تنہائی کے سال – چھٹا حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-11-01


نگہبان مجھے میرے سیل میں لے گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ دروازہ بند کرتا، میں نے اُس سے کہا کہ مجھے واش روم جانا ہے، اُس نے فارسی میں کہا: "کوریڈور کے آخر میں، سیڑھیوں کے پاس ہے۔" اُسے تھوڑی فارسی آنے سے مجھے خوشی ہوئی۔ میں نے اُس سے پوچھا: "تمہارے یہاں ڈاکٹر نہیں ہے؟ میری کمر میں بہت درد ہو رہا ہے۔" اُس نے جواب دیا: "ڈاکٹر کیلئے،  میجر کے آرڈر کی ضرورت ہے، لیکن میں تمہارے لئے درد کی گولیاں لاؤں گا۔"

میں نے واش روم میں، ناخن سے کرید کرید کر نام اور اُس دن کی تاریخ  لکھی تاکہ کوئی دوسرا قیدی وہاں آئے تو اُسے پتہ چل جائے کہ میں بھی یہاں ہوں یا تھا۔ دیوار پر چند عربی نام کے علاوہ کچھ اور نہیں لکھا تھا ۔

نگہبان نے مجھے میرے کمرے یا میرے سیل میں پہنچایا اور دروازے کو بند کردیا۔

میری اسیری کی پہلی رات دشمن کے ہاتھوں میں تھی۔ ایسا دشمن جس کی دنیا پرستی اور دیوانہ پن نازیوں کے "ہٹلر" سے کم نہیں تھا، اُس رات میں نےشاید سب چیزوں کے بارے میں فکر کی،  اپنے گزرے ہوئے زمانے اور اپنی ماں کے بارے میں، اپنی تقدیر کے بارے میں جسے خدا نے میرے لئے معین کیا تھا اور مجھے جس پر ایمان تھا، مہری اور پاک و معصوم چھوٹی آزادہ کے بارے میں جو اپنی ماں کی آغوش میں  میری منتظر تھی، میں نے اُس ٹیلی فون کے بارے میں سوچا جو میری بہن نے میری پرواز سے کچھ سیکنڈ پہلے کیا تھا، اور میں اُس کی باتیں سن نہیں سکا تھا، اپنی آخری پرواز کے بارے میں جس کے بعد میری اسیری شروع ہوئی، اپنے پائلٹ بننے کی خواہش کے بارے میں جو شوق کے عالم میں میرے پورے وجود کو لرزا دیتی، بہت بڑے اور مہم درد کے بارے میں کہ میں جنگ اور اپنے ملک کے دفاع میں اور زیادہ حصہ نہ لے سکا، اُن گناہوں کے بارے میں جنہیں میں نے اپنی پوری زندگی میں انجام دیا تھا، اپنے مستقبل کے بارے میں جو بہت مبہم نظر آرہا تھا، ملک ، لوگوں، خدا ، امام وغیرہ کے بارے میں اور یہ کہ کیا میں دوبارہ ایران واپس پلٹ پاؤں گا؟!

دروازہ کھلا،  نگہبان نے بھنڈی کے سالن کے ساتھ ایک پلیٹ چاول رات کے کھانے کے طور پر سیل میں رکھی اور ایک لفظ کہے بغیر دروازہ بند کردیا۔ مجھے اتنا شدید درد ہو رہا تھا کہ اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ آرائی نہیں کہ میں سانپ کی طرح بل کھا رہا تھا۔ میں کھانے کے ایک –  دو سے زیادہ چمچے نہیں کھا سکا اور صبح تک درد کی شدت سے تکلیف اٹھاتا رہا۔

صبح، جس نگہبان کو فارسی آتی تھی، وہ کمرے میں آیا اور تھوڑا سی روٹی ،پنیر  اور چائے لایا اور ایسے انداز میں آہستہ آہستہ بولا جس سے مجھے دوستی کی بو آرہی تھی:

- جلدی سے اپنا ناشتہ کرلو کہ ہمیں میجر کے پاس جانا ہے۔

میں اپنی  صورت حال میں، اُسے بہت ہی مہربان شمار کر رہا تھا اور یہی چیز میرے غنیمت ہوسکتی ہے۔ میں نے اُس سے پوچھا:

- یہ کون سی جگہ ہے؟

- بغداد ہے؛ لیکن تم نے مجھ سے کچھ نہیں سنا۔

- میں نے بھی کوشش کی گفتگو اور رویہ کا انداز احترام اور مہربانی کے ساتھ ہو۔  میں نے نرمی کے ساتھ دوبارہ سوال کیا:

- کیا ان کمروں میں کوئی اور ایرانی بھی ہے؟

- ہاں۔

بغیر اس کے کہ میرے پاس کوئی قابل قبول دلیل ہوتی، مجھے بہت خوشی ہوئی اور مجھے ایسا لگا کہ میری قلبی قوت میں اضافہ ہوا ہے۔ میں نے اُسے اہمیت دینے کیلئے اور اپنی تجسس سے بھری حس کو مطمئن کرنے کیلئے پوچھا:

- تم نے فارسی کہاں سے سیکھی ہے؟

- میں نے ایران کا سفر کیا ہوا ہے۔

اُس نے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے مجھے یاد دلایا کہ آدھے گھنٹے بعد ہمیں حتماً میجر کے پاس جانا ہے۔

میں نے تھوڑا بہت ناشتہ کیا۔ میری حالت اچھی نہیں تھی۔ میری پورا جسم مٹی سے اٹا ہوا تھا اور گندگی کی وجہ سے خارش ہو رہی تھی۔ میری پرواز کا لباس کلف لگے کپڑے کی طرح اکڑ چکا تھا، میری کمر کے درد نے میری جان نکال لی تھی۔

نگہبان آیا اور اُس نے کل کی طرح، میری آنکھوں اور ہاتھوں کو باندھا اور کچھ دفعہ دائیں بائیں گھومانے اور اوپر نیچے کرنے کے بعد تاکہ میرے ذہن کے محفوظات کو گڑبڑا دے، بند آنکھوں کے ساتھ ، ہم اُسی دفتری عمارت کے سامنے کھڑے ہوگئے اور پھر تھوڑا سا آگے بڑھے جس وقت اُس نے میری آنکھوں پر بندھی پٹی کو ہٹایا تو میں نے خود کو میجر کے کمرے میں پایا۔

- بیٹھ جاؤ! مجھے امید ہے کہ میں جو سوال کروں گا، اُس کا صحیح جواب دو گے!

- پوچھئے، اگر قانون کی حدود میں ہوئے تو جواب دوں گا۔

اُس نے مجھ پر ایک خاص نگاہ ڈالی جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو، لیکن کچھ نہیں کہا اور ترتیب سے معمولی سوال پوچھنا شروع کئے:

- کون سی چھاؤنی سے آئے ہو، کتنے طیاروں کی ٹولی تھی، کون سے راستے سے آئے ہو، پیچھے والے کیبن میں کون سا پائلٹ تھا؟ ...

ان سوالوں کے پوچھنے کے بعد، جن سب کو میں نے صحیح بتایا اور اُس نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا اُس نے بات کو جاری رکھا:

- تم کون سی چھاؤنی میں ڈیوٹی انجام دے رہے تھے؟

- ہمدان، بوشہر، تہران۔

کلمہ بوشہر  پر تھوڑی دیر ٹھہرا اور پوچھا:

- بوشہر! اُس کا اسلحہ خانہ کہاں ہے اور وہاں کتنے طیارے موجود ہیں؟

- مجھے نہیں پتہ۔

- ہمدان کے بارے میں کیا خیال ہے؟

- مجھے نہیں معلوم۔

- کیا تمہیں ڈاکٹر کی ضرورت نہیں؟

یہ احمقانہ استدلال کی اصطلاح میں واقعاً ہنسنے کا مقام تھا۔

میں نے اطمینان کے ساتھ جواب دیا:

- کس قیمت پر؟ ایسا ڈاکٹر جس کی قیمت ایسے سوالوں کا جواب ہو، مجھے نہیں چاہئیے! جنیوا قرار داد کے تحت آپ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ میرے لئے ڈاکٹر لے کر آئیں۔

خوب اُسے پتہ تھا کہ کوئی منطقی جواب نہیں لاسکتا، وہ مجبوراً کسی اور ٹہنی پر جاکر بیٹھ گیا اور غرور کے ساتھ اُس مکمل اور کامیاب فاتح کی طرح اپنی آخری بات کی:

- تمہیں خود بھی پتہ ہے کہ مجھے ان تمام سوالوں کے جوابات پتہ ہیں، تم صرف جواب نہ دیکر، اپنے لئے نقصان کا سودا کر رہے ہو، ابھی تم دیکھو گے!

اُس نے گھنٹی بجائی، جیسے ہی نگہبان آیا، اُس نے عربی میں اُس کو کچھ باتیں کہیں جو تقریباًٍ حکم چلانے کی صورت میں تھیں۔ کچھ منٹ گزرے ہوں گے کہ غدار پائلٹ اور پھانسی کی سزا پانے والا بھگوڑا حمید نعمتی کمرے میں داخل ہوا۔ اُس نے سلام کیا۔

میں نے سرزنش سے بھرے انداز میں پوچھا:

- تم یہاں کیا کر رہے ہو؟

بہت آرام سے اور جیسے حق بجانب ہو ، وضاحت دینے لگا:

- پھانسی کی سزا پانے کے بعد، میں راتوں رات ملک کے مغربی علاقے میں موجود زمینی سرحد کے ذریعے، غیر قانونی طور پر عراق  میں داخل ہوگیا۔ میرے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا ۔اب میں یہاں ہوں اور بہت مزے میں بھی ہوں!

میرے اندر سے ایک آہ نکلی، میں نے کہا:

- مجھے تم پر بہت افسوس ہے، تم نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے، وہ راستہ سوائے جہنم کی تہوں کے اور کہیں ختم نہیں ہوتا۔

تفتیش کرنے والے افسر نے ہمیں زیادہ فارسی میں بات کرنے سے روک دیا اور اس طرح سے کہ اُس کا مخاطب میں ہوں، نعمتی سے پوچھا:

- حمید! شاہرخی میں کتنے پائلٹ ہیں، کتنے طیارے ہیں، کتنی اینٹی ایئر کرافٹس، اداروں کے گھر، پٹرول پمپ ...؟

اور اُس نے بھی سب کے صحیح صحیح جواب دیئے۔

اب میجر ایک کامیاب سردار کی طرح، ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جس نے اُس کے چہرے کو کھلا دیا تھا، میری طرف رُخ کرکے بولا:

- دیکھا؟ دیکھا میرے پاس تمام سوالوں کے جواب موجود ہیں۔ نہ صرف شاہرخی، میں نے تمام چھاؤنیوں کی معلومات کو جمع کیا ہوا ہے۔

اُس نے اپنی میز کی دراز کو باہر کی طرف کھینچا اور مجھے دو ورق دکھائے۔ میں نے اُس فاصلے سے چھاؤنیوں کے نام اور وہ چیزیں جو پڑھی نہیں  جارہی تھیں کو دیکھا، ہر کسی کے سامنے کچھ لکھا ہوا تھا۔ اُسی طرح اطمینان کے ساتھ  جیسے میرے اطمینان کو بھی حاصل کرنا چاہتا ہو اُس نے اپنی بات کو جاری رکھا:

- ... حتی ہمارے پاس ہر بٹالین کے پائلٹوں کے نام ہیں اور ہم چاہتے ہیں اسیر ہونے والے پائلٹوں سے پرواز کیلئے ایک بٹالین  تشکیل دیں!

مجھے بہت تعجب ہوا۔  مجھے اب پتہ چلا تھا کہ دشمن نے کس طرح ذلیلانہ طریقے سے ایک بڑی سازش کا جال بچھایا ہے تاکہ انقلاب کی سانسوں  کو روک دے۔ 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3624



http://oral-history.ir/?page=post&id=7437