سات مختلف صوبوں سے کچھ کتابیں

مختلف افراد، یادوں کی فریم میں

محمد علی فاطمی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-07-02


اس دفعہ آپ سے جن کتابوں کا تعارف ہوگا، وہ یہ ہیں: "سرخ لباس؛ شہید احمد اُمّی کی روزمرہ کی یادیں"، "میرے فریم میں موجود افراد نہیں مرتے؛ سعید جان بزرگی کے بارے میں ایک کتاب"۔ "روشن دان انتظار کر رہے ہیں؛ شہید ابراہیم بشکردی زادہ کی یادوں پر مشتمل مجموعہ"، " ملاقات کی آرزو؛ ایثار کرنے والی خاتون ام البنین منصور خانی کا زندگی نامہ"، "آتش اور آویشن سے؛ شہر راز کے شہدا، یادوں کے فریم میں"، "شام ساڑھ چھ  بجے؛ دشمن کی قید سے رہائی پانے والے ونگ کمانڈر پائلٹ یوسف سمندریان کی یادیں"، "پوشیدہ محبت؛ دشمن کی قید سے رہائی پانے والے محمد تقی زادہ کی تحریر کی اساس پر"، "آخری گھونٹ؛ شہید ید اللہ ندرلو کا زندگی نامہ"، "کوراوغلی کے مختلف  گروہ؛ بسیجی حاج علی تنہا کی زندگی کی ایک داستان"۔

 

وہ نوٹس جو ترجمہ ہوگئے

"سرخ لباس: شہید احمد اُمّی کی روزہ مرہ کی یادیں"؛  اس کتاب کو محبوبہ حاجیان نژاد کے ترجمے اور محمد مہدی عبد اللہ زادہ کی تدوین کے ساتھ سورہ مہر پبلشرز نے سن ۲۰۱۶ء کے آخر میں شائع کیا۔

اس ۵۸۹ صفحات پر مشتمل کتاب کے مقدمے میں اس کے متن کے بارے میں بعض نکات بیان کیے  گئے ہیں؛ جیسےکہ: احمد اُمّی، سن ۱۹۵۷ء میں پیدا ہوئے ...انہوں نے  ستمبر سن ۱۹۷۸ء سے لیکر اپنی شہادت سے ایک دن پہلے تک کے تمام واقعات انگریزی زبان میں لکھے ہیں ... ان کی یہ یادیں ہاسٹل کی زندگی، خاندانی  رشتے داریوں، اسلامی انقلاب کی کامیابی کے سال کے پر آشوب دنوں، جنگی ٹریننگ کا زمانہ اور جنگ کے کٹھن ایام پر مشتمل ہیں  ... احمد اُمّی اپنی باتیں لکھنے کے علاوہ، داخلی اور خارجی واقعات کو بعنوان "حاشیہ" لکھا کرتے تھے ... جب انہوں نے اپنے آخری نوٹس لکھے تو وہ ایک ٹینک کی قیادت کر رہے تھے، اس کے چند گھٹنوں بعد وہ شہید  ہوگئے۔

"سرخ لباس" نامی کتاب کا آغاز سن ۱۹۷۸ء کی یادوں سے ہوتا ہے جو صفحہ نمبر ۲۰۰ تک چلتی ہیں۔ ۱۱ فروری ۱۹۷۹ء (اسلامی انقلاب کی کامیابی کا دن) کے واقعات میں شہید اُمّی نے لکھا ہے: "آدھی رات کو شروع ہونے و الی بارش صبح آٹھ بجے تھم گئی لیکن آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ لوگ پہلے کی طرح ذوق و شوق سے مسلح جنگ میں مصروف تھے۔ میں صبح ۹ بجے جناب حاج رضا کے گھر سے باہر آیا۔ تمام سڑکیں بجری کی بوریوں سے بند کردی گئی تھیں۔ ۲۰ سے زیادہ ٹرک اور ۱۰ ٹینک جل چکے تھے اور تین ہیلی کاپٹر گر چکے تھے۔ میں پیدل شہداء چورنگی گیا۔ وہاں میں نے چند مسلح افراد کو دیکھا جو  ارک چورنگی جانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے تاکہ ٹی اور ریڈیوں اسٹیشنوں پر قبضہ کرلیں۔ میں بھی ان کے ساتھ ہولیا اور مدرسہ علوی گیا، امام (خمینی) وہاں پر تھے۔  مدرسہ میں بہت رش اور شور بپا تھا۔ میں امام (خمینی) کو نہیں دیکھ سکا، اسی وجہ سے ا رک چورنگی کی طرف واپس آگیا۔ وہاں ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنوں کی حفاظت کرنے والی فوج اور عوام کے درمیان سخت کشمکش چل رہی تھی ... سات بجے مجھے اطلاع ملی ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن عوام کے اختیار میں آگئے ہیں ..."

روزانہ کی بنیاد پر لکھے جانے والے ان نوٹس کی خاصیت یہ ہے کہ راوی کے ذہن میں ہر دن کے واقعات کے خلاصہ کی منظر کشی ہوتی چلی جاتی ہے۔ بعض واقعات روزانہ کی خبروں کی مانند ہیں اور چند دن بعد کے نوٹس میں ان کی تکذیب یا کسی اور طرح سے ہونے کی خبر ملتی ہے۔ اس خاصیت سے پتہ چلتا ہے کہ ہر دن کے نوٹس صرف اسی دن کی عکاسی کر رہے ہیں اور بعد میں راوی کی طرف سے اس میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی ہے۔

سن ۱۹۷۹ء کے نوٹس میں صرف اواخر مارچ اور اپریل کے واقعات درج کئے گئے ہیں اور سن ۱۹۸۰ء کے واقعات جولائی کے آخری دنوں سے لیکر ۴ جنوری سن ۱۹۸۱ء تک لکھے گئے ہیں۔ یہ نوٹس جیسے جیسے آگے کی تاریخوں کی طرف جاتے ہیں، ان میں نجی اور گھر والوں کے بارے میں کم جبکہ معاشرے میں ہونی والی تبدیلیاں اور واقعات زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ احمد اُمّی ۴ اگست سن ۱۹۸۰ء کو فوجی ٹریننگ کیلئے چلے گئے۔ ان ایام کی تحریر جو فوجی اور انٹیلی جنس کی ٹریننگ پر مشتمل تھی، اس کتاب "سرخ لباس" کو کتابوں کی اُس فہرست میں بھی لے آئی  جو اس بارے میں لکھی جاتی ہیں اور ان ایام کے واقعات آہستہ آہستہ دفاع مقدس کی کتابوں میں اضافہ ہوتے چلے گئے۔ راوی کی فوجی ٹریننگ کا زمانہ وہی زمانہ  تھا جب صدام کی فوج نے ایران پر حملہ کیا اور (یہی وجہ ہے) ان ایام کے نوٹس جنگ کے ان واقعات پر بھی مشتمل ہیں جو راوی نے پڑھے اور سنے۔ وہ اس ٹریننگ  کے بعد ۲۶ نومبر سن ۱۹۸۰ء کو جمہوری اسلامی ایران کی فوج کے ۹۲ویں ڈویژن میں داخلے کیلئے شہر اہواز چلے گئے۔ اس کے بعد سے ان کے نوٹس جنگی واقعات پر مشمتل ہیں جو انہوں نے M60 ٹینک کی قیادت کرتے ہوئے لکھے۔ ان دنوں کے تمام نوٹس ان کے چوکیوں میں گزرنے والے شب و روز اور جنگ کے مختلف میدانوں میں رفت و آمد کے واقعات سے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ ۲ جنوری سن ۱۹۸۱ء کے نوٹس میں لکھتے ہیں: "اپنی بہن خدیجہ کو خط لکھنے اور گرمسار میں موجود بھائی کو پوسٹل کارڈ لکھنے کے بعد میری آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے کیونکہ ذرا دیر کیلئے مجھے خیال آیا کہ میں عراقی فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہوجاؤں گا! آدھی رات کے بعد نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی ! ..."

اس کتاب "سرخ لباس" میں احمد اُمّی کے روزانہ کے نوٹس کے بعد مزید دو حصے ہیں؛ ملحقات (جن میں خطوط اور انٹرویو ہیں) اور تصویریں۔  خطوط کا حصہ راوی کی طرف سے لکھے جانے والے آخری خطوط پر مشتمل ہے۔ جن میں دفاع مقدس کے ابتدائی دنوں کے حالات درج ہیں، جب صدام کی فوج نے حملہ کیا تھا۔ دوسرا حصہ ان انٹرویو پر مشتمل ہے جو راوی نے ٹینک کی ٹریننگ کے آخری زمانے میں اپنے افسروں سے لئے تھے، جس میں انہوں نے اپنے دنوں کے حالات بیان کئے ہیں؟

 

جنگی عکاس اور ایک بوڑھا گوریلا کمانڈو

"میرے فریم میں موجود افراد نہیں مرتے: سعید جان بزرگی کے بارے میں ایک کتاب"؛ یہ نام ہے "آنکھوں سے" نامی مجموعے کی پندرہویں کتاب کا۔ اس کتاب کو  اعظم پشت مشہدی نے تحریر کیا ہے جبکہ روایت فتح پبلشرز نے سن ۲۰۱۶ء میں شائع کیا ہے۔ یہ کتاب ۱۷۵  صفحات پر مشتمل ہے۔

اس کتاب میں ۲۴ راویوں نے واقعات بیان کئے ہیں۔ اس کتاب کو  مرتب کرنے والوں میں صدیقہ سلطان شاہی بعنوان محقق ہیں، محمد قاسمی پور تالیف  کے مراحل میں مشورہ دینے والے جبکہ کمپوزنگ فاطمہ دوست کامی نے کی ہے۔

راویوں نے سعید جان بزرگی (سن ۱۹۶۵ء ۔ ۲۰۰۲ء) کے بارے میں بیان کیا ہے: "انہیں  عکاسی بہت پسند تھی اور وہ جنگ میں جنگی تصویر یں کھینچا کرتے تھے"، "انہوں نے دفاع مقدس کے فوٹو گرافروں کی ایک انجمن بنائی تھی"۔ "ان کا عکاسی سے عشق جنگ سے شروع ہوا اور حج میں مکمل ہوا"، "ان کے جنگ میں زخمی ہونے کے بارے میں کسی کو نہیں معلوم تھا وہ خود بھی اس بارے میں بات نہیں کرتے تھے"۔ انہوں نے صدام کے کئی کارٹون بنائے اور دو کوھہ بیرک میں فوجیوں کیلئے ان کی نمائش لگائی"، "وہ اپنی تصویروں کے ذریعے عالمی اور باقی رہ جانے والی باتیں پہنچانے میں کامیاب ہوگئے"۔ "دسویں و الفجر آپریشن میں ... پورے علاقے کی ہوا  کیمیکلوں سے آلودہ تھی لیکن انہوں نے تصویریں کھینچنے کے لئے ماسک اتار دیا تھا۔ وہاں کی ہوا حلبچے سے زیادہ کیمیکل آلودہ تھی۔" وغیرہ وغیرہ۔ یہ کتاب کے راویوں کے کچھ جملے تھے۔ ان تمام راویوں نے سعید جان بزرگی سے اپنے ناطے (گھر والے، دوست، جنگی ساتھی، پیشہ ور ساتھی و ...) کے اعتبار سے اس کے بارے میں واقعات بیان کئے ہیں۔

سن ۲۰۱۶ ء میں اعظم پشت مشہدی کی ایک اور کتاب شائع ہوئی، جس کا نام "روشن دان انتظار کر رہے ہیں؛ شہید ابراہیم بشکردی زادہ کی یادوں پر مشتمل مجموعہ ہے"۱۲۸ صفحوں کی اس کتاب کو صوبہ ہرمزگان کے فنی شعبے نے بجلی کے صوبائی محکمے کے تعاون سے امینان پبلشر کے ذریعے شائع کیا ہے۔

یہ کتاب آٹھ حصوں پر مشتمل ہے۔ جس میں شہید ابراہیم بشکردی زادہ (۱۹۳۴ء۔ ۱۹۸۶ء) کے بارے میں معلوم ہونے والے زبانی واقعات  قلمبند کئے گئے ہیں۔ وہ بوڑھے گوریلا کمانڈو کے نام سے مشہور تھے اور کربلا ۵ نامی آپریشن کے آخری مراحل میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

کتاب کا ہر حصہ مختصر واقعات پر مشتمل ہے، جن میں سے ہر ایک کے راوی علیحدہ ہیں۔ وہ لوگ شہید بشکردی زادہ کے خاندان والوں، دوستوں اور جنگ کے ساتھیوں میں سے ہیں۔ ان  واقعات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے، "ناخدا خورشید" نامی ناصر تقوائی کہ فلم بنانے والی ٹیم جب لنگہ بندرگاہ گئی تھی، ا س وقت اس فلم کی ٹیم کو بجلی کی سہولت کی فراہم کرنا ابراہیم بشکردی زادہ کے ذمہ تھا۔

اسی طرح اس کتاب میں آیا ہے: "تلافی کے شعبہ میں اکثر سن رسیدہ افراد تعیینات کئے جاتے تھے۔ تعیینات کے وقت ابراہیم کو تلافی کے شعبہ میں بھیجا جا رہا تھا لیکن انہوں نے مخالفت کی اور کہا: "میں یہاں لڑنے کیلئے آیا ہوں۔ کھانا  تقسیم کرنے  یا برتن دھونے نہیں!" اس سے پہلے وہ تلافی کے شعبہ میں کام کرچکے تھے لیکن اس دفعہ وہ لڑنے کی نیت سے جنگ میں آئے تھے۔ انہیں جتنا بھی کہا گیا، انہوں نے قبول نہیں کیا اور "الحجت" کے ایک گروہ میں آر پی جی چلانے والے کے معاون کی حیثیت سے چلے گئے ..."

یہ سفر ابراہیم بشکردی زادہ کا آخری سفر تھا۔ وہ پانچویں کربلا آپریشن کے علاقے میں مچھلیوں کی نہر میں شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے لیکن ان کا جسد نہیں مل سکا اور ان کے لاپتہ ہونے کا اعلان کردیا گیا۔ سن ۱۹۹۵ء میں شہداء کی لاشوں کی تلاشی کرنے والے گروہ کو پانچویں کربلاء آپریشن کے کچھ شہداء کے جنازے ملے، انہی میں  بشکردی زادہ کا پیکر بھی موجود تھا۔

 

ایثار کرنے والی خاتون اور شہر راز کے شہداء

"ملاقات کی آروز: ایثار کرنے والی خاتون ام البنین منصور خانی کا زندگی نامہ"؛ یہ عنوان ہے اس کتاب کا جو عاطفہ طالب پور کے انٹرویو اور تدوین سے تشکیل پائی ہے۔ یہ کتاب صوبہ شمالی خراسان کے مرکز ثقافت اور مقاومتی مطالعہ کے شعبہ  فنون نے تالیف کروائی اور سن ۲۰۱۶ء کے ا واخر میں سورہ مہر پبلشر نے شائع کی۔

۲۴۸ صفحوں کی یہ کتاب راوی کے ۲۰ گھنٹے سے زیادہ طولانی مدت کے انٹرویو پر مشتمل ہے۔ اس راوی کی پیدائش سن ۱۹۴۴ء کی ہے۔ اسی وجہ سے مذکورہ یادوں کا آغاز بھی انہوں نے اسی زمانے سے شروع کیا ہے۔ یہ واقعات جیسے جیسے سن ۱۹۷۸ء سے نزدیک ہو رہے ہیں، تاریخی اور سیاسی رنگ ان میں گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ راوی پہلوی حکومت کے خلاف ہونے والی سرگرمیوں میں خود موجود تھے۔

منصور خانی، امام خمینی (رہ) کی نجف میں جلا وطنی کے زمانے میں ہی عراق کی زیارات کے سفر میں جانے میں کامیاب ہوئیں اور امیر المومنین علیہ السلام کے حرم میں انہوں نے امام خمینی (رہ) کو دیکھا۔ حتی انہوں نے ایک واقعہ مئی سن ۱۹۶۹ء  کا نقل کیا: "میں ان دنوں میں ایرانشہر میں تھی ..." لیکن اسلامی انقلاب کی تحریک کی کامیابی کے وقت وہ بجنورد میں رہائش پذیر تھیں اور انہوں نے اپنے اس شہر کے واقعات بیان کئے ہیں۔ اس کتاب کے صفحہ ۱۴۵ اور ۱۴۶ میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کا ذکر ہوا ہے اور اس کے بعد سے انقلاب کی فتح  تک کے واقعات بیان ہوئے ہیں۔ ماضی میں راوی معاشرتی اور سیاسی حوالے سے سرگرمیوں کے سبب جمہوری اسلامی ایران کے ریفرنڈم کے کارندوں میں سے رہیں، حزب جمہوری اسلامی کی رکن رہیں، ادارہ "جہاد سا زندگی" کے شعبہ صحت میں سرگرم عمل رہیں، دفاع مقدس کی جنگ کے امدادی شعبے میں مشغول رہیں اور دیگر کئی کام انجام دیئے اور انقلاب سے دفاع کے میدان میں مختلف جگہوں پر حاضر رہیں۔

سن ۱۹۸۲ء میں جب بجنورد کے شعبہ صحت میں بچوں اور ماؤں کی ذمے داری سے سبکدوش ہوئیں تو امداد کرنے والی خواتین کے ایک گروہ کے سربراہ کے عنوان سے اہواز بھیج دی گئیں۔ یہ خرم شہر کی آزادی کے ایام تھے جو راوی کیلئے اہم یادیں لئے ہوئے ہیں، جنہیں کتاب "ملاقات کی آرزو" میں بیان کیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں راوی نے ان دنوں کی یادیں بیان کی ہیں جب ان کا بیٹا دفاع مقدس کی جنگ میں شہیدا ہوا۔

کتاب "ملاقات کی آرزو" صوبہ شمالی خراسان کے فنی شعبہ کی تحریری کاوشوں میں سے پینتالیسواں نمونہ ہے۔ اور مقاومت کے موضوع پر اس ادارے کی اٹھارہویں کاوش ہے۔

صوبہ شمالی خراسان کے فنی شعبہ کی تحریری کاوشوں میں سے بیالیسویں اور مقاومت کے موضوع پر سترہویں کتاب جو اس ادارے نے شائع کروائی، "آتش اورآوایشن سے: شہر راز کے شہداء، یادوں کے فریم میں" کے نام سے ہے۔ مرضیہ براتی، حبیب اللہ رحمانی اور محمد عابدی نے یہ کتاب لکھی ہے۔ سن ۲۰۱۶ء میں صوبہ شمالی خراسان کے مطالعہ اور مزاحمتی ادب کے فنی شعبہ اور سورہ مہر پبلشر نے  یہ کتاب شائع کی۔

۲۱۸ صفحوں کی یہ کتاب صوبہ شمالی خراسان کے شہر راز و جرگلان کے ۱۰ شہیدوں کے بارے میں ہے۔  دفاع مقدس میں اس چھوٹے سے شہر کے ۳۳ افراد شہید ہوئے۔ اس کتاب میں جن شہیدوں کا تعارف ہے وہ یہ ہیں: جہان بخش قدوسیان (۱۹۶۱ء۔ ۱۹۸۲ء)، محمد علی چاہی (۱۹۴۹ء۔ ۱۹۸۲ء)،  عبد اللہ بزرگر (۱۹۶۰ء۔ ۱۹۸۶ء)، پرویز محمدی (۱۹۶۲ء۔ ۱۹۸۳ء)، اسماعیل عین بیگی (۱۹۶۵ء۔ ۱۹۸۳ء)، محمد تقی شفیعی (۱۹۶۸ء۔ ۱۹۸۶ء)، مجید امانی (۱۹۷۲ء۔ ۱۹۸۸ء)، فیرو ز اسدی (۱۹۷۱ء۔ ۱۹۸۷ء)، شاہ محمد رضا زادہ (۱۹۶۷ء۔ ۱۹۸۷ء) اور غلام رضا عقیقی (۱۹۶۷ء۔ ۱۹۸۷ء)۔ ہر شہید کے بارے میں اس کی یادیں ان لوگوں نے بیان کی ہیں جو اس کی زندگی میں ساتھ ساتھ تھے اور جنگ کے ساتھی تھے۔ ان یادوں کے ذریعے ہر شہید کی زندگی کے واقعات اور اس کا تعارف بیان ہوا ہے۔ ان یادوں کا آخری حصہ دو ملحقات؛ شہداء کے و صیت ناموں اور ان سے مرتبط تصویروں پر مشتمل ہے۔

 

دشمن کی قید سے آزاد ہونے والے پائلٹ کی یادیں

"شام ساڑھے چھ بجے: دشمن کی قید  سے رہائی پانے والے ونگ کمانڈر پائلٹ یوسف سمندریان کی یادیں" یہ نام ہے اس کتاب کا جو میلاد رضا زادہ کے انٹرویو اور ترتیب سے تشکیل پائی ہے۔ یہ کتاب صوبہ مشرقی آذر بائیجان کے مرکز ثقافت اور مقاومتی مطالعہ کے شعبہ نے سورہ مہر پبلشر سے ۲۰۱۶ء میں شائع کروائی۔

۲۵۶ صفحوں کی یہ کتاب تعارف اور مقدمہ کے بعد سات حصوں پر مشتمل ہے اوران کے علاوہ دو حصے "ایک اور واقعہ" اور "تصویریں اور تقدیر و تشکر" کے نام سے ہیں۔

اس کتاب کے راوی ۳۱ جنوری، سن ۱۹۵۵ء میں پیدا ہوئے اور ستمبر سن ۱۹۷۳ء میں فضائی فوج میں بھرتی ہوئے۔ انہوں نے ۱۴ اگست ۱۹۸۶ء تک فضائی افواج کیلئے پائلٹ کے فرائض انجام دیئے۔ اس مدت میں انہوں نے ۹۸۳ فضائی حملے کیئے۔ اس کتاب کے تدوین کرنے والے نے وضاحت دی ہے کہ اس کتاب میں ان کی یادیں، انہی سے لئے گئے ۲۰ گھنٹوں پر مشتمل انٹرویو کی اساس پر ہیں۔

کتاب کے مختلف حصوں کے عناوین سے کتاب کے متن کے بارے میں پتہ چل جاتا ہے: بچپن سے جوانی تک، فضائی فوج میں داخلہ، چوتھے مقام "شکاری" میں تکمیلی ٹریننگ، ٹریننگ کا اختتام اور شکاری ونگ میں خدمات، عراق کی بعث پارٹی کی ظالم حکومت کی طرف سے جنگی حملہ، زوجہ کے  علاج کیلئے جرمنی کا سفر۔

کتاب "شام ساڑھے چھ بجے" کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں نقل شدہ باتیں، ان ایام کی  جزئیات پر مشتمل ہیں، جب راوی ملک سے باہر پائلٹ کی ٹریننگ لے رہے  تھے۔ کتاب کے صفحوں کے حاشیوں میں آنے والی ان دنوں کی تصویروں نے جزئیات کو مکمل کردیا ہے۔ اسی طرح سے راوی نے اپنی ٹریننگ کے بارے میں تفصیلی اطلاعات بیان کی ہیں، (جس کی وجہ سے کتاب کا) متن صرف یادوں کے بیان سے بڑھ کر ہے۔  یہ چیز ہوائی جہاز اُڑانے کا شوق رکھنے والوں کو یا ان لوگوں کو جو راوی کی طرح پائلٹ رہ چکے ہیں، اس تحریر کی طرف کھینچے گی۔

صفحہ نمبر ۱۱۵ میں یہ کتاب جمہوری اسلامی ایران پر صدام کے فوجی حملے پہ پہنچتی ہے۔ راوی نے ان آپریشنز کے بارے میں بتایا ہے جو دشمن کے حملوں میں کئے گئے ہیں اور انہوں نے اس سلسلے میں اگست ۱۹۸۶ء کو آخری فضائی حملہ کیا ہے۔ صفحہ نمبر ۱۶۷ سے ان کی صدامی فوج کے ہاتھوں  قید کی یادیں شروع ہوتی ہیں۔ ان یادوں کے اختتام پر ونگ کمانڈر پائلٹ یوسف سمندریان کے قید سے آزاد ہونے کے زمانے کی یادیں ذکر کی گئی ہیں،  ان کی مصروفیت  کیا تھی اورکس طرح سے ان کا وقت گزرا۔ ا س کتاب کا اختتامی موضوع "ونگ کمانڈر یوسف سمندریان کے آخری فضائی حملہ کا ایک اور واقعہ ونگ کمانڈر عباس رمضانی کی زبانی" کے نام سے ہے۔ اس راوی کا لڑاکا طیارہ بھی کتاب کے اصلی راوی کی اُسی آخری پرواز میں مورد ہدف قرار پاتا ہے، لیکن یہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اسیر نہیں ہوتے۔

مختلف واقعات اور یادوں  کے متن کے ساتھ آنے والی تصویروں کے علاوہ یہ کتاب "شام ساڑھے چھ بجے" پائلٹ یوسف سمندریان کی تصویروں کی البم کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے۔

 

بیجار کے وہ تیرہ طالب علم

"پوشیدہ محبت: دشمن کی قید سے رہائی پانے والے محمد تقی زادہ کی تحریر کی اساس پر" دفاع مقدس کی یادوں پر مشتمل ایک کتاب ہے۔ ۲۴۶ صفحوں کی یہ کتاب سن ۲۰۱۶ء کے اواخر میں صوبہ کردستان کے فنی شعبہ اور پرھیب پبلشر نے شائع کی۔

کتاب کے مقدمے کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دفاع مقدس کے سالوں میں بیجار کے اسکول کے تیرہ طالب علم اُس زمانے کی اسکول انتظامیہ کی مخالفت کے باوجود جنوب کے جنگی علاقوں میں چلے گئے۔ فروری سن ۱۹۸۳ء میں و الفجر کے مقدماتی آپریشن کے دوران ان میں سے چھ شہید ہوگئے اور بقیہ سات کو دشمن نے قیدی بنالیا۔ محمد تقی کریمی ان طالب علموں میں سے ہیں جنہوں نے دفاع مقدس کی یادوں کو اب قلمبند کرکے شائع کروایا ہے۔

انہوں نے صفحہ ۵۴ تک اپنے جنگ کے سفر تک موجود بارہ ساتھیوں کے بارے میں بیان کیا ہے۔ جن میں سے کمال حبیبی، حسین خسرویان، محسن الوندی، مہر داد سردار زادہ، محمد جعفری خودلان اور جعفر رضائی شہید ہوگئے جبکہ سید محمود بیات غیاثی، محمد باقری سرابی، ابو القاسم تختی، ابو الفتح نصر اللہ زنجانی اور نعمت حاج علی کو دشمن نے قید کرلیا تھا جو بعد میں آزاد ہوئے اور رضا شکر گزار جنگ میں زخمی ہوئے تھے۔ اس صفحے کے بعد انہوں نے آپریشن "والفجر مقدماتی" کے حالات بیان کئے ہیں۔ صفحہ نمبر ۶۱ سے ان کی قید کی داستان شروع ہوتی ہے جو کتاب کے آخر تک ان کی آزادی کے بیان تک جاری رہتی ہے۔

 

زنجان سے جزیرہ مجنون تک

"آخری گھونٹ:شہید ید اللہ ندرلو (۱۹۵۶ء۔ ۱۹۸۳ء) کا داستان کی صورت میں زندگی نامہ" مسعود بابا زادہ کی کتاب  کا عنوان ہے۔ ۲۹۴ صفحوں کی اس کتاب کو سن ۲۰۱۶ء میں حریر پبلشر نے شائع کیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں صوبہ زنجان کے شہر زنجان کی شہری حکومت کے دفاع مقدس کی باقیات کی حفاظت اور نشر کے ادارے کا ذکر اس کاوش میں معاون اداروں میں سے ایک ہونے کے عنوان سے کیا گیا ہے۔

اس کتاب "آخری گھونٹ" میں شہید ید اللہ ندرلو کی زندگی کے واقعات میں جو چیز آشکار ہے وہ شہید کی معاشرتی سرگرمیاں ہیں۔ اس حوالے سے ان کی بہادری قابل مشاہدہ ہے اور جب یہ واقعات اسلامی انقلاب اور دفاع مقدس پہ پہنچے ہیں تو نظر آتا ہے کہ یہی جذبہ سبب بنا کہ انہوں نے زنجان میں اسلامی انقلاب کی حمایت کی اور صدام کی فوج کے خلاف جنگ میں شریک ہوئے: "آپ مجاہدوں کی وجہ سے میں راہ حق کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوا۔ خدا کے بعد آپ لوگ تھے جنہوں نے میرے لئے جنگی ٹریننگ کا بندوبست کیا ... یہ آپ لوگوں کی ہی بدولت  ہوا کہ ونگ کمانڈر نے اپنی صبح کی تقریر میں مجھ حقیر کی تعریف کی ..."

گیارہ فصلوں پر مشتمل یہ کتاب جزیرہ مجنون میں شہید ید اللہ ندرلو کی شہادت کے لمحوں کے بیان کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے۔ کتاب کے متن میں جہاں سے اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد کے شہید کے واقعات بیان ہوئے ہیں ، ہر چیز حوالے کے ساتھ ہے۔

 

ہنسنے اور مذاق کرنے والے گروہ

"کوراوغلی کے مختلف گروہ: بسیجی حاج علی تنہا کی زندگی کی ایک داستان"؛ مہدی تیمار کی لکھی ہوئی کتاب ہے، جسے سن ۲۰۱۶ء میں قم کے دفاع مقدس کی باقیات اور نشر کے ادارے اور دارالنشر اسلام پبلشرز نے شائع کیا۔

۱۹۰ صفحوں کی اس کتاب میں راوی کے اسلامی انقلاب کی فتح سے پہلے اور بعد کے واقعات کے بعد ۲۱ حصوں میں ان کی دفاع مقدس کی یادیں بیان کی گئی ہیں۔ ان یادوں میں سترہویں علی بن ابی طالب لشکر  اور مختلف جنگی آپریشنز جیسے محرم، والفجر ۴ اور ۸، کربلا ۱ اور ۵ کا ذکر ملتا ہے۔ اور راوی کہتے ہیں: "میں امام صادق علیہ السلام ونگ کے ان گروہوں کا انچارج تھا جو "میثم" کے تحتِ عنوان تھے۔ جن کا نام ہم نے بعد میں بدل کر "عمار" رکھ دیا۔ لیکن ہمارے گروہوں کا مشہور نام "کوراوغلی" تھا اور ونگ کے افراد ہمارے گروہوں کو اسی نام سے جانتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم خاص نظم و ضبط کے حامل نہیں تھے اور ہمارے افراد کے درمیان طنز و مزاح زیادہ ہوا کرتا تھا لیکن کام کے وقت ہمارے گروہ سنجیدہ اور کام کرنے والے تھے۔

کتاب کے آخر میں حاج علی نے دفاع مقدس کے بعد کے اپنے کچھ حالات و واقعات بتائے ہیں۔ کتاب "کوراوغلی کے مختلف گروہ" کا متن شہید حسن دہقانی (۱۹۶۳ء۔ ۱۹۸۶ء)، رضا پاشا خانلو (۱۹۶۴ء۔ ۱۹۸۷ء)، سید مرتضی رضوی (۱۹۶۷ء۔ ۱۹۸۶ء)، سید علی طباطبائی  (۱۹۶۶ء۔ ۱۹۸۶ء)، بہرام قرہ شیخ لو (۱۹۶۲ء۔ ۱۹۸۶ء)، وحید وکیلی (۱۹۶۵ء۔ ۱۹۸۶ء)، غلام حسین احمدی، محمد ضیائی (۱۹۶۶ء ۔ ۱۹۸۶ء)، ابو القاسم دلیری (۱۹۲۵ء ۔ ۱۹۸۲ء)، حسین کاشی (۱۹۶۴ء۔ ۱۹۸۱ء) اور احمد امیریان (۱۹۶۴ء۔ ۱۹۸۱ء) کے وصیت ناموں اور راوی سے مربوط تصویروں کے ساتھ اختتام پذیر ہوتا ہے۔ 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3774



http://oral-history.ir/?page=post&id=7147