دفاع مقدس کے دوران امدادی کارکن اور فوجی ٹریننگ کی استاد مریم جدلی سے بات چیت۔ پہلا حصہ

ابوذر ہسپتال اور ہلال احمر ٹرین کی یادیں

فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-06-25


مریم جدلی جنہوں نے کمیونیکیشن کے شعبے میں تعلیم حاصل کی اور کئی سالوں سے ثقافتی کاموں میں مشغول ہیں، اُن کی جوانی کے ابتدائی ایام کا زمانہ اور انقلاب اسلامی کی کامیابی  اور عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ شروع ہونے کا زمانہ ایک ہی ہے۔

جنگی ساز کی آواز سنتے ہی، دشمن کے اپنے وطن پر حملات کے ابتدائی ایام میں ہی یہ لڑکی جنگی علاقوں کی طرف چلی جاتی ہے۔ اُن سالوں میں انہوں نے جو مختلف اور طرح طرح کی کارکردگیاں دکھائی، یہی چیز سبب بنی کہ ایرانی زبانی تاریخ کے خبر نگار ان کی تلاش میں نکلیں اور اُن کے ساتھ بیٹھ کراُن کی یادوں کے بارے میں گفتگو کریں۔ ایسی یاد داشتیں جن کے کئی رُخ ہیں اور وہ مختلف پہلوؤں کے حامل ہیں۔ وہ اپنی یادوں میں جنگ کی طرف اشارے کے علاوہ،  محروموں کی دیکھ بھال کیلئے انقلاب اسلامی کی تفتیش و پریشانی کو بھی یاد دلاتی ہیں۔

نعمہ نو اندیش مطبوعات کی ڈائریکٹر اور خواتین کے ثقافتی آرٹ شائع کرنے والی انجمن  کے بورڈ کی چیئرمین کہ جس انجمن میں ۸۰ سے زیادہ خواتین کام کرتی ہیں، اپنی یادوں کو بیان کرتے ہوئے ہمیں دفاع مقدس کے سالوں میں ملک کے مغربی اور جنوبی علاقوں میں لے جاتی ہیں اور تہران اور شیراز میں بھی اپنے کاموں کے بارے میں ہمیں بتاتی ہیں۔

 

جب ستمبر سن ۱۹۸۰ء میں جنگ شروع ہوئی، آپ کہاں تھیں؟

ہم تہران میں رہتے تھے۔  میں ہائی اسکول کے آخری سال کی طلبہ تھی کہ عراق نے ایران پر حملہ کردیا۔ میں نے اپنی پڑھائی کو بے قاعدگی اور کلاس میں حاضر ہوئے بغیر پورا کرلیا تھا، لیکن میں نے اسکول سے رابطہ رکھا ہوا تھا۔

 

آپ کے جنگی علاقوں میں شرکت کرنے کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے؟

وہی جنگ شروع ہونے والے دنوں سے۔ میں اور میری دو سہیلیاں، تہمینہ اردکانی کہ جس سے میری انقلاب کے ماجرے میں دوستی ہوئی تھی اور بتول طاہری جو میری کلاس فیلو تھی، ہم نے ہلال احمر سے حکم نامہ صادر کروانے کیلئے بہت دوڑ لگائی۔ طے پایا کہ ہم لوگ دو مردوں کے ساتھ جو قلھک کے ثقافتی مرکز میں کام کرتے تھے ، محاذ کی طرف روانہ ہوں۔

 

قلھک کے ثقافتی مرکز کے بارے میں مختصر وضاحت کریں۔

پہلے میں اپنے بھائی کے بارے میں کچھ بتاؤں۔ میرے بڑے بھائی امیر آمریکا میں انجینئرنگ فیلڈ میں علم حاصل کرنے کے بعد امام خمینی (رہ) کے ایران واپس آنے چند دن پہلے اُن سے ملنے کیلئے فرانس گئے  تھے۔ انھوں نے وہاں پر امام سے مشورہ کیا کہ کیا ہم یہیں رہیں اور اپنی پڑھائی کو جاری رکھیں یا ایران واپس آجائیں؟امام نے فرمایا تھا کہ جس طرح آپ کی مرضی ہو، لیکن آپ یہاں رہیں اور پڑھائی کریں  لیکن ایک آزاد ملک کے باشندے نہ ہوں تو یہ پڑھائی آپ کے کس کام کی؟ پھر میرے بھائی بھی انقلاب کے زمانے میں ایران واپس آگئے۔

ثقافتی مرکز جو انقلاب اسلامی سے پہلے جوئے بازی کا اڈہ تھا اور ہمارے گھر کے پیچھے قلھک روڈ پر واقع تھا۔ ہم اپنے گھر کی چھت سے اُس کے اندر دیکھ سکتے تھے۔ جب وہ جوئے کا اڈہ تھا تو کچھ گانے والے وہاں آیا جایا کرتے تھے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد میرے بھائی اور  انقلاب اسلامی کے حامی کچھ طالب علم جو بیروں ملک  سے پلٹے تھے، انھوں نے اُس جگہ کو ثقافتی اور انقلابی فضا میں تبدیل کردیا اور اُس کا نام قلھک ثفافتی مرکز رکھ دیا۔

وہ لوگ وہاں پر  قرآن سکھانے ، اُس کی تفسیر، فوٹوگرافی، مووی بنانے کی کلاس منعقد کیا کرتے تھے اور بہت سے جوان اُس میں شرکت کرتے تھے۔ اُس وقت ابھی تک پردہ کرنا لازمی نہیں ہوا تھا، بعض لڑکیاں اپنے سر پر جالی والا دوپٹہ ڈال کرکلاسوں میں شرکت کرتی تھیں۔ میں بھی بچوں اور پرائمری اسکول والوں کو چھوٹی چھوٹی سورتیں اور احادیث یاد کرواتی تھی۔

جب جنگ شروع ہوئی تو اس مرکز کے افراد نے دن رات کام کرنا شروع کردیا اور سپاہیوں کی مورد نیاز چیزوں کومہیا کرکے اُنہیں محاذ پر بھیجتے ۔ جنگ شروع ہونے کے دو ہفتے بعد طے پایا کہ ثقافتی مرکز کے دو مرد اراکین آریا گاڑی پر مغربی محاذ کی طرف جائیں اور ہمارا بھی اُن کے ساتھ جانا طے پایا۔

 

آپ نے پہلے سے امدادی کاموں کی ٹریننگ حاصل کی ہوئی تھی؟

جی، ہم نے انقلاب کے زمانے میں شہید فیاض بخش کے توسط سے امدادی کاموں کی ٹریننگ حاصل کرلی تھی اور میں نے تہران کے امیر اعلم ہسپتال اور ہلال احمر میں میڈیکل اسسٹنٹ کی حد تک پریکٹیکل کورسز کیئے ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے  میں پورے اعتماد سے محاذ پر جانے کیلئے اصرار کر رہی تھی۔

 

محاذ پر جانے کے معاملے میں گھر والوں کے ساتھ تو کوئی مشکل پیش نہیں آئی؟

کیوں نہیں۔ گھر والوں کو قائل کرنا بہت ہی سخت تھا۔ جب میں نے جنگی محاذ پر جانے کا مسئلہ اپنے گھر والے کے سامنے رکھا، میری والدہ نے کہا: "تم ایک جوان لڑکی ہو، تم کس طرح جا سکتی ہو؟" میں نے وضاحت پیش کی کہ ہمارے پاس ہلال احمر والوں کی طرف سے اجازت نامہ ہے اور ہم یونٹ کے افراد کے ساتھ جا رہے ہیں۔ میری والدہ تو راضی ہوگئیں لیکن میرے والد نہیں مانے۔ انقلاب کے زمانے میں بھی جب ہم مظاہروں  میں جاتے تھے، وہ بہت پریشانی کا اظہار کرتے تھے، لیکن وہاں پھر آسودہ خاطر تھے کہ میری والدہ میرے ساتھ ہیں۔

میرے بھائی کا محاذ پر آنا جانا لگا ہوا تھا۔ میں نے اپنے والد کو راضی کرنے کیلئے کہا: "بابا جان، امیر اس وقت محاذ پر ہے۔ شاید وہاں زخمی ہوجائے۔ کیا آپ نہیں چاہتے کہ امدادی کام کرنے والا اُس کی مدد کرے؟ ہم نے یہ ٹریننگ انہی دنوں کیلئے حاصل کی تھی۔" انھوں نے پیشانی پر بل ڈالتے ہوئی سر کو ہلایا اور کہا: "اچھا اب جاؤ۔"

ہمارے ذہن میں محاذ کا کوئی تصور نہیں تھا اور ہم سمجھتے تھے وہاں پر قحط ہے؛ اسی وجہ سے ہم نے ڈھیر ساری سوکھی روٹی اور خرما وغیرہ ساتھ لے لئیے۔ چلنے والے دن ہمیں قلھک کے ثقافتی مرکز پہنچنا تھا اور میرے والد مجھے چھوڑنے کیلئے میرے ساتھ آئے ہوئے تھے۔

ایک شخص جس نے ہمارے ساتھ جانا تھا، وہ جھک کر گاڑی کا ٹائر تبدیل کر رہا تھا۔ اُس کی کمر کا حصۃ باہر نظر آرہا تھا۔ میرے والد نے یہ منظر دیکھ کر مجھے آواز دی اور کہا: "شیدا واپس آؤ ہم گھر چلتے ہیں! جانےکی ضرورت نہیں ہے!" میں یہ بھی واضح کردوں کہ شناختی کارڈ میں میرا نام مریم ہے، لیکن گھر والے، جاننے والے اور میرے دوست احباب مجھے شیدا کے نام سے پکارتے ہیں۔ میں نےکہا: "بابا جان آخر کیوں؟" انھوں نے کہا: "مجھے جانے میں مصلحت نہیں لگ رہی!" تہمینہ اور بتول مجھے ایک طرف لے گئی اور کہنے لگیں: "اگر جناب جدلی نے تمہیں جانے کی اجازت نہیں دی تو ہم بھی نہیں جاسکتے!" میں نے اُنہی پرانی باتوں کو دوسرے انداز میں اپنے والد کے سامنے دہرایا اور کہا: "باباجان اس وقت وہاں پر لوگوں کی کمی ہے اور اُنہیں ہماری طرح ٹریننگ یافتہ افراد کی مدد کی ضرورت ہے۔" خلاصہ یہ ہے کہ میں نے بہت اصرار اور التماس سے اپنے والد کو راضی کرلیا اور ہم چل پڑے۔

 

بالاخر اتنی کوششوں کے بعد اپنے والد کو راضی کرکے، آپ نے جنگی علاقے میں قدم رکھا دیا؟

بہت مشکل سے! ہم لڑکیاں رات کو قزوین کے ہلال احمر میں ٹھہرے اور مرد حضرات کہیں اور ٹھہرے۔ صبح وہی دو لوگ ہمیں لینے آگئے۔ گاڑی میں یہی بات چل رہی تھی کہ ہم کیا کریں اور کس طرح لوگوں کی خدمت کریں۔

ہم کرمانشاہ کے  ایک مدرسہ میں گئے جس کے انچارج حاج سید جواد علم الہدیٰ صاحب تھے۔ میرے خیال سے آج کل تہران میں، شاہرا ہ زیبا  پر (شہید مشہدی رحیم)، خراسان چورنگی سے پہلے اُن کا دفتر ہے اور ایک مدرسہ بھی ہے۔ مدرسہ بند تھا اور صحن میں رضا کار افراد جمع تھے۔ وہاں ہم سے کہا گیا: "ہمیں امدادی کارکنوں کی ضرورت نہیں ہے!" ہم بہت ہی پریشان ہوئے۔ ہم اتنا راستہ طے کرکے آیا  تھے اور نا اُمید کرنے والی باتیں سن رہے تھے۔ ہمارے جسموں سے تھکاوٹ نہیں اُتری۔ ہم سوچ رہے تھے کہ شاید ہمیں تہران واپس بھیج دیا جائے۔ میں نے اُن لوگوں کے درمیان ایک خاتون کو دیکھا جو بہت ہی پردہ دار تھیں۔ جب ہم ایک دوسرے سے زیادہ آشنا ہوئے تو مجھے پتہ چلا اُن کا نام فریدہ حاجی خانی ہے۔ وہ سپہ بینک کے صحت ڈپارٹمنٹ کی طرف سے ایک دو ڈاکٹروں کے ساتھ رضاکارانہ طور پر وہاں آئی ہوئی تھیں۔

 

رضا کار خواتین میں کرمانشاہ کی خواتین بھی تھیں؟ وہ محاذوں کی مدد کیلئے کوئی خاص کام انجام نہیں دے رہی تھیں؟

مسجد میں موجود زیادہ تر افراد باہر سے آئے ہوئے تھے ، کرمانشاہ  اور مسجد میں کام کرنے والی محلی خواتین کی تعداد کم تھی۔ کرمانشاہ میں ایک بڑا ڈپو تھا جہاں محاذ پر بھیجنے کیلئے کھانے کی بہت سی چیزوں کو لاکر رکھا گیا تھا۔ زیادہ تر ہال سوکھی روٹیوں، ڈرائی فروٹ بھرے ہوئے تھے اور ایک حصے میں کپڑے بھی تھے۔ ہم اُن کی مدد کرتے اور ڈرائی فروٹ کی پیکنگ کرتے تھے۔

 

سر انجام آپ کو واپس تہران بھیج دیا گیا؟

نہیں، آیت اللہ علم الہدی نے ہم سے بات کی، ہم سے ہماری میڈیکل معلومات کے معیار کو پوچھا اور کہا: "اتفاق سے ہمیں آپ لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ "

پھر غروب کا وقت ہوگیا تھا۔ مسجد میں کام کرنے والے ہمیں بالائی حصے پر لے گئے۔ اینٹی ایئر کرافٹ گنوں نے فائر کرنا شروع کردیئےتھے ۔ ہم تھکے ہوئے اور بھوکے تھے۔ اندھیرے میں، ایک بڑی سے ٹرے کو کمرے میں داخل کیا گیا جس کے اندر قیمے کا پلاؤ تھا اور ہم چار پانچ لوگوں نے کھانا کھانا شروع کردیا۔ اُس رات ہم وہیں رہے اور اگلے دن صبح ایک فوجی گاڑی کے ذریعے جس کا ڈرائیور ایک بوڑھا آدمی تھا، جنگی علاقے کی طرف چل پڑے۔ ڈرائیور نے بیچ راستے میں گاڑی روک لی اور ہماری مدد سے گاٖڑی کو چھپا دیا۔ گاڑی کے ادھر اُدھر شیل مار رہے تھے۔ ہم بہت مضطرب تھے اور پریشان تھے کہ صحیح سالم پہنچے گے یا نہیں؟ ہم کہہ رہے تھے خدایا ہم کام کے شروع میں ہی زخمی یا شہید نہ ہوجائیں، جنگی علاقے میں ہم نے کچھ تو کام انجام دیا ہو؛ اُس کے بعد جو بھی ہوجائے، کوئی مسئلہ نہیں۔ جس راستے پر ہم لوگ جا رہے تھے، ہم نے واپس آنے والے فوجیوں کو دیکھا۔ وہ بہت ہی تعجب سے گاڑی کی طرف دیکھتے کہ یہ تین خواتین کہاں جا رہی ہیں؟!

 

آپ لوگ وہاں کیسا محسوس کرتے تھے؟

ہم ایک دوسرے کو وصیت کرتے اور ایسے میں بھی امدادی کاموں کو دہرایا کرتے تھے۔ بالاخر ہم لوگ سرپل ذھاب پہنچ گئے۔ لوگ وہاں سے کوچ کر گئے تھے۔ ہم  میڈیکل سنٹر کی طرف گئے۔ دشمن کی فوجوں نے اُس کے اطراف پر گولیاں برسائی ہوئی تھیں۔ صحن کے چاروں طرف کی دیوار گری ہوئی اور وہ اپنی صحیح حالت میں نہیں تھی۔

 

سب سے پہلا منظر جس کا آپ کو سامنا ہوا کیا تھا؟

صحن کے بیج میں، ایک لمبے قد کے جوان کا جنازہ زمین پر پڑا تھا۔ وہ شہید ہوگیا تھا۔ پورے چہرے پر خون لگا ہوا تھا اور اُس کے سر کو پٹیوں سے باندھا ہوا تھا۔ میں پہلی دفعہ کسی شہید کو دیکھ رہی تھی۔ میں نے نہیں سوچا تھا کہ اتنی جلدی ایسے منظر کو دیکھوں گی۔ انقلاب کے دوران اپنی دوست تہمینہ اردکانی کے ساتھ بہشت زہرا جاتی تھی، ہم اپنے ساتھ ٹیپ ریکارڈ لے جاتے تھے اور آوازوں اور شعروں کو ریکارڈ کرتے تھے، لیکن ہم نے کوئی شہید نہیں دیکھا تھا، یا کوئی ہماری نظروں کے سامنے شہید نہیں ہوا تھا۔

سب رفت و آمد کی حالت میں تھے اور اُن کے لباس خاک و خون میں اٹے ہوئے تھے۔ بعض لوگ فوجی لباس پہنے ہوئے تھے اور بھاگ بھاگ کر کام کر رہے تھے۔ ہم نے اُن سے پوچھا: "ہم لوگ کیا کام انجام دے سکتے ہیں؟" انھوں نے کہا: جو کام بھی آتا ہے انجام دیں۔" میڈیکل سنٹر کا فرش مٹی کا تھا۔ اسٹریچر اسٹیل کے اور چھوٹے تھے اور ہمیں زخمیوں کی مدد کیلئے بہت کوشش کرنی پڑتی۔ اُس دن ہم سے جو ہوسکا ہم نے انجام دیا۔

 

زخمیوں کی تعداد زیادہ تھی؟

جی، زیادہ تھی۔ ایک عراقی زخمی کو بھی لائے ہوئے تھے جس کی آنکھوں پر چوٹ لگی تھی اور وہ کچھ دیکھ نہیں پا رہا تھا۔ امدادی کارکن اُس کا علاج کر رہے تھے۔ عجیب حالت تھی۔ ایمبولینسیں آلارم بجا رہی تھیں۔ گاڑیاں آرہی تھیں، جارہی تھیں اور  زخمیوں کو لا رہی تھیں۔ وہاں ایسا ماحول نہیں تھا کہ زخمیوں کو رکھا جاتا۔

 

آپ اور آپ کی سہیلیوں کے علاوہ، کیا دوسری خواتین بھی وہاں تھیں؟

محترمہ ڈاکٹر کیایی جو بعد میں جناب تہرانی کی زوجہ بن گئیں، وہ پہلی خاتون تھیں جنہیں میں نے جنگی علاقے میں مدد کرتے ہوئے دیکھا۔ جنہوں نے اپنا فوجی لباس پہنا ہوا تھا۔  میں نے  مرضیہ نامی ایک اور لڑکی کو دیکھا  جو کردی لباس پہنی ہوئی تھی اور کرمانشاہ کے علاقے کِرِند کی رہنے والی تھی۔

 

آپ لوگ وہیں رک گئے؟

نہیں۔ ہم کچھ گھنٹے وہاں رہے۔ پھر کہا گیا کہ یہاں امن و امان نہیں ہے کہ رات کو ٹھہرا جائے؛ چونکہ عراق نے حملہ کیا ہے اور خطرے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ ہمیں دوبارہ کرمانشاہ واپس بھیج دیا۔

 

اُس سے اگلے دن، آپ دوبارہ سرپل ذھاب گئیں؟

نہیں، اس دفعہ ہمیں ابوذر چھاؤنی کی طرف بھیجا گیا۔ وہ جگہ دشمن کی رینج میں زیادہ تھی، لیکن وہاں کے حالات بہتر تھے۔ ہسپتال کی عمارت کے بیچ میں صحن اور اطراف کی عمارتوں میں ہسپتال سے مربوط دوسرے ڈپارٹمنٹ تھے۔

 

جنگی علاقے اور مردانہ ماحول میں جوان لڑکیاں کا رہنا دشوار نہیں تھا؟

کیوں نہیں۔رسولی نامی ایک خاتون، ہسپتال کی سرپرست تھیں۔ اُنھوں نے کچھ نکات کی طرف ہماری توجہ دلائی۔ جیسے زخمی افراد سپاہی ہیں، وہ لوگ اپنے گھر والوں سے دور ہیں اور ابھی بیکار ہیں اور اسٹریچر پر لیٹے ہوئے ہیں۔ اُن کی دیکھ بھال کیلئے چکر لگاؤ، لیکن اُن کے پاس ٹھہرو نہیں، اُن سے غیر ضروری سوالات جیسے کہاں اور کیسے شہید ہوئے وغیرہ نہ پوچھو۔ جب وارڈ میں تمہارا کام ختم ہوجائے تو فوراً وہاں سے نکل کر ڈریسنگ روم میں چلی جاؤ۔

شروع میں تو ہمیں تھوڑا عجیب سے لگا کہ مگر ہم یہاں کس کام کیلئے آئے ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری سمجھ میں بات آگئی کہ وہ بالکل صحیح طرف متوجہ کر رہی ہیں اور ہم بھی یہی کام کرتے۔ جب وارڈ میں ہماری ڈیوٹی نہیں ہوتی تو ہم دوائیوں کو تیار کرتے، پٹیوں کے پیکٹ سیٹ کرتے اور اس طرح کے کام انجام دیتے تھے۔ ہم نے ڈھیلے ڈھالے کوٹ کے ساتھ ڈھیلی ڈھالی کردی پینٹیں لی ہوئی تھیں اور ہمارا مقنعہ بھی بڑا تھا کہ کوئی ہماری طرف متوجہ ہی نہیں ہوتا۔ تہمینہ چونکہ دو پوسٹوں میڈیکل اسسٹنٹ اور خبرنگار کی حیثیت سےآئی تھی، وہ مووی بنانےوالا کیمرہ لائی تھی۔ جب ہمارے پاس  کوئی خاص کام نہیں ہوتا،  ہم ہسپتال کی چھت پہ چلے جاتے۔ جب ہیلی کاپٹر نیچے آتا، وہ رپورٹ تیار کرتی۔ چونکہ وہ مووی بنا رہی ہوتی تو اس کے ساتھ ساتھ بات نہیں کرسکتی تھی۔ اُس کی جگہ میں بات کرتی اور کہتی ہیلی کاپٹر اتر گیا ہے، زخمیوں کو اُتار  رہے ہیں، اسٹریچر کے ذریعے اُنہیں ہسپتال کی عمارت میں منتقل کر رہے ہیں، امدادی کارکنان اپنے ڈیوٹی انجام دینے میں مصروف ہیں، ہمیں یہاں امدادی کارکنوں کی ضرورت ہے۔ کبھی میں لکنت کا شکار بھی ہوجاتی!

 

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آپ بہت جوان تھیں اور آپ کو پہلے سے ایسے زخمیوں کو دیکھنے کا تجربہ نہیں تھا گہرے زخم دیکھ کر آپ کی حالت خراب نہیں ہوتی تھی؟

پہلے جب میں ٹی وی پر دیکھتی تھی کہ کسی کو انجکشن لگانا چاہ رہے ہیں تو میری حالت خراب ہوجاتی تھی۔ لیکن جنگی علاقوں میں شرائط مختلف تھیں؛ میں اپنی ذمہ داری کا احساس کر رہی تھی۔ کوئی ایسا موقع نہیں آیا کہ جب میں نے پشیمانی کا احساس کیا ہو۔ میں نے بہت ہی اعتماد کے ساتھ امدادی کام انجام دیئے۔ نہ صرف میں بلکہ سب ہی ایسے تھے۔ البتہ ایک دو خواتین انجکشن نہیں لگاتی تھیں۔ حتی بعد میں بھی جب ہم نے تہران میں خواتین کیلئے امدادی کاروائیوں کی ٹریننگ کا دورہ منعقد کیا  تو اُن میں سے بعض انجکشن لگانے سے ڈرتی تھیں۔ اُنہیں سکھانے کیلئے میں خود کو انجکشن لگاتی تھی۔

 

ابوذرچھاؤنی کے ہسپتال کی حالت کیسی تھی؟

ہسپتال میں زخمیوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ شینوک ہیلی کاپٹر ہسپتال کے احاطے میں اترتا اور زخمیوں کو نیچے اتارتا۔ اس ہیلی کاپٹر کا دروازہ پیچھے سے کھلتا تھا۔ اُس کا اندرونی حصہ، ایک بڑے ہال کی طرح تھا۔ لائے جانے والے زخمیوں کی ابتدائی مرہم پٹی وہیں انجام پاتی۔ اُن میں سے بعض کو ایسی جگہ بھیج دیا جاتا جہاں وسائل زیادہ ہوتے ۔ہم راتوں کو دیر تک جاگتے رہتے اور اپنی ڈیوٹیوں کو بدلتے رہتے۔ بہت خاص شرائط تھیں۔ چھاؤنی کے اطراف میں فائر کرتے تھے۔ عمارت کے اندر لائٹ تھی، لیکن شیشوں کو چھپایا ہوا تھا تاکہ روشنی باہر نہ جائے۔  اینٹی ایئر کرافٹ گنیں اپنا کام کرتی اور احاطے میں اترنے والے ہیلی کاپٹروں  کے پروں کی آواز  بہت ہی وحشت ناک ہوتی تھی۔

 

جنگی علاقے میں، اجنبیت، ملالت اور گھر والوں سے دوری کا احساس آپ کو نہیں تڑپاتا تھا؟

کیوں نہیں، ایسا ہی تھا۔ مجھے اپنے گھر والوں سے دوری کا بہت احساس تھا۔ ہم انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے جب بھی مظاہروں سے واپس لوٹتے تو اپنے مہربان  گھر کی گرم آغوش میں ہوتے تھے اور ہمارے والدین ہم پر توجہ دیتے اور ہمارا خیال رکھتے تھے۔ ہمارے رشتہ دار ہمارے نزدیک ہوتے اور یہ ہمارے لیئے حوصلے کی بات تھی، لیکن وہاں ہم اپنے گھر والوں سے دور تھے۔ تہران میں جب ہم مظاہرے کیلئے جاتے تو زیادہ تر میری والدہ میرے ساتھ ہوتی تھیں۔ میرا خیال رکھنے کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ خود چاہتی تھیں کہ مظاہرے میں شرکت کریں۔ میرے والد زیادہ راضی نہیں تھے، لیکن میری والدہ راضی تھیں۔

اس حال میں بھی ہم کام میں اتنا مصروف تھے کہ ہمیں وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ ایسا بہت کم ہوتا کہ کسی زخمی کو نہ لائے ہوں اور ہم آدھا دن بیکار بیٹھے ہوں۔ حتی بعض اوقات ہم اتنے بھوکے ہوجاتے کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم نے کیا کھایا ہے اور کیا کھائیں گے۔

ایک ضعیف خاتون تھیں جن کا فیملی نام اجاقی تھا ، بعد میں اُن کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ وہ ٹن پیک کے ڈھکن کو بہت مشکل سے کھولتیں، زخمیوں کیلئے پھلوں کا جوس لیکر جاتیں اور اُس کے اندر موجود پھل جو زخمی نہیں کھاسکتے تھے وہ ہمارے لئے لے آتیں۔ وہ کہتیں: "تم لوگوں کے پاس تو اپنا دھیان رکھنے کا وقت نہیں ہے، کم سے کم کھڑے کھڑے ہی اسے کھالو۔"

 

آپ کو زخمیوں کا کوئی واقعہ یاد ہے؟

مجھے یاد ہے کہ ایک سپاہی کو وہاں لائے ہوئے تھے جس کے دونوں پیر کٹ چکے تھے اور وہ بہت پریشان تھا اور بے صبری کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ ہم نے اس کے پیروں پر ایک چادر ڈالی ہوئی تھی۔ وہ اُسے ہٹا کر اپنے پیروں کی طرف نگاہ کرتا۔ پریشان کرنے والے موارد میں سے ایک ، ایسے شہید کو دیکھنا تھا جسے ہم نے پہلی بار وہاں دیکھا تھا۔ میں نے اور تہمینہ نے کئی مرتبہ سردخانہ کی دراز کھول کر اُسے دیکھا تاکہ ہمیں اُس کی شہادت کا اطمینان ہوجائے ۔ ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ شہید ہوگیا ہے، جیسے ہمیں ابھی بھی اُمید تھی اور ہم چاہ رہے تھے کہ ہمارے لئے ثابت ہوجائے۔

 

ہسپتال میں صرف فوجی زخمیوں کو لایا جاتا تھا اور عام لوگوں میں سے کوئی رجوع نہیں کرتا تھا؟

شہر خالی ہوگیا تھا،  لیکن ایک رات ہسپتال میں ایک جوان خاتون کا لایا گیا جو  قبائلی خوبصورت لباس زیب تن کئے ہوئے تھی اور حاملہ تھی۔ اُس کے بچے کی پیدائش کا وقت تھا۔ وہیں دروازے کے سامنے ہی اُن سے کہہ دیا گیا: "ہمارے پاس یہاں کوئی زچگی وارڈ نہیں ہے،  ہمارے پاس دایہ نہیں ہے!" سب لوگ پریشان تھے اور اُن کا دل چاہ رہا تھا کہ اُس کی مدد کریں۔ کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھے جسے بچے کو دنیا میں لانا آتا ہو۔ میں نے اور تہمینہ نے تہران میں اورفرسٹ ایڈ کی ٹریننگ حاصل کے دوران، بچے کی ولادت کے مراحل کی بھی ٹریننگ حاصل کی تھی۔ یعنی ہم نے یہ سوچا تھا کہ شاید جنگی حالات یا کسی بھی جگہ ہمیں اسے علم کی ضرورت پڑ جائے۔ یہ چیز ہم نے ہدایت گورنمنٹ ہسپتال میں سیکھی تھی۔ لیکن خود سے اس کام کو انجام نہیں دیا تھا۔ میں نے اُن سے کہا میں اور میری دوست کو آتا ہے، لیکن ابھی تک ہمارے ہاتھوں کسی بچے کی ولادت نہیں ہوئی ہے۔ ایک نرس نے کہا: "مجھے آتا ہے صرف تم دونوں میری مدد کرنا۔" ہم مضطرب تھے، ہمارے پاس زچگی کے محدود وسائل تھے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بچہ زندہ نہ بچے، لیکن پریشانی ، آلارم کی آوازوں اور بند لائٹوں  کے درمیان بچہ دنیا میں آگیا۔ ہم نے اُس کی ایک تصویر بھی کھینچی۔

جن کی استعداد تھی وہ شہر سے چلے گئے تھے اور باقی لوگوں نے پہاڑوں میں پناہ لےلی تھی۔ اُس لڑکی کے رشتہ دار حتماً اِدھر اُدھر پراکندہ ہوگئے تھے۔ ہم پریشان تھے کہ یہ خاتون جنگ کے حالات میں اس بچے کو کیسے پروان چڑھائے گی۔ شہر میں رہے گی یا یہاں سے کوچ کر جائے گی؟ اب میرا بہت دل چاہتا ہے کہ میں اُس بچے کے بارے میں جانوں جو اُن حالات میں پیدا ہوا تھا۔

 

وہاں کے اسٹاف کارویہ آپ کے ساتھ کیسا تھا؟

بعض لڑکیاں جو بہت ہی پردے دار تھیں اور ہم سے چند پہلے آئی تھیں اور وہ بہت ہی زیادہ کام کرتی تھیں، شروع میں تو انھوں نے ہمارے ساتھ سرد مہری اختیار کی، لیکن ہم آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔

 

آپ لوگ مغربی محاذ پر کتنا عرصہ رہیں؟

پندرہ دن وہاں رہے پھر تہران واپس آگئے۔ تہران میں، دوبارہ محاذ پر جانے کیلئے  ایک دروازے کے بعد دوسرے دروازے کو کھٹکھٹاتے رہے۔

 

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آپ مغربی محاذ کے حالات سے تقریباً آگاہ ہوگئی تھی، آپ نے وہاں کیلئے وسائل جمع نہیں کئے؟

وہاں پر ایمبولنس کی بہت زیادہ ضرورت تھی۔ہم نے اپنے ایک رشتہ دار کے والد کی مالی مدد کے ذریعے جو سونے کی تاجر تھے، ایک ایمبولنس خرید لی او ایک ہفتے کے اندر محاذ پر بھجوادی۔ ایک گروہ تعمیراتی جہاد میں تھا جو دوائیوں کو جمع اور اُن کی تقسیم بندی کرتے تھے۔ ہم نے اپنے جاننے والوں کو بتایا دوائی، بینڈج دوسری مورد نیاز میڈیکل اشیاء موجود ہیں۔ ہم اسے جمع کرنے کے بعد جہاد والے کے سپرد کردیں گے۔ وہ لوگ بھی دوائیوں کو ایک دوسرے سے الگ کرتے اور جن کی ایکسپائری تاریخ گزر جاتی تھے اُنہیں الگ کرلیتے اور بعد  میں جنگی علاقے میں بھیج دیتے تھے۔

 

اس کام کے علاوہ  آپ کسی اور کام میں  بھی مشغول تھیں؟

میں مختلف مراکز میں امدادی کاروائیوں اور میڈیکل اسسٹنٹ کی تعلیم دیا کرتی۔ میں نے ان دوروں میں سے ایک دورہ اُن ہی خاتون کے توسط سے جو سپہ بینک  کی طرف سے آئی ہوئی تھی، سپہ بینک میں منعقد کیا۔ اس کے علاوہ میں نے جس اسکول میں پڑھائی کی تھی وہاں بھی جایا کرتی تھی اور طالبات کو  محاذ کے ماحول اور اپنے واقعات بتاتی۔ مجھے زیادہ تر اس سوال کا سامنا ہوتا تھا: "جدلی! تمہارے گھر والوں کو تمہارے محاذ پر جانے سے کوئی مسئلہ نہیں؟"

جب میں اسکول جاتی تو بہت اچھا محسوس کرتی۔ اسکول کا ماحول اور فضا ابھی تک میرے دماغ میں تھی۔ میں ایسی طالبات کو پڑھا رہی تھی جن  کی اور میری عمر میں ایک یا دو سال کا  فرق تھا۔ شہر کے بالائی علاقے، منطقہ ایک اور تین میں چند اسکولوں جیسے مینا اسٹاپ پر تربیت اسکول، شاہراہ ظفر اور شاہراہ میر داماد کے درمیان اور کچھ اور اسکولوں میں، میں لڑکیوں کو ابتدائی امداد کی ٹریننگ اور جی تھری اور ایم ون  اسلحہ چلانے  کی پریکٹس کرواتی ۔ میں ہر بار کلاس شروع ہونے سے پہلے کوشش کرتی کہ احادیث اور قرآن کی آیات سے استفادہ کروں۔ میں سیکھنے والوں کو تھیوری پڑھانے کے بعد پریکٹیکل کے لئے، بسیج سے ہماہنگی کرنے کے بعد فائرنگ کے میدان میں لے جاتی۔اُس زمانے میں مجاہدین خلق کے گروہ بہت سرگرم تھے اور جوانوں کو اپنی طرف جذب کر رہے تھے۔ بعض اوقات کلاس ختم ہونے کے بعد لوگ کہتے:"محترمہ جدلی، جو لوگ سیکھنے آتے ہیں اُن میں سے کچھ لوگ مجاہدین خلق تنظیم کے رکن ہیں اور وہ خود کو ملیشیا  اور تنظیم کا نظامی حصہ بتاتے ہیں۔" البتہ اُن کی تعداد کم ہے۔

میں یہ نکتہ بھی بیان کردوں؛ یہ بات صحیح ہے کہ طالبات میرے کام کو پسند کرتی  تھیں اور وہ سیکھنا چاہتی تھیں لیکن بعض اساتید ہمیں سرزنش کرتے تھے کہ ان کاموں کی کیا ضرورت ہے؟ جبکہ جنگی شرائط کی وجہ سے خواتین کو بھی اسلحہ چلانا سیکھنا چاہئیے تاکہ وہ ضرورت کے موقع پر اپنا اور اپنے وطن کا دفاع کرسکیں۔

 

آپ کے پاس ایسی لڑکیوں کو جذب کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا جو مجاہدین خلق یا  فدائیوں جیسے گروہ میں داخل ہورہی تھیں؟

ہمارے لیئے شرائط مہیا نہیں تھیں۔ اور خود مجھ میں اتنی جرات نہیں تھی۔ میں فقط شخصی  فوجی ٹریننگ کے وقت، اُنہیں بعض نکات کی تعلیم نہیں دیتی تھی۔ چونکہ ہر شخص کو خود اسلحہ کھولنا اور بند کرنا ہوتا تھا، میں کوشش کرتی کہ جو گروہ میں نے بنائے ہیں اُن افراد میں سے کوئی اُس میں نہ ہو۔ البتہ اُن دنوں میں، وہ بھی اپنی شخصیت اور مخصوص  کلاس  رکھتے تھےاور ان گروہوں کے رکن ہونے کے بارے میں فخر سے بات کرتے تھے۔

 

آپ دوسری مرتبہ کس طرح جنگی علاقے میں گئیں؟

میں دوسری مرتبہ ہلال احمر کی ٹرین کے ساتھ جنوب کی طرف گئی۔اس دفعہ امیر اعلم ہسپتال کے ایک پیرامیڈیک (میل نرس) کا ہمارے گروپ میں اضافہ ہوا ،  جس کا نام آذر رشدی پورش تھا، میں اس کے بارے میں پہلے سے کچھ نہیں جانتی تھی اور ہم نے پہلی بار ریلوے اسٹیشن پر  ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔ وہ میرے ایک دوست کے ساتھ کام کرتا تھا اور وہ بھی جنگی علاقے میں جانے کا خواہاں تھا۔

 

ہلال احمر ٹرین کے بارے میں کچھ وضاحت کریں

ہلال احمر کی ٹرین سفید رنگ کی تھی اور اُس پر لال رنگ کا ہلال احمر کا مونو گرام بنا ہوا تھا۔ اُس کے اندر ہسپتال کی طرح، مختلف وارڈ تھے اور حتی اُس میں آپریشن تھیٹر بھی تھا۔ یعنی چلتی ہوئی ٹرین میں اگر ضرورت پڑے تو آپریشن بھی انجام دیا جائے گا۔ اُس میں پانچ ، چھ بڑے بڑے وارڈ تھے جس کہ ہر وارڈ میں بیس سے تیس تک زخمیوں کی جگہ تھی اور اُس میں اوپر نیچے والے بیڈ تھے۔ ٹرین کے دونوں طرف، بیڈوں کی دو لائنیں تھیں۔ کچھ حصے اور بھی تھے جہاں اسٹاف آرام کیا کرتا تھا۔

اس ٹرین میں ہلال احمر کے امدادی کارکنوں کے علاوہ، تعمیراتی جہاد کے کارکن اور سپاہ پاسدارن کے کچھ افراد بھی تھے۔ جہاد سے چند خواتین بھی آئی ہوئی تھیں جنہوں نے لمبے مقنعے اور ڈھیلے ڈھلے کورٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہم ایک دوسرے سے اور زیادہ آگاہ ہوئے۔ مجھے طاہرہ طاہری اور اعظم خستہ فر اچھی طرح یاد ہیں۔ ہم نے سفید کورٹ پہنے ہوئے تھے، لیکن لوگوں کی توجہ سے بچنے کیلئے ہم نے اپنے کورٹ تبدیل کرلیئے تھے۔

 

جنوب میں موجود ماہ شہر، جہاں آپ ٹرین سے گئیں تھی اُس کا مغربی محاذ سے کیا فرق تھا؟

ماہ شہر میں ہمارے کام کی نوعیت مختلف تھی۔ ٹرین کے اندر ایک چلتا پھرتا ہسپتال تھا۔ جبکہ مغربی محاذ پر ایک زمین پر بنا ہوا ایک ثابت ہسپتال تھا۔ اگر ٹرین میں ہمیں کسی خطرے کا احساس ہوتا تو ہمارا کہیں سے رابطہ نہیں تھا، لیکن مغربی محاذ پر سڑکوں پر ناامنی کے باوجود ایمبولنسیں تیار تھیں اور بغیر کسی وقفے کے زخمیوں کو دوسرے شہر پہنچا دیتی تھیں۔

 

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جاتے ہوئے تو کوئی زخمی نہیں تھا تو منزل مقصود پہ پہنچنے تک  آپ نے ٹرین میں کوئی خاص انجام نہیں دیا؟

ٹرین نئی تھی اور پہلی بار چلائی گئی تھی۔ بیڈوں پر پلاسٹک کور چڑھا ہوا تھا۔  ہم نے کور ہٹائے۔ اُنہیں اُتارنا بہت سخت تھا۔ ہمیں بیڈوں کو نیچے لانا پڑا اور پھر ہم نے کور ہٹا کر بیڈ پر چادریں  بچھائی تھیں۔ میڈیکل وسائل  اور آلات کو پیکٹ میں سے باہر نکالا اور انھیں اُن کی جگہ پر سیٹ کیا۔ ان کاموں کی انجام دہی میں وقت لگتا ہے۔

 

ٹرین صرف زخمیوں کو سوار کرنے اور اُنھیں تہران منتقل کرنے کیلئے رکتی تھی یا اُس میں زخمیوں کا علاج معالجہ بھی ہوتا تھا؟

ٹرین رکنے کی مدت میں، علاج کی سہولیات دی جاتیں۔ ہنگامی جراحتوں کو ٹرین میں انجام دیتے تھے۔ ابتدائی امداد حتی ٹانکے لگانے کی حد  تک کام کیا جاتا، لیکن ہمارے پاس زخمیوں کو رکھنے کی جگہ نہیں تھی اور اُنہیں دوسری جگہ منتقل کرتے تھے۔

اگر کوئی فوجی آپریشن ہونا ہوتا تو زخمیوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی اور کبھی ایسا ہوتا کہ ہمیں دو راتوں تک جاگنا پڑتا، لیکن کبھی زیادہ زخمیوں کو نہیں لایا جاتا تھا۔ ہر طرح کے زخمی ہوتے تھے، سپاہی سے لیکر، مولوی، بسیجی، فوجی وغیرہ  کبھی زخمیوں کی تعداد اتنی بڑھ جاتی کہ اعلان کردیتے کہ اب ٹرین میں زخمیوں کیلئے جگہ نہیں ہے۔ وہ آدمی جو میل نرس تھے، اپنے ساتھ کیمرہ لائے تھے اور ٹرین کے اندر، زخمیوں اور ڈاکٹروں ، امدادی کارکنوں کی سرگرمیوں کی مووی بناتے۔ ہماری ڈیوٹی زخمیوں کی دیکھ بھال کرنا تھا کہ جنہیں ماہ شہر سے ٹرین میں چڑھایا جاتا۔ جو کام بھی ہم سے ہوسکتا تھا، جیسے انجکشن لگانا، پٹی باندھنا، زخمیوں کو دوائی دینا اور بینڈج کے پیکٹ بنانا وغیرہ انجام دیتے۔ بینڈج کے پیکٹ بنانا یعنی ایک بڑے سے ٹکڑے کو کاٹ کر چھوٹے چھوٹے چار ٹکڑوں  میں تقسیم کرلیتے اور اُنہیں کاغذ میں رکھ لیتے تاکہ ضرورت کے وقت  تیار رہیں۔

زیاد تر زخمی افراد مٹی اور خون میں لت پت چہرے اور سر کے ساتھ ٹرین میں داخل ہوتے اور ہم گیلی پٹیوں، پانی کے جگ اور پٹی کرنے والے مخصوص برتن  سے اُن کے چہروں کی صفائی کرتے۔ البتہ ٹرین میں مرد امدادی کارکن اور ڈاکٹر بھی موجود تھے جو بعض ایسے کام اپنے ذمے لے لیتے تھے جنہیں ہم انجام نہیں دے سکتے تھے۔

واپس آتے ہوئے، تہران پہنچنے سے پہلے بہت سارے زخمیوں کو، ایسے شہروں میں اتار دیتے جہاں کے ہسپتالوں میں مناسب وسائل ہوتے اور اُن کے پاس زخمیوں کو رکھنے کی جگہ ہوتی اور باقی دوسرے لوگوں کو تہران کے ہسپتالوں میں منتقل کردیتے تھے۔ ایمبولینسیں ٹرین کے برابر میں آکر کھڑی ہوجاتیں تاکہ بعض زخمیوں کو ابتدائی علاج معالجہ کے بعد قریب کے شہروں میں لے جائیں اور باقی زخمیوں کو تہران کے ہسپتالوں میں منتقل کردیتے۔

ماہ شہر میں جنگ کے مارے لوگ بہت تھے جو  قطار کے اردگر جمع ہوجاتے۔ اُن کے کپڑوں اور اُن کے حلیے سے پتہ چل رہا تھا کہ اُن کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ زیادہ تر دیہاتی لوگ تھے جو پر امن جگہ نہیں جاسکے تھے۔ ٹرین میں باورچی خانہ تھا اور اُس میں سے گرم کھانے کی خوشبو باہر جاتی۔ جیسے ہی کھانا کی خوشبو اُٹھتی وہ لوگ کچھ ملنے کی اُمید سے ٹرین کی طرف آتے۔ یہ بات ہمارے لئے بہت ہی پریشان کن بات تھی اور ہمارا دل نہیں چاہتا تھا کہ ہم گرم کھانا کھائیں۔ میں، تہمینہ، آذر رشدی پورش اور بتول ہم نے ایک طرح سے بھوک ہڑتال کی ہوئی تھی اور ہم گرم کھانے کی جگہ پنیر روٹی کھالیا کرتے۔ بعض لوگ جو تہران کے ہسپتالوں سے آئے تھے اُنہیں ہمارا یہ کام اچھا نہیں لگتا تھا!

 

آپ ہلال احمر کی ٹرین میں کتنےعرصے تک ماہ شہر میں رہیں؟

ہم وہاں بھی پندرہ دن تک رہے۔ کچھ دنوں بعد وہاں جاتے اور پھر واپس آجاتے۔ عام طور سے ٹرین وہاں پر پندرہ دن تک ٹھہرتی تھی۔ پھر ایسا نہیں ہوا کرتا  تھا کہ ہم اُن سے درخواست کریں کہ ہمیں اپنے ساتھ لے جائیں۔ ٹرین کے افراد کی تعداد طے تھی۔ اُن نرسوں کے علاوہ جو جابجا ہوگئی تھیں اور اپنی ڈیوٹی کی تنخواہ لیتی تھیں۔ جناب فضلی، جناب مؤمنی اور طاہرہ طاہری ٹرین کے مستقل افراد میں سے تھے۔ وہ لوگ تعمیراتی جہاد کے ادارے کی طرف سے آئے ہوئے تھے۔ وہ لوگ انقلاب سے پہلے ورامین کے اطراف میں موجود دیہاتوں میں جاتے تھے اور دیہات میں رہنے والوں کے مسائل حل کرتے تھے۔

جاری ہے۔ 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4447



http://oral-history.ir/?page=post&id=7134