انصار بٹالین کے سپاہیوں کی سالانہ نشست میں یادوں کا بیان

جنگ کے مصنف کی روایت کے مطابق محاذ کی مزاحیہ باتیں

مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-12-26


ایران کی زبانی تاریخ کی سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، 27 ویں محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن کی انصار  الرسول (ص) بٹالین کے شہداء کا 17 واں یادگار پروگرام اس بٹالین کے گروپ کمانڈروں کی یاد میں، 27 نومبر 2017 کو دفاع مقدس کے سالوں میں انصار بٹالین کے مجاہدوں اور اُن کے گھر والوں کی موجودگی میں، آرٹ گیلری کے اندیشہ ہال میں منعقد ہوا۔  اس پروگرام میں دفاع مقدس کے سالوں میں انصار الرسول (ص) بٹالین کے بہادروں میں سے داؤد امیریان اور حاج حسین گوران نے عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ کے دوران گزرے واقعات کو بیان کیا۔

 

خچروں کی بٹالین

داؤد امیریان جو اس وقت ملک میں جنگی مزاحیہ  داستانوں کے مصنف کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، انھوں نے انصار الرسول (ص) بٹالین کی 17 ویں یادگارِ شہداء نشست میں کہا: "جس وقت میں محاذ پر گیا، میں نوجوان تھا۔ پہلی دفعہ جب میں دو کوھہ کی چھاؤنی گیا، ہمیں کوآپریٹیو یونٹ میں بھیج دیا، کیونکہ ہم تازہ دم فوجی تھے۔ میں شروع میں تو یہ سوچتا تھا کہ شاید قرار یہ ہے کہ ہم ایک  دکان میں کام کریں اور میں کہتا کہ ہم محاذ پر سپاہی بننے آئے ہیں، لیکن انھوں نے ہمیں سامان اٹھانے پر لگا دیا ہے کہ چیزیں بیچیں اور پیکٹوں کو اِدھر سے اُدھر لیکر جائیں! جب بھی  "رزمی"(مارشل) بٹالینوں کے نام جیسے انصار، مالک اشتر یا حبیب مظاہر لئے جاتے، ہم سوچتے کہ ہمیں کراٹے یا کنگ فو آنا چاہیے تاکہ عراقیوں سے دو بدو  لڑائی میں ہم اُنہیں مار سکیں۔ بٹالین کے افراد بھی اس موضوع کے سلسلے میں ہمارے ساتھ مذاق کرتے؛ مثلاً ہم جاتے اور کہتے یہاں پہ کون سی بٹالین ہے؟ وہ لوگ جواب دیتے کہ تمہاری مارشل بیلٹ کس رنگ کی ہے؟ ہم کہہ دیتے کہ  ہمارے پاس کارتوس بیلٹ ہے اور ہمیں نہیں پتہ تھا کہ ہمیں کون سی بیلٹ باندھنی چاہیے، وہ لوگ جواب دیتے تم لوگوں کو ابھی کچھ نہیں آتا، جاؤ جاکر ٹریننگ حاصل کرو۔ ہمیں کافی عرصہ بعد پتہ چلا کہ وہ ہمارے ساتھ مذاق کر رہے ہوتے تھے ۔

 

بہرحال قسمت نے ساتھ دیا اور ہم میثم بٹالین میں چلے گئے۔ کربلائے 5 آپریشن کے مراحل کی دنوں میں سے ایک  12 جنوری 1987ء  کا دن تھا۔ اُن دنوں میں، میرے دوستوں میں سے ایک رضا تھا جس کے پتلے بازو تھے، اگر آپ انصار بٹالین کے پرانے افراد سے  پوچھیں، وہ اُنہیں حتماً یاد آجائے گا۔ ہم سہ راہ شہادت سے آگے  والے قلعہ میں تھے کہ بتایا گیا انصار بٹالین آگئی ہے۔ جس وقت انصار بٹالین ہمارے سامنے سے گزری،  اُن میں رضا بھی تھا۔ میں کھڑا ہوا اور ہم ایک دوسرے سے ملے۔ انصار بٹالین کے افراد گئے  اور فرنٹ لائن پر حملہ کیا۔ تقریباً آدھے گھنٹے یا چالیس منٹ بعد واپس پلٹے اور کہا کہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ رضا وہاں شہید ہوگیا تھا اور اُس کا جنازہ وہیں رہ گیا تھا۔ سر انجام چند مہینوں بعد قسمت   نے ساتھ دیا، میں جو کہ جوادیہ کے افراد کے ساتھ بھیجا گیا تھا، ہم انصار بٹالین میں شامل ہوگئے۔ انصار بٹالین بھی نئی نئی آپریشن سے واپس آئی تھی۔ اُس کے فوجی چھٹی پر گئے ہوئے تھے اور وہ نئے فوجی بھرتی کرنا چاہ رہی تھی۔ سب گئے ہوئے تھے اور فقط کچھ افراد جو ہم سے بدتر تھے اور اُنہیں کچھ نہیں آتا تھا، وہ باقی رہ گئے تھے۔ وہ ہمارے سروں پر سوار ہوگئے تھے، ہمیں بھی کچھ پتہ نہیں تھا اور ہم سمجھتے تھے کہ وہ ہمارے کمانڈر ہیں۔ اُن میں سے ایک کا نام سید مہدی تھا، اُس کا فیملی نام نہیں بتاؤں گا شاید آپ میں سے کچھ لوگ اُسے پہچان لیں۔ ہمیں اسٹور  میں بھیج دیا۔ اُس نے ہماری کھال اُدھیڑ لی۔ ہر رات ایک شور شرابہ ہوتا تھا! ایک عمارت تھی جس میں بٹالینز، ایکسچینج اور بٹالنیوں کے اسٹور تھے۔ وہ ہر رات آتا اور فائرنگ کرتا  اور اٹھک بیٹھک کرواتا، دروازے پر لات مارتا اور ہمیں باہر نکال دیتا۔ آہستہ آہستہ دوسرے یونٹ کے افراد کو اعتراض ہوا۔ پرانے سپاہیوں میں سے دو افراد، امیر ہوشنگ فتوحی اور محمد خوش طینت ہمارے ساتھ تھے۔ امیر ہوشنگ کو امیر گاندھی کہا جاتا تھا۔ وہ دبلے پتلے اور لمبے بھی تھے اور وہ اپنی پیشانی پر ایک تل بھی لگا لیتے۔ ایک رات ہم گئے تو ہم نے دیکھا  کہ امیر ہوشنگ، سید مہدی کے ساتھ رات کو ہونے والے اس مسئلے پر  بحث کر رہے ہیں۔ بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی اور ہمیں پتہ چلا کہ سید مہدی، کمانڈر نہیں ہے! خلاصہ ہم اُن کی لڑائی کی بیچ میں کودے تاکہ لڑائی جاری نہ رہے۔

جب چھٹی پر جانے والے بٹالین کے سپاہی واپس پلٹے، محمد بذر افشان ہمارے کمانڈر بنے اور دوسرے سینئرز جیسے شعبان سلیمی، محسن غنی یاری اور دوسرے سینئر کی مدد سے ہم تھوڑے منظم ہوئے۔ بٹالین میں جلال نام کا میرا ایک دوست تھا جسے گنگنانے کا بہت شوق تھا اُس کی اور مرغے کی آواز میں تھوڑا سا فرق تھا! ہمارے پاس ایک سید اور بھی تھے جنہیں ہم جوشیلے سید کہتے تھے۔ ان دونوں کو گنگنانے کا بہت شوق تھا۔  رات کو ہونے والے شور شرابہ کی وجہ سے ہماری نیند پوری نہیں ہوتی تھی  اور دوسری طرف سے یہ لوگ بھی ہر رات کو ہر مناسبت سے  کچھ نہ کچھ پڑھ رہے ہوتے؛ حضرت نوح کی ولادت کی شب، مسلم بن عقیل کی شہادت کی شب! اصغر کاظمی ہمارا رومیٹ تھا۔ وہ ایکسچینج یونٹ میں تھا اور بہت ہی شرمیلا آدمی تھا۔ ان تقریبوں میں وہ اپنے سر اور سینے کو پیٹ رہے ہوتے تھے اور وہ بھی ان کے رنگ میں ڈھلنے  پر مجبور تھا  ۔ ہم نے چند مرتبہ اُن کی پینٹوں پر گرم پانی اور اُن کے سروں پر سیاہی گرائی تاکہ وہ توبہ کرلیں اور ہمیں اتنا تنگ نہ کریں۔ وہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے، اس طرح سے کہ ہم کبھی صبح تک جاگتے رہتے اور دعائے توسل، دعائے کمیل اور دعائے جوشن کبیر کو ایک ساتھ پڑھتے! یہاں تک کہ ہمیں کرخہ کے علاقے میں لے گئے۔ ایکسچینج یونٹ جو ہمارے برابر میں تھا اور اصغر کاظمی جس میں کام کرتا تھا، وہاں پر ایک کمانڈر تھا جو سید مہدی سے بھی زیادہ دیوانہ تھا؛ اُس کا نام عباس تھا اور آج کل نیوزی لینڈ میں رہتا ہے۔ اُس کا قد چھوٹا تھا، وہ چھ جیبوں والی پینٹ پہنا تھا، اُس کے بالے سنہرے تھے اور وہ اپنی افسری پر بہت اتراتا تھا۔  اُن کا یونٹ بھی ہم سے بدتر تھا  اور اُنہیں ہمیشہ اٹھک بیٹھک کروائی جاتی۔ اُن کے یونٹ کا نام قمر بنی ہاشم یونٹ تھا ، ہم اُس یونٹ کو قمر مصنوعی کہتے اور وہ  ڈر جاتا! وہ بھی چاہتا تھا کہ رات کو شور شرابہ کھڑا کرے۔ ہم کرخہ  کے کیمپ میں تھے اور رات کو سو رہے تھے کہ ایک لال رنگ کی لائٹ پڑی اور ہمارا خیمہ پھٹ گیا۔ وہ عباس صاحب نیند سے اٹھ گئے تھے اور انھوں نے ایک گلابی گرنیڈ کو ایک سیمنٹ کی اینٹ میں رکھ دیا تھا۔ ہمارا اور ایکسچینج کا خیمہ مکمل طور سے تباہ ہوگیا تھا، بارش بھی ہو رہی تھی اور بہت سردی ہو رہی تھی۔"

 

جناب امیریان نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "طے پایا کہ ہم شاخ شمیران والے علاقے میں جاکر آپریشن کریں۔ ہم ایک صحرا کے پاس سے گزر رہے تھے کہ دیکھا وہاں پر کچھ خچر زخمی ہیں  اور اُنہیں پٹی باندھی ہوئی ہے۔ میرے لئے بہت عجیب تھا اور میں نے پوچھا کہ ان خچروں کا کیا معاملہ ہے؟ بتایا گیا کہ یہ ذوالجناح بٹالین  کے فوجی ہیں! یعنی یہ بات صحیح تھی اور یہ حیوانات اسلامی مجاہدین کی خدمت کر رہے تھےاور ان  کی ذمہ داری  سامان لادنا اور سامان کو اوپر نیچے لے جانا تھی۔ انھوں نے بتایا کہ ان میں سے بہت سے دوسری بار بھیجے جا رہے ہیں اور انہیں بہت تجربہ ہے! ان میں سے بہت سے حیوانات گولی اور شیل کی آواز کے بارے میں حساس تھے اور شیل کی سیٹی کی آواز  سنتے ہی، اس سے پہلے کہ ہم چھلانگ لگائیں یہ چھلانگ لگا دیتے۔ یہ بات میرے لئے بہت دلچسپ تھی اور میرے ذہن میں رہ گئی اور  کئی سالوں بعد  "خچروں کی بٹالین" نامی کتاب میں تبدیل ہوگئی۔

جس وقت  ہم شاخ شمیران پہنچے، ہر جگہ  پھول و بوٹے تھے۔ جب ہم صبح خیمے سے باہر نکلے، ایسا لگا جیسے جنت میں آگئے  ہوں، ہر جگہ سبزہ ہی سبزہ اور بہت ہی خوبصورت منظر تھا۔ ایک عبد اللہ نامی شہید تھا جس کی داڑھی بہت ہی خوبصورت تھی۔ ہماری عمر کم تھی اور ابھی داڑھی اور مونچھیں نہیں نکلی تھیں، طے پایا کہ وہ آئیں گے اور ہمیں توضیح دیں گے۔  ہم ہر طرف سے بے خبر ایک بلندی پر کھڑے  ہوگئے۔ وہ وضاحت دے رہے تھے  اور ہم دیکھ رہے تھے۔ ہم ایک لحظے کیلئے موڑے تو دیکھا عبد اللہ حسینی نہیں ہے۔ ہم سب کی طرف دیکھنے لگے اور پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟! ہم نے نگاہ دوڑائی اور اُنہیں  چند میٹر اُس طرف پایا کہ اُن کی پیشانی پر گولی لگی ہے اور وہ شہید ہوچکے ہیں۔ دشمن کے شکاری نے دیکھ لیا تھا کہ وہاں کچھ افراد موجود ہیں اور ایک آدمی جس کی داڑھی بڑی ہیں، اُن کے درمیان میں کھڑا ہے۔ اُس نے اپنی طرف سے سوچا لیا کہ یہ حتماً کمانڈر ہے اور اُنہیں مار دیا۔ ہم بھی اُسی وقت فرار کر گئے۔"

انھوں نے مزید کہا: "اُس زمانے میں ہم شریر بھی تھے اور ہمارے اندر ہمت بھی  کم  تھی۔ وہاں پر عبد الرحیم جمشیدی نام کے ایک صاحب تھے جو افغانی تھے وہ بہت ہی اچھے انسان اور شوخ طبیعت کے مالک تھے۔ وہ اکیلے ہی دوشکا اسلحہ کو کندھوں پر رکھ کر بلندیوں پر جاتے تھے۔ جب دشمن نے ہماری بٹالین کی طرف کیمیائی شیل مارے، لوگوں نے اُن کے ساتھ اتنا مذاق کیا ہوا تھا   کہ وہ یقین نہیں کر رہے تھے کہ واقعاً کیمیائی شیل مارے ہیں۔  وہ کیمیائی مرض میں مبتلا ہوگئے اور مدتوں ہسپتال میں تنہا رہے، کیونکہ اُن کے گھر والے افغانستان میں تھے۔ بالآخر وہ بھی شہید ہوگئے اور اُنہیں غربت کے عالم میں  ورامین میں دفنا یا گیا۔"

جناب امیریان نے کہا: "جنگ کے آخری دنوں میں ہمارا حوصلہ بڑھا نے کیلئے ہمیں کھانے میں مسلسل سوپ، زردہ، حلیم اور پائے وغیرہ دینے لگے اور  سینمائی فلم دکھاتے۔ جس زمانے میں جنگ ختم ہوئی، ہم سے کہا گیا: سلامتی کے ساتھ، اب آپ جاسکتے ہیں! ہم نے کہا ابھی تو ہم گرم ہوئے ہیں ، ہم جانا نہیں چاہتے، کہنے لگے مالک  بٹالین کو فوجیوں کی ضرورت ہے۔ ہم نے اپنی تنخواہ کا حساب کیا اور مالک بٹالین جو ہمارے پڑوس میں تھی، میں آگئے۔ ہم جناب سید مدنی سے بہت ڈرتے تھے، اُن میں بہت جوش و ولولہ تھا۔ ہم مالک بٹالین کے فوجی بن گئے اور وہ ابھی تک انصار بٹالین میں تھے، وہاں سے ابھی سب لوگ نکلے نہیں تھے۔ وہ صحن میں سوتے اور ہم صبح ہوتے ہی جان بوجھ کر اُن کے سراہنے آتے اور بلند آواز میں یا حسین کہتے اور اُنہیں اٹھا دیتے۔"

انھوں نے آخر میں کہا: "بٹالین کا ایک آدمی زخمی ہوگیا اور تیزی سے پیچھے کی طرف واپس آیا۔ اُس نے بتایا کہ جب اُسے ہسپتال میں ہوش آیا اور اُس نے اپنی آنکھیں کھولیں، وہ ایک سفید چادر کے نیچے تھا اور اُس کے آس پا س سے چیخنے چلانے  اور رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اُس کے ذہن میں آیا کہ وہ حتماً شہید ہوگیا ہے لیکن وہ متوجہ ہوگیا تھا کہ چیخنے کے ساتھ، گالی بھی دے رہے تھے: "اکبر تم مرجاؤ، اصغر تمہاری ماں مر جائے ․․․" اُس کی حالت صحیح نہیں تھی اور اُس نے کوشش کرکے تھوڑی سی چادر ہٹائی تو دیکھتا ہے کہ اُس کے آس پاس تقریباً بیس حاملہ عورتیں بیڈوں پر سو رہی ہیں۔ اُسے غلطی سے میٹرنٹی ہوم لے گئے تھے! وہ سوچنے لگا اب میں اپنے سر پر کون سی مٹی ڈالوں  اور اُسے جو تکلیف تھی وہ اُسے بھول گیا تھا۔ اچانک وہ عورت جو اُس کے ساتھ والے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی، اُس کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور چلانے لگتی ہے  کہ: ہماری مدد کرو، ایک بدمعاش یہاں آگیا ہے! عورتوں کو اپنا درد زہ بھول گیا تھا، وہ صرف اُسے گالیاں بک رہی تھیں!وہ اس بات پر خدا کا شکر ادا کر رہا تھا کہ عورتوں میں اُس پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں تھی، ورنہ وہ اُسی جگہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوجاتا! بالآخر ڈاکٹر اور نرسیں اُس کے سرہانے آئے اور ہنسنے لگے۔ کافی عرصے بعد تک اُس کی عیادت کیلئے جانے  والے زخمیوں اور سپاہیوں کو جب پتہ چلا کہ اُس کے ساتھ کیا ماجرا ہوا ہے ، وہ اُس کیلئے چوسنی، پھول اور دودھ کی بوتل لے جاتے۔ وہ آخر میں صرف وہاں سے فرار کرنے کی غرض سے بہت بری حالت میں محاذ پر آگیا تھا  اور دعا کرتا تھا کہ شہید ہوجائے تاکہ یہ  بے عزتی ختم ہوجائے!"

 

 

36 سال پہلے کا واقعہ

27 ویں محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن کی انصار  الرسول (ص) بٹالین کے شہداء کے 17 ویں یادگاری پروگرام میں دوسرے راوی حاج حسین گوران  تھے۔ انھوں نے کہا: "سن 1981ء میں، شہید مہدی غفار نظری کے والد حاج آقا غفار نظری کا ایک بھتیجا تھا جو آٹھ بٹالین کے افراد  میں سے ایک تھا۔ جناب جعفر عقیل محتشم، جناب قاسم قربانی اور انصار بٹالین کے افراد اُس موقع پر سرپل ذھاب میں تھے۔ ایک دن جناب غفار نظری نے کہا کہ:  میرے بھتیجے سعید نے سرپل ذھاب سے فون کیا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ہم کرمانشاہ جائیں اور وہ ہمیں ابوذر چھاؤنی لے جائے گا۔ میں اُن کے ساتھ کرمانشاہ گیا اور وہ  سعید ہمارے پاس آیا۔ ہمیں اسلام آباد کے مغرب سے گزر کر کرند کے مغرب میں جانا تھا اور وہاں سے سرپل ذھاب میں داخل ہونا تھا اور پھر ہم وہاں سے ابوذر چھاؤنی جاتے۔ جب ہم سرپل ذھاب پہنچے، ہم نے دیکھا کہ سعید بہت تیز رفتاری سے حرکت کر رہا ہے، اس طرح سے کہ کسی وقت بھی گاڑی اُلٹ جائے۔ ہم نے اُس سے پوچھا کہ اتنی تیز رفتاری سے گاڑی کیوں چلا رہے ہو؟ اُس نے کہا کہ: بلندیوں پر عراقی موجود ہیں اور جب ہم حرکت کر رہے ہوتے ہیں، ہمیں شیل مارتے ہیں۔ جس وقت ہم ابوذر چھاؤنی میں آٹھ بٹالین کے افراد کے پاس پہنچے، وہاں پر ہماری جناب حاج قاسم اور جناب محتشم سے جان پہچان ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کہ شہید غلام علی پیچک کچھ دنوں پہلے بازی دِراز کی بلندیوں  پر شہید ہوا ہے، اُس کا محترم جنازہ ابوذر چھاؤنی میں ہے۔"

27 ویں محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن کی انصار  الرسول (ص) بٹالین کے شہداء کا 17 واں یادگار پروگرام اس بٹالین کے گروپ کمانڈروں کی یاد میں، 27 نومبر 2017 ء کو آرٹ گیلری کے اندیشہ ہال میں منعقد ہوا۔ یہ پروگرام ہر سال دفاع مقدس میں شریک انصار بٹالین کے سپاہیوں اور اُن کے گھر والوں کی موجودگی میں منعقد ہوتا ہے۔ 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4112



http://oral-history.ir/?page=post&id=7552