سن 1974ء سے مربوط آیت اللہ غلام علی نعیم آبادی کے واقعات

زندان میں میری کوٹھڑی ایسی تھی!

محمد مہدی عبد اللہ زادہ
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-01-18


آیت اللہ غلام علی نعیم آبادی سن 1944 ء میں دامغان کے نعیم آباد علاقے میں پیدا ہوئے۔ وہ پہلوی حکومت کے دوران شہنشاہی حکومت کی مخالفت کے جرم میں کئی بار گرفتار ہوئے اور بالآخر مشترکہ کمیٹی کے جیل میں آٹھ مہینے اور زندان قصر میں 30 مہینے قید اور کوڑوں کا مزہ چکھا۔ آیت اللہ نعیم آبادی اس وقت بندر عباس کے امام جمعہ اور صوبہ ہرمزگان میں مقام معظم رہبری کے نمائندے ہیں۔ آگے چل کر آپ جس تحریر کو ملاحظہ فرمائیں گے، وہ اُن سے ایک انٹرویو میں حاصل ہونے والے مطالب ہیں۔

محمد مہدی عبد اللہ زادہ نے اس انٹرویو کو انجام دیا اور اس کی تحریر کو ایرانی زبانی تاریخ کی سائٹ کے اختیار میں قرار دیا ہے۔

 

پہلی مرتبہ ساواک نے آپ کو کس وجہ سے گرفتار کیا تھا؟

اپنی شرعی ذمہ داری کا احساس کرنے کی وجہ سے،  سن 1971ء کے بعد تہران میں کہیں بھی، جب میں منبر پر جاتا یا کسی انجمن میں جاتا، میں اپنے ساتھ امام خمینیؒ کی توضیح المسائل لے جاتا اور منبر پر اُن کی توضیح المسائل کے مطابق مسائل بیان کرتا اور امام خمینی ؒکی مرجعیت کی تبلیغ کرتا جو اُس زمانے میں ایک بہت بڑا سیاسی جرم تھا۔

میں تہران میں مختلف جگہوں پر زیب منبر ہوتا تھا، لیکن آیت اللہ غیوری کے محلے میں مسجد پل سلیمان میں ہونے والی مجلس، اُن سب سے اہم ترین جگہ تھی۔ آیت اللہ غیوری اُسی محلے کے مولانا تھے، وہ میری مجلس میں شرکت کرتے تھے۔ ہر رات تقریر کے وقت مسجد بھری ہوتی تھی۔ دامغان کے رہنے والے بھی آتھے تھے۔

میرے کام کرنے کا طریقہ کار ایسا تھا جو سسٹم والوں کے غصے کو بھڑکاتا تھا۔ ساواک کا نظام بھی ہر جگہ پھیلا ہوا تھا اور وہ لوگوں کی زندگی کے ہر پہلو میں موجود تھے۔ جس سال مردہ گوشت (غیر شرعی طور پر ذبح ہوا اور مردار) ایران میں داخل کیا گیا، دراصل وہ چاہ رہے تھے لوگوں کو کھانے کیلئے حرام گوشت دیں۔ میں نے ایک جلسے میں لوگوں سے باقاعدہ طور پر مطالبہ کیا کہ حکومت کی اس ناشائستہ حرکت کے خلاف جنگ کیلئے اٹھ کھڑے ہوں۔ اسی لئے میں نے کہا جس طرح گاندھی نے برطانیہ کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے کہا  تھا کہ انگریزی لباس نہ پہنیں اور انگریزوں کا کپڑوں کا استعمال نہ کریں آپ لوگ بھی اس نجس گوشت کو استعمال نہ کریں، بالآخر کامیابی ہماری ہی ہوگی۔

اپریل سن 1974ء  میں، تہران میں اپنی  محرم و صفر کی مجالس ختم کرنے کے بعد میں قم چلا گیا، کچھ دنوں بعد ظہر کے وقت جب میں  مدرسہ سے گھر کی طرف جا رہا تھا، جناب [شہید] شیخ عباس  شیرازی نے کہا میرے ساتھ آؤ میں تمہیں  گھر تک چھوڑ دوں گا۔ اُن کے پاس پرانی پژو (کار کانام) تھی  جو مولویوں کی  کار سے مشہور  تھی۔ جب میں گھر پہنچا تو زیادہ  دیر نہیں ہوئی ہوگی دروازہ کھٹکھٹایا۔ کچھ افراد تھے۔ کہنے لگے: قبلہ تشرف لائیے! میں اُن کے رویے سے سمجھ گیا کہ وہ ساواک  کے سپاہی ہیں۔ میں کپڑے تبدیل کرنے کیلئے گھر کے اندر گیا۔ اُن میں سے ایک دو افراد صحن میں داخل ہوگئے تاکہ مجھ پر نگاہ رکھیں۔ میں نے اپنی زوجہ اور والدہ سے چند جملوں میں کہا ان کا تعلق ساواک سے ہے اور یہ مجھے اٹھانے آئے ہیں۔ پریشان نہ ہوں بس خدا پر توکل کریں۔

میرا بیٹا محمد رضا چھوٹا تھا۔ میری والدہ نے ایسے ماحول کو نہیں دیکھا ہوا تھا۔ اگرچہ وہ ایک شیر دل خاتون تھیں لیکن وہ پریشانی کے اظہار کو چہرے سے چھپا نہیں سکتی تھیں۔ میری زوجہ بھی پریشان ہوگئی۔ ساواک نے اپنے رویے اور اذیتوں سے لوگوں کے دل میں رعب اور خوف بٹھا دیا تھا کہ اُس کا نام پریشان کرنے والا تھا۔ میں نے جیسے گلی میں قدم رکھا، سول ڈریس پہنے دو تین لوگوں نے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا  ہمارا گھر شاہراہ خاکفرج  کے پہلے پمپ پر، رضائی اسٹریٹ میں تھا۔ صحن کے آخری حصے میں دو کمرے بنائے گئے تھے اور ایک کمرا گھر  کے شروع میں بنا ہوا تھا۔ سپاہیوں نے تمام کمروں کی تلاشی لی اور کمروں میں ہر جگہ اپنی نظروں کو دوڑایا۔

انھوں نے اپنی گاڑی کو سڑک پر پارک کیا ہوا تھا، اسی لئے ہمیں گلی میں تقریباً سو میٹر پیدل چل کر جانا پڑا۔ گلی کے آخر پرپہنچ کر جب میں نے اپنے سر کو گھمایا میں نے اپنی زوجہ کو دیکھا جو میرے چار سالہ محمد رضا کا ہاتھ پکڑے ہمارے پیچھے آرہی تھی۔ جب میں گاڑی میں سوار ہوا، اُن میں سے دو افراد میرے دونوں اطراف میں بیٹھ گئے  اور سیدھے تہران کی طرف حرکت کی۔

راستے میں کبھی کبھار ایسی باتیں کرتے جن سے میں ڈر جاؤں۔ مثلاً وہ کہتے: "دستر خوان لگا ہوا ہے  استفادہ کرنا چاہیے۔ ہم جو بھی خرچہ کریں گے مل جائیگا۔"

 

آپ کو کہاں لے گئے تھے؟

جب ہم تہران پہنچے تو دن کا اُجالا تھا۔  مجھے تہران میں سیدھا مشترکہ کمیٹی میں لے گئے اور اُن کی تحویل میں دیدیا۔ میں تہران تک مولوی والے لباس میں تھا،لیکن جیسے ہی ہم کمیٹی  پہنچے بڑی بے احترامی سے وہ لباس اُتروا کر مجھے جیل کا لباس دیدیا گیا۔ میری سر اور داڑھی کے بال تراش دیئے گئے اور جیل کا چہرہ بنا دیا۔ اس کے بعد انھوں میرے سر پر ایک بوری ڈال دی تاکہ میں کہیں دیکھ نہ سکوں اور مجھے تھوڑا اس طرف اور اُس طرف لے گئے اور آخر میں بہت ہی  بے عزتی کے ساتھ مجھے کوٹھڑی میں دھکیل دیا۔ قبر کی طرح اندھیری تھی، اُس میں باہر کھلنے والی کوئی کھڑکی نہیں تھی۔

مجھے سے پہلے دو افراد اور بھی اُس کوٹھڑی میں تھے۔ ایک مارکسزم کا طرفدار  تھا اور دوسرا  غصے والا بازاری۔ اُس تاریک اور تنگ جگہ پر وہ دو افراد میرے ساتھ سانس لے رہے تھے۔ دم گھٹنے والا ماحول تھا۔ ایک کوٹھڑی میں رہنے والوں کو ایک دوسرے پر بھی اعتماد نہیں تھا، لہذا ہم بہت ہوشیار رہتے۔

انقلاب کے بعد میں وہاں گیا تاکہ اُس کوٹھڑی کی جگہ دیکھوں۔وہ کوٹھڑی تیسرے بند  کی سیدھی طرف آخر میں تھی، بند کے مشترکہ ٹوائلٹ سے پہلے۔

 

اپنی کوٹھڑی کے بارے میں بتائیں؟

اس کوٹھڑی کی لمبائی چوڑائی 320 اور 145 سینٹی میٹر تھی۔ کوٹھڑی کا دو پٹ والا آہنی دروازہ تھا جو تقریباً 60 سینٹی میٹر چوڑا اور 170 سینٹی میٹر لمبا تھا کہ اندر سے اُس کے تالے کے سوارخ کی جگہ ایک لوہے کی پٹی کو ویلڈ کیا ہوا تھا تاکہ قیدی اپنے بند  کی راہرو کو نہ دیکھ سکیں۔ اس راہرو کی لمبائی تقربیاً تیس میٹر اور اس کی چوڑائی تقریباً ڈیڑھ میٹر کی تھی۔ اور اُس کے دونوں طرف قیدیوں کی کوٹھڑیاں (سلول) تھیں۔

بھاری بھر کم دروازے کے بالائی حصے میں ایک  چھوٹے چائے پینے والے کپ  کے پیندے جتنا ایک سوراخ بنا ہوا تھا  جس کے باہر کی طرف سے کنڈی والا کور لگا ہوا تھا جسے باہر سے بند کیا جاسکے اور قیدی اس کور کو ہٹا نہ سکیں۔ جب ہمیں کوئی ضروری کام پڑتا، ہم آواز لگاتے یا مکے برساتے کہ شاید نگہبان کے دل میں رحم آجائے اور وہ کور ہٹا کر ہماری بات سن لے۔ اُس سے نیچے کھڑکی کی طرح کا ایک اور دریچہ تھا  کہ جس کا سائز سوئی سے تھوڑا بڑا اور بال پین  کی ٹیوب سے چھوٹا تھا۔  اس دریچہ کے پیچھے بھی باہر سے بند کرنے والا ایک کور لگا ہوا تھا۔ میرے خیال سے یہ سوراخ اس لئے تھا کہ جیل کا انچارج جب چاہے کوٹھڑی کے اندر کا مشاہدہ کرلے اور قیدی  اس مشاہدہ کی طرف متوجہ بھی نہ ہو۔ خواتین کیلئے جو کوٹھڑیاں مخصوص تھیں وہ بھی اسی طرح کی تھیں۔

کوٹھڑی کے فرش پر  پیلے رنگ کی 20 سینٹی میٹر چوڑی اور لمبی ٹائلیں لگی ہوئی تھی۔ کوٹھڑی میں داخل ہونے والا دروازہ جس دیوار پر لگا ہوا تھا اُس کا سائز تقریباً 50 سینٹی میٹر تھا۔ ہماری کوٹھڑی میں داخل ہونے والے دروازے کے بالکل سامنے اور ایک دم چھت سے لگا ہوا ایک چھوٹا سا روشندان تھا جس پر اندر سے لوہے کی ریلنگ، اُس پر  موٹی سی تاروں کی جالی  لگی ہوئی تھی اور پھر 60 ، 70 سینٹی میٹر کے فاصلے پر دوبارہ لوہے کی ریلنگ اور ایک دوسری جالی تھی۔ اس طرح کے حالات اور شرائط میں کھڑکی ، کھڑکی نہیں رہی تھی! کمرے میں روشنی پہنچانے کا  کام چھت پر لگا ایک کم واٹ کا بلب کر رہا تھا۔

اس محدود فضا میں، ہر قیدی کے پاس ایک پلاسٹک کا گلاس اور کھانا کھانے کیلئے ایک پیالہ تھا کہ ضرورت پڑنے پر اس پیالے کو واش روم میں بھی استعمال کرنا پڑتا تھا اور اس طرح وہ پیالہ دن میں دو مرتبہ استعمال ہوتا تھا اور واش روم میں  استعمال ہونے کے بعد بیکار ہوجاتا۔ اس زندان میں ٹوتھ برش، تولیہ، حمام، صابن، چمچہ، ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبار وغیرہ تو ایک کہانی تھی!

یہ زندان اُس جگہ پر ہے جسے آج کل "عبرت"عجائب گھر کے عنوان سے قرار دیا گیا ہے۔ جو وہاں قیدی تھے اور اُن مشکل حالات میں انھوں نے شکنجوں کو برداشت کیا، ایسے کئی ہزار لوگوں کی تصویریں اُس کی دیواروں پر لگی ہوئی ہیں۔ اُس جگہ کا نام مشترکہ کمیٹی اس وجہ سے رکھا ہوا تھا کہ ساواک، پولیس اور شاہ کے امنیتی اداروں  کی فورسز ، سب مل کر وہاں پر کام کریں! اصل میں یہ اس لئے تھا کہ  مال غنیمت کی تقسیم میں کوئی جھگڑا نہ ہو، مشترکہ کمیٹی کو فساد کے خلاف کام کرنے والا بھی کہا جاتا تھا۔ یعنی اس لئے کہ خود اُن کے بقول ہم جیسے فساد پھیلانے والوں سے مقابلہ کریں!

 

اپنی تفتیش کے بارے میں بتائیں؟

دوسرے دن مجھے تفتیش کیلئے لے گئے۔ کوٹھڑی سے باہر نکلنے سے پہلے میری قمیض کو میرے سر پر ڈال دیا تاکہ کہیں دیکھ نہ سکوں۔ اُس کے بعد مجھے کھینچ رہے تھے یا دھکا دے رہے تھے یا مکے مار رہے تھے۔ اخلاقیات کا تو کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ توہین، حقارت، بے عزتی اور گالیاں یہ سب اُن کے کام اور شخصیت کا حصہ تھیں۔

تفتیش والے کمرے میں بیزار کرنے والے بو پھیلی ہوئی تھی۔ تفتیش کرنے والا ایک آدمی تھا۔ کمرے میں ایک کرسی تھی۔ تفتیش کرنے والی میز پر ایک  تار بھی رکھی ہوئی تھی۔ رعب اور خوف کی فضا ہر جگہ چھائی ہوئی تھی کہ کسی بھی وقت جب دل چاہے  تشدد شروع کردیں۔ توہین، دہمکی، اور حقارت سب کیلئے تھی، یعنی اصلاً یہ بات جانے بغیر کہ سامنے والی کی فائل کیسی ہے اور اُسے کس جرم میں پکڑا گیا ہے۔

تفتیش کرنے والے نے ایک طولانی خاموشی کے بعد اپنی  ٹائی کو صاف کیا اور بولا: "یہ بکواسات، یہ اُلٹی سیدھی باتیں کیا ہیں جو تم نے کی ہیں؟ لوگوں کو نظام سے مقابلہ کرنے کیلئے کیوں بھڑکایا ہے؟" ہوشیاری اس میں نہیں تھی کہ اُس کی باتوں کو مان لیا جائے۔ کسی بھی طرح میں نے کوئی خاص بات نہیں کی۔ کئی دفعہ یہ ماجرا تکرار ہوا اور آخر میں اُن کے پاس ایک ہی چیز رہ جاتی یعنی تار اور کوڑے پر بات ختم ہوتی تھی! ایسی چیز کہ جس کا مزہ جنہوں نے چکھا ہے وہ اُسے اچھی طرح جانتے ہیں!

ہم ہر گھڑی انتظار میں رہتے کہ ہمیں تفتیش کیلئے لے جائیں۔ کچھ دن گزرنے کے  بعد دوبارہ تفتیش کی باری آتی، تکراری سوالات کے ساتھ اور خاص طور سے ذہنی ٹارچر کرتے۔ مثلاً ایک دن میرے سر کے تمام بالوں کو کاٹ دیا اور میرے سر کے آگے  والے بالوں کو ہتھیلی کے اندازے  کے مطابق چھوڑ دیا۔ لات مارتے تھے، توہین کرتے تھے، اپنی مخصوص ادبیات کے ساتھ گالیاں بکتے تھے۔ اس عرصے میں مجھ سے تفتیش کرنے والے مختلف تھے۔ میرے خیال سے اُن کا نام افشین اور حسینی تھا۔

چاہے دن ہو یا رات، کمیٹی میں شور شرابا معمولی بات تھی۔ اُن کے شکنجہ کرنے کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔ آدھی رات کو جب ہم نیند میں غرق ہوتے تھے تو شکنجہ ہونے والوں کی چیخ و پکار، رونے کی آواز اور شکنجہ کرنے والوں کی شور مچانے والی آواز سے اٹھ جاتے۔ وہ جان بوجھ کر زیادہ تر آدھی رات کو ٹارچر کرتے تھے تاکہ اس طرح سب کو ٹارچر کرلیں۔ جب کوئی تفتیش اور شکنجہ برداشت کرنے کے بعد آتا تو  ڈھیلا ڈھالا  اور مرجھایا ہوتا تھا۔

مشترکہ کمیٹی کے زندان میں چند بند (سیکشن) تھے جو ایک محور کے گرد تین منزلہ بنائے گئے تھے۔ تفتیش والے کمرے یا بہتر ہوگا یہ کہوں ٹارچر کرنے والے کمروں کو ان بند کے مرکزی حصے میں  رکھا گیا تھا تا کہ ہر آدمی کو شکنجہ کرنے سے، سب لوگوں کو ذہنی سے لحاظ سے اذیت پہنچائیں۔ صحن  کا سائز دائرے کی صورت میں 20 میٹر تھا کہ تمام بند اُس کے گرد بنے ہوئے تھے  تاکہ آوازیں  آرام سے تمام طبقوں اور بندوں تک پھیل جائے۔ نچلے طبقے پر شکنجہ دینے کی جگہ، یعنی اُس جگہ پر تھی جہاں شکنجوں کی آواز ہمارے کانوں سے ٹکراتی۔ یہ آوازیں رعب اور وحشست کے ماحول میں اضافہ کرتی تھیں۔

جن لوگوں کا جرم تقریر کرنا یا فردی جرم تھا اُنہیں مارتے تھے، لیکن اُس طرح سے نہیں ما را جاتا تھا جس طرح مخفی اور مسلح تنظیموں سے وابستہ افراد کو مارتے تھے۔ اُن افراد کو شکنجہ کرنے کا طریقہ دوسرا تھا۔

میری سب تقریریں ریکارڈ ہوئی تھیں اور پتہ چل رہا تھا کہ بہرحال ہم بھی بد نصیب نہیں تھے۔ ہم نے تاروں اور  توہین سے بھی استفادہ کیا! تاہم اُس حد تک نہیں  کہ جیسے بعض لوگوں کی خاطر مدارات کی جاتی تھیں اور اُنہیں  شہادت کی حد تک شکجنے دیتے تھے۔ حقیقت میں لوگوں کی شخصیت کا ملیا میٹ کردیتے تھے۔ سامنے والے کی شخصیت پر حملہ کرتے اور اُسے پاؤں تلے روند ڈالتے۔ فحاشی بہت زیادہ تھی۔ تفتیش کرنے والے اور دوسرے افراد جو وہاں تھے، وہ غصیلے اور نفسیاتی تھے، بد زبان اور بد ذات۔ شرافت اور انسانیت کی بو تک نہیں سونگھی تھی۔ توہین، تحقیر اور شکنجہ دینے  میں  اُنہیں مزہ آتا تھا۔

 

آپ مشترکہ کمیٹی کے زندان میں کتنا عرصہ رہے؟

دو مہینے، میری کوٹھڑی میں اندھیرا اور بہت ہی کم اُجالا تھا۔ مطالعہ کرنے کی جگہ نہیں تھی؛ مطالعہ کی بات تو دور اصلاً کتاب نہیں تھی، حتی قرآن۔ میں دن رات یا تو سوچوں میں غرق رہتا یا واجبات اور مستحبات کی ادائیگی میں وقت گزرتا۔

پہلی دفعہ گرفتار ہونا حقیقت میں ایک قطعی موت ہوتی۔ کسی کو انسان کی خبر نہیں ہوتی۔ خبریں بالکل بند ہوجاتی تھیں۔ مگر یہ کہ زندان میں کسی کا کوئی جان پہچان والا ہو اور وہ چپکے سے خبر پہنچا دے کہ میں نے فلاں شخص کو زندہ دیکھا ہے، بس اسی حد تک۔ ان دو مہینوں میں میرا  اپنے گھر والوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔

بند کے آخر میں کچھ واش روم تھے اور وہی حمام بھی تھے، یعنی لوٹے میں پانی بھر کر اپنے سر پر ڈال لیتے۔ پانی بھی ٹھنڈا ہوتا تھا۔ ٹوائلٹ لے جاتے وقت حتی دو قیدیوں کو ایک ساتھ نہیں لے جاتے تھے۔ وہ ڈرتے تھے کہ کہیں ہم ایک دوسرے سے خبروں کو ردّ و بدل نہ کرلیں۔ اس مدت میں،  اپنی کوٹھڑی میں رہنے والے افراد کے علاوہ میں نے کسی دوسرے زندانی کو نہیں دیکھا۔ میں صرف کوڑوں اور شکنجوں کی آواز سنتا تھا۔ انسان تو دور کی بات، نہ آسمان دیکھا، نہ زمین، نہ روشنی اور نہ ہی تازہ ہوا۔

زندان کے نگہبان مختلف تھے۔ وہ ہم سے بات نہیں کرتے تھے اور اُن کے اندر ہمیں جواب دینے کی جرات بھی نہیں تھی۔ ہم سوال کرتے، جواب نہیں دیتے تھے،  لیکن  طرز عمل کے لحاظ سے اُن میں سے بعض مکے اور لاتیں برساتے تھے۔ کبھی گالی بھی بکتے تھے۔ وہ مجموعی طور پر اسی طرح کے تھے، لیکن اُن میں سے بعض لوگ نرم  مزاج کے تھے۔ ایک سپاہی تھا، برا آدمی نہیں تھا، جب وہ آتا تو آواز لگاتا: "آج رات میری ڈیوٹی ہے جتنا دل چاہے چیخ و پکار کرو، لیکن دل ہی دل میں!" ہر انسان اپنی مختلف شخصیت  کو ہر جگہ دکھا دیتا ہے۔

 

آپ اُن حالات اور صورت حال  سے ڈرے؟

" تزکیه المرء لنفسه قبیح "؛ اپنی تعریف کرنا اچھا نہیں ہے، لیکن کبھی بھی میرے حواس باختہ نہیں ہوئے۔ میں نے ذلت و خواری کا اظہار نہیں کیا،حتی اُن کے دل میں یہ آرزو ہی رہی کہ میں ایک آہ کروں۔ زندان میں میرا ہنسنا مشہور تھا۔ آج کل بھی میری یہی کیفیت ہے۔ جب میں کسی ذمہ داری کا احساس کرتا ہوں اور ایک راستہ کا انتخاب کرلیتا ہوں، جو کام مجھے کرنا چاہیے ہوتا ہے، اُسے انجام دیتا ہوں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں کبھی ڈرا ہوں۔ میں  بے اعتنائی اور اسلامی عزت کے ساتھ نیز اُن لوگوں کی تحقیر کرتا تھا۔ چونکہ اگر میں کمزوری دکھاتا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ میں نے اُن کی حقارت کو قبول کرلیا ہے۔

پورے دو مہینے تک میرا کسی سے رابطہ  نہیں تھا۔ کسی ایک بڑے کے بقول، زندان، زندہ لوگوں  کی قبر ہے۔ نہ باہر والوں کا اندر والوں سے کوئی رابطہ ، نہ اندر والوں کا باہر والوں سے کوئی رابطہ ہوتا ہے۔

 

اپنی کوٹھڑی میں رہنے والوں کے بارے میں بتائیں؟

ہم تین آدمی دو مہینے تک ایک کوٹھڑی میں رہے۔ میرے ساتھ رہنے والا ایک بوشہر کا رہنا والا حبیبی تھا۔ وہ مارکسزم کا طرفدار تھا اور انقلاب کے بعد مجھے اُس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ انقلاب کے شروع میں ایک کریمی نامی آدمی نے ٹیلی ویژن پر آکر ندامت کا اظہار کیا اُس کی اور حبیبی کی فائل ایک ہی تھی۔ کریمی نے اُس سے الٹی سیدھی باتیں کی ہوئی تھیں اور اس کے خلاف بیہودہ شعر بھی کہے تھے۔ اُس کے مارکسسٹ ہونے کے باوجود میں اُس سے بحث نہیں کرتا تھا، چونکہ کوڑوں اور شکنجوں کے بیج میں بحث نہیں ہوسکتی۔ وہ بدبخت اپنے مار کھانے کے انتطار میں رہتا تھا۔ ایسے حالات میں بھی اُس کا اخلاق اور رویہ اچھا تھا اور اُس نے بڑی  بہادری کے ساتھ زندان اور اُس کی مشکلات کو تحمل کیا۔ مجھے اُس کی کوئی برائی یاد نہیں۔ وہ کہتا: "میں نے مولا علی (ع) سے سیکھا  ہے کہ انھوں نے فرمایا : کاموں کی دو قسمیں ہوتی ہیں، اگر علاج کے قابل ہے تو علاج کرو، وگرنہ صبر کرو!"اُس کے ذہن میں ابھی تک اپنے پہلے دین کی جڑیں باقی تھیں۔ فقط جہاں تک ممکن ہوتا میں نجس پاک والے مسائل کی رعایت کرتا، چونکہ مجھے پتہ تھا وہ شیعہ تھا اور مرتد ہوگیا ہے، اس لئے نجس ہے۔ زندان میں، مذہبی افراد  کے دو طرح کے گروپ تھے، ایک گروپ ماکسسٹوں کے نجس ہونے کی رعایت نہیں کرتا تھا اور کہا کرتا تھا نجاست ایک الگ چیز ہے اور دوسرا گروپ انہیں نجس سمجھتا تھا۔

میری کوٹھڑی میں دوسرا رہنے والا ایک بازاری فرد تھا۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں وغیرہ سے محبت کی وجہ سے کہتا: "میں حضرت ہرا (س) سے توسل کرنا چاہتا ہوں۔" صبح سے لیکر رات تک کوٹھڑی کے ایک طرف سے دوسری طرف ٹہلتا رہتا اور کہتا رہتا: "یافاطمہ، یا فاطمہ، یا فاطمہ!" ہم توسل پہ یقین رکھتے ہیں، لیکن ایسی صورت میں کہ جانسوز ہو اور ایک ضعیف روح سے بلند ہو، نہیں! یہ قوت کی علامت نہیں، کمزوری کی علامت ہے۔ میں نے اُس سے کہا: "جناب، ہر حال میں ہمیں تحمل کرنا چاہیے۔" وہ کہتا: "یعنی نہیں ہوسکتا کہ تفتیش کرنے والا مثلاً لکھنا چاہیے آزاد (نشود)نہ ہوں، یہ نون کا نقطہ اوپر سے نیچے آجائے  اور یہ نہ ہونا (نشود) ہونے (بشود)میں تبدیل ہوجائے؟!" بہت ہی تلخ واقعہ ہے، ابھی جو میں نقل کر رہا ہوں، اس عزیز کی ضعیف ہمت سے میری طبیعت مکدر ہو رہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم زندہ ہے یا نہیں۔ انصاف کی بات ہے کہ زندان آزمائش اور امتحان کی جگہ تھی، جو انسانوں کے اندر ہوتا ہے وہ آشکار ہوجاتا ہے۔

اُس کی ذہنی کیفیت کی یاد جو میرے ذہن میں ہے کسی اور کے بارے میں نہیں۔ یعنی ابھی جب بھی  مجھے پورا زندان یاد آتا ہے، اُس کی یاد اور اُس کا رویہ مجھے اذیت کرتا ہے۔ اگلے دن اُس نے حضرت مہدی (ع) سے توسل کیا۔ میں اس کا نام نہیں لینا چاہتا۔ بہت بری طرح روتا تھا۔ ایسا شخص تھا جس نے زندان سے باہر  انقلابی قیافہ اپنایا،  مثلاً جناب مرحوم طالقاتی کو اپنی گاڑی پر بٹھالیا، لیکن بہت جلد  ہی پیچھے ہٹ گیا۔

دو مہینے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے  کہ میری تفتیش کرنے اور مجھے زندان میں رکھنے سے اُنہیں کوئی فائدہ نہیں، انھوں نے کہا: اب سیاسی معاملات میں ٹانگ نہیں اڑانا ، جاؤ۔ اُن کے پاس میرے خلاف کوئی ثبوت بھی نہیں تھا، کیسٹیں تھی اور میری آوازوں کو منبر پر ریکارڈ کیا ہوا تھا۔ جب میں زندان سے باہر آیا، میرے پاس تہران میں اپنے والد کے گھر تک پہنچنے کیلئے گاڑی کے کرایہ کی حد تک پیسے تھے۔ میں نے گاڑی پکڑی اور سیدھا گھر کی طرف گیا۔ وہ لوگ بہت خوش ہوئے۔ میری والدہ قم میں تھیں۔ میں فوراً قم گیا اور اپنی والدہ اور گھر والوں سے جاکر ملا۔ والدہ بیان کرتی ہیں کہ میں ایک دن پہلے، بہت اُداس تھی، چونکہ میں اُن کی زندگی کی امید اور پناہگاہ تھا؛ کہنے لگیں: میں حضرت معصومہ (س) کے حرم گئی اور اُن سے توسل کیا۔ میرے دل سے کہا گیا کہ تمہارا بیٹا آزاد ہوگیا ہے۔

اُس زمانے میں شاہ حکومت کی تاثیر  کے تحت ماحول اچھا نہیں تھا۔ بعض لوگ انقلابی سرگرمیوں کی مذمت کرتے  اور کہتے تھے: "یہ صحیح ہوجائے گا! مولوی، اپنی مجلسیں پڑھو، تمہیں حکومت سے کیا سروکار؟" البتہ بعض لوگ  ایسے بھی تھے جو اس طرح نہیں سوچتے تھے اور انقلابی لوگوں کا احترام کرتے تھے۔ 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3986



http://oral-history.ir/?page=post&id=7597