۲۷۶ ویں یادوں بھری رات کا انعقاد

انقلاب، دفاع مقدس، شام کے واقعات اور تین راوی

مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-02-25


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق،  یادوں بھری رات کے سلسلہ کا ۲۷۶ واں پروگرام، جمعرات کی شام ۲۶ جنوری سن ۲۰۱۷ء کو آرٹ گیلری کے سورہ ہال میں منعقد ہوا۔اس پروگرام میں مہدی رمضانی علوی، ماشاء اللہ شاہ مرادی زادہ اور محمد صادق کوشکی نے اپنی یادوں کو بیان کیا۔

 

اسیری کے واقعات

سب سے پہلے آزادہ شدہ سپاہی، مہدی رمضانی علوی  نے اپنی یادوں کو بیان کیا۔  وہ سن ۱۹۸۲ء میں محاذ پر گئے اور اُس زمانے میں تقریباً چالیس دنوں تک سومار کے علاقے اور پھر تقریباً دو مہینے تک مغربی گیلان کے علاقے میں رہے۔ جیسا کہ وہ طالب علم تھے، کاشان واپس آجاتے ہیں اور آئندہ سال دوبارہ محاذ پر جاتے ہیں اور عراق کے پنجوین نامی علاقے میں والفجر ۴ آپریشن کے دوران صدام کے فوجی انہیں اسیر بنالیتے ہیں۔

انھوں نے اپنی یادوں کو اس طرح بیان کرنا شروع کیا: "میں پہلی دفعہ اسکول کے زمانے کے ایک دوست شہید جعفر شہبازی علوی کی وجہ سے  محاذ پر گیا۔ اُس نے چزابہ میں ہونے والے آپریشن میں شرکت کی اور اس کا جسم آر پی جی کا گولہ لگنے سے دو ٹکڑے ہوگیا۔ اُس کے جسم کا ایک حصہ لائے اور دوسرے حصے کو چھ مہینے بعد اُس کے گھر والوں کے سپرد کیا۔ وہ ہر رات خواب میں مجھ سے یہی پوچھتا کہ محاذ پر کیوں نہیں جا رہے؟ میں نے یہ خواب اتنی زیادہ دفعہ دیکھا کہ بالآخر میں محاذ پر چلا گیا۔"

انھوں نے مزید کہا: "آپریشن والی رات جب ہم صحرائے شیلر میں داخل ہوئے، میں نے مائنز کے میدان میں ایک بسیجی کو کھڑے ہوئے دیکھا جس کا ایک پاؤں کٹا ہوا تھا، وہ اپنے دوسرے پاؤں پہ کھڑا ہوا کہہ رہا تھا: "آگے بڑھو خدا تمہارا نگہبان ہو" مجھے اس سپاہی کو دیکھ کر جو اپنے ایک پاؤں کٹ جانے کے باوجود دوسروں سے اس طرح کہہ رہا تھا، حضرت عباس (ع) کی وہ بات آئی جس میں آپ نے فرمایا: " والله ان قطعتموا یمینی انی احامی ابدا عن دینی "  جب ہم عراقی شہر پنجوین کی پہاڑیوں پر پہنچے،  ہم سے دس میٹر کے فاصلے پر ایک سٹین گن والا کھڑا تھا، ہم تین افراد ہونے کے باوجود اور عراقی ہمیں دیکھ بھی نہیں رہے تھے،  ہم اُس عراقی گن مین کو نہیں مار سکے، شاید خدا چاہتا تھا کہ یہ گن مین باقی رہے  اور ہم اگلے دن صبح اس گن مین کو خود عراقیوں کے خلاف استعمال کریں۔

جب میں پہاڑی پر پہنچا تو مجھے پیچھے سے گولی لگی اور میں نالے میں گرگیا۔ صبح سات بجے تک کہ سب اپنی پوزیشنیں سنبھالنے میں مصروف تھے، میرا خون بہتا رہا۔ صبح آٹھ بجے پیچھے کی طرف ہٹے اور میں کچھ اور زخمیوں کے ساتھ دشوار گذار پہاڑیوں میں پھنس گیا۔ پیچھے ہٹتے وقت میں بہت مشکل سے اپنے گھٹنوں پر بیٹھا اور میں نے کہا کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو۔ انھوں نے مجھے اسٹریچر پر ڈالا، لیکن وہ پہاڑی پر نہیں چڑھ سکے اور میں اوپر سے نیچے گرا۔ دوبارہ کوشش کی اور مجھے اسٹریچر پر ڈالا اور وہ اوپر لے جانا چاہ رہے تھے، لیکن عراقی پہنچ چکے تھے اور میرے پاس موجود ایک سپاہی جس کا نام رضائی تھا  جو چیتے جیسے کپڑے پہنے ہوئے تھا اور شہرضا کا رہنے والا تھا، اُسے گولی ماردی اور وہ رات تک شہید ہوگیا۔

ایسے حالات میں باقی ساتھی چلے گئے  تھے اور میں اُس رات صبح تک جنگل میں پڑا رہا۔ اگلے دن کرمان کے سپاہیوں کے ساتھ جو آپریشن کیلئے آئے تھے، بالائی علاقے میں آگیا پھر وہ لوگ بھی چلے گئے۔ میں دو راتوں تک وہیں رہا  اور تیسرے دن، دوپہر ۲ بجے کے وقت عراقیوں نے حملہ کردیا اور پہاڑی کے اوپر تک آگئے اور ہمارے چاروں طرف گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ عراقیوں نے مجھ تک پہنچنے سے پہلے جنگل کو آگ لگا دی تھی۔ میرے ہاتھ میں گولیوں سے بھرا ایک میگزین  اور ایک گرنیڈ تھا اور مجھے پتہ تھا کہ اگر  آگ مجھ تک پہنچ گئی تو گرنیڈ پھٹ جائے گا، میں نے اُسے پہاڑی کے نیچے پھینک دیا۔ میں پہلو کے بل لیٹ گیا، آگ مجھ تک پہنچ گئی اور اُس نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا، لیکن میں ذرا سا بھی نہیں جلا۔ جب آگ بجھ گئی تو عراقی میرے پاس آئے۔ میں مرنے کی اداکاری کرنے لگا۔ انھوں نے کہا: کھڑے ہوجائے تاکہ تمہیں ہسپتال لے جائیں، لیکن میں نہیں اٹھا۔ وہ مجھے بٹھاتے اور جس طرف چھوڑتے، میں اُسی طرف گر جاتا۔ انھوں نے بندوق لوڈ کرکے میری کنپٹی پر رکھی لیکن فائر نہیں کیا۔ میری جیب سے پستے نکال کر بھی کھا گئے جو میں نے برے دنوں کیلئے رکھے ہوئے تھے اور اُس کے چھلکے میرے چہرے پر پھینک کر چلے گئے۔

تقریباً پانچ، دس منٹ بعد عراقیوں کا دوسرا گروپ آیا اور یہ لوگ بھی میرے بچے ہوئے پستے کھا گئے اور میرے منہ پر پانی ڈالا۔ چونکہ میں نے چند دنوں سے پانی نہیں پیا تھا اور میرا خون بھی بہت زیادہ بہہ چکا تھا، میں بہت ہی پیاسا تھا، شاید مجھ سے ایسی حرکت ہوئی جس سے وہ سمجھ گئے کہ میں زندہ ہوں وہ جنگل کے درختوں کے پیچھے جاکر انتظار کرنے لگے۔ میں نے جب دیکھا کہ وہ لوگ جاچکے ہیں تو میں نے اپنے ہاتھوں کو سر کے نیچے رکھا اور سورج کی طرف رُخ کرکے لیٹ گیا۔ پھر وہ لوگ آدھے گھنٹے بعد آئے میں اب مرنے کی ادکاری نہیں کرسکتا تھا۔میں نے پانی مانگا اور انھوں نے دشمن ہونے اور میرے مرنے کی اداکاری کرکے اُن کو تنگ کرنے کے باوجود ، اپنے تھرماس سے میرے منھ میں پانی ڈالا اور مجھے ہسپتال لے گئے۔ میں عراق کے اُس سلیمانیہ ہسپتال میں ۱۸ دن تک ایڈمٹ رہا۔"

انھوں نے ہسپتال میں گزرے اٹھارہ دنوں کی یادوں کو اس طرح بیان کیا: "ہم آٹھ لوگ ایک کمرے میں تھے اور اُس موقع میرا  پیر زخمی ہونے کی وجہ سے میری آنکھوں سے اشک جاری ہوجاتے۔ میرے ساتھی جس کا نام حسن تھا ، اُس نے پوچھا: مہدی کیا ہوا؟ میں نے کہا: پیر میں درد ہو رہا ہے۔ وہ بولا: تم بسیجی ہو اور بسیجی روتا نہیں ہے! میرے ساتھ  ایک سپاہی اور تھا جو مستقل سگریٹ پیتا رہتا، وہ ایک پیکٹ پی کر پھینکتا اور کہتا: حاج ہمت! حاج ہمت! میں نے ایک عراقی سے پوچھا: حاج ہمت کون ہے؟ اُس نے کہا: حاج ہمت، محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن کا سربراہ ہے کہ یہ لوگ اُس سے ڈرتے ہیں مجھے اُس وقت حاج ہمت کی عظمت کا اندازہ ہوا۔

ایک اور واقعہ جو سلیمانیہ میں پیش آیا، اشکار دشت چالوس نامی گاؤں کے ایک آدمی سے جان پہچان، جس کا نام قربان بازرگان تھا۔ اُس نے اسیری کے دوران مجھے بتایا کہ آپریشن والی رات ہمیں امام حسین (ع) ڈویژن کے ساتھ لائے تاکہ ہم اطلاعات حاصل کریں اور اگلی رات آپریشن میں شرکت کریں۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ہم لوگ تقریباً عراقی ہیڈ کوارٹر تک پہنچ گئے تھے اور ہم اپنا کام انجام دینے کے نزدیک تھے کہ اچانک ہم متوجہ ہوئے کہ چار عراقی ایک کتے کے ساتھ آ رہے ہیں۔ کتا اُن کے آگے آگے بھونک رہا تھا اور ہماری طرف بڑھ رہا تھا چونکہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ اُن لوگوں کو کسی طرح بھی آپریشن کی بھنک پڑے، ہم نے فیصلہ کیا ہم دو دو کرکے سڑک کے کنارے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اگر کتے نے اپنا بھونکنا جاری رکھا تو اُسے ماردیں گے۔ عراقی ہنس رہے تھے اور چل رہے تھے، لیکن جس وقت کتا ہمارے پاس آیا، اُس نے ایک نگاہ ڈال کر سر ہلایا اور عراقیوں کے پیچھے چلا گیا۔ آخر میں ہم دوسری طرف سے نیچے اُتر گئے اور اگلی رات و الفجر ۴ آپریشن کا آغاز ہوا۔"

جناب رمضانی نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے، اسیری کے زمانے کو  اس طرح دہرایا: "اسیری کا زمانہ میری زندگی کے بہترین ایام تھے۔ جس طرح حضرت یوسف کی معراج کنویں اور  زندان میں تھی، حضرت یونس کی معراج مچھلی کے پیٹ میں تھی، حضرت ابراہیم کی معراج آگ میں تھی، قیدیوں کی معراج بھی اسیری میں تھی۔ سن  ۱۹۸۳ء میں، میں نہج البلاغہ کے ایسے استاد کا شاگرد بنا جس کا نام رضا رحیمی اور وہ یزد کا رہنا والا تھا۔ وہ ایک فوجی سپاہی کے عنوان سے قیدی بنایا گیا تھا اور میں رات کو جب بھی نماز کیلئے اٹھتا تو وہ پہلے سے ہی جاء نماز پر ہوتے اور میں کسی رات بھی اُن سے سبقت نہیں لے سکا۔ اُن کی نہج البلاغہ کی چار کلاسیں تھیں اور وہ ہر کلاس میں صرف ۱۵ منٹ درس دیتے۔ ریڈ کراس والے جتنی بھی مذہبی کتابیں لائے تھے اُس نے اُن سب کو پڑھا ہواتھا۔  اور فارغ اوقات میں بھی وہ لوگوں کی گھڑیوں اور جوتوں کی مرمت کرتا۔ وہ مجھ سے کہتا کہ خود کو قید میں رہنے کیلئے تیار کرو۔ اُس کے بعد سے ہم نے بھی شروع کردیا؛  تلاوت قرآن،  ترجمے اور حفظ قرآن پر کام کیا۔ ہمارے پاس تقریباً ۴۰۰ حافظ قرآن تھے؛ ایک پارے سے لیکر ۳۰ پاروں تک کے حافظ، حتی حفظ کے اُس مرحلے تک پہنچ گئے تھے کہ ہم سورہ بقرہ کو آخر سے لیکر شروع تک بہت تیزی سے پڑھ سکتے تھے۔ پھر ہم نے نہج البلاغہ پر کام کیا اور اسیری کے آخری ایام میں، نہج البلاغہ کا مشاعرہ منعقد ہوا۔ ہمارے کیمپ میں تقریباً ۲۰۰ لوگ تھے، ہمارے پاس ۵ قرآن تھے جن میں سے کچھ کو ہم نے تیس پاروں میں تقسیم کیا ہوا تھا اور ایک دوسروں کو دیتے تھے اور ہم نے دو قرآن کواُن لوگوں کیلئے جو پورا ختم قرآن کرنا چاہتے تھے،  پوری جلد کی صورت میں رکھا ہوا تھا۔ نہج البلاغہ کو بھی ہم نے اسی طرح خطوط، خطبوں اور حکمتوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ ہم موصل کے چوتھے کیمپ میں تھے کہ جہاں مرحوم ابو ترابی نے بہت سے پروگراموں کی بنیاد رکھی تھی اور کیمپ کے دروازے پر لکھا ہوا تھا: "پاسبان خمینی"

ہمارے کیمپ کے دروازے پر، دو عراقی ہاتھوں میں تار لئے کھڑے ہوتے اور لوگوں کو مارتے۔ ایک قیدی کی تار سے مار کھاتے وقت، آنکھ پھوٹ گئی اور باہر نکل پڑی۔ آخری دن جب قرار داد قبول ہوئی تو  جس سپاہی نے اُسے مارا تھا اُس نے آکر اس قیدی سے معذرت خواہی کی اور کہا: مجھے قیامت سے ڈر لگتا ہے۔ اُس قیدی نے جواب میں کہا: میرے ہاتھ پاؤں کو توڑ دیتے، میری آنکھ کیوں پھوڑ دی؟ میں ایران جاکر اپنی ماں کو کیا جواب دونگا؟

قید میں ہمارا سہمیہ چھ چمچ چاول اور ایسے جانور کا  گوشت تھا جو ہماری ولادت سے دس پہلے کٹ چکا تھا  اور کبھی اُن میں ہمیں گنڈار بھی نظر آتے اور ایسے غلات جو مرغیوں کیلئے مخصوص تھے۔ ہم دوپہر کے کھانے میں سے، رات کیلئے روٹی کا ایک ٹکڑا بچا لیتے،  چونکہ رات کا کھانا نہیں دیتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہاں پر ۴۰۰ قرآن اور نہج البلاغہ کے حافظ تھے اور ایسے لوگ جنہوں نے مفاتیح کو حفظ کیا ہوا تھا۔"

اس واقعہ کے بعد، میزبان نے فائر بریگیڈیر امید عباسی کی شہادت کا واقع سنایا؛  ایسا جوان جو بلڈنگ میں پھنسی آٹھ سالہ بچی کو نجات دینے کیلئے  دھکتی آگ میں کود پڑا اور بچی کو بچانے کیلئے اپنا ماسک اُسے دیدیا  اور جب اُس کی موت کے بعد اُس کے سامان میں سے عضو اہداء کرنے والا کارڈ ملا تو اُس نے اپنے عضو اہداء کرکے مزید تین لوگوں کی جان بچائی۔ پھر پلاسکو بلڈنگ گرنے اور امدادی کارکنوں کی دن رات محنت پر مشتمل ایک مختصر سی ویڈیو دکھائی گئی ۔

 

پاسدار کی بیٹی

پروگرام کے دوسرے راوی، اداکار  ہدایت کار شاہ مرادی زادہ تھےجنہوں نے میٹھے مشہدی لہجے اور مزاحیہ انداز میں اپنے واقعات کو اس طرح شروع کیا: "میں جنگ کے زمانے میں جہنمی خطیب کے نام سے مشہور تھا، کیونکہ جس کسی کی بھی تقریر کی باری ہوتی اور وہ کسی وجہ سے نہ آیا ہوتا، تو وہ کہتے جہنم! ماو تقریر کرے گا۔

میں ایک دفعہ جنگ کے زمانے میں چھٹیوں پر آیا ہوا تھا، مجھ سے کہا گیا کہ یونیورسٹی میں جاکر تقریر کرنی ہے۔ جیسا کہ یونیورسٹی کا ماحول الگ ہی ہوتا ہے، میں بہت مضطرب تھا اور مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کہوں۔ میزبان نے کہا کہ خرم شہر آپریشن کا کوئی شیریں اور دلچسپ واقعہ سنائیں۔ خوف کی وجہ سے میرے ہاتھ ٹھنڈے ہوگئے تھے، چونکہ میں نے اُس دن تک خرم شہر کو دیکھا ہی نہیں تھا، میں کہنا چاہ رہا تھا کہ ہم سر دشت سے گزر کر خرم شہر میں داخل ہوئے، میں نے دیکھا کہ کوئی ربط نہیں ہے، کہنا چاہا کہ ہم فلاں پہاڑوں سے گزر کر خرم شہر میں داخل ہوئے، پھر مجھے لگا کہ کوئی ربط نہیں ہے۔ اور جیسا کہ میری ماں نے مجھ سے کہا ہوا تھا کہ ہمیشہ سچی بات کرنا، میں نے حاضرین کی طرف رُخ کیا اور کہا: میں آپ لوگوں کو خرم شہر کا ایک بہت ہی اچھا واقعہ سنانا چاہتا ہوں؛ جب خرم شہر آزاد ہوا تو ہم کرمانشاہ میں تھے! بہت اچھا وقت گزرا ..." میزبان نے پرچی لکھ کر دی کہ ایسے نہیں چلے گا، فاو آپریشن کا کوئی دلچسپ واقعہ سنائیں۔ شرمندگی کے مارے میرا دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اُس میں دھنس جاؤں، چونکہ میں نے فاو کو بھی نہیں دیکھا ہوا تھا۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ ہم شلمچے  کے نزدیک تھے اور ہر روز کہاجاتا تھا کہ آج رات آپریشن ہے، لیکن کوئی آپریشن نہیں ہوا۔ ہم نے اپنے سربراہ سے کہا ہم لوگ آپریشن کیلئے کیوں نہیں جا رہے؟ اُس نے کہا: کوئی بھی بات نہ کرے اور اگلے دن صبح  تاریکی میں ہمیں اہواز لے گئے اور ہم تقریباً دوپہر تین بجے تک وہاں رہے،  پھر ہوائی جہاز پر سوار ہوئے اور رات تک آسمان پہ رہے، اس طرح جیسے کسی نے  ہمارے کان پکڑے ہوئے ہوں۔  لیکن بالآخر ہمارے جہاز نے لینڈ کیا اور جب ہم جہاز سے اُتر رہے تھے، ہم نے دیکھا کہ لوگ خوشی کے ساتھ ہماری طرف بڑھ رہے ہیں۔ پہلے تو ہمیں لگا کہ ہم کسی اور ملک میں آگئے ہیں، لیکن تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کہ مشہد میں ہیں اور یہ لوگ فضائی افواج کے گھر والے تھے جو وہاں رہتے تھے۔ جب ہم نے اُن سے خوش کی وجہ پوچھی، انھوں نے کہا کہ فاو آزاد ہوگیا ہے۔ اُس زمانے میں ہم لوگ کپڑے دھونے والے صرف کو فاو کہتے تھے ، اُس لمحے میں نے اپنے آپ سے کہا کہ کتنی بری بات ہے کہ لوگ ایک صرف کیلئے اتنا خوش ہو رہے ہیں۔ پھر میں سوچنے لگا کہ شاید عراق میں موجود کارخانہ فاو پر قبضہ کرلیا ہے اور یہ  لوگ اس وجہ سے خوش ہو رہے ہیں! لیکن جب میں نے ٹی وی پر دیکھا کہ فاو آزاد ہونے کے بارے میں بات کر رہے ہیں تو اُس وقت میرے لئے بات واضح ہوئی۔"

انھوں نے مزید کہا: "میرے خیال سے جنگ ۱۰۰ دنوں کی ہوتی ہے کہ جس کے ۹۰ دنوں میں انسان کا پیر "میں" پر ہوتا ہے اور باقی ۱۰ دن وہ "مائنز" پر پاؤں رکھتا ہے۔ اگر انسان اُن ۹۰ دنوں کو اچھی طرح نہ گزارے تو پھر اُس کا پاؤں مائنز پر پڑ جاتا ہے،  لیکن اگر اُن ۹۰ دنوں کو اچھی طرح سے گزار لے، تو پھر مائنز پر پاؤں نہیں رکھ پائے گا، بلکہ آسمان پر پاؤں رکھے گا۔ جنگ کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا ہے ، وہ صرف ان دس دنوں سے متعلق ہے اور آج کل کے بچوں کو اُن ۹۰ دنوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ اسی وجہ سے آج کل کے بچے یہ سوچتے ہیں کہ یا تو ہم لوگ نادان تھے کہ جب کہا جاتا مائنز پر چلو، ہم چل پڑتے، یا ہم اتنے پارسا تھے کہ  جیسے ہی خدا نے آسمان سے کہا کہ فلاں جائے اور شہید ہمت بن جائے اور وہ اس طرح شہید ہمت بن گیا، یا اُس نے کہا تم جاؤ اور شہید محمود کاوہ بن جاؤ۔ میں اور شہید کاوہ مشہد کے ایک ہی محلے میں رہتے تھے اور ہم ایک ساتھ بڑے ہوئے اور محاذ پر گئے۔ شہید کاوہ کی "شور شیرین" نامی فلم دکھایا گیا ہے، میں اُس کا  سیٹ ڈیزائنر اور رائٹر تھا۔ دراصل میں نے کوشش کی ہے کہ اُن ۹۰ دنوں کے مزاحیہ حصے کو آپ کے سامنے پیش کروں کہ جسے کوئی بیان نہیں کرتا، یا پھر  صحیح سے بیان نہیں کرتا۔"

شاہ مرادی زادہ نے محاذ کے دو مزاحیہ واقعات کو بھی اس طرح سے بیان کیا: "پہلا واقعہ یہ کہ خیبر آپریشن میں ایک ڈویژن نے چاہا کے کھلی فضا میں نماز پڑھی جائے؛ جب مولانا صاحب نے وضو کرنے کیلئے اپنا عمامہ اور عبا وضو خانہ کے باہر لگی کیل پر ٹانگا، ایک سپاہی نے آکر اُن کا لباس پہن لیا اور پیش نماز بن کر صفوں کے آگے کھڑے ہوکر نماز پڑاھنا شروع کر دی اور چونکہ مغرب کا وقت تھا کسی نے اُس کا چہرہ نہیں دیکھاتاکہ پتہ چلتا کہ وہ پیش نماز نہیں ہے۔ نماز شروع ہوجاتی ہے اور نمازی رکوع میں جاتے ہیں اور جب رکوع طولانی ہوجاتا ہے، سب کھڑے ہوجاتے ہیں تو دیکھتے ہیں قبلہ صاحب جا چکے ہیں اور کوئی پیش نماز نہیں ہے۔ محاذ کی زیبائی یہ ہے کہ اُن ہزار فوجیوں میں سے کسی ایک نے بھی اُس شخص کے بارے میں سردار کو نہیں بتایا۔ محاذوں  اور جنگ کے دوران مذاق کی اہلیت اپنے اعلیٰ درجے پر تھی۔

دوسرا یہ کہ عراق نے قصر شیریں کے ارد گرد کی تقریباً تین چار پہاڑیوں کو ہم سے لے لیا تھا۔ ہم نے تقریباً صبح چار بجے اُن سے مقابلہ شروع کیا اور تقریباً صبح ۹ بجے اُن سے اُن پہاڑیوں کو واپس لینے میں کامیاب ہوئے۔ اس مدت میں تقریباً اُن کے ۲۸ افراد زخمی اور قیدی ہوئے۔ اُن میں سے ایک جس کا وزن ۱۱۰ کلو تھا اور اُس کی ران پر زخم آیا تھا۔ میں نے کوشش کی کہ اُس کے زخم پر پٹی باندھ دوں تاکہ خون بہنا بند ہوجائے، لیکن میرا دھیان اس طرف نہیں گیا کہ ایک رات پہلے میں نے جنگ لڑی تھی  اور اُس کے بعد زخمیوں کی مدد کی تھی، میرا پورا لباس خون میں تربتر تھا۔ چونکہ میں نے اپنے بیگ کو زخمیوں کے نیچے رکھا ہوا تھا، اُس میں سے ایسے خون بہہ رہا تھا جیسے اُس میں کٹا ہوا سر رکھا ہو۔ جیسا کہ میں بہت ہی دبلا تھا اور مجھے بیٹھنے سے پہلے بندوق کے آگے لگے چاقو کو نکالنا چاہیے تھا تاکہ اُس زخمی کی مدد کرسکوں اور آخر میں اُس کی پینٹ کاٹنے کیلئے  میں نے اپنے بیگ سے لوہے کی ایک بڑی قینچی نکالی، میں اس بات سے غافل تھا کہ پے در پے ان تمام باتوں کی وجہ سے وہ عراقی قیدی خوف کے مارے رونے لگے گا اور التماس کریگا  کہ مجھے قتل نہ کرو! جب تک وہ مطمئن نہیں ہوگیا کہ میں اُسے قتل کرنا نہیں چاہ رہاہوں اور پٹی باندھنا چاہتا ہوں، وہ مستقل چیختا اور روتا رہا۔"

انھوں نے اپنی گفتگو میں اپنے مشہور واقعے کو اس طرح بیان کیا: "ایک پروگرام میں ایران کے تمام مزاحیہ اداکاروں کو دعوت دی گئی تاکہ وہ ایک منٹ کا واقعہ سناکر لوگوں کو ہنسائیں، میں بھی وہاں تھا اور میں نے وہاں یہ واقعہ سنایا کہ آخر میں جناب دہ نمکی آئے اور انھوں نے اظہار کیا کہ ان طنزوں کو فلم کی شکل دی جائے۔ ایک دفعہ ہمیں سقز سے مریوان لے جایا گیااور اُس شہر میں سپاہ کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔ ہمیں ایک اسکول میں لے جایا گیا  اور سپاہ والے چائے کا تھرماس اور ایک قند (شکر کی گولیاں) کا ڈبہ لائے، لیکن چائے پینے کیلئے کوئی کپ یا گلاس نہیں تھا۔ لہذا ہر کسی نے چائے پینے کیلئے کچھ نہ کچھ ڈھونڈ لیا۔ میں نے بھی ایک پلاسٹک کی بال ڈھونڈ لی اور اُسے آدھا کردیا تاکہ اُس آدھے حصے میں چائے پی سکوں، لیکن جب میں واپس پلٹا تو دیکھا چائے لینے کیلئے بہت ہی لمبی لائن لگی ہوئی ہے۔ چائے ختم ہونے کے ڈر سے میں نے لائن سے ہٹ کر ایک قدم بڑھایا اور چائے چائے کی طرز کا  گانا شروع کردیا اور جیسے جیسے پڑھتا جاتا، آہستہ آہستہ آگے بڑھتا جاتا یہاں تک کہ لائن کے شروع تک پہنچا  اور چائے لیکر چلا گیا۔ اس کے بعد سے میرا چائے چائے والا نغمہ مشہور ہوگیا اور دوست احباب ہمیشہ مجھ سے پڑھنے کا کہتے رہتے اور چونکہ مجھ میں دوبارہ پڑھنے کا حوصلہ نہیں تھا، اس لئے میں منع کردیتا؛ ایک دفعہ میں خوشحال تھا اور میں نے نغمہ پڑھنے والی اُن کی بات مان لی، انھوں نے میری آواز ریکارڈ کرنا چاہی  تاکہ یہ نغمہ سننے کیلئے اُنہیں دوبارہ مجھ سے اصرار نہ کرنا پڑے۔ انھوں نے جناب آہنگران کی کیسٹ میں میری آواز ریکارڈ کرلی۔ میں نے ایک دن میدان میں فوج کے تبلیغاتی ٹیپ ریکارڈ پر  جناب آہنگران کی کیسٹ لگادی اور بڑے اطمینان سے فوٹبال کھیلنے چلا گیا، اچانک آہنگران کی آواز رک گئی اور میرا چائے چائے والا نغمہ چلنا شروع ہوگیا۔ جب تک میں ٹیپ ریکارڈ تک پہنچ کر اُسے بند کرتا، پورا نغمہ چل چکا تھا۔

ہم لوگ سنندج میں تھیٹر شو کرنے میں مصروف تھے، قرار تھا کہ میں سینری کے ایک طرف سے داخل ہوں اور وہاں بیچ میں ایک کیتلی اور چائے دان ہو  اور میں جیسے ہی داخل ہوں چائے چائے والا نغمہ پڑھوں، میرا دوست مورچوں کو خراب کرے، لیکن جب میں نے نغمہ پڑھنا شروع کیا، میں نے ایک لحظہ کیلئے اپنے دوست پر نگاہ ڈالی تو میں نے دیکھا وہ اسٹیج پر رقص کی حالت میں ہے۔ ہمیں اتنی شرم آئی کہ ہم سینری کے پیچھے چلے گئے اور چپ ہوکر ایک کونے میں بیٹھ گئے، چونکہ میں بریگیڈ کا منقبت خوان اور میرا وہ دوست سپاہ کا قاری قرآن تھا۔ خلاصہ یہ کہ ہمارے کمانڈر نے آکر ہم سے کہا اٹھو، مکمل طور پر واضح ہے کہ اگر انقلاب نہ آتا تو آپ لوگ کیا کر رہے ہوتے۔"

شاہ مرادی زادہ نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: "شروع میں جب ہم محاذ پر گئے تو ہمیں سقز کے نزدیک قوچان کے پہاڑ پر لے گئے۔ ہم پہاڑ پر تھے کہ ایک اخبار اور کھانا آیا اخبار میں خبر تھی کہ ہم کامیاب ہوگئے اور بوکان آزاد ہوگیا ہے۔ ہم ۶ مہینے تک پہاڑ پر رہے اور کسی نے آکر یہ نہیں کہا کہ اس پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر چلے جاؤ! ۶ مہینے بعد ہم سقز کی سپاہ میں چلے گئے اور ہمیں پتہ چلا کہ تمام افراد تبدیل ہوچکے ہیں۔ مثلاً پہلے وہاں شہید کاوہ تھا، لیکن ۶ مہینے بعد وہاں پر شہید طیارہ تھا۔ شہید طیارہ کو جب پتہ چلا کہ ہم لوگ پوسٹ بدلنے کا آرڈر آنے تک  ۶ مہینے تک پہاڑ پر رہے ہیں، اُس نے ہمیں پاسدار بنا دیا، کیونکہ ہم اچھے سپاہی تھے۔

محاذ پر سپاہیوں کا ایک اور باہمت مذاق یہ تھا کہ وہ گرنیڈ کی پن کھینچ کر اپنے ہی فوجیوں کی طرف پھینک دیتے، جب لوگ بھاگتے تو وہ لوگ ہنسنے لگتے۔ مجھے ایسے کام سے ہمیشہ ڈر لگتا تھا اور میں اپنی اس کمزوری کو دور کرنا چاہتا تھا۔ پس میں نے ایک چالیس تکوں والا گرنیڈ ڈھونڈا  کہ جس میں فیوز نہیں تھا، میں نے اُس میں ایک جھوٹی پن لگادی اور ایک خیمے کے اندر گیا  کہ میں سوچ رہا تھا کہ اس میں فقط میرا ایک دوست ہوگا، لیکن جب میں اندر گیا تو دیکھا کچھ کمانڈرز لوگوں کے اسی مذاق پر بات چیت کر رہے تھے۔ میں نے اُسی وقت کہا کہ میں گرنیڈ کی پن کو اپنے جوتے کی زپ  میں لگانا چاہتا ہوں اور ایک دم میں نے جھوٹی پن کو کھینچ لیا، انھوں نے مجھ سے بہت آرام سے سمجھایا کہ تم  اصلی پن کو نہیں کھینچوں اور باہر چلے جاؤ اور جس طرح تمہارا دل چاہے تم اپنے جوتے کی زپ کیلئے ایک جھوٹی پن استعمال کرلو، لیکن میں نے پن کھینچ کر گرنیڈ پھینک دیا اور جیسا کہ سب لوگ خوف کے مارے کلمہ شہادت پڑھ رہے تھے، میں اُن کے پیچھے کہہ رہا تھا کہ فیوز نہیں تھا اور وہ اسی خوف کے عالم میں خیمے سے نکل رہے تھے اور میں کہے جا رہا تھا کہ اُس میں فیوز نہیں تھا!"

آخر میں جناب شاہ مرادی نے اپنے پسندیدہ ترین واقعہ کو اس طرح بیان کیا: "ہم سقز سے ۳۰ کلو میٹر کے فاصلے پر بوبکتان میڈیکل سنٹر میں تھے اور سب سمجھ رہے تھے کہ ہم لوگ ڈاکٹر ہیں۔ غروب کے نزدیک ،  ایک روتی ہوئی عورت جس کا چہرہ ناخن سے نوچنے کی وجہ سے خون آلود ہو رہا تھا، ایک جاں بلب بچے کو میڈیکل سنٹر لائی اور التماس کرنے لگی کہ ہم اُس کیلئے کچھ کریں۔ بچے کو شدید دست اور اُلٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ ماں اُسی روتی حالت میں بچے کو چھوڑ کر چلی گئی۔ اُس زمانے میں ہمارا کوڈ ورڈ "یا مادر" تھا اور ہمارا عقیدہ تھا کہ جب تک ہمارا ہاتھ حضرت زہرا (س) کے ہاتھ میں رہے گا، کوئی بھی حادثہ پیش نہیں آئے گا۔ اُس وقت میں نے دل میں کہا یا مادر، آپ خود ہی اس بچے کی مدد کریں، چونکہ اگر اسے کچھ ہوگیا، بہت سوں کا خون بہہ جائیگا اور سب یہی کہیں گے کہ پاسدار نے بچے کو مار دیا۔ خلاصہ یہ کہ میں نے بچے کو گود میں اٹھایا اور اس کے باوجود کہ کردستان میں شام چار بجے کے بعد کوئی بھی گاڑی ہائی وے سے نہیں گزرتی تھی، ہائی وی کی طرف بڑھا کہ اچانک میں نے دیکھا کہ دور سے ایک سوزوکی آرہی ہے۔ میں نے ڈرائیور کو پوری کہانی سنائی اور وہ بھی ہمیں ہسپتال لے جانے کیلئے راضی ہوگیا۔ جب ہم ہسپتال پہنچے تو مجھ سے پوچھنے لگے: آپ بچے کے باپ ہیں؟ میں بولا: جی۔ انھوں نے پوچھا: اس کا نام کیا ہے؟ میں نے کہا: علی۔ کہنے لگے کہ یہ تو نہیں ہوسکتا چونکہ لڑکی ہے! میں نے کہا پھر اس کا نام ملی ہے! انھوں نے بچی کو دو دن تک رکھا اور پھر ڈسچارج کردیا اور ہم بچی  لیکر گاؤں آگئے۔ بچی کے باپ نے اُس کا نام "پاسدار کی بیٹی" رکھ دیا۔

اس واقعہ کو ۳۳ سال گزر چکے ہیں اور میں اس بچی سے محبت کی وجہ سے جس پروگرام میں بھی جاتا ہوں یہ واقعہ سناتا ہوں اور حتی اس کی محبت میں، میں نے ایک سیریل بھی بنایا ہے۔ یہاں تک کہ میں ایک دفعہ پھر اُن علاقوں میں گیا اور میں نے سنندج یونیورسٹی میں تقریر کی اور یہ واقعہ بھی سنایا۔ پروگرام کے آخر میں تین جوان آکر کہنے لگے: آپ کا جتنا دل چاہے جھوٹ بولیں، چونکہ ہم اُسی گاؤں کے رہنے والے ہیں اور ہم نے ابھی تک ایسا کوئی واقعہ نہیں سنا ہے۔ میں نے کہا: میں نے جھوٹ نہیں بولا اور یہ ۳۳ سال پرانی بات ہے، یعنی آپ لوگوں کے دنیا میں آنے سے ۱۱ سال پہلے، لہذا قدرتی سی بات ہے کہ آپ لوگوں کو نہیں پتہ، جاؤ اور جاکر تحقیق کرو۔ اگلے دن ہمدان میں ایک پروگرام تھا کہ اُن تین لڑکوں نے مجھے فون  کرکے کہا کہ آپ کی باتیں صحیح تھیں۔ آپ کی بیٹی اس وقت ۳۳ سال کی ہے اور اُس کی بھی ایک بیٹی ہے۔ اس بات کو بھی ۹ مہینے گزر چکے ہیں اور میں اپنی بیٹی سے ملنے کیلئے بہت بے چین ہوں اور اُسے زیارت کیلئے مشہد لانا چاہتا ہوں اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں جہاں بھی یہ واقعہ سناؤں وہ بھی میرے ساتھ ہو۔"

ان واقعات کے بیان کے بعد، "زمان بہ وقت موسیو ستبون" نامی ڈاکومنٹری دکھائی گئی۔ اس فلم میں میشل ستبون نامی فرانسوی عکاس کی زندگی کے بارے میں دکھایا گیا جو ۳۶ سال بعد ایران لوٹتا ہے۔ نوفل لوشاتو میں سیب کے درخت کے نیچے امام خمینی (رہ) کی مشہور تصویر اُسی سے مربوط ہے۔ اُس کا عقیدہ ہے کہ جب سے اسلامی انقلاب کی تصویروں کو درج کیا ہے،  پروفیشنل عکاسی میں تبدیل ہوگیا ہے۔ انقلاب کے بارے میں منظر عام پر آنے والی اُس کی تصویریں کو انقلاب اور دفاع مقدس کے عکاسوں کی انجمن کے ذریعے تألیف شدہ کتاب میں کم دیکھا گیا ہے یا بالکل نہیں دیکھا گیا ہے۔ اُس نے ان  تصویریں کو مفت اور ایرانی قوم سے محبت میں پیش کیا ہے۔

 

ایرانیوں کے افتخار کے نام

پروگرام کے تیسرے راوی محمد صادق کوشکی تھے۔انھوں نے امریکا کی تاریخ پر ایک طنزیہ کتاب "تاریخ مستطاب امریکا" لکھی ہے۔ جناب کوشکی نے یادوں بھری رات کے سلسلہ کے ۲۷۶ ویں پروگرام میں انقلاب، دفاع مقدس اور شام کے خونی ایام کے واقعات کو بیان کیا۔

شروع میں انھوں نے اپنے انقلاب کے واقعے کو اس طرح بیان کیا: "انقلاب کے بارے میں میرے ذہن میں نقش بنانے والی سب سے پہلی تصویر سن ۱۹۷۸ء کی ہے۔ میں پرائمری اسکول کا طالب علم تھاکہ میں اپنے والد کے ساتھ مظاہرے میں گیا اور دیکھا کہ لوگ کس قدر غیض و غضب اور غصے کے عالم میں نعرے لگا رہے ہیں۔ اُس دن ایک شہید کی تشییع جنازہ ہوئی۔ مجھے یاد ہے کہ اُس زمانے میں شہیدوں کے لئے آج کی طرح کے تابوت نہیں بنائے جاتے تھے اور شہید کو کفن پہنا کر اسٹریچر پر رکھ دیتے تھے تاکہ لوگوں کے جوش و خروش کو بڑھایا جائے۔ لوگ بھی نعرے لگاتے: "شہداء کے خون کی قسم، شاہ ہم تجھے قتل کریں گے" اس شہید کا پیکر بھی نہر میں پڑی کشتی کی مانند تھا، جو لوگوں کے ہاتھوں پر حرکت کر رہا تھا۔

جب بڑے لوگ شاہ، امام یا انقلاب کے بارے میں بات کرنا چاہتے تھے تو اس طرح بات کرتے تھے کہ  کہیں چھوٹے بچے نہ سن لیں، چونکہ اگر وہ ان باتوں کو گھر سے باہر یا اسکول میں کہہ دیتے تو ساواک اُنہیں  گرفتار کرلیتی۔ حقیقت میں لوگ ساواک سے اتنا ڈرتے تھے، لیکن سن ۱۹۷۸ء میں جب مظاہرے شروع ہوئے، یہ ڈر بھی ختم ہوگیا۔

 

انقلاب کی دوسری تصویر اُس زمانے کی تھی  جب ۴ نومبر ۱۹۷۸ء کو  پہلوی حکومت نےتہران یونیورسٹی کے سامنے  طالب علموں پر فائرنگ کرکے اُنہیں شہید کردیا۔ رات کو ٹی وی پر یہ منظر دکھایا گیا تاکہ شاید لوگوں کو ڈرا سکیں۔ جب ہم اگلے دن اسکول گئے تو ہم نے اپنی مہربان اور مسکرانے والی ٹیچر کو اشک بہاتے دیکھا۔ اُس دن ہماری ٹیچر پڑھائے بغیر چلی گئیں۔ نومبر ۱۹۷۸ء میں ہمارا کام یہ تھا کہ ہم اسکول جاتے اور شہنشاہی نغمے کو نہیں پڑھتے اور اسکول سے بھاگ جاتے۔ حقیقت میں اور عملی طور پر اسکول میں کھلی چھوٹ تھی۔  بچے اپنی توانائی کے مطابق ایک اور کام جو انجام دیتے وہ یہ تھا کہ اپنے نصاب کی پرائمری کتابوں میں سے شاہ کی تصویر پھاڑ کر اُس کی مضحکہ تصویر بناتے اور فوجی گاڑی کے سامنے جاکر اُسے ہلاتے رہتے۔ کچھ سپاہی ہنسنے لگتے اور کچھ دوسرے جھگڑا بھی کرنے لگتے۔

ہمارے یہاں ایک فعال اور انقلابی پیش نماز تھے جو سب کو مظاہرے میں جانے کی ترغیب دلاتے۔ نومبر ۱۹۷۸ء کے بعد میں تقریباً ہر روز اپنے والد کے ساتھ مظاہرے میں جاتا اور اب میں سوچتا ہوں کہ انھوں نے اپنے اس کام سے میری کتنی بڑی خدمت کی ہے،  کیونکہ بہت سے لوگ سپاہیوں کے فائرنگ کرنے کی وجہ سے بچوں کو مظاہرے میں نہیں لے جاتے تھے۔ میرے ذہن میں انقلاب کے کچھ خوبصورت مناظر موجود ہیں کہ فقط یہی مناظر میرے لئے انقلاب کے معنی ہیں۔ مظاہرہ صبح سے لیکر ظہر تک ہوتا۔ ان دنوں میں سے کسی ایک دن، ظہر کے وقت مجھے شدید بھوک لگ رہی تھی، میں اپنے والد کے ساتھ روٹی کی ایک دکان کے قریب سے گزرا اور میں نے اپنے والد سے کہا کہ میرے لئے ایک روٹی لے لیں، انھوں نے خرید لی، لیکن جب ہم نے جانے کا ارادہ کیا، وہ دوبارہ روٹی کی دکان پر گئے اور وہاں پر جتنی بھی پکی ہوئی روٹیاں تھیں سب خرید لیں اور پھر میری طرف منھ کرکے کہنے لگے: جب تمہیں بھوک لگی ہے، تو حتماً دوسرے لوگوں کو بھی لگی ہوگی اور انھوں نے اُن روٹیوں کو لوگوں میں تقسیم کردیا۔ مزید یہ کہ تقریباً جنوری یا فروری تھا کہ سڑک کے  کنارے پر ایک ٹھیلے والا نرگس کے پھول بیچ رہا تھا۔ ایک آدمی نے جاکر اُس سے تمام پھولوں کو خرید لیا اور مظاہرے میں شرکت کرنے والے افراد کے درمیان تقسیم کردیا۔ یہ مناظر، بہت ہی خوبصورت مناظر تھے، کیونکہ لوگ خود کو ایک  گھرانہ تصور کرتے تھےاور اس بات کی علت کہ لوگ مظاہرے کے بعد سڑکوں پر نماز پڑھنے کا اصرار کرتے تھے، مجھے اب سمجھ میں آتی ہے۔

ہمارے گھر کے نزدیک ساواک کی ایک بلڈنگ تھی کہ ساواکیوں کے فائرنگ کے باوجود لوگوں نے اُس پر حملہ کردیا اور اُسے ویران کردیا اور اندر سے اپنے ساتھ سامان جیسے بڑی بڑی قینچیاں لائے جو شاید اذیت دینے کا آلہ تھا۔

میرے ذہن میں انقلاب کی ایک اور تصویر کا تعلق ۲ فروری سے ہے کہ جو حضرت امام خمینی (رہ)  کے آنے کا دن تھا۔ پہلے تو ٹی وی نے امام کو ہوائی جہاز کی سیڑھیوں سے اترتا ہوا دکھایا، لیکن اچانک کٹ گیا اور شہنشائی نغمے کو دکھانے لگے۔ لوگ اس کام سے ناراض ہوگئے اور سڑکوں اور گلیوں میں نکل آئے اور وہاں اپنی خوشیوں میں ایک دوسرے کو شریک کرنے لگے۔ اس منظر کا تعلق ۱۱ فروری سے ہے، اس یاد کے ساتھ کہ میری عمر کے لڑکے گھر گئے تاکہ زخمیوں کے لحاف لیکر آئیں۔

ہمارے گھر کے نزدیک پولیس کا ایک دفتر تھاکہ لوگوں نے اُس پر قبضہ کرنے کیلئے حملہ کردیا تھا۔ اگلے دن جب ہم باہر گئے تو دیکھا کہ اس دفتر کے کنارے بہت سوں کا خون بہا ہےاور بہت سے شہداء نے اپنے ہاتھوں پر خون لگا کر اُسے دیوار پر مل دیا تھا۔ اس دفتر کے کنارے بہنے والی نالیاں خون سے بھری ہوئی تھیں اور اُس عمر میں میرے لئے ان مناظر کا دیکھنا بہت دشوار تھا۔

مجھے یاد  ہے کہ امام (رہ) کی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر جس کا سائز A4 تھا مجھے ملی کہ جس کے اطراف میں ، میں نے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ملکر پھول لگائے اور اُس کا ایک بڑا سا پلے کارڈ بنالیاتاکہ مظاہرے میں اپنے ہاتھوں پر اٹھائیں، لیکن لوگوں کے رش میں داخل ہوتے وقت، پلے کارڈ لوگوں کے سیلاب میں گم ہوگیا اور میں آخری وقتوں تک لوگوں میں اُس پلے کارڈ کو ڈھونڈتا رہا اور یہ واحد چیز تھی جو میری طرف سے انقلاب کی راہ میں دی گئی!"

جناب کوشکی نے اپنی دفاع مقدس کے زمانے کی یادوں کو اس طرح بیان کیا: "میں ساتویں کلاس میں تھا اور ایسے لڑکوں کے اسکول میں تھا جو کئی دفعہ مشروط ہونے کی وجہ سے مجھ سے بڑے تھے۔ وہ لوگ سال کے بیچ میں پڑھائی چھوڑ کر محاذ پر چلے گئے تھے۔ میں بھی اپنے آخری امتحان کے بعد سپاہ میں چلا گیا تاکہ محاذ کیلئے اپنا نام لکھواؤں، لیکن سپاہ کے ایک آدمی نے میرے والد صاحب کو بتا دیااور میں اُس سال محاذ پر نہیں جاسکا۔ اگلے سال میں نے پکا ارادہ کیا اور پہلی دفعہ حکومتی اسناد کی جعل سازی کی تاکہ اُن سے کہوں کہ میں نے ٹریننگ بھی حاصل کی ہوئی ہے۔ خلاصہ یہ کہ میں سپاہ کے  آدمی کی مدد سے جو مجھے سمجھ رہا تھا، جانے کیلئے تیار ہوگیا، لیکن میں جب تعینات کرنے والے اصلی ہیڈ کوارٹر پہنچا، چند دوسرے لوگوں کے ساتھ میرا نام بھی پکارا گیا اور میں نے دیکھا کہ میرے والد دروازے پر کھڑے اُن سے لڑ رہے ہیں کہ میرا بیٹا ابھی چھوٹا ہے۔ میں پریشانی کے عالم میں صف کے آخر میں لوگوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا اور بہرحال اُن لوگوں نے میرے والد کو راضی کرلیا کہ بعد میں ہم خود ہی اُسے واپس بھیج دیں گے۔ محاذ پر ایک دوست کے اصرار پر میں نے  تین مہینے بعد اپنے گھر والوں کو خط لکھا   اور اُنہیں اپنی خیریت سے آگاہ کیا، چونکہ میرے ذہن میں یہ بات ہی نہیں سما رہی تھی کہ میرے والدین میرے لئے پریشان ہوں گے، البتہ میرا بڑا بھائی جو مجھے سے پہلے محاذ پر گیا تھا وہ تو مجھ سے بھی برا نکلا، اُس نے تقریباً چار مہینوں تک کوئی خط نہیں بھیجا تھا۔

ہم جزیرہ مجنون میں تھے اور درجہ حرارت ۴۰ درجے سے اوپر تھا کہ ایک ٹرک پر تربوز لائے گئے۔ غذا فراہم کرنے والا آفیسر دس لوگوں میں ایک درمیانے سائز کا تربوز تقسیم کرنے لگا اور اس طرح ہوا کہ میں نے اور میرے ایک ساتھی نے فیصلہ کیا کہ ہم بیت المال سے اپنا حصہ اٹھا لیتے ہیں! پس ہم نے دس بارہ اچھے تربوز الگ کئے اور ایک کونے میں رکھ دیئے۔ ہر رات ہم مورچے میں بیٹھ کر دو تربوز کھاتے اور اس خیال سے کہ کوئی نہیں دیکھ رہا چھلکوں کو مورچے کے پیچھے پھینک دیتے؛  انچارج کو پتہ چل جاتا ہے اور وہ تربوز چور کو ڈھونڈ لیتا ہے، لیکن کسی سے کہتا نہیں ہے۔"

انھوں نے شام کے سفر کا واقعہ بھی سنایا: "تقریباً چند مہینے پہلے حزب اللہ کے افراد کی خدمت میں پہنچنے کی توفیق نصیب ہوئی اور ہم چند مراکز پر گئے۔ وہاں پر چند چیزیں میرے لئے بہت دلچسپ تھیں، ایک تو یہ کہ میں وہاں پر ایک ایرانی کے عنوان سے گیا تھا اور وہ لوگ بہت قدر دانی کر رہے تھے۔ تقریباً حزب اللہ کے اکثر لوگوں کیلئے یہ بات بہت خاص تھی کہ وہ آکر کہتے کہ اگر آپ قم میں آیت اللہ بہجت کی قبر پر جائیں تو ہماری طرف سے بھی زیارت کیجئے گا۔ حزب اللہ کے لوگ انہیں بہت پسند کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ تھی کہ جاکر سید القائد (رہبر معظم انقلاب) سے کہیں کہ ہم لوگ ہیں، آپ مطمئن رہیں اور کبھی ایسا نہ سوچیں کہ وہ تنہا ہیں۔

ایک دوسری جگہ حزب اللہ کے افراد کے ساتھ ایک  پختہ عمر کا بوڑھا شخص تھا کہ جب اُسے پتہ چلا میں ایرانی ہوں، تو اُس نے جناب آہنگران کا "با نوای کاروان" نوحہ پڑھنا شروع کردیا۔ میں نے معاملہ دریافت کیا، بتایا گیا: جس زمانے میں آپ لوگ جنگ لڑ رہے تھے، ہم لوگوں کو آہنگران بہت پسند تھا اور ہم مختلف طریقوں سے اُس کے نوحے ڈھونڈتے اور اُسے اتنا پڑھتے کہ بالکل اُسی کے لہجے میں پڑھنے لگے اور اب یہ نوحہ اُن ایرانی لوگوں کے افتخار میں پڑھا گیا جو وہاں پر موجود تھے۔"

ثقافتی تحقیق، مطالعات اور پائیدار ادب کے مرکز اور ادبی اور مزاحمتی فن کے مرکز کی کوششوں سے یادوں بھری رات کے سلسلہ کا ۲۷۶ واں پروگرام، جمعرات کی شام ۲۶ جنوری سن ۲۰۱۷ء کو آرٹ گیلری کے سورہ ہال میں منعقد ہوا۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4720



http://oral-history.ir/?page=post&id=6884