خارج از تہران قیام کا پھیلاؤ

آیت اللہ سید محمد سعیدی


2017-07-04


آیت اللہ سید محمد سعیدی پہلوی حکومت کے خلاف قیام کے دنوں کی یادوں کے بارے میں بیان کرتے ہیں: "میرے والد کے لئے حالات روز بروز مشکل تر ہوتے جا رہے تھے۔ حکومتی اداروں کی طرف سے کھڑی کی جانے والی مشکلات ایک طرف تھیں اور دوسری طرف سے ان کیلئے محلہ میں بھی مشکلات ہوگئی تھیں جس کی وجہ سے انہیں تبلیغ کا طریقہ کار بدلنا پڑا۔

ساواک کی طرف سے دباؤ بڑھنے کے بعد، آیت اللہ سعیدی نے ظالم حکومت کی مخالفت کو صرف مسجد تک محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے اپنی سرگرمیوں کو تہران کے اطراف کے علاقوں میں بھی پھیلایا۔

انہوں نے تہران کے مضافاتی اور دور دراز کے علاقوں جیسے پارچین جانا شروع کردیا اور ایسے لوگوں میں جاکر تقریریں کرنا شروع کیں جنہوں نے کبھی علماء کی تقریریں نہیں سنی تھیں!

خود میرے والد کے بقول: "پارچین ایک ایسی جگہ تھی جہاں ایک بھی عالم نہیں گیا تھا"۔ لہذا وہ وہاں اور اس کے اطراف کے دیہاتوں میں جو چند دفعہ گئے، اس میں لوگوں نے ان کی معلومات سے بھرپور تقریروں میں شرکت کی۔

انہوں نے اس راہ میں بہت مشکلات برداشت کیں اور ساواک کی طرف سے مشکلات اور دھمکیوں کے باوجود اپنے کام کو جاری رکھا۔

مجھے اچھی طرح سے یاد ہے، ایک رات میرے والد کا پارچین جانے کا ارادہ تھا لیکن انہیں جانے کیلئے کوئی گاڑی نہیں ملی۔ وہ اس رات وہاں ضرور جانا چاہتے تھے لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے پہنچیں گے؟!

میں اس وقت اٹھارہ برس کا تھا اور میرے پاس موٹر سائیکل والی سائیکل تھی۔ انہوں نے مجھ سے چاہا کہ میں انہیں خراسان چورنگی تک پہنچادوں۔ وہ وہاں سے کسی گاڑی میں پارچین جانا چاہتے تھے لیکن نہیں جاسکے۔

میں انہیں خراسان چورنگی لے گیا، وہاں کے بعد بھی وہ میری سائیکل پہ ہی میرے ساتھ گرمسار ہائی وے سے اس گاؤں میں گئے جہاں اُنہیں جانا تھا۔ وہاں اُنہیں تقریر کرنی تھی۔

وہ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور ہم جا رہے تھے ... تھوڑی دیر بعد ہم ایک چھوٹے روڈ پر پہنچے۔  اس وقت، میری سائیکل کی موٹر کا پلگ خراب ہوگیا اور وہ جھٹکے لیتے لیتے اچانک بند ہوگئی۔  ہمارے پاس اضافی پلگ بھی نہیں تھا۔ اس گاؤں تک پہنچنے میں زیادہ فاصلہ نہیں رہ گیا تھا۔ کچھ سُجھائی نہیں دے رہا تھا کہ کیا کریں! اتفاق سے اس رات چاند بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا اور صرف اندھیرا تھا۔  میرے والد نے عبا اتار کے کندھے پہ ڈالی۔ میں نے بھی اپنی بند سائیکل پکڑی اور ہم ایسے ہی پیدل چلنے لگے۔

ہم تھوڑا سا ہی چلے تھے کہ میرے والد نے کہا: محمد! میں ایک صلوات پڑھتا ہوں تم اپنی سائیکل کی موٹر اسٹارٹ کرنے کیلئے ایک دو پیڈل مارو، انشاء اللہ اسٹارٹ ہوجائے گی۔

میں نے سائیکل مین ا سٹینڈ پہ کھڑی کی۔ میرے والد نے صلوات پڑھی، اس کے باوجود کہ مجھے معلوم تھا موٹر خراب ہوگئی ہے، میں نے پیڈل  مارنا شروع کیا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا، اچانک سائیکل کی موٹر اسٹارٹ ہوگئی!۔

میرے والد دوبارہ پیچھے بیٹھے اور ہم لوگ اس مشکل کے باوجود اس دیہات پہنچ گئے۔

انہوں نے اس رات تقریر کی۔ ہم لوگ  اس رات وہیں ٹھہرے اور اگلے دن میری اسی موٹر سائیکل پر واپس تہران آئے۔

میں نے اپنے والد کے پارچین جانے کے بارے میں کئی سالوں بعد ساواک کی ر پورٹ میں پڑھا۔

اس میں لکھا ہوا تھا: "..... ایسا سمجھ میں آتا ہے مذکورہ شخص چاہتا ہے کہ اپنی سرگرمیوں کا دائرہ کار تہران سے بڑھا کر اطراف کے علاقوں تک لائے۔ جن میں سے ایک پارچین کی آبادی ہے .... 

گزارش کی جاتی ہے کہ اس شخص کی طرف سے پارچین کا انتخاب کرنے اور اس آبادی کے نزدیک ایسی مسجد جسے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائے، آباد کرنے کے مقصد کے بارے میں  تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے حساس طریقے سے تحقیقات کرنے کا حکم دیا جائے تاکہ مرکزی دفتر کو اس کے بارے میں آگاہ  کیا جائے۔"


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 3528



http://oral-history.ir/?page=post&id=7154