امام (خمینیؒ) کے قائم مقام

آیت اللہ سید جعفر کریمی
ترجمہ: سید محمد مبشر

2017-07-24


مجھے ٹحیک طرح یاد نہیں ہے سن ۱۹۷۵ء تھا یا سن ۱۹۷۶ء، مجھے ایک لفافے میں امام خمینی کی ایک تحریر خود امام خمینی کی طرف سے پہنچائی گئی۔ اس لفافے پر لکھا تھا یہ لفافہ فلاں شخص کو دے دیا جائے، جسے وہ میرے مرنے کے بعد کھولے اور جو لکھا ہے ویسا کرے۔

لفافے پر لکھی اس عبارت پر جیسے ہی میری نظر پڑی مجھے ایک عجیب سا احساس ہوا اور امام سے محبت اور مستقبل کیلئے وابستہ امیدوں کی وجہ سے "میرے مرنے کے بعد" کی تعبیر سے مجھے دکھ ہوا۔

(میں اپنی تعریف کیلئے نہیں کہہ رہا) شاید اس تعبیر نے مجھ پہ گہرا اثر ڈالا۔ میری آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔ دراصل اس بات کا تصور میرے لئے بہت دکھ کا باعث تھا کہ ایک دن ایسا آئے جب امام ہمارے درمیان نہ ہوں اور میں ان کے فرمان کے مطابق اس لفافے میں موجود تحریر پر عمل کروں۔

اس واقعہ کے بعد امام خمینی نے خود فرمایا: "وہ لفافہ جو فلاں شخص کو دیا گیا ہے، میری وصیت ہے"۔ یہ بات انہوں نے اس وقت کہی جس  رات نجف میں ان کے گھر کے محاصرے کو تقریباً ایک مہینہ اور چند روز گزر چکے تھے اور مخفی طریقے سے نجف سے روانہ ہوکر عراق سے باہر جا رہے تھے۔

امام  نے مجھے، ہمارے عزیز دوست مرحوم آیت اللہ خاتم یزدی ، شورائے نگہبان کے فقیہ جناب آیت اللہ (مرحوم) رضوانی اور مرحوم آیت اللہ حاج شیخ حبیب اللہ عراقی کو اپنا قائم مقام بنایا تھا۔

اس رات الوداعی اجلاس میں انہوں نے ہمیں بلایا اور فرمایا: "میں عراق سے جا رہا ہوں؛ آپ لوگ حوزے کو چلانے کی خاطر یہیں ٹھہرئیے۔ پہلے جو خط میں نے دیا تھا اس میں احکامات لکھ دیئے ہیں۔" اس رات انہوں نے کچھ باتیں کیں: میرے گھر میں کیا ہے، کیا نہیں ہے۔ حوزے کو کیسے چلائیں؛ یہ حوزہ مرحوم شیخ طوسی کی یادگار ہے اور شیعوں کا بڑا مرکز ہے اور اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ اب جبکہ میں جا رہا ہوں، آپ لوگ یہاں رُکئیے اور میری طرف سے حوزے کو چلانے میں  میرے حصے کی ذمہ داری اٹھائیے۔

اس رات امام سے ملاقات کے بعد میں نے  سیاسی حالات، عرب ممالک کی حکمت عملی اور عالمی استکباری طاقتوں سے ان کے گٹھ جوڑ اور شاہ ایران کی طاغوتی حکومت سے ان کے تعلقات کے بارے میں معلومات کے سبب امام کی جان کیلئے خطرہ محسوس کیا اور باہر جاکر خادم سے کہا: "امام سے اجازت لو، میں ان کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں۔" خادم گھر میں گیا اور واپس آکے اس نےکہا: "امام نے فرمایا ہے دس منٹ بعد آئیں۔" میں دس منٹ بعد ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے خود دروازہ کھولا اور میں اسی کمرے میں امام کی خدمت میں بیٹھ گیا اور روتے ہوئے کہا: آقا! آپ کہاں جا رہے ہیں؟ میں اس سفر میں آپ کی تنہائی سے ڈر رہا ہوں، مجھے ڈر ہے آپ جس ملک میں جائیں گے وہ آپ کے لئے مشکلات ایجاد کرے یا آپ کو شاہ کے حوالے کردے۔"

امام نے غمگین حالت میں کہا: "میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ مجھے یہاں پر کہا گیا ہے شاہ کی حکومت کی مخالفت ختم کر دوں اور خاموش ہوجاؤں ورنہ یہاں نہ رہوں۔ میں ایران کی شاہی حکومت کے مظالم کے خلاف خاموشی کو  اپنے شرعی وظیفے کے خلاف سمجھتا ہوں اس لئے میں عراق چھوڑنے پر مجبور ہوں، فی الحال عارضی طور پر کویت جا رہا ہوں، وہاں سے شام جاؤں گا اور اپنی قوم کی بیداری اور اس پر ہونے والے مظالم کے خلاف تحریک کوآگے بڑھاؤں گا۔ اگر ان تمام عرب ممالک میں سے جو ظاہری طور پر مسلمان ہیں، کسی نے بھی مجھے پناہ نہیں دی تو بھی اسلام اور مظلوم مسلمانوں کی حمایت جاری رکھوں گا چاہے اس کے لئے مجھے سمندروں میں کشتی میں تنہا ہی کیوں نہ رہنا پڑے، آگے خدا کی مرضی۔" آخر میں انہوں  نے فرمایا: "البتہ میں یہاں حرم امیر المومنین علیہ السلام اور بعض دوستوں سے مانوس تھا لیکن خدا جانتا ہے مجھے یہاں کے بزرگوں کی طرف سے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔" امام کی اس تعبیر سے ان کی چند سالوں تک برداشت کی جانے والی مشکلات کا اندازہ ہو رہا تھا۔

ہم کویت کی سرحد تک ان کے ساتھ گئے، وہاں انہیں الوداع کرکے واپس آگئے۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ انہیں کویت میں داخل ہونے نہیں دیا گیا اور وہ واپس عراق آگئے اور پھر وہاں سے پیرس چلے گئے، یہاں تک کہ انقلاب کی تحریک کامیاب ہوئی اور ہم ایران آکر ان سے ملے۔ 


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 3541



http://oral-history.ir/?page=post&id=7194