حجت الاسلام مہدوی خراسانی سے بات چیت

۵ جون سے ۱۱ فروری تک

انٹرویو: امیر محمد عباس نژاد
مرتبہ: مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-04-03


حجت الاسلام علی اکبر مہدوی خراسانی ساسانی خواہ  کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا جس میں  اُن سےپہلوی حکومت کے دوران سیاسی پابندی کے ماحول، انقلاب کا کس طرح عمل میں آنا اور کامیاب ہونا اور انقلابی اقدار کی حفاظت میں انقلابی طبقوں کی تشویش کے بارے میں بات چیت ہوئی۔ یہ تحریر، تاریخی واقعات کی روایت ہے کہ جن کے درمیان انھوں نے زندگی گزاری اور پہلوی حکومت کے ایجنٹوں سے کئی مرتبہ تکلیف اٹھائی ہے۔ اُس کے بعد بھی عراق کی ایران پر مسلط کردہ  جنگ کے دوران خرم شہر کی آزادی والے آپریشن میں اُن کے بیٹے نے جام شہادت نوش کیا۔

 

برائے مہربانی اپنا تعارف کروائیے

میں  سن ۱۹۳۳ء میں نیشاپور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا اور تقریباً ۱۶ سال کی عمر میں نیشاپور کے دینی مدرسے میں داخل ہوا۔ دو سال کے بعد میں مشہد آگیا۔ مشہد میں بھی تقریباً ۷ سال استاد ادیب نیشاپوری اور اُن کے بعد آیت اللہ مدرس سے علم حاصل کرتا رہا، اُس کے بعد، آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کے زمانے میں قم چلا گیا۔ میں مدرسہ حجیتہ میں تھا۔ اُس زمانے میں قم کے حوزے کے مشہور اساتید آیت اللہ صدر اور آیت اللہ ستودہ تھے۔ میں نے کچھ عرصہ آیت اللہ علامہ طباطبائی سے بھی کسب فیض کیا اور آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کی وفات سے ایک سال پہلے تہران آگیا۔

 

آپ نے کب سے انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لیا؟

جب میں نیشاپور میں تھا، شہید نواب صفوی مشہد کے دورے پر آئے تونیشاپور میں اُن کا عجیب اور بے مثال استقبال ہوا، اس طرح سے کہ لوگ اُن کے دیدار کیلئے تقریباً ۲۰ کلومیٹر پیدل چل کر گئے تھے۔ شہید نواب نے وہاں پر بہت دلچسپ تقریر کی کہ میں وہیں سے اُن کا گرویدہ ہوگیا۔ انھوں نے نیشاپور میں ایک نمائندہ بھی مقرر کیا جنہیں اتفاق سے میرے کمرے میں جگہ ملی۔

 

چونکہ آپ اُنکے گرویدہ ہوگئے تھے کام کرنے کیلئے تہران آگئے ؟

میں اُن سے ملاقات کیلئے تہران آیا ۔ دراصل میرے تہران آنے کی  ایک اصلی وجہ،  شہید نواب صفوی  تھے۔ اس زمانے میں اُن کا ایک جریدہ نکلتا تھا جس کا نام منشور برادری تھا ، جسے ہر مہینے میرے پاس نیشاپور بھیجا جاتا۔ میرے لئے مجاہدت وہیں سے شروع ہوگئی اور وہیں مشہد میں بھی کبھی منبر پر جاتا لیکن میں زیادہ تر رشت جاتا تھا۔ میں تین سالوں تک مستقل محرم و صفر کے دو مہینے رشت میں مجلس پڑھنے جاتا رہا۔ وہاں پر بہت زیادہ جدوجہد میں مصروف تھا کیونکہ وہاں پر فساد بہت زیادہ تھا۔ جناب سید قوام بھی وہاں کے افراد میں سے ایک تھے جنہوں وہیں پر شادی کرکے سکونت اختیار کرلی اور ابھی بھی رشت میں مجالس پڑھتے ہیں۔

 

آپ کس زمانے میں امام خمینی (رہ) کے نام سے واقف ہوئے؟

اُسی پہلے سال جب تہران میں تحریک کا آغاز ہوا؛ اُس پیاسے کی طرح جسے پانی مل گیا ہو، میں امام میں جذب ہوگیا۔ میں تہران بھی جو میں آیا تھا، مجلس پڑھنے کے علاوہ، آیت اللہ حاج میرزا ابو القاسم فلسفی، واعظ شہیر کے بھائی اور اُن کے دوسرے بھائی آیت اللہ حاج میرزا علی فلسفی جو اُس وقت تک مشہد منتقل نہیں ہوئے تھے، جیسے بزرگ اساتذہ کے حضور میں رہا۔ وہ مسجد لرزادہ میں تقریر کرتے تھے۔ سب سے پہلے جب تہران آیا تو میں اس مدرسہ کی مسجد میں ٹھہرا جو آیت اللہ برہان کے زیر نظر تھا۔ میں مسجد لرزادہ میں سب سے پہلی دفعہ زیب منبر ہوا۔ اُس کے بعد مسجد آیت اللہ فومنی، جس کی مرکزی حیثیت تھی۔ وہ انقلاب کے مجاہدوں میں سے تھے۔

 

سن  ۱۹۶۳ء؟

سن ۶۳ سے پہلے۔ میں سن ۶۳ کے قیدیوں میں سے تھا۔

 

امام بھی آپ کے استاد تھے؟

نہیں۔ مجھے ان سے درس پڑھنے کی توفیق نہیں ملی۔ جب ان کا درس ختم ہوتا تھا، شاہراہ ارم ان کے شاگردوں سے بھری ہوتی تھی اور یہ شخصیت اس حد تک پابند تھی کہ ان کا درس ختم ہونے کے بعد، شاگردوں کو ان کے پیچھے آنے کی اجازت نہیں تھی۔

 

کہ سڑکوں پر رش نہ ہوجائے؟

نہیں۔ تاکہ ریاکاری نہ ہو۔حتی ایک دفعہ میں نے ایک سوال پوچھنا تھا، میں امام کے پیچھے چل پڑا، امام رُک گئے اور کہا: "کوئی کام ہے؟" میں نے عرض کی ایک سوال پوچھنا ہے۔ انھوں نےکہا: "پوچھئے؟" میں نے اپنا سوال پوچھا، جب بات ہوگئی تو وہ چل پڑے اور میں پھر ان کے پیچھے چل پڑا، پھر رُک گئے اور کہنے لگے: "کوئی اور کام بھی ہے؟" میں نے  کہا نہیں، کہنے لگے: "چلئیے۔"

 

حتی ایک آدمی کو بھی ...؟

حتی ایک آدمی  ... اصل میں امام دوسری طرح کے عالم تھے اور انہیں ابھی بھی نہیں پہچانا گیا ہے اور ان کی پہچان کیلئے سالوں لگیں گے۔ یہ کہاں اور شاہ کے پروگرام کہاں؟

 

انقلاب سفید؟

جی، انقلاب سفید کہ جس کا ایک فائدہ زرعی اصلاحات تھا۔ امام اُس وقت حاج آقا روح اللہ کے نام سے مشہور تھے اور دنیا کے معاملے میں کسی کو بھی اپنے نزدیک آنے نہیں دیتے تھے ، جو لوگ معنوی ہوتے اُن کا ساتھ دیتے تھے؛  لیکن دوسرے لوگ کہتے  کہ ان کے لئے صلوات بھیجو اور اس طرح کے کام کرو، جبکہ امام اس طرح کے انسان نہیں تھے۔ جب انقلاب سفید شروع ہوا امام نے تقریر کا آغاز کیا۔

 

کون سا سال تھا؟

آیت اللہ العظمیٰ بروجری کی وفات کے بعد۔ دراصل امام نے علماء کو خواب سے بیدا کیا۔

 

فیضیہ کی اپنی اُس مشہور تقریر میں؟

اُس سے پہلے، جب تہران میں تحریک کا آغاز ہوا، مسجد ارک میں ایک جلسہ منعقد کیا کہ تمام علماء اُس میں شرکت کریں اور گرانقدر خطیب جناب فلسفی منبر پر گئے؛ شعلہ بیان خطابت۔ یہ منبر پر تھے کہ قم سے ۴ خط آگئے ، ایک حضرت امام کا خط تھا، ایک آیت اللہ العظمیٰ گلپایگانی کا، ایک آیت اللہ العظمیٰ نجفی اور ایک جناب شریعتمداری کا۔

 

کیا آپ کو یاد ہے کون سا خط پہلے پڑھا گیا؟

مجھے صحیح سے یاد نہیں۔ لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے جب امام کا خط پڑھا گیا، خط کے آخر میں سورہ مبارکہ فیل تھی۔ وہاں موجود لوگوں کو خط اتنا پسند آیا کہ سب نے جناب فلسفی کے ساتھ نے مل کر "الم تر کیف فعل ربک بأصحاب الفیل"پڑھی اور دراصل ہماری انقلاب سے مربوط امام سے پہلی الفت اور آشنائی یہاں سے شروع ہوئی۔

 

ان سب باتوں کے بعد اور جناب فلسفی کے تقریر کرنے کے بعد  شاہ کے ایجنٹوں نے مسجد ارک پر چڑھائی کی؟

نہیں، وہاں نہیں آئے۔ اُس کے بعد ایک جلسہ آیت اللہ بھبھانی کے گھر پر ہوا؛ سیروس اسکوائر پر جو مشہور تھا۔ اُس دن تمام علماء وہاں جمع ہوئے تھے کہ جناب فلسفی نے بات کرنا شروع کی اور اُن کی گفتگو کے بعد  آیت اللہ بھبھانی کی ہمراہی میں لوگوں نے حرکت کرنا شروع کی اور بازار  میں داخل ہوئے۔ پھر آیت اللہ خوانساری کے گھر میں داخل ہوئے کہ انھوں نے وہاں پر شعلہ بیان اعلان کیا اور اُن کےساتھ موجود لوگ گھر سے باہر آئے اور دوبارہ بازار کی طرف بڑھے اور یہاں پر جھڑپ شروع ہوئی۔

 

کن لوگوں کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہوا؟

سپاہی روکنے کیلئے آئے تھے۔ بازار بھی بکھر گیا تھا اور بازاری بھی وحشت زدہ تھے۔ وہاں مار پیٹ شروع ہوئی اور اُس زمانے کی شاہراہ ۱۵ خردار شرقی اور بوذر جمھری تک یہ مار پیٹ جاری رہی۔ وہاں پر پولیس سے ہماری باقاعدہ لڑائی ہوئی۔

 

انقلابیوں کی طرف سے؟

جی۔ سیروس اسکوائر پر مجھے جتنے پتھر ملے میں نے اُن کی طرف پھینکے، ہمارے نزدیک مٹی کے برتنوں کی ایک دوکان تھی  اور جب مجھے اپنے اطراف میں کچھ نہیں ملا تو میں نے وہ برتن اٹھالئے۔ میں نے اُن میں سے کچھ کو پھینکا اور پھر سب لوگ چھٹ گئے۔ اگلے دن میں برتن بیچنے والے کے پاس گیا اور اُسے اگلے دن کی داستان اور برتن توڑنے کے بارے میں بتایا اور میں چاہ رہا تھا کہ اُس ان کے پیسے دوں۔ وہ میرے کام سے خوش ہو اور پیسے نہیں لئے، یہ واقعہ میرے اور اُس کے درمیان دوستی کا باعث بنا۔

 

اس واقعہ کے بعد کون سے حادثات پیش آئے۔

یہ واقعہ ۵ جون۱۹۶۳ء سے بہت پہلے پیش آیا۔ اس کے بعد بہت سے پروگرام شروع ہوئے، مسجدوں میں لے جایا گیا، سوئے ہوئے لوگ جاگے اور امام کے بیانات جاری ہونا شروع ہوئے۔

 

یہ بیانات  کس طرح آپ تک پہنچتے؟

ایک واسطہ  تھا،جب پمفلٹ آتے تو انقلابیوں کو دیدئے جاتے اور وہ لوگ اُسے بانٹتے۔ ہمارے جمع ہونے کی جگہ مختلف مکانات تھے کہ زیادہ تر جناب فلسفی کا گھر ہماری چھاؤنی ہوتا تھا۔

 

اُس وقت آپ کتنے سال کے تھے؟ کنوارے تھے یا شادی شدہ؟

میری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ میں نے ۲۵ سال کی عمر میں شادی کی تھی۔

 

آپ کس دن گرفتار ہوئے؟

۵ جون والے دن۔ ہمارا شہید (میرا بیٹا) ابھی پیدا ہوا تھا، شاید تین دن کا تھا۔

 

آپ کس طرح  گرفتار ہوئے؟

بازار امام میں – شاہراہ آب منگل کے راستے میں شاہراہ ری کی طرف – جہاں ایک بڑا سا گیراج تھا اور بہت مشہور تھا، ہر سال محرم کے پہلے عشرے میں وہاں مجالس منعقد ہوتی تھیں۔ میں نے محرم کی ساتویں شب تک وہاں مجلس پڑھی۔ ساتویں شب تہران میں مجلس پڑھنے والوں تک امام کا بیان پہنچا کہ حقیقت کو بیان کریں ولو بلغ ما بلغ، اگر چار راہوں یا میدانوں میں سپاہی رکاوٹ بھی بنیں، پھر بھی لوگوں کو بتائیں۔

مسجد حاج ابو الفتح بھی بازار سے قریب تھی، وہاں پر صبح سویرے آیت اللہ مروارید منبر پر جاتے، لوگ بھی پہلے اُن کی مجلس سنتے اور وہاں کی مجلس ختم ہونے کے بعد بازار آتے۔

 

آپ کی مجلس میں؟

جی۔ پہلی رات اور اُس کے بعد گیراج لوگوں سے بھر ہوا تھا ، آٹھویں شب کے بعد حتی سڑک اور بازار بھی بھرا ہوا تھا، کبھی تو ایسا ہوجاتا کہ میں  منبر پر جانے کیلئے تقریبا ۱۵ منٹ تک کھڑا رہتا کہ راستہ ملے ۔

 

اس حد تک رش ہوتا تھا؟

جی۔ منبر بھی چھ سیڑھیوں والا اور بڑا تھا کہ پہلی سیڑھی پر تین مسلح افراد کھڑے ہوئے تھے، ایک برادر شہید امامی (جن سے ھزیر کو مارا )، دوسرے کا نام مرزا آقا اور تیسرے آدمی کا نام اکبر زاغی تھا۔

 

آپ کی حفاظت کرنے کیلئے؟

جی۔ ۵ جون کے قیام کی پہلی گولی وہاں چلی۔ ۵ جون کو بارہ محرم تھی۔ شب عاشور مجھے پکڑنے کیلئے داخل ہوئے اور ان لوگوں نے ساواک والوں پر حملہ کردیا اور ساواک نے ڈر کے مارے بھاگنے کیلئے ہوائی فائر کردیا۔

 

اُس وقت آپ کو گرفتار نہیں کیا؟

نہیں، زیادہ رش ہونے کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوئے۔ شاہراہ ری پر راستہ بند ہوچکا تھا اور جوانوں نے مجھے حلقے میں لیا ہوا تھا۔ گولی چلنے کے بعد آیت اللہ بھبھانی کے خادم جو اُسی بازار میں ہوتے تھے، انھوں نے پیغام دیا کہ فلان کو میرے گھر لے آؤ۔ میں ان کے گھر چلا گیا اور میرے پیچھے کچھ جوان بھی آگئے۔ جناب سید محمد تقی نے کہا: میں فلاں جنرل کو فون کرتا ہوں کہ ...میں نے کہا: پانی سر سے گزر چکا ہے اور حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ بعض جوانوں نے کہا ہم چھت پر سے چلے جاتے ہیں، میں نہیں مانا اور کہا میں چھت پر سے نہیں جاؤں گا؛ چونکہ جب میں منبر پر تھا تو آکر زور سے کہا آقا عبد اللہ، اکبر مشتی کے بیٹے کو پکڑ کر لے جا رہے ہیں، میں نے کہا میں بات کر رہا ہوں، جناب عبد اللہ کو کیوں لے جا رہے ہو؟ ان جوانوں میں سے ایک نے کہا: قبلہ مجھے پتہ آپ آسمان پہ جائیں یا زمین میں، آپ کو پکڑ لیا جائے گا۔ اگر آپ چند مجالس کے بعد گرفتار ہوں یہ بہتر ہے یا ابھی؟ میں راضی ہوگیا۔ اتفاق سے میں نے اُسی جگہ منبر پر اعلان بھی کیا کہ میں اس کے بعد شاہراہ ادیب پر مجلس پڑھوں گا۔ جب میں پہنچا تو وہاں کے بہت سے لوگ موجود تھے اور مجلس بھی پرجوش تھی۔  میں دن میں بھی ایک مجلس شاہراہ شہید آیت اللہ سعیدی (غیاثی) پر پڑھتا تھا۔ بازار والی مجلس ۱۲ محرم تک جاری رہی۔

 

آپ کو پتہ تھا کہ وہ آپ کے پیچھے ہیں اور آپ کو پکڑنا چاہتے ہیں؟

ہاں۔ رات کو تقریباً ایک یا دو بجے کا وقت تھا دروازے کی گھنٹی بجی۔ میں نے خود سے کہا اب تو آگئے۔ لیکن جب دروازہ کھولا، شیخ عباس (محلے کا پنساری) کو دیکھا۔ اس نے کہا کرنل صادقی جو مجاہدین میں سے تھا، انھوں نے پیغام دیا ہے کہ آپ آج رات گھر پر نہیں رہیں۔ گویا اُسے پتہ چل گیا تھا کہ امام کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا نہیں، میں گھر پر رہوں گا۔ صبح جب منبر پر گیا، مجلس کے درمیان ایک شخص داخل ہوا اور بلند آواز سے کہا کہ امام کو پکڑلیا ہے۔ میں نے کہا کیا مطلب امام کو پکڑلیا ہے؟! میں نے اُس کی بات پر یقین نہیں کیا۔

 

اُس زمانے میں انہیں امام کے لفظ سے مخاطب کرتے تھے یا ...

نہیں، اُس نے کہا حاج آقا روح اللہ کو پکڑ لیا ہے۔  دوبارہ ایک آدمی نے آکر کہا: "حاج آقا روح اللہ کو پکڑلیا ہے" مجھے پھر بھی یقین نہیں آیا، لیکن جب تیسرا آدمی آیا تو مجھے یقین ہوگیا۔ اُس نے کہا تہران کے بازار میں رش ہے، مار پیٹ شروع ہوچکی ہے اور جانی نقصان بھی ہوا ہے۔ ہم کھڑے ہوئے اور وہاں پر موجود لوگوں کے ساتھ سڑکوں پر آگئے ، وہاں پر سب کچھ بند کروا دیا۔ شاہراہ شہباز  سے پہلے (آج کا ۱۷ شہریور) تھانے کی گاڑی میں ۳۰، ۴۰ سپاہی آئے۔ دو سید مولویوں کو پکڑا اور مجھے بھی تھانے لے گئے۔ جیسے ہی ہم اندر داخل ہوئے تھانے کا انچارج کھڑا ہوگیا اور چیخنا چلانا اور گالیاں دینا شروع کردیں اور کسی ایک مولوی کو تھپڑ بھی مارا اور پھر کہنے لگا: "ہم اپنی آخری گولی تک کو استعمال کریں گے!"

میں نے بھی کہا کہ ہم بھی اپنے خون کا آخری قطرہ بہا دیں گے۔ ہمیں تھانے کی تہہ خانے میں لے گئے۔ پہلے تو ہم سے بہت اچھی طرح پیش آئے ، ہمیں چائے پیش کی اور اس طرح کے کام۔ اور وہاں باہر خراسان اسکوائر پر جو مار پیٹ ہوئی اور جو سپاہی وہاں سے مار کھا کے آتے، غصے کے عالم میں ہمیں تہہ خانے سے باہر نکالتے اور ایسی جگہ لے گئے کہ ...

 

جہاں آپ کو لے گئے تھے وہ تاریک خانہ تھا؟ اسٹور تھا؟

ہمیں ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئے جس پر دھوپ پڑ رہی  تھی؛ جون کا مہینہ تھا اور گرمی بھی بہت تھی؛ اور ایک ایک کر کے لوگوں کو لا رہے تھے کہ اب بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں تھی، ہم کھڑے ہوئے تھے۔ نہ پانی، نہ کھانا ، کچھ بھی نہیں۔ وہیں پر جو تہہ خانے میں تھے، ایک انسپکٹر آیا جسے نے انقلابیوں سے مار کھائی تھی، اُس نے وہاں تین مولویوں کو دیکھا؛ غصے کی حالت میں اُس نے فائر کرنا چاہا۔ اُس کے ایک ساتھی نے اُسے روک کر کہا: "وہاں جو لوگوں کو مارا ہے کافی نہیں ہے، کہ اب ان لوگوں کو بھی مارنا چاہتے ہو؟" پھر ہمیں تاریک خانہ میں لے گئے۔ ہم لوگ رات کو تقریباً گیارہ بجے تک وہیں رہے۔

 

آپ صبح سویرے مجلس پڑھنے گئے تھے؟

جی، صبح کو مجلس جلدی شروع ہوتی۔ اُن لوگوں نے خود کو اس طرح مسلح کیا ہوا تھا اور ہمیں تھانے لے گئے جیسے لینن کو گرفتار کرلیا ہے!

 

اُسی وقت رات ۱۱ بجے آپ کو تھانے لے گئے؟

اُنہیں اُسی رات  خراسان اسکوائر اور شاہراہ خراسان سے لانا چاہیے تھا کہ دوسری طرف سے لائے، مجھے تعجب ہوا، لیکن بعدمیں معلوم ہوا کہ زخمی افراد ابھی تک سڑکوں پر پڑے ہیں اور راستہ بند ہے۔ خلاصہ ہمیں ادھر اُدھر گھما پھرا کر تھانے میں لے گئے۔ تھانے کا ہال، بہت بڑا ہال تھا اور جن لوگوں کو پکڑا تھا ، وہ بہت زیادہ تھے۔ ہاں ابھی تک ساواک مکمل طور سے قائم نہیں ہوئی تھی اور وہ پولیس کا مرکز تھا؛ پولیس کے سربراہ نے کہا: "سب دیوار کی طرف!" ہم دیوار کی طرف رُخ کئے کھڑے تھے کہ اچانک کسی نے مجھے پکڑ کر کھینچ لیا؛ پولیس کا انچارج تھا، اُس نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالا اور کہا: "یہ نایب السلطنہ بازار میں جناب عالی کی باتیں ہیں۔"

مجھے تفتیش کیلئے لے گئے؛ تفتیشی افسر مجھے دھکا دیتے ہوئے اور سناتے ہوئے ایک کمرے میں لے گیا اور سوالات پوچھنا شروع کئے، سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ "کس کی تقلید کرتے ہو؟"

پہلے بات ہوچکی تھی کہ یہ لوگ امام کو عدالت کے کٹھرے میں لانا چاہتے ہیں اور اگر امام میں مرجعیت کا پہلو پایا جاتا تو یہ لوگ اُن کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرسکتے تھے۔ جبکہ میں اُس وقت آیت اللہ العظمیٰ حکیم کی تقلید کرتا تھا، میں نے دل میں کہا خدایا جو بھی  ہے تیری خاطر ہے اور میں نے لکھ دیا حضرت آیت اللہ العظمیٰ خمینی۔ تفتیشی افسر نے ایک نگاہ ڈالی اور اپنے ہاتھ میں موجود قلم کو میزا پر مارا اور آہستہ سے کہا: "شاباش، شاباش، شاباش!" عذر خواہی کی اور بولا: "اگر میں نے آپ کی توہین کی ہے، آپ کو پتہ ہے یہ میری ڈیوٹی ہے ... میں اب آپ کو دوست اور ساتھی ہوں۔ الجھن کا شکار نہ ہو ...۔" پھر میری فائل تیاری کرکے دستخط کئے؛ تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا؛ پھر وہاں سے مجھے تصویر کھنچوانے وغیرہ کیلئے لے گئے۔

کچھ کمانڈوز جو زیادہ کھانے اور سونے کی  وجہ سے دیو کی طرح ہوگئے تھے، ایک لائن میں کھڑے تھے۔ جب ہمیں تھانے کے صحن میں سے لے جا رہے تھے، ہم ان کے درمیان سے گزرے اور ان لوگوں نے ہمیں اور امام کو بری بری باتیں کہیں۔ وہاں کے بعد ہمیں انگوٹھا لگوانے اور اس طرح کے کاموں کیلئے لے گئے جس میں تقریباً رات کے ایک یا دو بج گئے؛ ادھر سے لوگوں کو بھی جو گرفتار کیا ہوا تھا، اُن کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ مجھے پھر دوبارہ لائن سے میں گزارا گیا اور کہا اسے لے جاؤ  اس سے بعد میں حساب لیں گے۔ وہاں پر ایک کم اونچائی والا اور پیچیدہ  ہال  تھا جسے جیل کا دفتر سمجھا جاتا تھا۔ داخل ہونے سے  پہلے، ہمارے ناموں کو رجسٹر پر لکھا جاتا؛ جب میں اندر داخل ہوا تو جناب فلسفی، شہید مطہری، آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی اور تقریباً ۳۰ – ۴۰ علماء اور مختلف شہروں کے واعظین کو دیکھا کہ جن سب کو پکڑا ہوا تھا۔

 

آپ کی جناب مطہری سے پہلی بار وہاں پر ملاقات ہوئی؟

نہیں۔ ہم ایک دوسرے کے دوست اور یک علاقے کے تھے اور جب بھی مجھے کوئی مشکل ہوتی تو میں ان سے بیان کرتا تھا۔ جیسے ہی میں اندر داخل ہوا سب نیند سے اٹھ گئے اور چونکہ اُنہیں باہر کی کوئی خبر نہیں تھی، پریشانی کے عالم میں باہر کے حالات پوچھنے لگے۔ میں نے کہا صبح سے میں نے کچھ نہیں کھایا ہے اور مجھے بھوک لگی ہے، انھوں نے کہا ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے، لیکن ایک شخص جو بعد میں قم کے نمائندے بنے، اُن کے پاس کچھ خشک روٹی تھی، میں نے وہی کھائی  اُس کے بعد باہر کے حالات اور پیش آنے والے واقعات کے بارے میں انہیں بتایا۔

صبح سویرے فائرنگ شروع ہوگئی اور لوگ جدوجہد کرنے کیلئے پھر باہر نکل آئے تھے۔ فائرنگ کی آواز اتنی زیادہ تھی کہ قیدی پریشان ہو رہے تھے کہ سپاہی تمام لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ قسمت سے ایسا ہوا کہ تہران کے کچھ مشہور اور برجستہ علماء شاہراہ خراسان  پر جمع ہوگئے تھے کہ پیش آنے والے حالات کی چارہ جوئی کرسکیں۔ پہلوی حکومت کے ایجنٹوں کو پتہ چل گیا اور اُنھوں نے اُن سب کو گرفتار کرلیا اور وہاں پر لے آئے، تقریباً ۱۵ – ۱۶ افراد تھے۔ سب بیٹھے ہوئے تھے کہ فائرنگ شروع ہوگئی، جناب فلسفی نے مجھ سے کہا کہ کھڑے ہو اور مصائب یا کوئی دعا پڑھو اور میں نے الٰہی قمشی ای کہ اشعار پڑھنا شروع کردیئے۔ اسی حال میں ۹ افسر اندر داخل  ہوئے اور شور شرابا کرنے لگے کہ یہاں پر بھی فساد کرنا شروع کردیا  ... لیکن میں اُسی طرح پڑھتا رہا اور اصلاً کوئی دھیان نہیں دیا۔ کہ حاج باقر قمی نے کہا: "کافی ہے، اب نہیں پڑھو۔" پھر ہم بیٹھ گئے اور وہ لوگ چلے گئے۔

اس کے بعد جیل کلاس میں تبدیل ہوگیا؛ بہت ہی اہم درسوں کی کلاس  کہ جس میں ہم نے شہید مطہری اور جناب فلسفی سے بہت استفادہ  کیا، بغیر اس کے کہ کسی کے ہاتھ میں کوئی کتاب ہو۔ مثال کے طور پر کسی ایک شخص سے کہتے کہ آپ کو کل جھوٹ کے بارے میں بات کرنی ہے یا کسی اور شخص سے کہتے کہ آپ کو حسد کے بارے میں بولنا ہے۔

 

اس پروگرام کو کون منظم کرتا تھا؟

جناب فلسفی۔ جب ایک  درس ہوجاتا تو  اُسی کے بارے میں مباحثہ شروع ہوجاتا؛ مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ شہید مطہری کتنی عظیم شخصیت کے مالک ہیں۔ جب وہ بات کرنا شروع کرتے تو جوش مارتے سمندر کی طرح ہوتے۔ جناب فلسفی فنی لحاظ سے اور یہ علمی لحاظ سے ماہر تھے۔ دراصل جس جگہ ہم لوگوں کو قید کیا ہوا تھا، وہ قرنطینہ (جہاں پر کسی دوسرے شخص کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی) والی جگہ تھی تاکہ کوئی ہم سے رابطہ برقرار نہ کرسکے اور ہم سے پہلے وہاں ڈیموکریٹک پارٹی کو رکھا ہوا تھا اور شہید نواب صفوی نے بھی اسی جگہ قید کاٹی تھی۔

 

یہ جیل کہاں تھی؟

اُسی تھانے میں۔ اُسی جگہ پر جہاں ہم قید تھے، کوئی تقریباً ۱۰ سے ۱۲ میٹر جگہ تھی اور اتنا ہی بڑا ایک صحن تھا؛ اس جگہ پر کبھی ۶۰ افراد بھی ہوتے، اس طرح سے کہ ہم حتی ہل بھی نہیں سکتے تھے۔ یہ دو تین منزلہ مکان تھا جس کا بالائی حصہ  افسروں کیلئے تھا اور جب بحث شروع ہوتی تو سپاہی آجاتے اور  باتیں سنتے۔ ایک افسر نے کہا کہ اگر ہمیں موقع ملتا، ہم کسی کو اپنی جگہ بٹھاکر آتے اور گفتگو سے استفادہ کرتے۔

 

پس آپ قید میں بھی جدوجہد کر رہے تھے؟

جی، قید ہونے والے ایک شخص نے بتایا: میرا ایک رشتہ دار اُسی تھانے میں کام کرتا تھا اور وہ کہتا تھا وہ چالیس دن جس میں ہماری قید جاری رہی، رشوت جیسے کام بند ہوگئے تھے اور حقیقت میں وہاں ہونے والی باتوں  اور ابحاث  نے اُن پر مثبت اثر چھوڑا تھا۔

 

ان چالیس دنوں میں آپ کے کھانے کی کیا کیفیت تھی؟

جو کھانا لایا جاتا وہ سوپ جیسی کوئی چیز ہوتی تھی تاکہ صرف ہماری موت کو ٹال دیا جائے؛ میں تو گمان کرتا ہوں کہ جان بوجھ کر اُس میں ٹھنڈا پانی ملا دیتے تھے۔ اُس زمانے میں بھی جب بہت خوش تھے اس بات سے کہ (اپنے گمان میں) بغاوت  کو ختم کر دیا ہے، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ انھوں نے اپنے ہاتھوں سے کیسی قبر کھودی ہے، کیونکہ امام نے فرمایا کہ اصلی انقلاب ۵ جون کو تھا۔

 

چالیس دن بعد جب آپ قید سے رہا ہوئے،تو  آپ نے دوبارہ سرگرمیوں کا آغاز کردیا؟

جی ہاں، جبکہ میں وہاں کا ایک جوان ترین فرد محسوب ہوتا تھا۔ رہائی کے وقت شاید میں پہلا یا دوسرا شخص تھا۔ میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور خدا حافظی کی۔ وہ مجھ سے تعہد لینا چاہتے تھے کہ ایسا نہیں کروں  گا اور اگر ایسا ہوگیا تو اتنے پیسے دینے پڑیں گے۔ میں نے شور مچانا شروع کردیا۔ میری آواز قیدیوں تک پہنچ رہی تھی۔ میں نے کہا: "چالیس دن کے بعد  مطالبہ بھی کر رہے ہو؟ میں تعہد نہیں دونگا۔" میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور دوبارہ جیل میں چلا گیا۔ بعد میں آئے اور مجھ سے التماس کرکے مجھے باہر لائے۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ لوگ سچ بول رہے ہیں اور مجھے رہا کرنا چاہتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ میں نے لکھا: "جس طرح میں نے اب تک کوئی غلط لفظ اور بات نہیں کی، اس کے بعد بھی کوئی غلط بات نہیں کروں گا۔"

میرے باہر آنے کے بعد، ایک ایک کرکے دوسرے بھی آزاد ہوگئےاور بعد میں پروگرام شروع ہوئے، تنظیمیں بنیں اور جدوجہد کرنے والے علماءکا گروہ بنے۔

 

یہ گروہ بنانے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟

اس طرح سے تھا کہ مثال کے طور پر امام ایک بیان دیتے، لوگ جمع ہوتے اور اُس پر بحث کرنے کیلئے ایک نشست رکھی جاتی ۔ شاہ کے خلاف بیانات لکھے جاتے کہ دراصل جس کی سزا پھانسی کا حکم تھا، ہم اُس پر دستخط کرتے۔ تمام کام اور پروگرام اجتماعی ہوتے تھے، مثال کے طور پر ایک بیان دینے کیلئے نشست رکھی جاتی تاکہ اُس بیان کا متن تیار  ہو اور جب سب اپنی رائے دے لیتے، اُس وقت بیان جاری ہوجاتا۔

 

آپ سن  ۱۹۶۳ء سے  ۱۹۷۸ء تک کتنی دفعہ گرفتار ہوئے؟

سن ۱۹۶۳ء  سے لیکر انقلاب کی کامیابی تک چار دفعہ ہوا ہوں۔

 

آپ کے ساتھ مار پیٹ بھی کی گئی؟ کس طرح کی اذیتیں دیتے تھے؟

آخر تک شکنجے ان لوگوں کو دیتے تھے جن سے اُنہیں کچھ معلومات حاصل کرنا ہوتی تھیں؛ جیسے کس نے بیان لکھا ہے اور کہاں لکھا ہے؟ لیکن میں تو منبر پر اپنی باتیں کہہ دیتا اور میری فائل بھی اُن کے پاس تھی اور بعد میں مجھے سزا یا پھانسی ہوتی۔

آہستہ آہستہ جدوجہد وہاں تک پہنچی کہ امام ترکیہ جلاوطن ہوگئے۔ امام کے نام، تصویر اور توضیح المسائل  پر پابندی لگ گئی۔ ہم انقلابی واعظین کے گروہ نے ایک نشست رکھی کہ کیا کرنا چاہیئے؟ کب تک یہی حالات چلتے رہیں گے؟ ہم نے تین دنوں میں، مستقل تین نشستیں منعقد کیں کہ کیا کریں؟ قسمت سے آیت اللہ حکیم اللہ کو پیارے ہوگئے؛ وہاں سب نے رائے دی اور یہ فیصلہ ہوا کہ آیت اللہ حکیم کی فاتحہ خوانی کی مناسبت سے ایک مجلس منعقد کی جائے اور اُس میں بات کی جائے۔

اشتہار شائع ہوا اور آیت اللہ حکیم کیلئے ایصال ثواب کی مجلس میں، آیت اللہ مروارید زیب منبر ہوئے اور اُس مجلس میں انھوں نے بہت جوشیلی تقریر کی جو اُن کے خلخال جلا وطن ہونے کا سبب بنی۔ اسی اثناء میں حوزہ علمیہ قم کے اساتید نے بھی ایک بیان جاری کیا اور اُسے منبر سے پڑھا گیا کہ آیت اللہ مکارم نے اُس بیان کے بارے میں کہا ہوا تھا کہ امام کی عظمت کے بارے میں جو بھی لکھیں میں اُس پر بغیر پڑھے دستخط کردوں گا۔ وہ منبر بھی بہت مؤثر رہا۔

دوسری طرف سی، جب امام نجف پہنچ گئے، اُنہیں سمجھ میں آگیا کہ امام کیا چیز ہیں اور اُس کے امام کے درس، حوزہ علمیہ نجف میں رکن کی حیثیت اختیار کر گئے۔

 

اُس بیان اور آیت اللہ مروارید کی تقریر کے بعد، آپ بھی گرفتار ہوگئے؟

نہیں۔ مجھے کسی اور وجہ سے  گرفتار کیا ۔ میں سن  ۱۹۶۴ء میں دوبارہ گرفتار ہوا کہ جہاں ہم شہید محلاتی اور قم کے کچھ اساتید کے ساتھ ڈھائی مہینے تک رہے؛ پہلے تو مجھے قزل قلعہ نامی جیل میں لے گئے اور دو تین راتیں وہاں رکھا  اور وہاں سے قصر جیل لے گئے؛ میں جیسے قصر میں داخل ہوا، آیت اللہ فومنی کی رحلت ہوچکی تھی،  وہاں پر بہت عجیب بات ہوئی۔ ہم جیسے ہی وہاں پہنچے ہم نے اعلان کردیا کہ کل رات آیت اللہ فومنی کیلئے مجلس ہوگی۔ جیسے ہی ہم نے اس بات کا اعلان کیا انھوں نے  ہمیں اگلی صبح قرنطینہ بھیج دیا۔

 

وہی تھانے کی جیل؟

جی ۔  میرے گھر والے وہاں مجھ سے ملنے آئے تھے، میں نے اُن سے کہہ دیا تھا کہ ہمیں دوبارہ قرنطینہ لے گئے ہیں اور اُنہیں تقریباً یقین ہوگیا تھا کہ مجھے پھانسی پر چڑھا دیا گیا ہے، چونکہ اُنہیں اِدھر سے اُدھر دوڑا رہے تھے۔

 

آپ قرنطینہ میں کتنا عرصہ رہے؟

ڈھائی مہینے۔ ہم نے وہاں دلچسپ پروگرام رکھے ہوئے تھے؛ کبھی ہم لوگوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی اور کبھی کچھ لوگ آزاد ہوجاتے اور ہم لوگ کم ہوجاتے؛ ہم لوگ تقریباً ۳۰ سے ۴۰ افراد تھے۔ وہاں پر خمین کا رہنے والا ایک شخص تھا، بہت تند مزاج تھا اور بحث و جدوجہد کرتا۔ رہائی کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ اُسے اُسی جیل میں شہید کردیا گیا ہے۔ ہماری جدوجہد نے بھی دوبارہ شدت اختیار کرلی۔

 

امام کے بیانات بھی آتے تھے ...

ہاں امام کا بیان آتا تھا اور اس کے علاوہ انقلابی مجاہدوں کا گروہ آٹھ علاقوں میں پھیل چکا تھا؛ شہید مطہری اور کچھ دوسرے لوگ ایک علاقے میں، شہید بہشتی اور ایک گروہ کسی دوسرے علاقے میں؛ ایک مرکز شمیران اور ایک علاقہ شہر ری بھی تھا؛ پروگرام منظم ہوئے اور نظریات کا اعلان ہوا، میں بھی اپنی رائے کا اظہار کرتا اور تمام کی رائے مرکز جاتی اور وہاں پر کام جاری رکھنے کیلئے فیصلہ کیا جاتا اور پروگرام طے ہوتے

 

آپ آخری دفعہ کس سن میں گرفتار ہوئے؟

وہی انقلاب کی کامیابی کا سال تھا۔

 

۸ ستمبر ۱۹۷۸ء کو آپ کہاں تھے؟

اُس سے ایک دن پہلے آزادی اسکوائر پر عظیم الشان ریلی کا پروگرام تھا۔ قیطریہ سے شروع ہوا اور شہید بہشتی نے آزادی اسکوائر پر تقریر کی۔ ۸ ستمبر کو سوم شعبان ہسپتال میں جن زخمیوں کو لایا جا رہا تھا ہم اُنہیں تحویل لے رہے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہم نے ایک بھی ایسا زخمی نہیں دیکھا جو رو رہا ہو یا پریشان ہو۔ اُس دن واقعی ایک عجیب خدائی حالت تھی۔ پھر بعد میں میری آخری گرفتاری نارمک کی مسجد امام سجاد (ع) میں ہوئی تھی کہ فوج کے بارہ ٹرک اور پولیس کی دو گاڑیاں آئیں اور مجھے منبر سے نیچے بھی کھینچ لیا گیا۔

 

کیا آپ امام خمینی (رہ) کا استقبال کرنے والی کمیٹی میں بھی شامل تھے؟

جی۔ امام کے آزادی اسکوائر پہنچنے پر میرا کردار یہ تھا کہ میں بس کی چھت پر مائیک ہاتھ میں پکڑے لوگوں کی رہنمائی کروں،  لیکن جب امام آزادی اسکوائر پر پہنچے، لوگ اتنے زیادہ تھے کہ راستہ نہیں ملااسی وجہ سے وہ گھوم کر دوسرے راستے سے آئے۔

 

بہشت زہرا کے انتظامات سنبھالنے میں آپ تھے یا ...

میں آزادی اسکوائر پر گرفتار ہونے والوں میں سے تھا۔ لیکن ہمارا شہید – محمد – اُس سے تقریباً آٹھ سے دس راتیں وہیں تھا اور امام کے داخل ہونے کیلئے اسٹیج  بنا رہے تھے۔

 

امام بہشت زہرا میں تقریر کر رہے ہیں اور آپ وہاں نہیں ہیں۔ پھر وہ مدرسہ علوی جاتے ہیں ...

جی۔ دراصل ہمارا ہیڈ کوارٹر مدرسہ علوی میں تھا اور ہم دن رات وہیں رہتے۔ ہم تین وقتوں کی نماز (صبح، ظہر، عصر، مغرب و عشاء)میں امام کے ساتھ تھے۔

 

انقلاب قائم ہونے کے بعد، آپ کس کام میں مشغول ہوئے؟

میں نے کوئی ذمہ داری نہیں لی۔

 

آپ نے کوئی عہدہ نہیں لیا؟

نہیں۔ شہید بہشتی نے بہت اصرار کیا کہ میں جمہوری اسلامی پارٹی کے روحانی  گروہ جو حقیقت میں تمام کرسکتا تھا کا عہدہ قبول کرلوں، میں نے قبول نہیں کیا۔ ایک دن شہید بہشتی کو غصہ آگیا اور پوچھا کہ کس دلیل کی وجہ سے قبول نہیں کر رہے؟ میں نے آپ کی دلیل بتاؤں گا۔ میں ابھی پارٹی کا حصہ نہیں ہوں، لیکن میں پورے وجود سے پارٹی کی حمایت کرتا ہوں، اس وجہ سے منافقین کا گروہ ہے، ڈیمو کریٹک پارٹی کا گروہ ہے، لیکن ہماری کوئی تنظیم نہیں ہے۔ میں اس وجہ سے قبول نہیں کر رہا کہ اگر کسی دن پارٹی نے کوئی غلط قدم اٹھایاتو سب سے پہلے میں مخالفت کروں گا، مجھ سے نہ کہیں کہ تم پارٹی کے رکن ہو، نکل جاؤ؛ وہ ہنسے اور کہنے لگے اگر تمہاری دلیل یہ ہے تو میں نہیں چاہتا قبول کرو۔ 


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 3734



http://oral-history.ir/?page=post&id=6948