یادوں بھری رات کے سلسلے کا ۲۸۳ واں پروگرام

سرحدوں کی حفاظت کرنے والے کمانڈروں کی یادوں کا بیان

مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-09-10


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، یادوں بھری رات کے سلسلے میں دفاع مقدس کا ۲۸۳ ویں پروگرام ، جمعرات کی شام، مورخہ ۲۴ اگست ۲۰۱۷ء کو آرٹ گیلری کے سورہ ہال میں منعقد ہوا۔ اس پروگرام میں سیکنڈ بریگیڈیر پاسدار رہام بخش حبیبی، سیکنڈ بریگیڈیر پاسدار جلال ستارہ اور سیکنڈ بریگیڈیر پاسدار محمد کاظم تقوی نے دفاع مقدس کے دوران گزری ہوئی اپنی یادوں کو بیان کیا۔

 

۲۵ سال جدائی

پروگرام کے پہلے راوی رہام بخش حبیبی تھے جو ۱۵ سال کی عمر سے  دفاع مقدس کے محاذوں پر چلے گئے اور انھوں نے محاصرہ آبادان کی شکست، خرم شہر کی آزادی، و الفجر  ابتدائی اور پہلے و الفجر جیسے آپریشنوں اور فکہ کے کاروائی والے علاقوں  اور چزابہ اور شلمچہ کے سخت محاذوں  پر ایک بسیجی کے عنوان سے اپنے وظایف انجام دیئے۔ یہ اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کی پولیس فورس میں سرحدی محافظین بھرتی کرنے کے ڈپٹی سیکریٹری ہیں۔ انھوں نے کہا: "میں ۱۱ فروری سن ۱۹۸۱ء میں انقلاب اسلامی کمیٹی میں پاسدار تھا۔ جیسا کہ گچساران خوزستان کے نزدیک ہے، جو لوگ محاذ سے واپس آرہے ہوتے تھے، وہ ہمارے شہر میں ضرور ٹھہرتے تھے۔ خدا نے توفیق دی اور میں نے محاذ پر جانے کا عزم کیا۔

اُس زمانے میں حاج علی فضلی گچساران کی سپاہ میں تھے۔ فوجیوں اور اسلحوں کو جمع کیا گیا تاکہ ہم لوگ حرکت کریں۔ پاسداروں کی کمیٹی میں سے ہم چار لوگ تھے؛ میں، شہید محمد جواد ہوشمند، شہید جلال ہوشمند اور شہید رحمان درویشی۔ میرے والد نے میری کم سنی کی وجہ سے حاج علی کو مجھے محاذ پر لے جانے سے منع کردیا تھا۔ جس وجہ سے حاج علی نے آکر مجھے گاڑی سے اُتار دیا،  لیکن میں اُن کا دھیان  ہٹتے ہی چپکے سے دوبارہ گاڑی میں گھس گیا اور رحمان درویشی کے پیروں کے نیچے چھپ گیا۔ جب گاڑی نے چلنا شروع کیا اور دار خوین پہنچی، ہم نے وہاں پر پہلی دفعہ بمب دھماکے ہوتے ہوئے دیکھے۔ ہم سے کہا گیا یہاں سے راستہ بند ہے آپ لوگوں کو ماہ شہر کی طرف سے جانا پڑے گا۔ ہم رات کو اہواز کے گلف کلب گئے اور وہاں میں نے ہر ممکن طریقے سے خود کو حاج علی کی نظروں سے بچا کر رکھا۔ صبح ناشتہ کیلئے  ہمیں روٹی کے ایک ٹکڑے کے ساتھ گاجر کا مربہ دیا گیا۔ میں رحمان درویشی کے ساتھ ایک ستون کے پیچھے چھپ گیا اور اُسے کھانے میں مصروف ہوگیا کہ اچانک حاج علی نے مجھے گدّی سے پکڑ کر اٹھالیا۔ مجھ سے پوچھنے لگے کہ تم کس طرح یہاں تک آئے  ہو اور میں نے التماس کرنا شروع کردیا۔ دوستوں نے واسطے دیئے اور درخواست کی، لیکن وہ کہہ رہے تھے کہ ممکن نہیں ہے ، تمہیں ہر صورت میں واپس جانا ہوگا۔ میں اسی طرح بضد تھا۔ وہ بولے: میں ایک شرط پر قبول کروں گا ، وہ شرط یہ ہے کہ تم تعہد نامہ لکھ کر دوکہ تم اپنی مرضی سے آئے ہو اور اگر تمہارے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا، اُس کی ذمہ داری خود تم پر ہوگی۔ میں راضی ہوگیا اور تعہد نامہ پر دستخط کردیئے۔ انھوں نے کہا تمہیں اپنا انگوٹھا لگانے پڑے گا۔ اُنھوں نے بال پوائنٹ کی سیاہی میرے انگوٹھے کے پوروں پر لگائی تاکہ میں کاغذ پر اپنے انگوٹھے کا نشان لگا سکوں۔

ہمارا ماہ شہر کے کنارے سے گزرنے کا ارادہ تھا کہ ہم نے دیکھا کہ عراقیوں نے راستہ بند کیا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم نے ایک لاؤنچ کرایہ پر لی اور ہم نے ہر آدمی کا کرایہ ۵۰ تومان اور اپنی جیپ کیلئے بھی ۱۵۰ تومان کرایہ دیا تاکہ وہ ہمیں راتوں رات فاو کے پیچھے سے آبادان تک پہنچا دے۔ آبادان میں ہم فیاضیہ گئے اور وہاں پر متعین ہوگئے۔ میں نے جنگ کے بعد کسی شادی میں شرکت نہیں کی، دراصل  میں یہ کام کر ہی نہیں سکتا تھا، کیونکہ جو بھی میرا دوست تھا اور  میرا جس کے ساتھ لگاؤ تھا، وہ چلا گیا تھا اور میں قافلے والوں سے بچھڑ گیا تھا۔ میرے پاس سن ۱۹۸۰ء کی ایک تصویر ہے جو دفتر میں رکھی ہوئی ہے تاکہ میں اُسے ہمیشہ دیکھتا رہوں اور اُن دنوں کو کبھی بھلا نہ سکوں۔ جس وقت رحمان جنگی علاقے میں آیا، اُس کی شادی کو تقریباً ایک ہفتہ گزرا تھا، ہم نے اتنا اصرار کیا کہ روک جاؤ، بعد میں آجانا، وہ نہیں مانا۔ فیاضیہ میں ایک دن صبح  وہ میرے لئے ایک جی تھری اور آر پی جی کا ایک ہیڈ کور لایا، اُس نے وہ ہیڈ کور جی تھری پر لگایا اور کہنے لگا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جی تھری کے اندر مٹی چلی جائے۔ اگلے دن میں اُس  سے ملنا چاہتا تھا۔ میں نخلستان میں سے گزرتا ہوا وہاں پہنچا جہاں رحمان تھا، میں نے لوگوں کو روتے ہوئے دیکھا۔  میں نے رونے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے رحمان ہوا ہوگیا۔ توپ کا ایک گولہ اُسے آکر لگا تھا اور اُس کے پورے جسم میں سے صرف ایک تھیلی گوشت ملا تھا۔ مجھے ا ُس کی قبر پر جانے کا حوصلہ نہیں ہوا حتی مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ اُسے کہاں دفنایا گیا ہے۔ یہ واقعہ سن ۱۹۸۰ء میں پیش آیا اور بات گزر گئی ، جب  میں تقریباً سن ۲۰۰۵ء میں غروب کے وقت قبرستان میں داخل ہوا۔ اُس تنہائی اور تاریکی کے عالم میں ، میں خود سے بات کر رہا تھا۔ میں ایک قبر پر پہنچ کر وہاں بیٹھ گیا، میں دیکھنا چاہتا تھا یہ کس کی قبر ہے۔ میں نے اپنے موبائل کی لائٹ جلائی اور اُس کی روشنی قبر پر ڈالی تو دیکھا وہ شہید درویشی کی قبر ہے۔ وہاں ہم نے اپنی یادوں کو تازہ کیا اور گفتگو کی۔"

 

گولی کی رینج میں

رہام بخش حبیبی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "خدا نے مجھے توفیق دی کہ میں سیستان اور بلوچستاں میں ڈیوٹی انجام دینے جاؤں۔ میں ماہ مبارک رمضان کی چوبیسویں رات، تھکا ہوا اور بے حال حالت میں گھر آیا تھا۔ رات کے تقریباً ۱۱ بجے میرے پاس فون آیا اور کہنے لگے کہ تین لوگ سرحد عبور کر رہے ہیں اور اور ایران میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ میں نے اُن سے کہا کہ پہلے اُنہیں اندر آجانے کی مہلت دی جائے پھر بعد میں آگے اور پیچھے سے اُن کا راستہ بند کردیں،  کیونکہ یا تو اُن کا تعلق کسی پارٹی سے تھا یا وہ لوگ منشیات کی اسمگلنگ کر رہے تھے۔ بیس منٹ بعد مجھے اطلاع دی گئی وہ دو یونٹ جنہوں نے آگے اور پیچھے سے اُن کا محاصرہ کیا ہوا تھا، اُن کی ان لوگوں کے ساتھ جھڑپ ہوگئی ہے۔ ماہ مبارک رمضان کی چوبیسویں رات، گھپ اندھیرا اور آسمان پر چاند بھی نہیں۔ میں نے اُن سے کہا کہ میرے آنے تک علاقے کو اپنے کنٹرول میں رکھیں۔

جب میں راستے ہی میں تھا، مجھ سے رابطہ کرکے کہنے لگا کہ ہماری ایک گاڑی کو آگ لگ  گئی ہے، لیکن اُس میں کوئی موجود نہیں تھا، شدید جھڑپ ہو رہی ہے اور وہ تین لوگ محاصرے کے بیج میں ہیں۔ اتنی شدید جھڑپ ہو رہی تھی کہ جب میں زاہدان کے اصلی روڈ پر گاڑی سے نیچے اُترا، پہلی گولی میرے پاؤں پر لگی۔ میں سڑک کے کنارے بیٹھ گیا اور علاقے کا جائزہ لینے لگا۔ میں نے دیکھا کہ وہ لوگ ہمارے محاصرے میں ہیں؛ وہ نہ تو آگے کی طرف بڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی پیچھے کی طرف واپس جاسکتے ہیں۔ میں نے ریڈار لانے کا کہا تاکہ اُن کی جگہ کا پتہ لگایا جاسکے۔ جیسے ہی ریڈار آیا، میں نے دیکھا سامنے سے ایک فوجی پیچھے کی طرف آرہا ہے اور روتا ہوا آرہا ہے۔ میں نے اُس سے رونے کی وجہ پوچھی تو اُس نے بتایا کہ منصور توحیدی نسب شہید ہوگیا ہے۔ منصور توحیدی نصب ہمارے  انبار  کا انچارج اور ہماری ضربتی ٹیم کا رکن  تھا۔ وہ ایک شیر دل سرحدی محافظ تھا۔ جب جھڑپ شروع ہوئی، وہ ایک درجہ دار سپاہی کے ساتھ اُن تین لوگوں کے پیچھے گیا تاکہ اُنہیں واپس پاکستانی حدود میں داخل ہونے کا موقع نہ مل سکے۔ ہمیں اگلے دن پتہ چلا کہ اُن کے پاس بِرنوعی (ایک قسم کی بندوق) تھی، عبد المالک ریگی کی برنو تھی جو ان تینوں کے لیڈر کو دی گئی تھی تاکہ عبد المالک کی یاد میں اُس سے فائر کریں۔ اس برنو کے اوپر، رات میں دیکھنے والی دوربین نصب تھی اور انھوں نے اس دوربین سے ہمارے ساتھی کو ہدف بنایا اور اُسے شہید کردیا۔ میں نے جھڑپ کے درمیان، ناجا کے سرحدی کمانڈر سردار قاسم رضائی کو فون کرکے بتایا کہ ہماری جھڑپ ہوگئی ہے اور ایک ساتھی شہید بھی ہوگیا ہے۔ انھوں نے فون رکھتے ہی خود کو ہم تک پہنچانے کیلئے ضروری ہماہنگی انجام دی۔ اُس دن وہ سردار فتح اللہ زمانیان اور سردار جلال ستارہ کے ساتھ وہاں آئے۔ ہمارا ایک ساتھی میرے قریب آکر کہتا ہے کہ اذان ہورہی ہے اور جھڑپ ابھی تک چل رہی ہے۔ میں نے کہا: ہم وضو کرکے نماز پڑھتے ہیں، ہمیں نہیں پتہ کہ ہم ایک گھنٹے تک زندہ رہیں گے یا نہیں، کہیں قضا نماز کے ساتھ اُس دنیا میں نہ چلے جائیں۔ ہم نے جھڑپوں کے درمیان ہی وضو کیا، نماز پڑھی اور پھر آگے کی طرف بڑھے۔

میں اپنی چھ لوگوں کی ٹیم کے ساتھ ۵۰ میٹر کے فاصلے پر لڑ رہا تھا۔ صبح کی تازہ ہوا چل رہی تھی۔ میں نے چیخ کر کہا: "تم لوگ ہمارے محاصرے میں اور فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے، تم لوگ فائرنگ نہیں کرو، ہم بھی نہیں کریں گے، ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں،  اگر ہم میں موافقت نہیں ہوئی، دوبارہ ایک دوسرے پر فائرنگ کریں گے۔ تم تینوں کے سر ہماری بندوق کی رینج میں ہیں اور ہم بہت آسانی سے تمہیں مار سکتے ہیں۔ اُن میں سے ایک نے کہا: بہت بے شرم ہو! میں نے کہا: تم بے شرم ہو کہ ہمارے ملک میں داخل ہوئے ہو اور دھونس جما رہے ہو۔ وہ بولا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں یہاں ایک گروپ کا کمانڈر ہوں۔ کچھ دیر خاموش رہی، پھر بولا ہمیں نماز پڑھنے کی مہلت دو۔ نماز کے بعد بولا: ٹھیک ہے، آجاؤ آپس میں بات کرتے ہیں! میں نے کہا: تم ہمارے محاصرے میں ہو پھر بھی میں آکر تم سے بات کروں؟ تم آؤ تاکہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں۔ اُن کے پاس ۱۴۰ تیار بمب تھے اور اُن کا خودکش دھماکے کرنا کا ارادہ تھا۔ ان کے پاس مختلف طرح کے اسلحے تھے، حتی اُن کے پاس سر درد اور دل درد کی گولیاں بھی تھیں، لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اُن کے دو آدمی زخمی ہوگئے تھے۔ جب اُنھوں نے ہماری طرف آنے کا ارادہ کیا، میں نے اپنی دائیں طرف کھڑے شخص سے کہا آنے والے کے ہاتھ میں جو کلاشنکوف ہے اُس کی انگلی اُس پر ہے، پہلی آواز سنتے ہیں اُنہیں گرا دینا اور انھیں نے فائر کرنے کی مہلت نہ دینا۔ بائیں طرف والے سے کہا وہ آدمی جس کے ہاتھ میں برنو ہے، اُس کی انگلی ٹریگر پر ہے، گولی کی آواز سنتے ہی اُس پر  فائر کھول دینا اور اُسے فائرنگ کرنے کی مہلت نہ دینا۔ درمیان والے شخص کی ذمہ داری میں نے خود اپنے اوپر لے لی۔ جیسے ہی وہ میرے پاس پہنچا، میں نے اُسے پکڑ کر جلدی سے اُس کی تلاشی لی تاکہ مطمئن ہوجاؤں کہیں اُس نے خودکش دھماکے والے جیکٹ تو نہیں پہنی ہوئی۔ میں نے اُس سے کہا تم بہت ہی نامرد ہو، ہماری آپس میں گفتگو کے باوجود تمہارے افراد  کے ہاتھوں میں ابھی تک اسلحہ ہے۔  اُس نے خود بتایا کہ ہم فائر کھولنے کے لئے تیار تھے اور مرنے کیلئے ایک دوسرے سے خدا حافظی بھی کرچکے تھے، نہیں پتہ کیا ہوا تم سے بات کرنے کے بعد میں نے اپنے افراد سے چاہا کہ ہم تسلیم ہوجاتے ہیں۔ میں نے اُن سے کہا کہ ہم تمہیں اذیت نہیں کریں گے، ہم بتائیں گے کہ جھڑپ کس طرح واقعہ ہوئی۔ جب ہم اُنہیں پکڑ چکے تھے، شہید توحیدی نسب کے دوست اور ہم شہری نے اُنہیں مارنے کیلئے اُسلحہ اٹھالیا، میں نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا، میں نے کہا ہمارا معاملہ خدا کے ساتھ ہے، ظاہری دنیا اور ہوا و ہوس کے ساتھ نہیں ہے۔ جب اُنہیں میرے کمرے میں لائے اور وہ بات کرنا چاہتے تھے، میں نے کہا ابھی بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے، پہلے علاج معالجہ کر والو، پھر ہم  نے اُنہیں کھانا دیا۔ جب انھوں نے ہمارے رویے کو دیکھا، تو کہنے لگے ہم نے ابھی تک جو بھی بات کی ہے وہ جھوٹ تھی اور ہمارے بیگ میں دو USB موجود ہیں جس میں ہماری تمام معلومات موجود ہے۔"

 

۱۷ مہینے بعد آزادی

جناب حبیبی نے اپنا تیسرا واقعہ اس طرح بیان کیا: "ایک دن سیستان و بلوچستان کے گورنر صاحب نے فون کرکے کہا ایک پارٹی، ایک  کان کن اور اُس کے ڈرائیور کو ۱۷ مہینوں کے لئے پاکستان لے گئے ہیں۔ وہ لوگ چاہتے تھے یہ ذمہ دارہی سرحدی محافظین کے ذمے لگائی جائے۔ ہم نے کسی طرح سے اپنے مورد نظر شخص سے رابطہ برقرار کیا۔ اُس شخص نے کہا میں ایک شرط پہ اُن دو لوگوں کو لاؤں گا۔ میں نے پوچھا: کونسی شرط؟ اُس نے کہا: پاکستان میں ایک گھرانہ ہے جس کے دو لڑکے گرفتار ہوگئے ہیں اور اُن میں سے ایک کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی ہے، ان دو لوگوں کو آزاد کرو گے تو ہم تمہیں وہ دو ایرانی تحویل میں دیں گے۔ اُس نے بہت بڑی کی بات کی تھی، کیونکہ ہم معاملہ کرنے والے نہیں ہیں اور اگر ہم اُنہیں واپس لانا چاہیں تو کسی اور طرح سے یہ کام کرلیں گے۔ میں نے قاضی سے بات کی ، اُس نے کہا تم اُن سے یہ کہہ سکتے ہو کہ اگر وہ دو افراد ہمیں دیں تو ہم ان دو افراد کی سزا میں کمی کردیں گے، لیکن اُنہیں آزاد نہیں کریں گے۔ میں نے پاکستانی گروپوں سے بات چیت اور ہماہنگی کرکے اُنہیں ایسی جگہ بلایا جہاں ہم آپس میں بات کرسکیں۔ اُس ملاقات میں ہم نے کہا: ہم عدالت میں ایسا کام کریں گے کہ تمہارے اُن دو لوگوں کو  پھانسی نہیں ہوگی۔ وہ خدا حافظ کرکے چلے گئے اوراب پھانسی پر چڑھنے والے شخص کے بھائی نے فون کیا۔ اُس نے کہا اگر ہم نے اُن لوگوں کو آزاد نہیں کیا، ہم اُن دو لوگوں کو بھی قتل کردیں گے اور مک سوختہ علاقے میں موجود تمہارے تمام لوگوں کو بھی قتل کردیں گے۔ میں نے کہا: ہم کل صبح تمہارے بھائی کو پھانسی پر لٹکا دیں گے اور فون کاٹ دیا۔ میں نے قاضی کو فون کیا اور اُس سے کہا اس شخص کا حکم جاری کرنے کیلئے مجھے اجازت دی جائے ، قاضی مان گیا۔ میں نے اُسے پھانسی کی جگہ لے جانے کا کہا اور اُس کے وکیل سے کہا اس کے بھائی کو فون کرکے کہو تمہارے بھائی کو صبح چھ بجے پھانسی پر لٹکا دیں گے۔ جب اُس نے مجھے فون کیا ، میں نے فون نہیں اٹھایا۔ اُس نے رات کو تقریباً ۱۰ بجے دوبارہ فون کیا اور کہا: میں نے جو باتیں کی تھیں ، میرا ایسا کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ اُس نے جو بھی باتیں کی، میں نے کہا صبح چھ بجے تمہارے بھائی کو پھانسی ہوجائے گی اور میں اُس کے بعد مک سوختہ  آؤں گا اور پھر ہم آپس میں بات کریں گے پھر پتہ چلے گا کون مرد ہے۔ رات گیارہ بجے اور ڈیڑھ بجے کسی دلال کے ذریعے فون کیا، میں نے وہی پہلے والی بات دھرائی۔ صبح تقریباً پانچ بجے فون کیا اور قسم کھائی کہ وہ دو ایرانی اُس کے پاس ہیں اور اُس نے چاہا کہ ہم چھ بجے تک اُس کے بھائی کو قتل نہ کریں تاکہ اُس کے پاس اُن دو افراد  کو تحویل دینے کا وقت ہو۔ لیکن میں نے کہا چھ بج کر پانچ منٹ پہ تمہارا بھائی قتل ہوجائے گا۔ اُس نے تقریباً ساڑھے پانچ بجے فون کیا ، کہنے لگا میں نے انہیں سرحد سے پار کرادیا ہے اور وہ لوگ مک سوختہ کے بعد والے نخلستان میں ہیں۔ میں نے ہماہنگی کرکے کہا اُسے خبر دیدو کہ اُس کے بھائی کو پھانسی گھاٹ سے جیل منتقل کردیا گیا ہے اور پروگرام کل پہ ملتوی ہوگیا ہے۔ اُس نے تقریباً ساڑھے چھ بجے فون کرکے  بھائی کو پھانسی نہ دینے پر شکریہ ادا کیا۔ میں نے ایک شخص کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے روتک اور مک سوختہ علاقوں کے درمیان موجود چھاؤنی بھیجا  تاکہ وہ ان دو لوگوں کو سوار کرکے تیزی سے  واپس آئے۔ جب وہ دو آدمی واپس آگئے، میں نے عجیب چیزوں کا مشاہدہ کیا۔ اُس دن سب لوگ رو رہے تھے۔ اُن لوگوں کے بال کاٹنے کیلئے نائی کو بلایا گیا۔ وہ لوگ نہائے اور میں نے اُنہیں بہت احترام سے اُن کے گھر تک پہنچایا۔ میں منصور توحیدی نسب کی شہادت  کے دو دن بعد، اُس کے گھر گیا۔ اُس کی ۱۴ سالہ بیٹی رو رہی تھی، میں نے اُس سے کہا رو نہیں، اپنے والد پہ فخر کرو، کیونکہ وہ ایسے سرحدی محافظ تھے جنہوں نے افسانوں کو حقیقت میں بدل دیا۔ "

 

میں نے اُس سے کہا: تمہیں شہادت مبارک ہو

یادوں بھری رات کے سلسلے کے ۲۸۳ ویں پروگرام کے دوسرے راوی، سیکنڈ بریگیڈیر پاسدار جلال ستارہ تھے۔ وہ ۱۶ سال کی عمر سے دفاع مقدس کے محاذوں پر چلے گئے اور انھوں نے و الفجر ابتدائی، کربلائے چار اور مرصاد آپریشنز میں گروپ اور دستوں کی کمانڈنگ پوسٹ پر ڈیوٹی انجام دی۔ وہ سن ۱۹۸۳ء میں اسلامی جمہوری ایران کی پولیس فورس میں داخل ہوئے اور آج کل پولیس فورس کے سرحدی محافظین کی بحری فورس کے سیکریٹری کے عہدے پر فائز ہیں۔ انھوں نے اپنی یادوں کو اس طرح بیان کیا: "جب ہم کہتے ہیں "سرحد"، اس کے معنی ایک ایسی مطمئن دیوار ہے جو ملک میں داخل ہونے والی ہر طرح کی ناامنی کو کنٹرول کرتی ہے۔ گذشتہ تاریخ میں قیمتی اور اعلیٰ محافظوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی مقدس سرحدوں کی محافظت کی ہے، لیکن ہم اکثر موارد میں اُن کے نام و نشان  اور کسی خاطر خواہ اثر کا مشاہدہ نہیں کرتے، کیونکہ اُن کے واقعات کو ایک کے بعد دوسرے سے بیان نہیں کیا گیا اوراُن کے واقعات  تاریخ میں گم ہوکر رہ گئے ہیں۔ انقلاب سے پہلے ہمارے پاس اگر ان محافظین سے متعلق کوئی چیز ہے تو وہ صرف ملک کے شمالی صوبوں میں چند مزارات  تک محدود ہیں، انقلاب کی کامیابی کے بعد ہم نے ملک کے خلاف ہونے والی کافی حرکتوں  کو مشاہدہ کیا تھا۔ سرحدی محافظین نہ صرف آٹھ سالہ دفاع میں سرحدوں پر موجود رہے، بلکہ انھوں نے ملک کے تمام نقاط کو بھی اپنی تیز عقابی نگاہوں کے کنٹرول میں رکھا ہوا تھا تاکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز عراقی بعثی پارٹی کے مقابلے میں بڑے اطمینان اور بے فکری کے ساتھ ملک کے مغربی محاذوں کے دفاع میں ڈٹی رہے۔

و الفجر ابتدائی آپریشن میں، اوائل کے دنوں میں جب ہم وہاں پہنچے، ہم  نے وہاں دیکھا قبر کی طرح کے گڑھے کھدے ہوئے ہیں اور راتوں کو لوگ آکر اُس میں دعا و مناجات کرتے ہیں۔ آپریشن والی رات، بٹالین پر دشمن کا بے امان حملہ ہوتا۔ جب ہماری بٹالین نے کام شروع کیا اور دشمن کے اس حملے اور گولہ باری کا سامنا کیا، تو اُن میں سے تقریباً ایک بٹالین کے لوگ باقی بچے۔ اس آپریشن میں ہماری بٹالینز کے نشرو اشاعت ڈپارٹمنٹ کے مسئول کی شہادت، جنہیں دوست احباب اُن کے نورانی چہرے کے وجہ سے اُنہیں شہادت کی بشارت دیتے تھے، سب سے الگ تھی۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایک مارٹر گولہ اُن کے پاس  آکر گرا، اُن کا جسم ہوا میں اچھلا اور بے جان حالت میں زمین پر آیا۔ یہ شخص شہید سید منصور حسینی تھے۔"

انھوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: آٹھویں و الفجر آپریشن کے بعد ہمیں ایسی جگہ جانا تھا جہاں دفاعی پوزیشن سنبھالے ہوئے افراد سے اُن کی جگہ لینی تھی۔ میں بس میں سویا ہوا تھا جب میری آنکھ کھلی تو دیکھا ہم مسجد فاو کے پاس کھڑے ہیں۔ میں نے دوستوں سے پوچھا نہر اروند کے اوپر سے کیسے گزرے؟ انھوں نے کہا پل بنا ہوا تھا۔ مجھے یقین نہیں آیا ، صبح جب سب فرنٹ لائن پر جانے کیلئے تیار ہوگئے، میں اُس پل کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کیلئے گیا۔ عمر بھر جہاد کرنے والے افراد کی اس پل کو بنانے میں کوشش و ہمت میرے لیئے غرور کا باعث تھی۔ ہم سرحد کی اگلی صفوں کی طرف بڑھے۔ ہم نے پہلے ہی سے اپنے سامنے موجود دشمن کے مورچوں کی معلومات حاصل کرلی تھیں۔ غروب کا وقت تھا اور سرخی چھا رہی تھی۔ ہم نے پوری طرح سرخی ختم ہونے سے پہلے دوشکا کو مورچے پر رکھا اور دوشکا کے زاویہ کو سیٹ کرلیا۔ جیسے ہی سرخی ختم ہوئی ہم نے فائر کردیا، چونکہ وہ ہماری صفوں پہ مختلف قسم کے اسلحوں سے حملہ کرتے تھے۔

ہماری بٹالین میں کچھ بسیجی تھے۔ ان میں سے ایک بسیجی گولی کھانے کے بعد، چلا رہا تھا اور کہے جا رہا تھا: "گولی، گولی، ہائے گولی ..." ہم جتنا بھی اُس سے پوچھ رہے تھے کہ تمہیں کہاں گولی لگی ہے وہ جواب نہیں دے رہا تھا۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ گولی اُس کے کولہے پر لگی تھی اور وہ یہ بات بتانے سے شرما رہا تھا۔ اس بات کو گزرے چند دن ہوئے تھے، مجھے پتہ چلا کہ کچھ لوگ ایک دوسرے پر پانی پھینکنے اور غسل شہادت انجام دینے میں مصروف ہیں۔ میں نے اُن سے کہا شدید جنگ ہو رہی ہے، اپنے اپنے مورچوں کے اندر جاؤ، کچھ ہی دنوں میں واپس چلیں گے۔ اُن میں سے ایک نے کہا ہم آج رات چلے جائیں گے۔ ابھی رات کے ۱۱ بھی نہیں بجے تھے کہ ایک شخص نے بتایا کسی مورچے پر توپ کا گولہ آکر لگا ہے۔ جب میں نے جاکر دیکھا تو وہ سب ایک ساتھ، لبوں پر تبسم سجائے شہادت کی آغوش میں جاچکے تھے۔"

جناب جلال ستارہ نے کہا: "جنگ کے آخری ایام میں ہماری دفاعی لائن فاو سے نہر اروند کے کنارے چلی گئی تھی۔ ہم فاو کے علاقے کو اچھی طرح پہچانتے تھے، ہم نے کچھ دوستوں کے ساتھ محاذ پر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ایک آدمی انقلابی کمیٹی سے آیا ہوا تھا اور جہادی بن چکا تھا اور میں بھی اُس زمانے میں طالب علم تھا، ہم دونوں بسیج کے ساتھ محاذ پر لوٹے۔ مجھے یاد ہے اُس دن جب ہم واپس آرہے تھے اور شہر سے تھوڑا آگے نکل چکے تھے، یہ شخص جس کا نام محمد مرادی نسب تھا، اُس نے مجھ سے گاڑی روکوانے کا کہا۔ جب گاڑی روک گئی، اُس نے باہر جاکر سجدہ کیا اور رونا شروع کردیا۔ وہ بہت فعال اور جوش و ولولے والا جوان تھا، رونا اُسے زیب نہیں دیتا تھا۔ میں نے اُس سے رونے کی وجہ پوچھی، اُس نے کہا مجھے اب یہ پانی اور مٹی نصیب نہیں ہوگی۔ جب ہم دزفول پہنچے، بٹالین کو ملک کے مغربی محاذ کی ذمہ داری سونپی گئی اور ہم سردشت اور بانہ کی سرحدوں سے عبور کرکے علاقے میں داخل ہوئے۔ ہم کچھ دنوں تک وہاں رہے، محمد جو بہت زیادہ فعال تھا، اب وہ ہر وقت نماز پڑھنے والا، ہر وقت وضو میں رہنے والا اور ہر وقت دعا و مناجات میں مشغول رہنے والا بن چکا تھا۔ ایک دن میں نے اُس سے کہا تمہیں شہادت مبارک ہو، اُس نے کہا میں اس بات پر راضی ہوں کہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجاؤں، شہید ہوجاؤں اور اپنی شہادت کا اجر خدا سے نہ مانگوں، لیکن خدا صرف اسلام کو کامیاب کردے۔ کچھ عرصے بعد استرک، آسوس، شیخ محمد کی بلندیوں پر آپریشن ہوا۔ ہم نے چند دنوں تک ان بلندیوں پر دفاعی پوزیشن سنبھالی۔ ہمارے ساتھیوں نےوہاں  دشمن کے کچھ صفوں کو شکست سے دوچار کر دیاتھا۔ یک رات دشمن نے بہت شدید حملہ کیا تھا اور دوسری طرف سے ہم چند راتوں سے سوئے بھی نہیں تھے۔ جب ہمیں ان بلندیوں پر چڑھنا ہوتا، ہمیں تقریباً پانچ سے چھ گھنٹے تک پیدل چلنا پڑتا تھا۔ ہم بٹالین کے پیچھے پیچھے چلتے تھے، تاکہ کوئی پیچھے رہ جائے تو اُس کی مدد کریں یا بھاری سامان اٹھالیتے تھے اور ساتھ ساتھ ہم دیکھ رہے ہوتے کہ  دشمنوں کی صفوں پر حملہ کرنے والے شہیدوں کو خچر کے ذریعے واپس لایا جا رہا ہوتا تھا۔ محمد نے میری طرف رُخ کرکے کہا واقعاً میرا دل تمہارے لئے کڑھ رہا ہے، کیونکہ تمہیں اسی حالت میں یہ پورا راستہ واپس طے کرنا ہے۔ میں نے تقریباً سات، آٹھ اسلحے اٹھائے ہوئے تھے۔ میں ہنسا اور بولا: پس تم کس طرح واپس آؤ گے؟ اُس نے کہا: مجھے ہیلی کاپٹر کے ذریعے لایا جائے گا۔ میں نے کہا: اچھا دیکھنا میں بالکل ایسا نہیں ہونے دونگا کہ تمہارے جسم کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے لایا جائے، کیا تمہارا خون دوسروں سے زیادہ رنگین ہے؟ تمہیں بھی خچر کے ذریعے لانا ہوگا۔ ہم ہنس رہے تھے اور آگے بڑھ رہے تھے۔ مجھے وائرلیس کے ذریعے بتایا گیا کہ آقا محمد کو گولے کا ٹکڑا لگا ہے، اُس کا پیر کٹنے کا احتمال ہےاور ہیلی کاپٹر بھی کھانا تقسیم کرنے آیا ہوا ہے اور پیڈ پر کھڑا ہوا ہے۔ اُس لمحہ میں بھول گیا کہ میں نے محمد سے کیا باتیں کی تھیں۔ جو دوست احباب مجھ سے پہلے پہنچ گئے تھے وہ بتاتے ہیں جب محمد کو ہیلی کاپٹر میں رکھا، وہ آخری سانسیں لے رہا تھا۔ وہ تنہا شہید تھا جسے ہم نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے واپس بھیجا تھا۔ اُس کا جسم غلطی سے مشہد چلا گیا تھا اور وہاں اُس کے جنازے کو طواف کروایا گیا۔ جب اُنہیں پتہ چلتا ہے کہ یہ جنازہ غلطی سے آگیا ہے، اُسے دوبارہ گرمسار منتقل کر دیا جاتا ہے۔

انھوں نے بیان کیا: میں ایک دن طلائیہ میں مائنز کے میدان میں سرحدی حدود مشخص کر تے ہوئے پھنس گیا۔ میں تقریباً ایک کلومیٹر آگے تک جاچکا تھا اور پیاس مجھے ہلاک کئے جا رہی تھی اور اُدھر سے میرے سامنے مائنز کا میدان اور بڑا ہوگیا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ مجھے اُس دن پتہ چلا کہ جب کہتے ہیں کہ پیاس انسان کی آنتوں تک کو سکھا دیتی ہیں، اس کے کیا معنی ہیں! میں نے دیکھا کہ ایک فوجی نے اُس میدان میں خود کو مجھ تک پہنچایا، میں نے اُس سے پوچھا اور لوگ تھے، تم کس لئے آئے ہو؟ وہ بولا میں اپنے ملک کے دفاع کیلئے اپنی جان نچھاور کرنے کیلئے تیار ہوں،  جب میں آرہا تھا تو  مجھے پتہ تھا کہ شاید میرے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاؤں۔

جناب جلال ستارہ نے آخر میں کہا:"میرا ایک درجہ (فوجی بیج) والا دوست تھا جو غوطہ خوری کرنا چاہتا تھا، جیسا کہ اُس کا جسم بہت نحیف  اور ہلکا پھلا سا تھا، میں نے اُسے اجازت نہیں دی۔ ہم اُسے امتحان کیلئے واٹر پریشر والے کمرے میں لے گئے اور وہ فیل ہوگیا۔ اُس نے بہت ا صرار کیا۔ بالاآخر اُس نے کچھ عرصے تک اس کی ٹریننگ حاصل کی پھر بندر عباس لوٹ گیا۔ میں نے اُس سے کہا: تم تو بوشہر کے رہنے والے ہو، میں تمہارے لئے بوشہر جانے کا حکم صادر کر دیتا ہوں۔ وہ بولا: آپ مجھے ایسی جگہ بھیجیں جہاں بہت خطرہ ہو۔ اُس نے خود پوچھ گچھ کر رکھی تھی اور اُسے پتہ تھا کہ اُس زمانے میں دشمن سے پنجہ آزما ہونے کیلئے بندر عباس دوسرے علاقوں سے زیادہ خطرناک تھا۔ وہ دس دن بعد، شریروں اور مسلح اسمگلروں کے ہاتھوں شہادت پر فائز ہوگیا، اس طرح سے کہ اُس کے سر کا کچھ حصہ اُڑ گیا تھا۔"

 

یہ ایسا محاذ جو اُس زمانے کے محاذ سے کسی طرح کم نہیں

یادوں بھری رات کے سلسلے کے ۲۸۳ ویں پروگرام کے تیسرے راوی، سیکنڈ بریگیڈیئر پاسدار محمد کاظم تقوی تھے۔ وہ شروع میں انقلاب اسلامی کی کمیٹی میں داخل ہوئے اور آج کل سرحدی علاقوں کی حفاظت کرنے والی پولیس سیکورٹی فورسز  کے ڈپٹی کمانڈر  کے عہدے پر فائز ہیں۔ انھوں نے اپنی یادوں کے بیان کا آغاز اس طرح سے کیا: "میں اپنے سیکنڈری اسکول کے زمانے میں ایک بسیجی کے عنوان سے جنگی محاذوں پر چلا گیا۔ مجھے فتح المبین آپریشن میں شرکت کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔ شہر شوش عراقیوں کی بمباری کی رینج میں تھا، میزائل، مارٹروں اور مختلف قسم کے اسلحوں نے شہر کو جنگ میں مبتلا کر رکھا تھا۔ شہر میں فوجیوں کے علاوہ کوئی بھی رہائش پذیر نہیں تھا۔  ۲۰ مارچ سن ۱۹۸۲ء کا دن تھا۔ دشمن کے پاس جو معلومات کا تخمینہ تھا، وہ کسی آپریشن کی خبر دے رہا تھا۔ ۲۰ مارچ کی رات، عراقیوں نے ایرانی فوجیوں کو کسی طرح سے تتر بتر کرنے کیلئے، ایک نئی منصوبہ بندی اپنائی تاکہ دفاع مقدس کے کمانڈروں کے منصوبوں کو مشکل کا سامنا ہو، لیکن خدا کی مدد سے ۲۲ مارچ، ۱۹۸۲ء کو فتح المبین آپریشن انجام پایا۔  کاروائی کرنے والے گروپس میں سے ایک گروپ وہ تھا جس میں ہم موجود تھے اور اُس کا تعلق قم کی ۱۷ ویں بریگیڈیئر سے تھا جو بعد میں علی بن ابی طالب (ع) ڈویژن بن گیا۔ سپاہیوں کی رسم کے مطابق سب ایک دوسرے سے وصیت اور خدا حافظی کرچکے تھے۔ طے پایا کہ ہم عراقیوں کے محاصرے میں چلے جائیں تاکہ سپاہی دشمن کی صفوں میں آرام سے دراڑیں ڈال سکیں۔ یہ حکمت عملی کسی حد تک کامیاب رہی۔ اسلامی جمہوری کی آرمی کا ایک گروپ بھی وہاں موجود تھا۔ ہم نے چلتے ہوئے اپنی نمازوں  کو ادا کیا۔ راستے میں مجھے ایک لمحہ کیلئے ایسا لگا کہ ایک آدمی میرے قریب گر گیا ہے۔ اُس نے مجھے پہچان لیا اور مجھے میرے نام سے پکارا۔ اُس نے کہا: مجھے گولی لگ گئی ہے۔ میں اُس کے پیچھے ہٹنے میں اُس کی مدد کرنا چاہتا تھا، لیکن اُس نے منع کردیا اور کہنے لگا تم اپنے راستے پہ آگے بڑھو۔ الحمد للہ وظیفہ احسن طریقے سے انجام پایا اور سپاہیوں نے کامیابی کا مشاہدہ کیا۔ ہم چند بعدابوذر ٹاؤن میں سات ٹیلوں والی جگہ منتقل ہوگئے۔ میں اپنے اُس دوست کی سلامتی کیلئے پریشان تھا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ ٹھیک ہوگیا  ہے یا شہید ہوگیا ہے۔ رات کا وقت تھا جب میں نے اُسے جھکی ہوئی حالت میں آتے ہوئے دیکھا۔ مجھے اُس کی سلامتی پر خوشی ہوئی۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ اس حال میں کیوں واپس آگئے؟ وہ بولا: مجھے علاج کیلئے تہران لے گئے تھے ، چند دن میری دیکھ بھال کی ہے، لیکن جیسا کہ مجھے شہادت کی توفیق نہیں ملی، میرا دل محاذ پہ  ہی لگا رہا، اسی وجہ سے میں نے چاہا کہ مجھے اسی حال میں ڈسچارج کردیں تاکہ فوراً جاکر سپاہیوں میں شامل ہوجاؤں۔ میں نے اس قضیہ کی حقیقت کا مشاہدہ سرحدی پوسٹ پر بھی کیا تھا۔ آخری گذشتہ سالوں میں ہمارے ایک بہت ہی اچھے اور بہادر کمانڈر، جب ایک مائنز سے بھرے علاقے میں داخل ہوئے، انھوں  نے سب لوگوں سے پہلے حرکت کرنا چاہی۔ بدقسمتی سے مائن پر چڑھ گئے  اور اُن کا ایک پیر جدا ہوگیا۔ پہلی فرصت میں جب ہمیں اُن سے ٹیلی فون پر بات کرنے کا موقع پہلا، انھوں نے کہا: دعا کرنا کہ میں بہت جلد واپس آکر ساتھیوں سے ملحق ہوجاؤں۔"

جناب تقوی نے آخر میں کہا: "دفاع مقدس کے دوران علماء، عرفاء اور مولوی حضرات محاذ پر آتے تھے اور کہتے تھے ہم اس لئے آئے ہیں  تاکہ محاذ کی معنویت سے استفادہ حاصل کریں۔ سن ۲۰۰۹ء میں خبر دی گئی کہ ایک عالم دین جو کسی صوبے میں ولی فقیہ کے نمائندے تھے، ہمارے طرف آرہے ہیں۔ ہمیں بہت تعجب ہوا، کیونکہ کچھ پابندیوں کی وجہ سے آنے سے پہلے پروگرام ترتیب دیا جاتا ہے اور ہماہنگی کی جاتی ہے۔ جب وہ پہنچے،انھوں نے  کمرے میں بیٹھتے ہی اس بحث کو چھیڑا کہ: آج کل ہمارے پاس دفاع مقدس کی طرح کا محاذ نہیں ہے، لیکن جس محاذ پر آپ لوگ خدمت اور دفاع (سرحدی محافظت) کر رہے ہیں اس کا کردار اُس زمانے کے محاذ سے کم نہیں، کیونکہ جس کمرے میں آپ بیٹھے ہیں ، آپ یہاں بیٹھ کر اپنے زمانے کی مشکلات سے مقابلہ کرنے کے بارے میں بڑے بڑے فیصلے کرتے ہیں۔ میں یہاں اس لئے آیا ہوں تاکہ اس کمرے کا گرد و غبار میرے لباس پر لگے اور میری آخرت کیلئے کچھ سامان مہیا ہوجائے۔ میں اس فضا میں سانس لینے آیا تاکہ مجھے فائدہ پہنچے۔"

یادوں بھری رات کے سلسلے میں دفاع مقدس کا ۲۸۳ واں پروگرام، ثقافتی تحقیق، مطالعات اور پائیدار ادب کے مرکز اور ادبی اور مزاحمتی فن کے مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام ۲۴ اگست ۲۰۱۷ء کو  آرٹ گیلری کے سورہ آڈیٹوریم  میں منعقد ہوا۔ اگلا پروگرام ۲۸ ستمبر کو منعقد ہوگا۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4569



http://oral-history.ir/?page=post&id=7306