"دلدادہ" نامی کتاب کے بارے میں زہرا سبزہ علی سے گفتگو

یادوں کا قلمبند کرنا، معاشرتی تاثیر کیلئے

فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-01-11


شہید علی رضا ماہینی کی ایک چھوٹی سی تصویر  دیکھنا زہرا سبزہ علی (شاہ بابائی) کیلئے  ایک چنگاری ثابت ہوا کہ وہ  اس بوشہری شہید جو غیر منظم جنگوں کے گروپ کمانڈر تھے، کی یادوں کو جمع کریں۔ اس کام سے حاصل ہونے والے مطالب  آرٹ شعبے اور مطبوعات سورہ مہر کی مدد سے پیش ہوتے ہیں۔ "دلدادہ" نامی کتاب کی اشاعت بہانہ بنی کہ ایرانی زبانی تاریخ کی سائٹ زہرا سبزہ علی کے ساتھ بات چیت کیلئے بیٹھے۔

 

پہلے یہ بتائیں کہ  آپ شہید علی رضا ماہینی کو کس طرح پہچانیں؟

سن 2006ء کی خزاں میں،میں میٹرو کے ایک لیڈییز واگن میں بیٹھی ہوئی تھی  کہ میں نے دیکھا پیروں میں ایک کاغذ گرا ہوا ہے اور  کچھ لوگ اپنے پیروں سے اُسے اِدھر اُدھر کر رہے ہیں۔ میں نے اُسے ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کی نیت سے اٹھایا۔ دیکھا  تو علی رضا ماہینی نامی شہید کی تصویر ہے جو غیر منظم جنگوں کے گروپ کمانڈروں میں سے تھے۔ بہت پرسکون چہرہ اور  نفوذ کرنے والی آنکھیں تھیں۔ شہید کی تصویر نے مجھے بے اختیار  اپنی طرف جذب کرلیا۔ اُس زمانہ میں، میں شہداء کی وادی میں نہیں تھی۔ فقط یہ جانتی تھی کہ وہ لوگ عظیم انسان ہیں۔ میں نے کاغذ لپیٹ کر اپنے پرس میں رکھ لیا۔ پھر میری بیٹی جو اُس وقت نو سال کی تھی، اُس نے اس تصویر کو الماری پر لگا دیا۔ اُس زمانے سے جب بھی زندگی کے نشیب و فراز میں مجھے کوئی مشکل پیش آتی، میں بے ساختہ شہید کی اس تصویر کو ڈھونڈتی اور اُس کو حال دل سناکر اُس سے مدد کی درخواست کرتی۔ میں اُس سے توسل کرتی اور وہ بھی مجھے جواب دیتے۔ اس شہید نے پانچ سال میرے افکار اور عقائد پر بہت  زیادہ تاثیر ڈالی۔ البتہ اخلاقی اور اعتقادی مسائل کے بارے میں مطالعہ اور اس سلسلے میں کوشش اس امر میں بے تاثیر نہیں تھا کہ یہ خود خدا کی طرف سے عنایت تھی اور شہید علی رضا ماہینی بھی وسیلہ بن گئے تھے۔ سن  2012ء  تک حالات اسی طرح گزرتے رہے کہ مجھے پتہ چلا کہ ان کا مزار کہاں ہے اور میں نے اُن کی زندگی کے بارے میں کچھ تحقیقات انجام دیں۔

 

اس کتاب کو لکھنے سے پہلے، آپ نے یادوں کی تحریر کے سلسلے میں کوئی کام انجام دیا تھا؟

نہیں۔ حتی سن 2012ء میں جب مجھے پتہ چلا ان کی قبر کہاں ہے اور میں اُن کی زیارت کیلئے گئی، میں کتاب لکھنے یا اُن  کے واقعات جمع کرنے کی فکر میں نہیں تھی، لیکن جب میں ان کے دوستوں سے ملی اور اُن کے انٹرویوز کو جمع کیا، جب میں تہران واپس آئی میں نے اپنے آپ سے کہا اب میں نے یہ واقعات جمع کرلئے ہیں، انہیں اپنے لئے لکھ لیتی ہوں۔ کچھ عرصے بعد جب میں شہید بہشتی یونیورسٹی  کی علمی انجمن کے ممبر اور شہید کے ایک دوست جناب ڈاکٹر اصغریان جدی سے ملنے گئی، انھوں نے بھی مجھ سے کہا: "اس شہید سے تمہیں بہت سے برکات ملی ہیں اور ابھی بھی جاری ہیں، لیکن تم اس انفرادی برکات کو چھوڑو، ایسا کام کرو جس کے بیرونی آثار ہوں اور اس شہید کی اجتماعی لحاظ سے بھی برکات ہوں۔" میں نے کہا: "میں کیا کروں؟" انھوں نے کہا: "شہید کے واقعات کو قلم بند کرو۔" شروع میں تو ان کی بات میری لئے ناممکن اور نا ہضم ہونے والی بات تھی، چونکہ مجھے نہ ہی لکھنے کے بارے میں کچھ پتہ تھا اور نہ ہی میری فیلڈ  کا لکھنے لکھانے سے کوئی تعلق تھا۔ میں نے ریاضی پڑھی ہوئی تھی اور یونیورسٹی میں کمپیوٹر انجینئرنگ  کی طلبہ تھی، لیکن شہید ماہینی کی زندگی  سے آگاہی کے بعد میں دینی مدرسہ میں داخل ہوگئی تھی۔ مجھے لکھنے کا کوئی تجربہ اور مہارت نہیں تھی اور یہ راستہ میرے لئے اجنبی تھا اور مجھے اس راستے میں اپنی صلاحیتوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا، لیکن ان سب کے باوجود میں نے شہید سے توسل کیا اور مجھے یہ توفیق نصیب ہوئی کہ یہ کام انجام پائے  اور میں نے پیش کردہ تجویز  کے ساتھ کتاب کی تالیف کرنا شروع کردی۔

 

جن لوگوں کے پاس واقعات تھے آپ نے اُن کو کیسے ڈھونڈا؟

جب میں شہید کی والدہ سے ملنے بوشہر گئی، شہید کے بھائی نے خدا حافظی کرتے وقت مجھ سے میرا نمبر مانگا اور اگلے دن مجھے رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ انھوں نے کھانا کھانے کے بعد کہا: "میں نے شہید کے تین دوستوں کو بلایا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو وہ یہاں شہید کے واقعات بیان کریں۔" یعنی بغیر اس کے کہ میں نے کوئی مطالبہ کیا ہو ایسا ہوچکا تھا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ اُن میں سے دو لوگوں نے اپنے واقعات کو بیان کیا اور میں نے ریکارڈ کرلیا اور اپنے موبائل سے اُن کی تصویر یں کھینچی اور مووی بنائی۔ اُن میں سے ایک شخص کے واقعات جن کا نام جناب ترک زادہ تھا، باقی رہ گئے۔ انھوں نے کہا: "جب تک آپ بوشہر میں ہیں میں اپنے واقعات بھی بیان کردوں گا۔" انھوں نے اُس کے اگلے دن مجھے فون کرکے کہا: "میں نے شہیدوں کے کچھ دوستوں سے بات کرلی ہے  اور ہم نے بہشت صادق ثقافتی دفتر میں ملنے کا طے کیا ہے۔ آپ وہاں آکر ہمارے واقعات کو ریکارڈ کرسکتی ہیں۔

اب میرے موبائل کے میموری کارڈ میں گنجائش نہیں بچی تھی۔ میں نے بوشہر میں موجود چند فوٹو اسٹوڈیو کا  چکر لگایا تاکہ انٹرویو کیلئے ایک فوٹو گرافر لے لوں، لیکن خرچہ بہت زیادہ تھا۔  میں تھک ہار کے پریشان ہوچکی تھی۔ لیکن بالآخر بہشت صادق کے انچارج جناب کرہ بندی کے توسط سے جنہوں نے اپنے بھائی کو میرے ساتھ بھیجا تھا میں فوٹوگرافر کی مشکل کو حل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

جب میں تہران آگئی تو  میں نے کہا ان واقعات کے جمع کرنے میں  حتماً کوئی ہدف تھا۔ میں نے تہران میں جناب ترک زادہ کو فون کیا اور اُن سے کہا کہ اگر آپ شہید کے کسی دوست کو پہچانتے ہیں جو تہران میں رہتا ہے تو مجھے بتائیں اور انھوں نے بھی ڈاکٹر اصغریان جدی کا پتہ بتایا۔ میں نے ان کے ساتھ کچھ نشستیں رکھیں۔ انھوں نے مجھے فداکاروں کے امور میں محترمہ زاہدی سے متعارف کروایا اور کہا: "یہ آپ کی رہنمائی کرسکتی ہیں اور تحریری متن کی ٹائپ میں مدد کرسکتی ہیں۔" اسی ترتیب سے کام آگے بڑھتے رہے۔ اصل میں ہر دوست ایک دوسرے دوست کو متعارف کروا رہا تھا۔ جب میں بعد میں بوشہر گئی تو مجھے شہید کا ایک اور دوست ملا۔ اصل میں میرے پاس ناموں  کی لسٹ نہیں تھی،  ہر دفعہ ہر انٹرویو میں ایک نئے شخص کا نمبر مل جاتا۔ افراد تہران، قم اور بوشہر کے درمیان پھیلے ہوئے تھے۔ ان میں سے بعض لوگوں سے بہت مشکل سے ملاقات کا وقت طے کرپاتی۔ اس کام میں چار سال کا عرصہ لگ گیا۔

 

واقعات چھاپنے کیلئے آپ نے کیا کوشش کی؟

میں سن 2015ء میں  چند ناشروں کے پاس گئی تاکہ اُن سے "دلدادہ" نامی  کتاب کی چاپ کیلئے مدد لوں۔ اس کے باوجود کہ وہ میری تحریروں اور میری کوششوں کی تعریف کر رہے تھے، لیکن اُنہیں پتہ تھا کہ میں جانی پہچانی مؤلفہ نہیں ہوں اس لئے کتاب کی چھپائی میں میرے ساتھ تعاون کرنے کیلئے تیار نہیں ہوئے۔ میں نے نا اُمید ہوکر کتاب چھاپنے کا ارادہ بدل دیا تھا کہ جناب ترک زادہ نے مجھے  پیغام رسانی کے چینل پر گلبرگ ہای گل سرخ (لال پھول کی پتیاں)گروپ کا ممبر بنادیا۔ اس گروپ کے زیادہ تر ممبرز بوشہر کے سپاہی تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ کتاب  کے کچھ حصوں کو اس گروپ پر شائع کروں۔ چند حصے ہی ڈالے ہوں گے کہ دارابی نام ایک شخص نے مجھ سے اجازت لی کہ وہ میرے مطالب کو روزانہ اپنی ویب لاگ پر منتشر کرے جو صوبہ بوشہر کے شہداء کے نام سے تھی۔ میں بھی راضی ہوگئی اور اُسے بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ پھر میں واقعات کے کچھ حصوں کو مختلف سائٹوں جیسے تبیان پر شائع  کرتی رہی۔

سن 2015ء میں صوبہ بوشہر میں اُس وقت کے آرٹ شعبے کے انچارج جناب میر شکار نے شہدائے صوبہ بوشہر کی ویبلاگ پر میرے مطالب دیکھے ہوئے تھے۔ انھوں نے بوشہر سے فون کرکے مجھ سے پوچھا: "کیا یہ واقعات چھپے؟" میں نے کہا: "نہیں۔" انھوں نے کہا: "اگر کتاب بن جائے تو آرٹ شعبہ اسے شائع کرے گا۔" پھر انھوں نے تحریروں اور واقعات کو لیا اور تہران بھیج دیا۔ مطالعات اور پائیدار ثقافت کے دفتر میں تمام صوبوں کے آرٹ شعبےسے متعلق دفتر کے انچارج محمد قاسمی پور نے کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد کہا: "نیا کام ہے، لیکن تصحیح کی ضرورت ہے۔ پہلے اپنے بارے میں بتائیں پھر شہید کے بارےمیں بیان کریں۔" تصحیح ہونے کے بعد بالآخر کتاب کی تائید ہوگئی۔

 

آپ نے مجموعاً کتنے گھنٹے راویوں سے انٹرویو لیا تھا؟

میرے خیال سے تیس گھنٹے لگے تھے۔ اس کام کیلئے میں پانچ مرتبہ بوشہر گئی۔

 

انٹرویوز شروع ہونے کے بعد آپ نے کیا کیا؟

انٹرویو سے متعلق میرے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا۔میں انٹرویو دینے والے حضرات سے صرف یہی کہتی: "آپ شہید ماہینی کے بارے جو کچھ جانتے ہیں بیان کریں۔" چونکہ میں پیشہ ورانہ مہارت نہیں رکھتی تھی اور آرٹ شعبے میں متعارف ہونے تک  میرے پاس کوئی ادبی معلومات بھی نہیں تھیں، میں پورا پورا انٹرویوز بھی لکھ دیتی  تھی۔ بعد میں مشترکہ موارد کو نکالتی، اضافوں کو حذف کرتی اور ناقص باتوں کو راویوں کو دوبارہ فون کرکے مکمل کرتی تھی۔  کئی مرتبہ ویڈیوز کو دیکھتی اور انٹرویوز کو سنتی۔ ہاتھ سے لکھے کاغذات کی تعداد، دو پٹ والی الماری کے اندازے  کے مطابق تھی۔ میں کبھی دس گھنٹوں تک لکھتی رہتی اور تصحیح کرتی رہتی۔ چوتھے سال مجھے اپنی ذاتی تجربہ کی بنیاد پر پتہ چلا کہ کچھ طرح کہ سوالات بھی پوچھنے چاہیے اور میں پوچھتی تھی۔ شہید کے دوستوں سے واقعات جمع کرنے کے بعد، میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ  اُن کے پڑھائی کے زمانے کی بھی تحقیق کروں۔ اُن کے اُس زمانے کا کوئی واقعہ نہیں تھا، میری ذہنی جستجو میرے پیچھے لگی ہوئی تھی۔ میں نے اس حصے کے لیے منصوبہ بنایا کہ اُن کے عقائد اور حتی اُن کے اسٹائل کے بارے میں پوچھوں؛  وہ کون سی کتابیں اور میگزین پڑھا کرتے تھے؟ کون سا اسٹائل اپناتے تھے؟ اُن کی جنگ سے پہلی کی شخصیت کے بارے میں جو سوال تھے وہ بھی میں اُن کے دوستوں سے پوچھتی اور ذہن کو بہتر طریقے سے منظم کرکے انٹرویو دینے والوں کے پاس جایا کرتی تھی۔

 

کیا آپ نے کتابوں کے زریعے تحقیق بھی انجام دی؟

ہاں۔  میں نے "با پای خستہ" (تھکے قدموں سے) نامی کتاب جو شہید ماہینی کے بارے میں لکھی گئی تھی، کا مطالعہ کیا۔سائٹوں پر موجود معلومات کو بھی پڑھا۔ اُن کے اسکول کے ریکارڈ کو دیکھا۔  اُن کے ہسپتال کے ریکارڈ کو دیکھا۔ حتی اُس کتاب کو پڑھا جس میں شہید کے بارے میں تین صفحے تھے۔ شہداء فاؤنڈیشن میں اُن سے متعلق جو فلم تھی اُس کو دیکھا۔ اُن کے دوستوں کے واقعات کی ریکارڈنگ کو حاصل کیا۔ "رمز و راز جنگ" (جنگ کے کوڈ اور راز) نامی کتاب کو پڑھا۔ شہید مصطفی چمران اور غیر منظم جنگوں کے بارے میں مطالعہ کیا۔ میں شہید ماہینی کے ساتھ متعارف ہونے والے شہداء کے بارے میں اور اس گھرانے کے شہداء کے بارے میں، جیسے شہید عباس کوہ زادی، تحقیق کرتی اور اُن کی تصویروں اور وصیت ناموں کو جمع کرتی۔ چونکہ میرا عقیدہ ہے کہ انسان کو  صرف اُسی کی ذات سے نہیں پہچانا جاسکتا، اُس کے آس پاس کے لوگوں کو بھی پہچاننا پڑے گا۔

 

واقعات قلمبند کرنے میں آپ کو کون سا کام سخت لگتا ہے؟

بعض راوی حضرات جو وعدے وفا نہیں کرتے اور تقاضوں پر پورا نہیں اُترتے؛ ایسے لوگ جو طے کرتے ہیں کہ اپنے واقعات بیان کریں گے لیکن کم یا ناقص بیان کرتے ہیں۔ میرے لئے اس کام میں دوسری مشکل یہ تھی کہ پانچ سالوں میں  شہید کیلئے جو واقعات قلم بند اور ریکارڈ کئے تھے، جیسا کہ میں کسی ادارے یا تنظیم سے وابستہ نہیں تھی بہت سے لوگ مجھ پر یقین نہیں کرتے تھے۔ بعض لوگ کہا کرتے: "آپ ایک شادی شدہ عورت ہیں اور کوئی دلیل نہیں ہے کہ آپ ایسے قضیہ کے درپے ہوں! اصلاً آپ اس کے درپے کیوں ہیں؟ اس شہید کے بارے میں آپ کیا جاننا چاہتی ہیں؟ فلاں کتاب میں اس شہید کے بارے میں بیان ہوا ہے۔" میں اُنہیں ایک انگریزی سائنسدان عورت کی مثال دیتی جس نے بیس سال  بہت چھوٹی سی مخلوق پر کام کیا ، بیس سال بعد کہا: "میں ابھی نہیں کہہ سکتی یہ موجود کیا ہے؟" اور میں اُن سے کہتی: "آپ کیسے ایک انسان کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس کے خون کا سودا خدا نے کرلیا اور شہیدوں کے بارے میں ہمارے پاس حدیث قدسی موجود ہے، لکھی جانے والی  ایک کتاب کافی ہے؟ اگر آثار کفایت کرتے تو میں قانع ہوجاتی، میں اپنی جیب سے کیوں ان سفروں پر ملینوں خرچ کروں؟" خدا کے لطف و کرم سے اس کتاب کے چھاپ سے ، شہید نے بہت سی چیزوں کو ثابت کردیا اور میرے دل کی زخموں  کو شفا ملی۔

 

جب راوی حضرات آنے کیلئے تعاون  نہیں کرتے تھے، اُن کو کس طرح راضی کرتی تھیں، اُن کے واقعات قیمتی ہیں اور اُنہیں بیان کرنا چاہیے؟

صرف صبر،  دلیل دیکر، بار بار فون کرکے، دلائل کی تکرار اور شہید سے توسل کرکے۔ بعض راویوں سے کئی دفعہ التماس کرتی اور اُن سے کہتی: "تعاون کریں، مجھے دوبارہ سفر کرنے  اور خرچہ کرنے پر مجبور نہ کریں۔"

 

ان واقعات کو قلمبند اور ریکارڈ کرنے پر جو ذاتی خرچہ ہوا اُس کے بارے میں بتائیں۔

میں اس چیز کو حس کئے بغیر کہ شہید زندہ ہے،  اس حقیقت تک پہنچی کہ اگر کوئی خلوص کے ساتھ خدا کیلئے قدم اُٹھائے خدا بھی اُس کی مدد کرتا ہے۔ میں نہ مؤلفہ تھی اور نہ ہی حتی کوئی دیندار فرد تھی۔ شہید نے مجھے مذہبی اور دیندار بنا دیا۔ میں سن 2012ء میں پہلی دفعہ بوشہر گئی۔ میرے پاس سفر کیلئے واقعاً اخراجات نہیں تھے لیکن اس سفر میں مجھے اپنی ذمہ داری کا پتہ تھا۔ چونکہ میں اپنے ذاتی عقائد کی بنیاد پر یہ کام کرنا چاہتی  تھی، میں اپنے گھر والوں سے کوئی مطالبہ نہیں کرسکتی تھی۔ میں مجبور ہوئی کہ اپنی والدہ کی یادگار، سونے  کے ایک ٹکڑے کو بیچوں اور اپنے سفر کے اخراجات اٹھاؤں ، یعنی جس وقت میں ابھی شہید کے بارےمیں کچھ نہیں جانتی تھی میں نے اپنا سارا ذاتی سرمایہ اُس پر لگا دیا۔ اُس سفر کے بعد دوسرے اخراجات کیلئے میں مجبور تھی قرضہ لوں یا کسی اور طریقے سے پیسوں کا بندوبست کروں۔ میرے لئے اس شہید کو متعارف کروانا بہت اہم تھا۔ کتاب چھپنے کے بعد، مجھے ملنے والی کتابوں کے علاوہ، میں نے دو لاکھ تومان کی مزید کتابیں خریدیں اور اُنہیں پھیلایا اور تبلیغ کی۔

 

اس عرصے میں آپ کو جو تجربات حاصل ہوئے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے، واقعات قلمبند کرنے والوں کو کیا نصیحت کرنا چاہیں گی؟

اگر کوئی واقعات قلمبند کرنے میں، خاص طور سے شہداء کے بارے میں اعتقاد نہیں رکھتا اور اس میں اُس کی دلچسپی نہیں تو وہ کوئی قدم نہ اُٹھائے، چونکہ سچائی کا راستہ کٹھن ہے اور اگر راستہ آسان ہو تو وہ سچائی کا نہیں ہوسکتا۔ اس کام کیلئے غیرت، اعتقاد، خلوص، اور صبر کا ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی میں یہ خصوصیات نہیں اُسے اس راستے میں قدم نہیں اٹھانا چاہیے، حتی اُسے مضبوط ٹیکنک بھی آتی ہو۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ  یہ کام ہمیشہ باقی رہے گا یا بہت اعلیٰ مقام حاصل کریگا، لیکن شاید آئندہ آنے والی نسل رنج و دشواری کے ساتھ لکھی جانے والی تحریر کی قدر کو بہتر  طریقے سے جان لے۔ کیونکہ یہ عمل، کوئی مادی عمل نہیں تھا، معنوی تھا اور رنج و دشواری کے ساتھ معنوی عمل کبھی  خاک میں نہیں ملتا۔ میرا بہت دل چاہ رہا تھا شہید ماہینی کے واقعات کے تسلسل کو مکمل کروں اور شہید کے ایک دوست شہید اسماعیل کیان کے واقعات پر کام کروں، لیکن اس قدر دکھ درد اٹھائے ہیں اور دوسری طرف سے میرے پاس اس کام کیلئے کوئی بجٹ نہیں تھا، میں  منصرف ہوگئی اور یہ کام نامکمل رہ گیا۔ 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3554



http://oral-history.ir/?page=post&id=7584