈاکٹر نے میرے دانت کے چار ٹکڑے کردیئے۔ کچھ بھی نہیں کھاسکتی۔ دونوں بچوں کو بھی بخار ہے۔ میں نے کہا: میری عزیز! میں تم سے ہزار کلومیٹر دور ہوں، میں کیا کروں؟!تمہارا بھائی آگے والے گلی میں رہتا ہے، اُس کو فون کیوں نہیں کرتیں؟ میرا بھائی بھی نچلے طبقے پہ رہتا ہے، اُس کو فون کیوں نہیں کرتیں؟ اُس نے کہا: میں کسی کو زحمت دینا نہیں چاہتی۔ جب ہماری باتیں ختم ہوئیں، میں صیاد کے پاس گیا۔ رات کا کھانا لایا گیا تھا۔ صیاد نے پوچھا: کیا ہوا؟ میں نے کہا: کچھ نہیں۔ انھوں پوچھا: جب گئے تھے، تمہاری شکل الگ تھی، اس وقت کسی اور طرح کی ہے، کچھ ہوا ہے؟ بتاؤ۔ میں نے بھی ساری بات بتادی۔ انھوں نے فوراً فون اٹھایا اور تہران کے ہیڈکوارٹر میں فون ملایا۔ انھوں نے کہا: ایک گاڑی سپاہی کے ساتھ فلاں ایڈریس پر جائے گی۔ تم لوگ محترمہ اور اُن کے بچوں کو ہسپتال لیکر جاؤ گے۔ وہ لوگ اپنی دوائیاں بھی لیں گے۔ پھر تم لوگ مجھے اس کام کی رپورٹ دینا۔  اُس کے اسی طرح کے رویے کی وجہ سے تھا کہ ہم دل اور جان سے کام کرتے تھے۔ ہم کبھی بھی اُن سے ناراضی نہیں رہے۔

ہماری بیویوں نے بھی بہت بڑا کام انجام دیا ۔ کیونکہ اگر ہم گھر کی طرف سے آسودہ خاطر نہ ہوتے، ہم صحیح سے کام نہیں کرسکتے تھے۔ میں نے ایک اچھی بات کو پڑھا، جسے آرٹ شعبے میں مزاحمتی ہنر اور ادبیات کے انچارج اور شہید آوینی کے ساتھ ٹریننگ کرنے والے  جناب سرہنگی نے کہا تھا۔ اُن کی عبارت ہے جو بہت ہی عجیب ہے۔ انھوں نے کہا: صدام، ایرانی خواتین اور ماؤں سے جنگ ہار گیا۔ جو حادثہ ہمارے گھروں میں پیش آتا، وہ باعث بنتا کہ ہمیں  محاذ کی فرنٹ لائن پر کامیابی نصیب ہو۔

 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3657



http://oral-history.ir/?page=post&id=7623