نیا سال، نیا اخلاق، نئے کام

انقلاب کے بعد نئے سال کے آغاز پر امام خمینی رح کا پہلا پیغام

ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-03-15


انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد امام خمینی (رہ) کے پہلے نوروزی پیغام کو اُن کی عارضی حکومت کے اراکین سے کی جانے والی تقریروں کی آرکائیو میں پڑھا جاسکتا ہے۔ ۲۰ مارچ ۱۹۷۹ء کو ہونے والی اس تقریر میں امام خمینی (رہ) نے فرمایا: " میں اس سال کے آخر میں، جو تھوڑی دیر بعد نئے سال میں بدل جائے گا، قوم سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جس سال میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں اور وہ اپنے اختتام پر ہے، آپ کو پتہ ہے کہ یہ سال قوم کیلئے کتنا زحمتوں اور رنج و درد سے بھرپور سال تھا، اور کتنا سود مند سال۔

اس سال میں جو مصیبتیں ہماری قوم نے برداشت کی ہیں تاریخ میں اس کی مثال یا تو بہت کم ہے یا  پھر ہے ہی نہیں، اور ہماری قوم نے دنیا کے سامنے جس طاقت اور قوت کا مظاہرہ کیا ہے مجھے کہنا چاہیے وہ بے مثال تھی؛ اس لئے کہ جو قوم پچاس سال سے زیادہ عرصے تک جان لیوا دباؤ کا شکار رہی اور جس سے تمام طاقت کو سلب کرلیا گیا تھا اور جن کی زندگی کو مکمل طور پر نابود کردیا  گیاتھا، ایسے میں انھوں نے قیام کیا اور تحریک چلائی۔ اور میں نہیں چاہتا کہ اس تحریک کا کوئی نام رکھوں سوائے اس کے کہ یہ تحریک اسلامی اور اسلام کی طاقت تھی ، ایمان کی طاقت تھی۔ اگر ایمان کی طاقت نہ ہوتی تو امکان نہیں تھا کہ ایک تہی دست قوم ان شیطانی طاقتوں پر غلبہ کرلیتی۔ یہ اسلام اور ایمان کی طاقت تھی جس نے لوگوں کو وحدت کی طرف بلایا۔ اور یہ وحدت اور ایمان کی طاقت تھی جس نے لوگوں کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔

ایرانی قوم کو چاہیے کہ وہ اس کامیابی اور تحریک کی حفاظت کرے۔ اگر خدانخواستہ اس تحریک پر سستی کا سایہ پڑگیا، تو ہمیں گذشتہ مصائب کو قبول کرنے کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ اگر ہماری قوم میں تفرقہ ایجاد ہوگیا، اگر مجرمانہ ہاتھوں نے ہماری قوم کے درمیان تفرقہ ڈال دیا تو قوم خود کو ایک مرتبہ پھر  رعب و وحشت، لوٹ مار اور پسماندگی کیلئے تیار کرلینا چاہیے۔ ہماری کامیابی کا راز اتحاد، خدا اور اسلام پر توکل کرنے میں ہے۔ ہماری قوم کو چاہیے کہ اس راز کو ہاتھ سے جانے نہ دے۔

ہمیں اس نئے سال کےآغاز پر، ایک تو عید کے معنی اور ایک اپنے تاثرات کے معنی کا اظہار کرنا چاہیے، میں اس نئے سال کے آغاز پر قوم کی چند نکات کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں اور کچھ نکات حکومت اور حکومتی اداروں کیلئے۔ قوم سے جن باتوں کو کہنا ہے وہ یہ کہ آپ جو اس وقت کامیابی کے دروازے تک پہنچے گئے ہیں ، آپ کو خیال نہیں کرنا چاہیے کہ کام ختم اور ہم کامیاب ہوگئے؛ یہ خیال سستی کا باعث بنے گا۔ انسان جب تک مقابلے کی حالت میں ہوتا ہے طاقتور ہوتا ہے، جب تک ترقی کرتا ہے اُس کی طاقت زیادہ ہوتی ہے؛ جب خود کو کامیاب سمجھنے لگتا ہے کمزور پڑ جاتا ہے، اور ممکن ہے کہ ہمارا دشمن ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھالے۔ ہم نے ابھی مکمل کامیابی  حاصل نہیں کی۔ ہم ایک مسئلے میں ایک قدم آگے بڑھے ہیں اور وہ یہ کہ ہم نے سلسلہ پہلوی کے مجرمانہ ہاتھ کو کاٹ دیا ہے، اور – ایک حد تک – ہم نے اُس کی شاخوں اور جڑوں کو کاٹ دیا ہےلیکن پھر بھی اُن کی جڑیں – پھر بھی – اس ملک میں موجود ہیں اور مجرمانہ ہاتھ اُن کی تلاش میں ہیں؛ اور اُن کی امیدیں اور آرزوئیں کہ جو وہ ہمارے خزانوں کو لوٹنا چاہتے تھے  اور ہمیں پیچھے رکھ کر ہمارے خزانے لے جانا، وہ اس بات کے درپے ہیں۔ ابھی بھی سازشیں ہیں۔ اور ہم خود کو اسی طرح کامیاب سمجھتے رہے اور کامیابی کے گمان میں رہتے ہوئے، خوانخواستہ ان امور میں  غفلت برتی۔  ہمیں خود کو کامیاب نہیں سمجھنا چاہیے، کامیابی کے دھانے پر  سمجھنا چاہیے؛ اور ہے بھی ایسا ہی۔ ہم کامیابی کے دھانے تک پہنچ چکے ہیں،  اور کامیابی اُس دن نصیب ہوگی جب اجنبیوں کی تمام جڑیں اور ملک میں موجود فساد کی تمام جڑیں کٹ کر جدا ہوجائیں۔ ابھی ایسا نہیں ہوا ہے۔ لہذا ایران کی عظیم قوم کی ذمہ داری ہے کہ اس تحریک کو جس طرح سے یہاں تک لائے  ہیں، اس تحریک کی حفاظت کریں۔ اور اس وحدت اور اس تحریک اور اس تحریک کے مقصد – جو اسلام اور جمہوری اسلامی تھا – ان سب کو حفظ کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ خود کو سستی میں نہ ڈالے، آپ لوگ ٹھنڈے نہ پڑ جائیں، کامیابی کے گمان میں مکمل کامیابی کا گمان نہ کریں؛ اگر ایسا گمان کیا گیا یا یہ عقیدہ ایجاد ہوا تو سستی آجائے گی۔ آپ لوگوں کو خود کو آدھا کامیاب اور آدھے راستہ پر سمجھنا چاہیے؛ اور باقی راستہ جو بہت سخت ہے اُسے سب کی ہمت کے ساتھ، تمام طبقات کی ہمت کے ساتھ، ہمیں اُس پر چلتے ہوئے اُسے منزل مقصود تک پہنچانا ہے۔"

امام خمینی (رہ) کی تقریر میں ان موضوع کو محور قرار دیا گیا: تمام طبقوں کے تعاون سے تمام فسادات کا جبران، مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے کو تنبیہ، ثقافتی تبدیلی کی ضرورت، حکومت اور فوج کی ذمہ داری، مزدوروں کے معاملات کی اصلاح اور اُن کی مشکلات کا حل، ریڈیو – ٹیلی ویژن ایک پبلک یونیورسٹی، اسلام کی عظیم یونیورسٹی اور مختلف پہلوؤں میں دینی مدارس کو  آمادہ کرنے کی ضرورت، مذہبی  رنگ اور اسلامی شہادت۔

لیکن ریڈیو – ٹیلی ویژن کے ذریعے، امام خمینی (رہ) کا ایرانی قوم کیلئے پہلا نوروزی پیغام، ۱۹ مارچ ۱۹۸۰ء کو نشر ہوا۔ انھوں نے اس پیغام میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے منشاء  اور مجلس شورای اسلامی کے انتخابات کے بارے میں چند نکات بیان کئے اور اُن کے کلام میں اسلام کی برکت سے انقلاب کی کامیابی، انقلاب دشمنوں کا گھات لگائے رکھنا، انتخابات میں اسلامی اخلاق کی رعایت، مجلس شورای اسلامی کا مقام اورمعاشرے کےمحروموں کی بازپرس جیسے موضوعات کو محور قرار دیا گیا۔ انھوں نے اس پیغام کے آخری حصے میں فرمایا: "میں اس نئے سال میں خداوند متعال سے اسلام کی عظمت، مسلمانوں کی عظمت اور اسلام کی شریف قوم کی عظمت کیلئے دعا گو ہوں۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ نیا سال ہماری قوم کیلئے خوشی اور وسعت کا سال ہو؛ تمام چیزیں نئی ہوجائیں: اخلاق نیا ہو جائے، کام نئے ہوجائیں، اس کی تمام چیزیں نئی ہوجائیں۔ اور ایک نیا ایران بنانے کیلئے سب ایک دوسرے کے ہاتھ کو تھام لیں اور اس ملک کو بنائیں۔ اور دوسری بات جو میں قوم سے عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اس بات کا خیال رکھیں کہ نئے سال کے ان دنوں میں بہت سے  غریب، بہت سے مظلومین ہیں  جو نئے سال کیلئے مثلاً  جو چیزیں وہ چاہ رہے تھے، اُن کے بچے چاہ رہے تھے، مہیا نہیں کرسکے ہیں۔ جن کے پاس ہے وہ ایسے لوگوں کی مدد کریں۔ اور ان یتیموں، فقیروں، غریبوں ، مظلوموں اور ایسے تمام لوگوں کا خیال رکھا جائے تاکہ انشاء اللہ خداوند متعال  اس نئے سال کو ہم سب، تمام مسلمانوں اور تمام اسلامی قوموں کیلئے مبارک  قرار دے۔" 


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 3923



http://oral-history.ir/?page=post&id=6931