محترمہ فاطمہ زعفرانی بہروز کے ساتھ گفتگو

مریم بہروز کی گرفتاری اور انقلاب کی خاطر سونا جمع کرنے کی داستان

ترجمہ: سید نعیم نقوی

2017-12-10


۱۹۷۸ء  کا سال اسلامی انقلاب کی گہما گہمی کا سال تھا جس میں عورتیں، مردوں کے شانہ بشانہ سرگرم عمل تھیں۔ ہمارا یہ انٹرویو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں، انقلاب اسلامی کے لئے تگ و دو کرنے والی خواتین کے کردار اور سرگرمیوں پر معلومات حاصل کی گئی ہیں۔ محترمہ فاطمہ زعفرانی بہروز انہی خواتین میں سے ایک نمایاں چہرہ ہیں جو ایک سرگرم رکن ہونے کے ساتھ، انقلاب کے لئے زمینہ فراہم  کرنے والے واقعات کی عینی شاہد بھی ہیں۔

ان کی ولادت سن ۱۹۵۹ء میں ہوئی اور یوں ان کا شباب انقلاب کے زمانے سے متقارن رہا ہے۔ اس وقت ان کی تین بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ لیکن اپنے اس بھرے گھر میں شاید ڈاکٹر مریم بہروز ہی ہیں جو نہ صرف انقلاب اسلامی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے والی خواتین کا حصہ رہی ہیں بلکہ نمایاں شخصیت کے طور  رہی ہیں۔ اسی وجہ سے ہم نے انٹرویو کے ایک حصے کو ان کی سرگرمیاں جاننے کے لیے مختص کیا ہے۔ محترمہ فاطمہ زعفرانی اسلامی انقلاب  کی کامیابی کے بعد انجینئرنگ، زراعت، مینجمنٹ اور زچہ بچہ کے شعبوں سے منسلک رہ چکی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ حوزوی دروس میں بھی فعالیت دکھا چکی ہیں ۔ انقلاب کے دوران بھرپور فعالیت دکھانے کے بعد مختلف شعبوں میں ایگزیکٹو کے عہدے پر فائز رہی ہیں۔ نیز گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مختلف مصروفیات جیسے شریعتی ہسپتال میں فیملی پلاننگ کی مسئولیت ، لیڈی ہیلتھ مراکز کے ادارے کی مرکزی معاون، مساجد کی نگرانی، ہلال احمر لیڈیز سیکشن کے رئیس کی مشاور اور ادارہ حفظان صحت برای زجہ بچہ کی ہیڈ ڈاکٹر مرضیہ وحید دستجردی کی مشاور  جیسی مصروفیات سے بھی وابستہ رہی ہیں۔ شدت پسند خواتین کیلئے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کی بنیاد ڈالنے اور پھر اسی پلیٹ فارم کے لیے کام کرنے والی شخصیات (اصول گرا) میں سے بھی ہیں۔ اور آج کل اپنے دفتر میں رجوع کرنے والوں کو بائیولوجیکل اور خانہ داری پر مشوروں سے نواز رہی ہیں۔

انٹرویو کے آغاز میں ہم نے محترمہ فاطمہ زعفرانی کے گھریلو امور پر بات  کی اور پھر اس کے بعد انکی اور انکی بہن کی طرف سے اسلامی انقلاب کی خاطر کی گئی جدوجہد پر گفتگو کی۔

 

سوال: محترمہ زعفرانی! پہلے تو آ پ یہ بتائیے گا کہ آپ کس قسم کے ماحول میں پروان چڑھی ہیں؟

جواب: میرے والد صاحب ایک سخت دیندار شخصیت کے مالک تھے ، بہت پڑھے لکھے نہیں تھے۔ انکا ایک چھوٹا سا کارخانہ تھا کوئی سرکاری نوکری نہیں تھی اسی وجہ سے مجالس اور مذہبی پروگراموں میں زیادہ وقت گزارتے تھے۔ تہجد گزار تھے۔ دینی مسائل پر بہت توجہ دیتے تھے، جو جانتے تھے اس پر عمل کرتے تھے۔ میری والدہ بھی ایک خانہ دار خاتون تھیں۔ میرے نانا، رضا شاہ کے زمانے میں پولیس میں تھے۔ اور کوئی خصوصی کام بھی ان کے ذمہ تھا چونکہ وہ سید تھے تو سب ہی ان کو آقا سید کہتے تھے ۔ جب رضا خان کی طرف سے حجاب کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان ہوگیا تو میری نانی گھر سے باہر بالکل نہیں نکلتی تھیں۔ انھوں نے اپنے لئے ایسی چادر بنائی تھی جسے وہ اپنے کمر سے باندھ لیتی تھیں اور پھر اس کے علاوہ ایک مقنعہ تھا جسے وہ اتنا کس کر باندھتی تھیں کہ کھینچنے سے بھی نہ اترنے پائے اور اگر کبھی کبھار انہیں حمام یا کہیں اور مجبوری سے جانا پڑتا تھا تو اس طرح کی چادر اوڑھ کر جاتی ھیں۔ اسی طرح ایک دن باہر گئیں اور پولیس والے آگئے، انھوں نے ان کے سر سے چادر کھینچنا چاہی تو کھینچ نہ سکے، بالآخر انھوں نے بالوں سمیت چادر کو کھینچنا شروع کیا جس کے نتیجے میں سر کی کھال زخمی ہوگئیں۔ جب گھر آئیں تو نانا کو سارا ماجرا بتایا۔ نانا نے فوراً کہا اب ایسی حکومت کی نوکری کرنا حرام ہے جو لوگوں کی بہنوں، بیٹیوں کو زبردستی خدا کے دین سے جدا کرے۔ میں اب نوکری نہیں کروں گا اور پھر انھوں نے فوراً استعفی بھی دیدیا۔

 

سوال: استعفی؟ کہاں سے؟

جواب:اس وقت کے پولیس ادارے سے، بہرحال ہمارے گھر کے اس ماحول نے ہم پر اثر ڈالا۔ موجودہ حالات شاہ کے زمانے سے یکسر مختلف ہیں۔ جیسے ابھی آپ نے سنا لیکن درک نہیں کر پائے کہ کس قسم کے سخت حالات تھے۔ حجاب اور دوسری اخلاقی اقدار کا کوئی پاس نہ تھا،  حکومت خود ایسے حالات پیدا کر رہی تھی۔ مثلاًٍ ہمارے گھر میں ٹی وی نہیں تھا یعنی اس وقت مذہبی گھرانوں میں ٹی وی نہیں ہوتا تھا۔ خود حکومتی نگرانی میں بے حیائی پھیلائی جا رہی تھی۔ دین کا قلع قمع کیا جا رہا تھا۔ اس دور میں محمد  رضا نے سروں  سے حجاب کھینچنے کا حکم تو نہیں دیا تھا لیکن حکومت کی طرف سے غیر محسوس انداز میں جو نشرو اشاعت کی جاتی تھی اس کے نتیجے میں جوان طبقہ دین کو بیکار سی شے سمجھتا تھا۔ دین، مذہب، عقائد اور مذہبی مقدسات کا تقدس ختم ہوچکا تھا۔ مثلاً حجاب اور چادر کو روشن فکری کے مخالف سمجھا جاتا تھا۔ گویا چادر پرانے زمانے کے لباس کا حصہ بن چکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ نوجوان اور جوان لڑکے لڑکیاں جب باہر آتے تھے تو زیادہ سے زیادہ خود آرائی اور فیشن کرکے آتے تھے۔ الغرض اس دور کا حکومتی نظام اس طرح کا ماحول ایجاد کر رہا تھا اور مذہبی زندگی گزارنا انتہائی سخت کام تھا، مثال کے طور پر جب ہم اسکول جاتے  تھے تو دیکھتے تھے کہ طالب علموں کی کیا حالت تھی۔ چال چلن بھی اچھا نہیں تھا اور اکثر کے تو گھر سے باہر  نامناسب رابطے ہوتے تھے اور یہ ایک عام سی بات تھی لیکن چونکہ ہمارے گھر کا ماحول مذہبی اور اخلاقی تھا اس وجہ سے ہماری بہن کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ ہمیں اپنی کلاس میں ساتھ لے جائے۔ ہماری مذہبی تربیت کچھ اس انداز سے ہوئی تھی کہ ہم خود  عقائد اور اخلاقیات کو اپنے وجود میں محسوس کرتے  تھے اور ہم نے حجاب کو دل سے قبول کیا تھا اور اس وقت  بھی ہم چادر کو حجاب کے طور پر استعمال کرتے تھے اور حجاب  اور چادر کے ساتھ اسکول جانے کا خیال اس قدر ہماری فکر میں راسخ ہوچکا تھا کہ ہمیں حجاب یا چادر بالکل بھی بری نہیں لگتی تھی۔ اصلاً ہمیں معمولی سا بھی احساس کمتری  نہیں ہوتا تھا کہ ہم حجاب میں نرالی اور انوکھی لگ رہی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ایسے نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اسکول میں بعض اوقات ٹیچر غیر مذہبی مسائل اور شبہے چھیڑ دیتی تھیں تو ہم خود بخود ان سے بحث کرتے تھے۔

 

سوال: ظاہراً یہ لگتا ہے کہ آپ کی زندگی کو صحیح رُخ دینے خصوصاً عقائد کی اصلاح کرنے میں مرحومہ ڈاکٹر مریم بہروزی کا اہم کردار  رہا ہے؟

جواب:  ہمارا اصل کام انقلاب کے دوران سے ہی شروع ہوا۔ میں ایک مذہبی گھرانے کی تربیت یافتہ تھی اور میری بہن محترمہ  بہروزی مبلغہ تھیں اور چونکہ وہ سب بہن بھائیوں میں بڑی تھیں اس لئے  گھر کے سب ہی افراد ان کی بات مانتے تھے۔ اور بہن کی بھی یہ خواہش ہوتی تھی کہ ہم صاحب عقیدہ مومن بنیں۔ وہ آیت اللہ سعیدی اور آقای نوری کی شاگرد ہونے کی وجہ سے سیاست کی وادی میں بھی آگئیں۔ حوزوی درس بھی انھوں نے پڑھا ہوا تھا۔ ہماری نظرمیں انکا مقام زیادہ تھا کیونکہ ایک طرف سے ہماری بڑی بہن تھیں اور دوسری طرف سے نظریاتی اور اعتقادی اعتبار سے بھی ہم سے بڑھ کر تھیں۔ وہ اپنی نشستوں میں ہمیں ساتھ لے کر جاتی تھیں۔ ہم اپنی کلاسوں میں عربی، احکام ، تفسیر، قرآن اور تجوید تو اُن سے پڑھت ہی تھے لیکن  اس کے ساتھ ساتھ ان کی تقاریر سننے بھی جاتے تھے۔

 

سوال: وہ خانم بہروزی کہلواتی تھیں اور آپ خود کو زعفرانی کہلواتی ہیں۔ یہ کیسے ؟ جب کہ آپ دونوں سگی بہنیں ہیں؟

جواب: جب خانم بہروزی نے کام کرنا شروع کیا اور تبلیغی جلسے کرنے لگیں تو لوگ خود ہی انہیں خانم بہروزی کہنے لگے اور یوں وہ اسی نام سے مشہور ہوگئیں اور یہ "بہروزی" کا لفظن ان کے نام کا حصہ بن گیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا خاندانی نام "زعفرانی بہروز" ہے۔

 

سوال: اچھا یہ بتایں کیا خانم بہروزی کی تقریریں مختلف جگہوں پر ہوتی تھیں؟

جواب: جی ہاں، تہران میں ہوتی تھیں اور زیادہ تر گھروں میں  ہی خواتین کے یہ پروگرام رکھے جاتے تھے کیونکہ شاہ کا زمانہ تھا۔ البتہ کبھی کبھی امام بارگاہوں اور مساجد میں بھی یہ پروگرام منعقد ہوتے تھے۔ ہم نے وہ وقت ان کے ساتھ گزارا ہے۔ یہاں تک کہ ۱۹۷۶، ۷۷ میں جب ہم مڈل اسکول میں پڑھتے تھے  اور ان مسائل کے بارے میں تھوڑی بہت سمجھ بوجھ آگئی تھی تو ان کے ساتھ رہنے اور اردگرد  کی سیاسی – ثقافتی سرگرمیوں کے ماحول کی وجہ سے ہم میں بھی سیاسی فعالیت کے رجحان نے جنم لینا شروع کردیا تھا۔ اور اس وقت جو مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا وہ امام خمینی کی توضیح المسائل کے حوالے سے تھا۔ یعنی جس کے پاس بھی امام کی توضیح المسائل ہوتی تھی  اسے حکومت مخالف سمجھا جاتا تھا  اور خود اُن (حکومتی افراد) کے بقول ان کو "تخریب کار" کہا جاتا تھا۔ تو خانم بہروزی کے پاس بھی امام کی توضیح المسائل اور دوسری سیاسی کتابیں تھیں اور ان کے شوہر بھی انہیں کے ہم خیال تھے اور دکان میں امام کی توضیح المسائل اور دوسری کتابیں رکھا کرتے تھے۔  خیر تو بہرحال ہمارا نوجوانی کا زمانہ یوں گزرا ...

 

سوال: کیا آپ اپنی بہن سے بہت زیادہ متاثر تھیں؟

جواب:جی ہاں، ہم نوجوانی اور جوانی میں ان کی کلاسوں اور نشستوں میں شرکت کرتے تھے۔ وہ خود دیندار شخصیت تھیں اور ینی اور اخلاقی مسائل کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ خیر میں نے انقلاب کے نزدیک ہی ڈپلومہ حاصل کیا اور پھر میں نےیونیورسٹی، یونیورسٹی ٹیچرز اور  کرج یونیورسٹی کے لئے انٹرویو ٹیسٹ دیئے تھے جن میں، میں پاس ہوگئی۔

 

سوال: آپ کس سال پاس ہوئیں؟

جواب: یہ ۱۹۷۷ ، ۷۸ کی بات ہے اور اگلے ہی سال ٹیچرز کالج میں اسٹوڈنٹس کو داخلہ ملتے ہیں اسٹوڈنٹ ٹیچر بن جاتا تھا۔  یعنی  ایجوکیشن کا استاد بن جاتا تھا۔ ہاں البتہ دو سال کا تربیتی کورس کرنا پڑتا تھا پاس ہونے کی صورت میں ایجوکیشن ٹیچر بن جاتے تھے۔

 

سوال : کس مضمون میں؟

جواب:یونیورسٹی میں میرا سبجیکٹ ریاضی تھا لیکن ٹیچرز کالج میں کوئی خاس سبجیکٹ نہیں تھا  صرف ٹیچنگ ہوتی تھی۔ دو سال کی پڑھائی کے بعد سند ملتی تھی۔ البتہ یہ سب ایک ساتھ نہیں چلتا تھا۔ جس سال میں ٹیچرز کالج کے ٹیسٹ میں پاس ہوئی اس وقت انٹرویو دینا بھی ضروری تھا۔ شاہ کے زمانے میں انٹرویو میں یہی دیکھا جاتا تھا کہ انٹرویو دینے والا کس حد تک دین کا مخالف ہے۔ بے اخلاق ہے جو جتنا دین سے دور ہوتا تھا اس کے پاس ہونے کے امکانات ا سی قدر زیادہ ہوتے تھے۔ اس کے ظاہر کو بھی پرکھا جاتا تھا یعنی ان کے ہاں شرط یہ تھی کہ عورت بغیر چادر کے انٹرویو دینے آئے اور یہ سب اُس وقت کی حکومت کے لیے ایک عام سی بات تھی۔ اس وقت ایک مذہبی گھرانے کے بچوں کو جس  شعبہ میں جانے کی اجازت ملتی تھی وہ فقط ایجوکیشن کا شعبہ تھا اور میڈیکل میں جانے کے مواقع بہت کم تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ اس  وقت مذہبی گھرانے خود بھی نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بچے یونیورسٹی جائیں یا حکومتی اداروں اور کمپنیوں میں کام کریں۔ لے دیکر اسی ایجوکیشن کیلئے ہی دو طرفہ رضایت ملتی تھی اور جب میں انٹرویو دینے گئی تو دیکھا کہ مذہبی لڑکیاں بھی آئی تھیں۔ جب ایک ایک کرکے ان کی انٹرویو کی باری آتی تھی وہ چادر اُتار کر بیگ میں ڈالتی اور پھر انٹرویو کیلئے جاتی تھیں۔

میں نے ایک سے پوچھا : کیوں ایسا کرتی ہو؟ تو اس نے کہا: ہمیں پاس ہونا ہے۔ اگر چادر کے ساتھ جائیں تو فیل ہوجائیں گے۔ میں نے کہا: تو ہوجائیں فیل۔ آپ کا حجاب زیادہ ضرورت ہے۔ یہ ضروریات دین میں سے ہے۔ اس نے کہا: نہیں ، اب ایسا بھی نیہں ہے۔ ہم دس پندرہ منٹ کے لئے ہی چادر اتارتے ہیں۔ انٹرویو کے بعد دوبارہ اوڑھ لیتے ہیں۔ اس میں ایسی  کیا بات ہے۔ یعنی اس وقت لوگوں کی ذہنیت اور فکر اس طرح کی تھی۔ پھر میں نے اس سے کہا: "یہ کیا بات ہوئی، جو بھی ہو ہمیں اس چادر کے ساتھ اندر جانا چاہیے اور بس۔" خیر جب میری باری آئی اور میں اندر گئی تو میں نے دیکھا کہ انٹرویو لینے کیلئے ایک میز کے دائیں بائیں ایک ایک مرد اور بیچ میں ایک عورت بیٹھی تھی۔ اس عورت نے بھی فل میک اپ کر رکھا تھا۔ بال بنے ہوئے تھے۔ نہ پاؤں میں موزے اور نہ ہاتھوں میں آستین۔ اور اس وقت ٹیچرز بھی عموماً کلاس میں اسی حالت میں آتی تھیں۔ لگتا تھا ابھی ابھی بیوٹی پارلر سے آرہی ہیں۔ اور شادی میں جا رہی ہیں۔ اور واقعی ہماری پرنسپل جب اسکول آتی تھی تو دیکھ کر پہلی ہی  نگاہ میں یوں لگتا تھا جیسے انہیں ابھی شادی میں جانا ہے۔ خیر جب انٹرویو  دینے  کے میری باری آئی تو میں اندر گئی ۔ اندر بیٹھی خاتون نے مجھے دیکھتے ہیں کہا: "چادر اتار دو"  میں نے کہا: کیوں! خیریت! اس نے پھر کہا: "چادر اُتار دو" میں نے کہا "آخر کیوں؟" حالانکہ میں جانتی تھی کہ  وہ کیا کہہ رہی ہے لیکن میں انجان بن گئی۔ میں نےکہا: محترمہ! میں ٹیچنگ اپلائی کیلئے انٹرویو دینے آئی ہوں، اس سے چادر  کا کیا تعلق؟ یہ سن کر اس نے فوراً مجھے ریجیکٹ کردیا لیکن جو دو مرد حضرات بیٹھے تھے ان میں سے ایک، جو ذرا مذہبی لگتا تھا، اور حجاب کا طرفدار بھی معلوم ہوتا تھا لیکن ظاہر نہیں کر رہا تھا، اس نے مجھے مخاطب کرکے کہا: "بیٹی! تم یوں سمجھو جیسے میں تمہارے والد کی جگہ پر ہوں اور تم سے چادر اُتارنے کا کہہ رہا ہوں" میں نے جواب دیا کہ "اسلام نے کہیں یہ نہیں کہا کہ جو شخص تمہارے باپ کی جگہ  پر ہو اس کے سامنے چادر اُتار دو۔ میں نے اسلام کے حکم کے مطابق چادر اوڑھی ہے۔ اب سامنے باپ ہو یا کوئی اور، اس سے فرق نہیں پڑتا ہے۔: یہ سن کر اس خاتون کو بہت غصہ آیا لیکن وہ مرد بہت محظوظ ہوا۔ وہ اس خاتون کی طرف مڑا اور ہنستے ہوئے بولا: دیکھئے میڈم! یہ ہے آج کی جوان نسل جو اپنے ماں باپ سے کس قدر آگے جا رہی ہے۔"

حقیقت میں اس شخص کی یہ خواہش تھی کہ میں انٹرویو میں پاس ہوجاؤں۔ جبھی تو اس کی بات سنکر اس خاتون نے تند لہجے میں پوچھا: "وہ کیسے؟" تو اس شخص نے جواب دیا کہ بہرحال ہم اپنے والدین سے پیچھے ہیں اور یہ نسل آگے  ہے" خیر، انھوں نے مجھ سے انٹرولیا۔ دیگر انٹرویوز کی طرح اس انٹرویو کے سوالات بھی خاص نوعیت کے حامل تھے۔ انٹرویو کے بعد اس شخص نے مجھ سے کہا: جاؤ اپنی اسناد لے آؤ۔ گویا وہ دل سے چاہ رہا تھا کہ میں پاس ہوجاؤں۔ انھوں نے کوئی  بات نہیں کی۔ میں نے اسناد لاکر دے دیں۔ اس شخص نے کہا کاش اس انداز میں تم بات نہ کرتیں۔ میں نے کہا: "کیوں نہ کرتی، میں نے اپنے عقائد کا دفاع کیا ہے اور میں ایسے موقع پر خاموش نہیں رہ سکتی۔ مختصر یہ کہ اس   کے بعد ہم لوگ وہاں آگئے۔ اور جس دن انٹرویو کے نتائج کا اعلان ہونا تھا ، اس دن میں بھی گئی تو پتہ چلا کہ میں فیل ہوگئی جب کہ مثلاً بے حجاب قسم کی لڑکی جو سرعام چیونگم چباتی ہو، نیل پالش لگا کر گھومتی ہو۔ بال بنا سنوار کر باہر آتی ہو وہ پاس ہوگئی۔ مثلاً یہ ٹیچر بننا چاہتی تھی اور اس طرح کی لڑکیوں کو بھرتی کرنا اُس وقت کی حکومت کی پالیسی تھی۔ حکومتی نظام میں بیٹھے افراد یہ چاہتے تھے کہ استاد کے عنوان سے کوئی بھی ایسا مرد یا عورت بالکل آگے نہ آنے پائے جو ان کے خیال کے مطابق بچوں کے اذہان  میں بگاڑ پیدا کرے۔ بہرصورت میں اس انٹرویو میں پاس نہیں ہوئی۔

میرے خیال میں یہ وہی زمانہ تھا جب انقلابی محاذ آرائیاں نئی نئی شروع ہو رہی تھیں ... جی ہاں، ماہ مبارک رمضان تھا اور چھوٹے پیمارنے پر مخفی انداز میں حوزے کی رہنمائی میں مظاہرے شروع ہوچکے تھے اور اسی طرح انقلاب کی آہٹ مسلسل سنائی دیتی تھی۔

 

سوال: آپ نے فرمایا کہ انقلاب کے نزدیکی زمانے میں آپ کا کرج یونیورسٹی میں داخلہ ہوگیا تھا کیا پھر آپ نے وہاں تعلیمی سسلسلہ شروع نہیں کیا؟

جواب: جی ہاں، میں یونیورسٹی میں پاس ہوگئی تھی، اخبار میں بھی میرا نام چھپا تھا لیکن عین انہی دنوں کچھ اتفاقات رونما ہوئے۔ مسجد قبا میں ہونے والی محترمہ مریم بہروزی کی تقاریر اب مکمل طور پر سیاسی تقاریر ہوتی تھیں۔ یعنی اب وہ قرآن مجید کی تفسیر کے ساتھ ساتھ سیاسی موضوعات پر بھی بحث کرتی تھیں۔ ان کی بڑی بیٹی، مجھ سے چار سال چھوٹی ہے۔ ہم دونوں ساتھ جاتے تھے، جو گاڑی محترمہ بہروزی کو لینے آتی تھی ، اس گاڑی میں، میں، محترمہ بہروزی کی بیٹی اور میری بھابھی ساتھ جاتی تھیں۔ البتہ بھابھی کے ساتھ ایک اور خاتون بھی تھیں جو جلسوں میں شرکت کے علاوہ محترمہ بہروزی کی معاونت کے فرائض بھی انجام دیتی تھیں۔  ایک Fiat گاڑی محترمہ بہروزی کے لئے آتی تھی۔ یہاں تک کہ محترمہ بہروزی نے سات آٹھ دن تقریر کی۔ خدا مغفرفت کرے جناب شہید مفتح کی، جنہوں نے محترمہ بہروزی کو خطاب کرنے کیلئے وہاں دعوت دی تھی۔ مسجدمیں اچھے خاصے لوگ آتے تھے یعنی مرد و خواتین سے مسجد کھچا کھچ بھر جاتی تھی۔ اس پر بھی روز بروز رش بڑھ رہا تھا۔ نویں دن محترمہ بہروزی  کا خطاب سیاسی مسائل اور شاہ سے متعلق بحث پر مبنی تھا۔ ساواک ایجنسی کے افراس اس جلسے میں موجود تھے۔

جلسے کے اختتام پر واپسی کے وقت میں، محترمہ بہروزی، ان کی بیٹی ، انکی معاون خاتون محترمہ پاشائی اور میری بھابھی ہم سب لوگ گاڑی بیٹھ گئے۔ ہماری (Fiat) گاڑی اچھی حالت میں تھی، تین افراد پیچھے بیٹھے اور میں اور میری بھانجی  آگے بیٹھ گئیں۔

 

سوال: یہ واقعہ جو آپ سنانے جا رہی ہیں ، یہ کس سال کا واقعہ ہے؟

جواب:رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور اگست ۱۹۷۸ء کی بات ہے۔ واپسی کے لئے جو ں ہی ہم لوگ گاڑی میں سوار ہوئے تو کیا دیکھا کہ ایک سیاہ رنگ کی  نئے ماڈل کی گاڑی جس کے اوپر انٹینا لگا ہوا تھا ہماری گاڑی کے برابر میں آکر رکی، ہمارا ڈرائیور ایک دیندار اور شرمیلا (با ادب) شخص تھا۔ خیر ہم اپنی گاڑی میں  سوار ہوئے اور گاڑی چل پڑی۔ ڈرائیور نے اچانک دیکھ لیا کہ وہ گاڑی ہمارا پیچھا کر رہی ہے۔ ہمارے ڈرائیور نے بھی گلی کوچوں سے نکل جانے کی کوشش کی لیکن اچانک ایک اور گاڑی ہمارے سامنے آگئی۔ اب ہم دونوں گاڑیوں کے بیچ میں تھے۔ وہ لوگ محترمہ بہروزی کو گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ گاڑی روکتے ہی تین افراد اترے۔ ایک نے ہمارے ڈرائیور کو اُتار کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور باقی دو ہماری گاڑی کی پچھلی سیٹ کے دونوں طرف (دائیں بائیں) آکر بیٹھ گئے۔ اب آپ خود سوچیں ان کے دائیں بائیں آکر بیٹھنے سے ہمارے لئے کتنی جگہ بچی ہوگی۔ خیر، وہ لوگ ہمیں لے گئے یعنی واقعی محترمہ بہروزی گرفتار ہوچکی تھیں۔ ہم چار افراد سے انہوں نے کہا کہ ہم اپنی چادریں اپنے چہروں پر ڈال لیں اور پھر بالاخر اسی حالت میں ہمیں ایک کمرے میں لے گئے۔

 

سوال: کیا یہ لوگ آپ کو مشترکہ کمیٹی کے آفس لے گئے ؟

جواب: جی ہاں بالکل، ہم وہاں پہنچے، جاکر بیٹھ گئے۔ وہ لوگ فرداً فرداً ہماری تفتیش کرنا چاہتے تھے وہ بھی اس بات پر کہ ہم نے محترمہ بہروزی کے خطاب میں شرکت کی تھی۔  میں اور محترمہ بہروزی کی بیٹی، چونکہ ہم لوگ کمسن تھے اور ذرا بہادر بھی، تو اس سارے معاملے کو سیریز نہیں لیا۔ ہم نے کہا: خیریت؟ یہ لوگ کیوں ایسا کر رہے ہیں ہمارے ساتھ؟ خیر وہ ایک ایک کرکے سب کو تفتیش کے لئے لے گئے۔ بعد میں میری باری بھی آگئی۔ جب میں اندر گئی تو دیکھا تفتیش کرنے والا آدمی جو انتہائی موٹا تھا اور اس کی نشیلی اور خماری آنکھیں بتا رہی تھیں کہ اس نے شراب پی ہوئی ہے۔ وہاں تمام تفتیش کرنے والوں کو "ڈاکٹر" کہا جاتا تھا۔ میں جاکر بیٹھی تو اس نے سوال کیا: "تمہاری عمر کتنی ہےَ" میں نے کہا: "۱۸ سال"۔ اس نے پوچھا: کرتی کیا ہو؟ میں نے جواب دیا: ابھی ڈپلومہ حاصل کیا ہے اور حال ہی میں یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہوا ہے۔

اس نے کہا: "تو تمہارا یہاں آنا جانا زیادہ ہے۔ اتنی تمہاری عمر نہیں جتنی بار تمہاری فائل آچکی ہے۔ آج کے بعد تمہیں اس سے بھی زیادہ یہاں کے چکر کاٹنے پڑیں گے" پھر اس نے چند ایک مختصر سوالات کیئے اورمجھے باہر جانے کا کہا۔

 

سوال: کیا آپ کو اس تفتیش کرنے والے کا نام یاد ہے؟

جواب: بالکل نہیں، بلکہ نام تو ہمیں بتایا ہی نہیں جاتا تھا۔ بس اتنا تھا کہ ایک انتہائی موٹا اور ادھیڑ عمر کا شخص تھا جس نے شراب پی رکھی تھی۔  ہمیں وہاں سے ایک اور جگہ لے جایا گیا اور یہ تعہد لیا گیا کہ ہم دوبارہ ایسے جلسوں میں شرکت بھی نہ کریں اور شاہ کے خلاف بھی کوئی کام نہ کریں۔

پھر انھوں نے خود ہی کاغذ پر کچھ لکھا اور ہم سے دستخط لئے۔ جس کے بعد ہم لوگ باہر آگئے۔ عصر ہوچکی تھی۔ میں تھی اور میری بھابھی، ہم نے ٹیکسی پکڑی اور گھر آگئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ محترمہ بہروزی نہیں آئیں۔ وہ گرفتار تھیں اور ۱۷ دن جیل میں رہیں۔ وہ دن ہمارے لئے انتہائی سخت تھے۔ ہم دن رات ایک کرکے کام کرتے تھے۔ جوں ہی ہم گرفتار ہوئےعین اسی وقت ساواک کے افراد ہمارے گھر بھی گئے تھے لیکن خواتین نے جلد ہی میری والدہ کو اطلاع دیدی تھی جس کا فائدہ یہ ہوا کہ گھر میں موجود تمام کتب اور کیسٹیں گھر والوں نے پڑوسیوں کے گھر میں لے جاکر گڑھا کھود کر دبا دی تھیں۔ ساواک کے لوگوں نے چپہ چپہ چھان مارا لیکن خالی ہاتھ واپس گئے۔

 

سوال: تو کیا ان دنوں میں آپ کو اپنی بہن کے حوالے سے کچھ خیر خبر نہیں تھی؟

جواب:نہیں، بالکل بھی علم نہیں تھا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ ہم لوگ بہت پریشان تھے لیکن جلد ہی انہی کے ایک شاگرد، کہ جس کی افسر :سجدہ ای" کے ساتھ جان پہچان تھی، نے کہا کہ میں ملاقات کی کوئی سبیل نکالتا ہوں۔ جن دنوں یہ ملاقات ہونا تھی عین انہی ایام میں حکومتی مشینری نے آبادان کے "روکس" سیمنا کو آگ لگوائی تھی جس میں وہاں پر موجود بہت سے لوگ جل گئے۔ اس قبیح عمل سے حکومت کا مقصد یہ تھا کہ عوام کے جذبات کو بھڑکایا جائے اور پھر اس سانحہ کی ذمہ داری مذہبی گروپوں اور انقلابی ٹولوں پر ڈال دی جائے لیکن اخبار میں جب یہ سب چھپ گیا تو حضرت امام اور دیگر سرگرم افراد نے یہ کہہ دیا تھا یہ ان کا اپنا کام ہے ۔ آفسر "سجدہ ای" اسی بات پر تو برہم تھا۔ جبھی تو ہم جب ملاقات کے لئے گئے تو اس افسر نے ہم سے کہا کہ "ہم سے یہ کہہ رہے  ہیں کہ یہ ہمارا کام ہے یعنی سینما کو آگ ہم نے لگائی ہے" خیر ہم گئے اور جاکر بیٹھ گئے۔ محترمہ بہروزی کو ملاقات کے لئے لایا گیا۔ میں نے دیکھا کہ محترمہ نے ایک پاجامہ، حجاب کی خاطر سر پر رکھا ہوا تھا۔ یعنی پاجامے کا نچلا حصہ سر پر تھا اور اوپر والا حصہ  پکڑا ہوا تھا۔ چونکہ وہاں پر حجاب یا چادر کے ساتھ رہنے کا تصور تک نہیں تھا اس لئے انھوں نے حتی الامکان حجاب کا پاس رکھنے کی کوشش کی ہوئی تھی۔

 

سوال: کیا محترمہ بہروزی کو مشترکہ کمیٹی دفتر سے کہیں اور نہیں لے کر گئے؟

جواب:نہیں، ان دنوں تو وہیں تھیں لیکن بعد میں انہیں آوین لے گئے تھے۔ ہم لوگ وہاں بیٹھے، کچھ بات جیت ہوئی۔ محترمہ بہروزی  کے چار بچے تھے۔ ان دنوں ان کے چھوٹے بچے کا پاؤں جلا ہوا تھا۔ میرا اور ان کا سوچنے کا انداز ملتا لتا تھا۔ احساسات تقریباً ایک جیسے تھے۔ محترمہ نے اس دن  مجھے کہا کہ یونیورسٹی مت جاؤ۔ میرے بچوں کی دیکھ بھال کرو۔ میں نے کہا: جی کیوں نہیں لیکن آپ خود بھی واپس آئیں گی ناں۔ تو اس دن واپس آگئے ہم لوگ۔ اور پھر میں رجسٹریشن کی غرض سے یونیورسٹی بھی نہیں گئی کیونکہ ایک تو تفتیش کرنے والے نے بھی کہہ دیا تھا کہ میری فائل اوپر تک جاچکی ہے اور دسرا یہ کہ میرا اپنا بھی دل کچھ اُچاٹ ہوگیا تھا، دلچسپی نہیں رہی تھی سوچا بعد میں اگر ممکن ہوا تو دوبارہ انٹری ٹیسٹ دے دونگی۔ بس پھر یونیورسٹی جانے کا ارادہ ترک کردیا اور پھر رمضان المبارک کے آخر میں محترمہ بہروزی کو  آزاد کیا گیا۔

 

سوال: کیاآپ نے اس مشہور و معرف ریلی میں شرکت کی جو ۱۹۷۸ء میں عید فطر کے موقع پر نکالی گئی؟

جواب: نہیں، ہم قیطریہ کی اس تاریخی ریلی میں شرکت نہیں کرپائے تھے لیکن شہر میں فضا اُسی جیسی تھی، ریلی کی خبریں ہمیں موصول ہو رہی تھیں۔ اس وقت محترمہ بہروزی رہا ہوئی تھیں لیکن سختی سے تحت نظر تھیں۔ ان کی رہائش ہم سے ایک گھر کے فاصلے پر تھی۔ ہم بھی ھد سے  زیادہ مصروف تھے یعنی جب وہ گھر آئیں تو ان سے ملنے کے لئے آنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ ان کے شاگرد منت کے طور پر ذبح کرنے کیلئے اس قدر دنبے لائے تھے کہ ہمیں کہنا پڑا کہ ہم کتنے دنبے کاٹیں گے اور کتنے پکائیں گے۔ تو پھر انھوں نے خود ہی ذبح کرنا شروع کردیئے۔ ان کے گھر میں لوگ جوق در جوق آ جا رہے تھے۔ ماہ مبارک رمضان کے آخری ایام میں ہماری بس یہی مصروفیت تھی حتی عید الفطر کے دن بھی یہی سلسلہ جاری رہا۔ لوگ عید کی نماز کے بعد سیدھا محترمہ بہروزی کے گھر کا رُخ کر رہے تھے۔ اس وقت عید کی نماز شہید مفتح نے قیطریہ میں منعقد کروائی تھی۔

 

سوال: کیا آپ کا گھر مسجد کے نزدیک تھا؟

جواب: نہیں۔ ہمارا گھر اسکندری روڈ پر تھا ، کافی دور تھا۔ تقریباً مرکز شہر سے بھی نیچے ، جنوب مغرب کی طرف۔ مطلب اگرچہ فاصلہ بہت تھا لیکن لوگ مسلسل آرہے تھے۔ محترمہ بہروزی کے خطاب کا پروگرام فقط تہران شہر کی حد تک منعقد ہوتا تھا۔ خیر، ہماری ڈٰیوٹی مہمانوں کی پذیرائی کرنا تھی اور محترمہ تمام مہمانوں کو اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور روداد سنا رہی تھیں اور پھر ان سب واقعات اور عید الفطر ریلی  کے بعد ۸ ستمبر بروز جمعہ حکومتی ایما پر بہت سے لوگوں کا قتل عام کیا گیا اس سانحے کے بعد ۸ ستمبر کو "یوم سیاہ" کا نام دیا گیا۔ واقعی بہت ہی غمناک دن تھا۔ پوری فضا اداس تھی۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ انقلاب پنپنے لگا اور تبدیلی  آنا شروعی ہوگئی یہاں تک کہ وہ وقت بھی آگیا کہ ہم خود  احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کرنے والوں میں شامل ہوگئے۔  ایسے مظاہرے جن میں مسلسل  وسعت  آتی چلی جا رہی تھی۔

 

سوال: کیا تب بھی محترمہ بہروزی تقریری کرتی تھیں؟

جواب: جی ہاں لیکن ان کی مصروفیات ویسے ہی جاری و ساری تھیں۔ بلکہ اب تو حکومت کا ہولڈ نسبتاٍ کم ہوگیا تھا اور محترمہ کی تمام تقاریر کو ریکارڈ میں رکھنا ان کے لئے ممکن نہیں تھا اور جب محرم کا آغاز ہوا تو پھر اور بہترین نتائج سامنے آنے لگے۔ پہلے ہم لوگ اپنی مسجد میں ریلی نکالتے تھے اور ریلی کے تمام انتظامات خواتین کے ہاتھ میں تھے پھر باقی تمام خواتین کو جمع کرکے مردوں کی ریلی کے ساتھ ملکر چلتے تھے اور ہمارا نقطہ آغاز مساجد تھیں اور حقیقت میں یہی مساجد تھیں جہاں سے انقلاب کی آواز بلند ہوئی اور ہمارے انقلاب کی بنیاد پختہ ہونے اور جڑیں مضبوط ہونے کی وجہ صرف یہ تھی کہ تمام لوگ ایمان اور عقیدے کی بنا پر میدان میں آئے تھے۔ البتہ یہ بھی درست ہے کہ لوگ حکومتی ظلم و ستم سے سہم گئے تھے لیکن خود ان کے عقائد اور مرجع تقلید اور پھر ان کی صحیح سمت کی طرف رہنمائی  کر رہے تھے۔ یعنی اگر حضرت امام کوئی بیان جاری کرتے تھے تو تمام لوگ اس بیانیے پر عمل کرنا واجب سمجھتے تھے کیونکہ انہیں اس بات میں ذرا برابر شک نہیں تھا کہ امام خمینی حق پر ہیں۔ بہرحال ہم لوگ وہاوں مظاہرے کرواتے تھے اور یہ کام اپنے محلے کی مسجد سے شروع کرتے تھے۔ لوگ آتے تھے اور نعرے لگاتے ہوئے آزادی چوک کی طرف روانہ ہوجاتے تھے۔

 

سوال: یہ مسجد جس کا آپ نے ذکر کیا اور اُس وقت مضافات کے لوگوں کے لیے  ریلی اور مظاہروں کے حوالے سے نقطہ آغاز تھی، کون سی مسجد تھی؟

جواب: یہ مسجد امام محمد باقر علیہ السلام تھی جو اسکندری روڈ پر جنوب کی طرف واقع تھی۔ آج کل وہاں اس مسجد کی توسیع پر کام ہو رہا ہے۔ اس زمانے میں یہ بہت فعال اور اچھی مسجد تھی۔ جس میں لائبریری تھی، بچوں کے لئے تربیتی پروگرام منعقد ہوتے تھے، چھوٹے بچوں کے لیے الگ سے دلچسپ کتابیں رکھی گئی تھیں جنہیں وہ گھر لے جا جاسکتے تھے۔ اسی مسجد میں ہماری سیاسی فعالت تھی۔ اور جب مظاہروں میں وسعت آئی تو اسی مسجد سے ہر روز صبح مظ اہروں کا آغاز کرنا ہماری ذمہ داری تھی۔

 

سوال: ۴ نومبر (۱۳ آبان) کے حوالے سے کوئی خاص بات آپ کو یاد ہے ابھی؟

جواب: جی ہاں، ۴ نومبر کو ہی ہم محترمہ بہروزی کے ساتھ قم گئے تھے، اصل میں ان کو آتی اللہ گلپائیگانی سے ایک دو مسئلے پوچھنے تھے۔ ہم جب قم سے واپس لوٹے تو دیکھا کہ شہر کی فضا بدلی بدلی سی ہے ۔ بس سے اترے تو معلوم ہوا کہ انقلاب  - یونیورسٹی روڈ پر اس وقت ہجوم ہے اور کتنے ہی طالب علم شہید ہوچکے ہیں۔ ہم نے کود یہ سب نہیں دیکھا لیکن آثار سے یہی ظاہر ہو رہا تھا۔ اگلے دن ۵ نومبر کو ہم سب یونیورسٹی گئے اورپھر مظاہرہ کیا اور یونیورسٹی تو ہمیشہ بھری رہتی تھی اور ہر وقت مظاہرے ہی ہورے ہوتے تھے وہاں۔ اس کے چمن والے صحنوں میں گروہوں کی صورت میں مختلف افکار کے افراد کھڑے ہوجاتے اور بحث کرتے، گفتگو کرتے۔

 

سوال: آپ نے بتایا کہ آپ مسئلے پوچھنے قم گئی تھیں تو کیو وہ استفتاء اسی انقلابی فعالیت کے متعلق تھا؟

جواب: محترمہ بہروزی ہر کچھ عرصے کے بعد آیت اللہ گلپائیگانی کی خدمت میں جایا کرتی تھیَ ایک تو کچھ امانت نقد رقم  کی صورت میں ان تک پہنچاتی تھیں اور دوسرا ان سے گفتگو کرتیں اور رہنمائی لیتی تھیں۔ ابھی مجھے ٹھیک سے یہ تو یاد نہیں کہ وہ استفتاء کس چیز کے بارے میں تھا لیکن وہ راہنمائی اس لئے لیتی تھی تاکہ اس انقلابی جدوجہد کو زیادہ سے زیادہ اچھے طریقے سے آگے بڑھایا جائے۔ تو اس ملاقات میں دو چیزیں ہوتی تھیں۔ ایک رہنمائی کا حصول اور دوسرا احکام کے بارے میں سوال جوب۔ اور انہیں بعض احکام تو بہرحال پوچھنے ہی پڑتے تھے کیونکہ ان کا سروکار عام لوگوں سے تھا اور لوگ ان سے طرح طرح کے سوالات کرتے تھے۔

 

سوال: ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان مظاہروں میں خزاں کی نسبت  زیادہ تیزی آئی ہے ...

جواب: ستمبر اور اکتوبر کے بعد جب رفتہ رفتہ ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوا تو (طاغوتی) حکومتی نظام کی کمر ٹوٹنے لگی۔ مجھے یاد ہے کہ جیسے جیسے مظاہروں میں شدت آتی گئی ان پر قابو پانا بھی اس قدر مہم تر ہوتا گیا۔ انقلاب کے اساسی تبلیغاتی امور کی باگ ڈور ان یونیورسٹیوں کے ہاتھ میں تھی جو کود انقلاب کمیٹی  کے زیر نظر تھیں۔ ہمیں عمومی انتظامات سنبھالنے کی دعوت دی گئی تھیں کیونکہ اس وقت چاروں طرف سے لوگوں  کا سیلاب تھا جو آرہا تھا۔ مردوں اور خواتین کو الگ الگ ہونے کا کہا گیا۔ اُس دوان ہماری ایک میٹنگ ہوئی جس میں ریلیوں کے حوالے سے انتظامات کی تقسیم بندی کی گئی۔

 

سوال: اس میٹنگ کے بانی کون لوگ تھے؟

جواب: اصل میں ہمیں بھی دوستوں نے بتایا کہ اسی طرح کی میٹنگ ہے جس میں شرکت کرنی ہے ۔ انقلاب کا مرکزی ادارہ مظاہروں کے انعقاد اور لوازمات کی ترسیل میں مشغول تھا اور بعد میں یہی ادارہ  حضرت امام خمینی کے لئے "استقبالیہ ادارہ" (یا استقبالیہ کمیٹی) کی شکل اختیار کرگیا۔ یونیورسٹی کی کچھ ذمہ دار اور سینئر اسٹوڈنٹس خواتین نے انتظامات سے متعلق مونوگرام ہمیں دیئے جس کے بعد ہم نے جاکر  مظاہروں میں نظم و ضبط کا اختیار سنبھال لیا۔ ان مظاہروں میں ایک بہت بڑی تعداد کالی چادر میں آنے والی خواتین کی تھی اور اس چیز نے  ان مظاہروں  اور تحریک کو خاص وقار اور دبدبہ بخشا تھا۔

 

سوال: اس سلسلے میں ذمہ دار خواتین میں سے کوئی نمایاں شخصیت جسے  آپ جانتی ہوں؟

جواب : نہیں، کوئی خاص  فرد تو ذہن میں نہیں ہے لیکن انہی میں سے ایک دو افراد کو بعد میں سیاسی نشستوں  میں دیکھا میں نے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد تو بہت سی شقیں بن گئیں اور و سعتیں آگئیں لیکن اس وقت کی دیندار اور با حجاب اور پاکیزہ اوصافت کی مالک یہی خواتین تھیں جنہوں نے بعد میں اس سفر کو جاری رکھا، اگرچہ بعد میں ہمارا ان سے رابطہ نہیں رہا۔ خیر مظاہرے جاری رہے  اور عاشور والے دن، ان مظاہروں کا اوج تھا  اور بعد میں بھی اسی زور و شور سے جاری رہے یہاں تک انقلاب السامی کامیابی سے ہمکنار ہوا اور جب یہ خبر پھیلی کہ حضرت امام خمینی ایران آنا چاہ رہے ہیں تو بختیار اپنی بساطِ مزاحمت لپیٹنے پر مجبور ہوگیا اور آخر کار لوگوں کے مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ حضرت امام کے ایران آنے کے موقع پر ہم لوگ کافی پریشان تھے۔ سب میں چہ میگوئیاں تھیں کہ خدانخواستہ کہیں جہاز کو تباہ نہ کردیا جائے یا مثلاً جہاز سے اترتے وقت امام پر فائرنگ نہ کردی جائے وغیرہ لیکن اللہ کا شکر کہ اس نے کامیابی کو اس انقلاب کی پیشانی لکھ دیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ حضرت امام خمینی کو صحیح سلامت ایران تک پہنچایا تاکہ اس نظام کو مزید استحکام بخشا جاسکے۔

 

سوال: یکم فروری ۱۹۷۹ء کو جب حضرت امام ایران پہنچے تو کیا اس دن کا کوئی یادگار واقعہ آپ کے ذہن میں ہے؟

جواب: اچھے واقعات میں سے ایک واقعہ جو خود امام خمینی کی ایران آمد ہے۔ یکم فروری کی رات کو ہم سب پریشان تھے۔ صبح استقبال کے لیے بھی جانا چاہتے تھے پھر معلوم ہوا کہ استقبال ٹی وی پر براہ راست دکھایا جائے گا تو ہم نے سوچ اکہ ٹی وی پر پہلے امام کی تشریف آوری دیک لیتے ہیں اور پھر ہم بھی باہر چلے جائیں گے لیکن جوں ہی ٹی وی چلایا تو پتہ چلا کہ نشریاتی رابطہ منقطع ہے ۔ بس پر کیا ، ہم دوڑے باہر کی طرف اور یہ سوچ کر باہر نکلے تھے کہ امام کو دیکھ پائیں گے لیکن کیا دیکھا  کہ گویا سیلاب تھا لوگوں کو جو اُمڈ آیا تھا۔ کچھ لوگ قبرستان بہشت زہرا (ع) چلے گئے۔ ہمارے اور لوگوں کے جذبات قابل بیان نہیں تھے۔ میں نے کہا کہ ہم نے تو امام کو نہیں دیکھا، کیا کریں؟ جائیں؟ کسی نے بتایا کہ امام نے اسکول میں ملاقات  کا شیڈول رکھوایا ہے ایک دن مرد اور ایک دن خواتین۔ خیر ہم خواتین والے دن گئے تو بہت ہی لمبی لائن دیکھنے کو ملی۔ امام سے کہا گیا کہ خواتین سے ملاقات کا سلسلہ نہ رکھیں تو امام نے جواب میں فرمایا: "نہیں" میں نے انہیں خواتین کی مدد سے شاہ کو بھاگنے پر مجبور کیا ہے۔ جب پارکینگ کے نزدیک پہنچے تو نماز کا وقت ہوگیا۔ امام بھی نماز کو اول وقت اور جماعت کے ساتھ ادا کرتے تھے۔

اس وقت اچانک ہم سب کے ذہنوں میں یہ خیال کوندا کہ جیسے بھی ہم نے ابھی اور اسی وقت امام کی زیارت کرنی ہے۔ بس پھر کیا، اگلے ہی لمحے ہم دروازے پر تھے۔ حفاظت پر مامور محافظین جو سب کے سب انقلابی فوجی تھے، نے آپس میں ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر گویا دیوار بنادی تاکہ ہمیں روک سکیں ہم سب ان کے ہاتھوں کے نیچے سے نکل گئے۔ ہم پچاس ساٹھ افراد اس "دیوار" کو عبور کر گئے  اور قریب پہنچ کر نعرے لگانا شروع کردیئے۔ "ہم امام کے منتظر ہیں۔ زیارت امام تک ہم اِدھر ہیں"

اب ٹھیک سے یاد تو نہیں لیکن میرے خیال میں جناب محلاتی آئے تھے اور انھوں نے کہا کہ خواتین صبر و تحمل سے کام لیں ، انتظار کریں نماز کے بعد امام تشریف لا رہے ہیں۔ ہمیں بہت مزہ آرہا تھے، ہمارے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے، ہم خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ایک صاحب آئے اور اسی کھڑکی سے جھک کر دیکھا جہاں سے امام ہاتھ ہلاتے تھے۔ ان صاحب  نے اعلان کیا؛ خواتین کی خدمت میں چند عرائض پیش کرنی ہیں، "جب امام تشریف لائیں تو چیخیں مت۔ رومال وغیرہ یا کوئی بھی چیز امام کی طرف نہ پھینکیں" کیونکہ بعض لوگ تبرک کی خاطر  ایسا بھی کرتے تھے۔ ہم نے کہا، بھلا ایسا بھی کوئی کرے وہ بھی امام کے حضور میں لیکن جب امام سامنے آئے، وہ مرد الٰہی جن کی نماز شب کبھی قضا نہیں ہوئی تھی، جب امام اسی نور کے ساتھ کھڑکی میں ظاہر ہوئے تو پھر اعلان کرنے والے کی  آواز ہماری چیخ و پکار  میں گم ہوگئی۔ چیخوں اور فریادوں سے  چھت اُڑی جا رہی تھی یعنی ہمیں سمجھ ہی نہیں آرہی تھی اور ہم لوگ بے اختیار چیخ رہے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ ان کے چہرے کی زیارت کے لیے ہماری ظرفیت کم پڑ گئی تھی۔ حتی میں خود بے اختیار زار و قطار رو  رہی تھی اور چیخ رہی تھی۔ اس یادگار واقعے کی مٹھاس آج بھی ذہنوں میں رس گھولتی ہے۔ یہ وہی دن تھا جب فضائی افواج کے افسران بھی امام سے ملنے آئے تھے۔ بلکہ ہم وہیں پر تھے اور دیکھ رہے تھے کہ افسروں کو اندر بھیجا جا رہا ہے۔ وہ سارا پروگرام بھی بغیر ہم آہنگی کے تھا اور اچانک  تھا اور جب امام تشریف لائے تو یہ سب افسران امام کے احترام میں کھڑے ہوگئے جیسا کہ تصویر میں واضح ہے چونکہ صحن کافی بڑا تھا ا سلئے ایک طرف افسران تھے اوردوسری جانب ہم لوگ۔

 

سوال: تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس تاریخی ملاقات کی بھی آپ گواہ ہیں؟

جواب: جی ہاں، ہم نے دیکھا کہ فضائی فوج کے افسران آئے اور انھوں نے امام کو سلامی پیش کی اور بعد میں اخبار میں بھی وہ تصویر چھپی تھی۔ اب جنگ ایک مسلح جنگ تھی۔ ہمارا گھر "حُر" چھاؤنی کے قریب پڑتا تھا۔ اس وقت وہاں شاہ کا باغ تھا۔ ہم گلی کے آخر میں رہتے تھے  اور دو گلیاں چھوڑ کر شاہ کا باغ تھا۔ یعنی یہ گلی اِ س طرف سے اسکندری روڈ سے ملتی تھی ا ور اس طرف سے شاہ کا باغ قریب پڑتا تھا۔ ۱۰ اور ۱۱ فروری کو بہت سارے فوجی یہاں سے گزرے تھے۔ اسی گلی سے آتے اور اُسی گلی سے جاتے تھے چھاؤنی کی طرف۔ ان میں زخمی بھی کافی سارے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے انہیں گاہے بگاہے کمبل لحاف کی ضرورت پڑتی تھی یہ جوان فوجی زمان و مکان کے پابند نہیں تھے سب انقلاب کو اپنا سمجھتے تھے۔ ایک عجیب اتحاد تھا ، آپ تصور کریں۔ ان کے ہاتھوں میں  اسلحہ ہوتا تھا اور پیکان گاڑیوں میں بڑی تعداد میں بیٹھے رہتے تھے۔ گاڑی سے اسلحہ سمیت ہاتھ باہر نکال کر  کہتے تھے "لحاف چاہیے"۔ ہمارے گھر میں جتنے بھی لحاف تھے سب لا دیئے۔ میری بہن کی میٹنگ میں آنے والی خواتین نے کچھ رقم دی تھی  اور کہا تھا کہ جیسا بہتر سمجھیں انقلاب کے لیے خرچ کریں۔ محترمہ مریم بہروزی  نے ایک بار سن لیا کہ ہسپتالوں میں راشن کی ضرورت ہے تو انھوںنے کہا اس رقم سے دنبہ خرید کر ہسپتال میں دیدیں۔ یہ ایک دلچسپ بات تھی اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سب واقعات  انقلاب کی تاریخ میں ثبت رہیں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ واقعات انقلاب کے جامع اور عوامی ہونے کا بھی ثبوت ہیں۔ ہم نے پیسے دیئے، دنبہ ذبح کیا گیا اور گاڑی کی ڈگی میں رکھ کر ہسپتال روانہ کیا گیا لیکن جس ہسپتال میں بھی جاتے تھے ، دنبہ لینے سے انکار کر دیا جاتا تھا۔ کہتے تھے: "جگہ نہیں ہے" یعنی اتنے دنبے پہنچ چکے تھے اس دنبے کی جگہ نہیں تھی۔

 

سوال: واقعی دنبے اس قدر زیادہ تھے؟

جواب: جی ہاں،  لوگ خود اتنے دنبے اور کھانے پینے کی اشیاء لے گئے تھے اور تو اور ہسپتالوں کی  دیکھ بھال اور اخراجات تک کو بھی  اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا ۔ یہ اتحاد واقعاً بہت عجیب تھا۔ ہم خود حیران و سرگردان تھے کہ اس ایک دنبے کا کیا کریں۔ اسی طرح ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال لیکر جاتے اور کہتے کہ دنبہ لائے ہیں تو جواب ملتا "جگہ نہیں"۔ خدا خدا کرکے ایک ہسپتال ، شاید "باہنر ہسپتال" تھا ، پہنچے۔ چوکیدار سے بات ہوئی تو اس نے کہا ٹھیک ہے۔ ہم نے کہا آپ نہیں لیں گے تو خراب ہوجائے گا۔ اس نے کہا کوئی بات نہیں، ہم ضائع  نہیں ہونے دیں گے، ہم بھی بہت خوش ہوئے کہ آخرکار ہماری قربانی قبول ہوہی گئی۔

 

سوال: مظاہروں میں کون سے نعرے لگائے جاتے تھے مشہور نعروں کے علاوہ کوئی اور نعرے یاد ہوں تو بتائیں؟

جواب: زیادہ تر یہی نعرہ لگایا جاتا: ملت کا ہے یہ نعرہ، خدا، قرآن خمینی: اور "استقلال، آزادی، جمہوری اسلامی" اور "جب تک رگوں میں خون باقی ہے، خمینی ہمارے قائد ہیں" اور "تحریک ہماری حسینی ہے، رہبر ہمارا خمینی ہے" اور کچھ اور نعرے تو اشعار کی صورت میں تھے ۔ یعنی نعرے خواتین لگاتی تھیں اور مرد حضرات جواب دیتے تھے اور اسی طرح مرد حضرات نعرے لگاتے  اور کواتین جواب دیتیں۔ راتوں کو "اللہ اکبر" کی کیا بہترین آوازیں آتی تھیں۔ ہم نے محلے دار جوان دوستوں سے کہہ رکھا تھا اور کسی ایک کے گھر کی چھت پر چڑھ کر "مردہ باد شاہ" وغیرہ کے نعرے لگاتے تھے۔ اور حکومتی کارندوں کی باتوں کا جواب دینے کیلئے بھی ہم نے اشعار اور نعروں کا سہارا لیا ہوا تھا۔

واقعی ایک عجیب جوش و ولولہ تھا۔ ہم دس بارہ لوگ اوپر چلے جاتے تھے، ہ ماری گلی کے تقریباً سب ہی افراد آجاتے اور چھت پر جاکر "اللہ اکبر"، "لا الہ الا اللہ" ، "خمینی رہبر" کے نعرے لگاتے تھے۔ رات کی ڈیوٹی پر مامور گشتی پولیس کے اہل کاروں نے اب گولیاں برسانے کا تہیہ  کر رکھا تھا۔ اسی گھر کا ایک فرد جو سائنس کا طالب علم تھا ایک چھوٹی سی کھڑکی سے مسلسل باہر گلی میں دیکھتا رہتا تھا۔ جب پولیس نزدیک آجاتے تو اس کے اشارے سے ہم چپ ہوجاتے۔ وہ سپاہی اسلحہ سمیت گھر تک آتے لیکن ہماری بروقت خاموشی پر انہیں مطلوہ گھر نہ مل پاتا اور یوں وہ لوگ ایسے ہی واپس چلے  جاتے اور ہرات  ایسے ہی ہوتا تھا۔ ہم لوگ روزانہ رات ۹ بجے چھت پر جاکر اس قدر نعرے بازی کرتے کہ حتی خود شاہ اور شاہی نظام والے سر پکڑ کر بیٹھ گئے تھے۔

 

سوال: اعلامیے لگانے اور نشرو اشاعت کرنے میں بھی کیا آپ کی فعالیت تھی؟

جواب: ہم سب کام کرتے تھے، یعنی مظاہرے، نشرو اشاعت، زخمی افراد کی مدد وغیرہ ، میرے خیال  میں اس وقت کی تازہ خبریں فوری طور پر زبانوں سے کانوں تک پہنچتی رہتی تھیں جی ہاں لوگ ملتے ملاتے ہی تبادلہ خیال بلکہ تبادلہ اخبار کرتے تھے۔ خبر رسانی اور اطلاع رسانی کے مقامات میں سے ایک مقام وہ مساجد تھیں جہاں سے روشن فکر روحانی حضرات اپنی ذمہ داری بطریق ا حسن پوری کرتے تھے اور دوسری جگہ اس وقت کی یونیورسٹیاں تھیں۔  یعنی گویا سب جگہوں سے یہ  کام ہوتا تھا۔ شاید ہم لوگ صبح جب اٹھتے تھے اور باہر آتے تھے تو تازہ خبروں سے آگاہی ہوہی جاتی تھی اور پھر دوسرے اطلاعیے اور بیانئیے جو حضرت امام کی جانب سے ہوتے تھے وہ بھی دست بہ دست گردش میں رہتے تھے اور ہر ممکنہ صورت میں وہ دست بہ دست رہتے تھے۔ اب ہم جوں جوں انقلاب کی کامیابی کی طرف بڑھ رہے تھے توں توں انقلاب کی جامعیت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور تو اور انقلابی ترانے بھی ہمیشہ گردش میں رہتے تھے۔

 

سوال: یوں لگتا ہے کہ آپ اور محترمہ مریم بہروزی کی فعالیت انقلاب کے بعد بھی، پہلے کی طرح جاری و ساری رہی؟

جواب: حضرت امام خمینی نے ایک جگہ اشارہ کیا تھا کہ مملکت کی تمام تر ثروت اور خزانہ شاہ اپنے ساتھ لے گیا۔ اب انقلاب کے بعد کے کاموں میں سے ایک کام کی اساس امام خمینی کا یہی اشارہ تھا۔ اور اس کے نتیجے میں  ہم سب نے باہمی متفقہ رائے کے بعد یہ پیشکش کی۔ خواتین اپنے اپنے زیورات امام کی خدمت میں پیش کردیں۔ ہم نے کہا کہ شاہ تو سب کچھ لوٹ کر لے گیا، انقلاب کے نظام کا سہارا اتنا مستحکم نہیں۔ تو اب اس سہارے کو استحکام بخشنے کے لئے کیوں نہ ہم اپنے زیورات امام کی خدمت میں پیش کردیں۔ یہ ہماری رف سے پیش کش تھی، ایک رائے تھی۔   محترمہ بہروزی نے اپنے جلسوں میں سندیسہ دے دیا اور ہم  لوگ "امام بارگاہ ارشاد" کی طرف روانہ ہوگئے۔ وہاں سب کو بلوایا  اور امام بارگاہ ارشاد میں جمع ہونے کا بولا اور یہ بھی اعلان کردیا کہ جو کوئی اپنی مرضی سے سونا اور زیورات لانا چاہے لے آئے۔ ہم نے ایک خود ہی اعلامیہ بنایا جس کا متن کچھ اس طرح سے تھا: "اس زر و زیورات کی ظاہر سے زیادہ کوئی قیمت نہیں ۔ ہم ان زیورات کو نظام کے استحکام اور انقلاب کے دوام کی خاطر مقدس جمہوری اسلامی کےنظام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں" اس وقت امام قم میں تھے۔ ہم نے  چند بسوں کا انتظام کیا۔ سب آگئے۔ اب کتنا سونا اکٹھا ہوا؟ میں یہ سمجھتی ہوں کہ اس وقت معاشرے میں اور خواتین کے دلوں میں کس قدر عجیب کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ کچھ گاڑیوں پر خواتین آئیں حتی کہ امام بارگاہ میں جگہ نہیں بچی۔ سونے کے زیورات ہماری تحویل میں دیئے گئے۔ ہم نے وہ سب ایک تھیلے میں ڈالے۔ اچھا خاصا جمع ہوا تھا۔ اگر بعض کی طرف سے ایک معمولی سی انگوٹھی تھی تو پھر بعض کی طرف سے مضبوط اور وزنی سونے کے کڑے بھی دیکھنے میں آرہے تھے۔

ہم اس تھیلے کے ساتھ ایک بار امام کے گھر اور ایک بار مدرسہ فیضیہ گئے۔ محترمہ بہروزی نے ایک مختصر سی تقریر بھی کی وہاں امما کے ساتھ ان کی تصویر بھی ہے۔ وہاں بتایا گیا کہ ان خواتین کی سربراہ محترمہ بہروزی ہیں اور پھر انہیں بلایا گیا۔ محترمہ بہروزی امام کے برابر میں جاکر کھڑی ہوگئیں۔ حضرت امام نے انہیں گفتگو کرنے کو کہا۔ اس دن اور بہ بہت سے لوگ امام کا دیدار کرنے آئے ہوئے تھے۔ مدرسہ فیضیہ کا صحن بہت بڑا تھا۔ ہم نے جب دیکھا کہ ہجوم بہت ہے تو ہم مردوں کے پیچھے جاکر کھڑے ہوگئے اور وہاں امام نے محترمہ بہروزی کو گفتگو کرنے کا کہا۔ یہ بالکل پہلا موقع تھا جہاں ایک خاتون امام خمینی اور مرد حضرات کی موجودگی میں گفتگو کرنے لگی تھیں۔ سب مرد تھے، ہ ماری تو عجیب سی حالت تھی۔ اس وقت ایسا انداز رائج بھی نہیں تھا۔ انھوں نے اسی طرح چہرے پر چادر لئے ہوئے گفتگو کی۔

خیر، بہرحال حضرت امام کی بصیرت عمیق تھی، فکر وسیع تھی اورلوگ بھی حضرت امام کے اس خلوص اور حقانیت کو دیکھ کر دل و جان سے حاضر ہوئے تھے اور امام کے پیچھے کھڑے تھے۔ خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب خواتین کو مردوں سے الگ ہونے کا کہا جاتا تو کالی چار میں آئی خواتین کی بہت بڑی تعداد ہوتی جس کی اپنی ایک خاص عظمت تھی۔ سڑک تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔ مقام معظم رہبری کا ایک خطاب جس میں انھوں نے کہا کہ "میں مسجد امام زمان (عج) کی چھت پر گیا، پوری روڈ پر ریلی تھی۔ بہت سے جلسے اور تقاریر کا پروگرام بھی تھا۔ سٹیج بنایا گیا تھا، شہید بہشتی ، دیگر انقلابی حضرات، مقام معظم رہبری اور دوسرے روحانی وہاں خطاب کر رہے تھے۔ نعرے بھی لگ رہے تھے۔ مقام معظم رہبری فرماتے ہیں کہ میں جب مسجد کے اوپر گیا اور دوربین سے جو دیکھا  تو خواتین کا ایک سیلاب دیکھنے کو ملا۔ میں نے کہا کہ یہ انقلاب تو اب کامیابی کی دہلیز پر ہے اور بس، اور اب تو پہلوی نظام کی کمر بھی ٹوٹ چکی۔" کیونکہ یہ سب خواتین جو کالی چادر کے ساتھ آئی ہوئی تھیں اس کا اپنا ایک وقار اور خاص اثر تھا۔ اور بہرحال معاشرے کا ایک اہم رکن ہونے کی بنا پر ایک خاتون کا ، ماں اور بیوی  ہونے کے ناتے اپنے بچوں اور  شوہر پر ایک خاص اثر ہے۔آج بھی آپ ملاحظہ کریں۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ انتخابات کے سلسلے میں خواتین اپنے شوہر اور بچوں کو لے آتی ہیں اور رہنمائی بھی کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ کس کو ووٹ دینا ہے یعنی بہرحال خواتین کا انقلاب کی کامیابی اور دوام میں اہم کردار شامل ہے۔ اور اس کی ایک مثال وہی جو ابھی ہم نے ذکر کی زیورات جمع کرنے کا مرحلہ۔ یہ کام بذات خود ایک بہت موثر اور بار ارزش کارنامہ تھا۔ جس کے بس میں جو کچھ تھا اس نے کیا، چاہے اگر اس چیز کی مادی قیمت زیادہ نہیں بھی تھی تب بھی اس فرد نے اسے انقلاب کی راہ میں قربان کیا مثلاً سونے کی ایک نازک سی انگوٹھی، اگرچہ نازک تھی، بہت زیادہ قیمتی نہیں تھی لیکن خاتون کو پیاری تو تھی ناں، اب اس کے باوجود اس نے انگوٹھی اُتاری اور کہا "یہ انقلاب کے لیے" لوگوں نے انقلاب پر اپنا بہت کچھ خرچ کر ڈالا۔ دنیاوی قیمتی اشیاء سے لیکر جسمانی توانائیوں اور اپنے بیٹوں تک، یعنی لوگوں نے اپنی زندگی بھر کی کمائیاں تک لٹا دیں اس راہ میں۔ مشکلات سے دوچار ہوئے، ہجرتیں کیں۔ جنگ لڑی۔ چونکہ لوگ اس انقلاب کی خاطر ہر طرح کی قربانی دے چکے تھے اب اس انقلاب سے وہ اپنے بچوں جیسی محبت کرنے لگے تھے اور آج بھی کرتے ہیں اور آج بھی توانائیاں خرچ کر رہے ہیں اور انقلاب کے ساتھ کھڑے ہیں (سینہ تان کر)۔ اور انشاء اللہ ہور امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ تک کھڑے رہیں گے۔

یہ انقلاب ہمیشہ جاری و ساری رہا اور آج بھی ہے آج بھی دفاع اور جدوجہد ہے کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ہمارے انقلاب کو کبھی دشمنی اور مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ اور اس کا اصلی دشمن امریکہ تھا اور آج بھی ہے اور ہمارے خلاف سرگرم عمل ہے۔ شاہ، ایران میں امریکہ کا نوکر تھا، ایجنٹ تھا۔ ظاہراً حاکم تھا لیکن حقیقت میں امریکی نظام حکومت کی تمام تر خصوصیات اس میں تھیں یا یوں کہوں کہ امریکہ ہمارے نظام حکومت کے تمام ارکان پر مسلط تھا۔ شارہ تو بس ایک آلہ کار تھا جس کی مدد سے ایران میں امریکی مفادات پورے ہو رہے تھے۔ اور جب یہ آلہ کار یعنی شاہ نکل گیا تو گویا فقط ایک نوکر نکلا۔ اصلی دشمن یعنی امریکہ کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوا جب ہی تو آج ۳۷ سال  کے بعد بھی یہ انقلاب مزاحمت کر رہا ہے، حرکت میں ہے اور رہے گا۔ ہاں یہ ہے کہ اب ولی فقیہ کی برکت سے امریکیوں کی براہ راست تو حکومت نہیں ہے اور اس کے لئے انھوں نے کئی بار کوشش بھی کی لیکن ناکام ہوئے۔ یعنی ولی فقیہ کے وجود نے ان کا راستہ روکا ہوا ہے اور یہ جدوجہد یہ دفاع اور یہ انقلاب جاری و ساری رہے گا۔ 


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 4896



http://oral-history.ir/?page=post&id=7517