عباس جہانگیری اور دفاع مقدس کی یادیں ۔ دوسرا اور آخری حصہ

سیکنڈری اسکول کے شہداء کی شب

مہدی خانبان پور
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-02-18


ایرانی زبانی تاریخ کی  سائٹ کے خبر نگار کی انجینئر عباس جہانگیری کی گفتگو کے پہلے حصے میں بات یہاں تک پہنچی تھی کہ انھوں نے بتایا تھا کہ وہ دفاع مقدس کے محاذوں پر کس طرح گئے  اور اسلام آباد میں ہونے والے ایک جہادی کیمپ سے لیکر و الفجر ۲ آپریشن کے بعد حاج عمران کی بلندیوں تک پہنچے۔ البتہ اس پوری داستان میں،  راوی کے ساتھ ہونے والے مفید ہائی اسکول کے طالب علموں کا  بھی ان یادوں میں نمایاں کردار  رہا ہے۔ دوسرا اور آخری حصہ جس میں جناب جہانگیری کی گذشتہ یادیں ہیں پیش خدمت ہے، مطالعہ کیجئے۔

 

شہید ہمت بھی اسی آپریشن (خیبر) میں شہید ہوگئے؟

صحیح بات ہے۔ ہمیں اُسی جگہ لے گئے جہاں حاجی ہمت شہید ہوئے تھے۔ جب ہم واپس پلٹے تو بلال بٹالین کو پھر سے تیار کیا گیا اور ہم جفیر کے علاقے میں گئے۔ میں جو باتیں آپ کو بتانا چاہتا ہوں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ محاذ،  زندگی تھی۔

حمید صالِحی  اور میری لگی رہتی تھی۔ میں گنجا ہوگیا تھا۔ حمید صالِحی کہتا تھا: "نہیں بھائی،  میں تو بالوں کے بہترین اسٹائل کے ساتھ لڑنا چاہتا ہوں۔" میں نے کہا: "ٹھیک ہے"۔ جب ہم جُفیر کے علاقے پہنچے، ہیلی کاپٹر لینڈ کرنے اور اُڑنے کی وجہ سے، وہاں مٹی کا تیل چھڑکا ہوا تھا۔ جب بھی ہیلی کاپٹر لینڈ کرتا تو مٹی کے تیل والی مٹی سب لوگوں منہ اور بالوں پر لگ جاتی۔ حمید کے سر کے بال تو بہت ہی عجیب و غریب اور مسخرے ہوگئے تھے۔ میں نے کہا: "بہترین اسٹائل آؤادھر بیٹھو میں تمہارا حلیہ  صحیح کرتا ہوں۔" میں جاکر کسی کنگھا لےآیا اور کسی دوسرے سے قینچی اور بہترین اسٹائل والے (حمید صالِحی) کے بالوں کو چھوٹا کردیا۔ اُس کے بال گنگھریالے تھے  اور بہترین اسٹاٹل اپنانے کی  وجہ سے اُس کی حالت عجیب سی ہوگئی تھی۔ میں نے حمید کے بالوں کو چھوٹا کیا، ہم ہیلی کاپٹر کے ذریعے مجنون جزیرے میں  اُترے۔

ہمیں جُفیر سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے جزیرے کے اندر لے جایا گیا۔ جو چیز مجھے اچھی طرح یاد ہے، وہ یہ کہ اگر جنگی طیارہ ہیلی کاپٹر کو مارنے آتا تو نیچے آکر مٹی اُڑاتا اور چلا جاتا۔ خلاصہ یہ کہ ہمیں جنوبی جزیرے میں لے جاکر اُتار دیا گیا۔ ہم نے چلنا شروع کردیا۔ ہمیں جنوب کی طرف سے اوپر، پل طلائیہ کی طرف آنا تھا۔ یہ آپریشن کا آخری مرحلہ تھا کہ جس تک سپاہی، خیبر آپریشن کی تکمیل کیلئے نہیں پہنچ سکے  تھے۔ ہمارا ۲۷ ۔ ۲۸ لوگوں کا گروپ تھا۔ ہم دو گھنٹے تک ہوا اور ریت کے طوفان کی مخالف سمت میں چلتے رہے۔ اس طرح سے کہ جب ہم دفاعی پوزیشن پر پہنچے تو ہمارا ایک ساتھی ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے اُسے کچھ مکے مارے ہوں، الجھا ہوا تھا۔ بیہوش ہوگیا اور کسی نے آکر اُسے ہوش دلایا۔ چونکہ ہوا اور طوفان کی مخالف سمت میں چلے تھے فرنٹ لائن تک پہنچتے پہنچتے پوری طرح  مٹی میں اٹ گئے تھے، ایک معرکہ تھا۔

میں نے پانچ چھ لوگوں کو دیکھا کہ جن میں سے ایک زندہ اور باقی سب شہید ہوچکے تھے۔ جو زندہ تھا اُس کا نام موسوی اور وہ مشہد کا رہنے والا تھا۔ کسی کو ناصر کہہ کر پکار رہا تھا۔ چیخ رہا تھا: "ناصر، ناصر، ناصر...۔ " میں نے سوچا اس کا دوست تھا جو شہید ہوگیا ہے، چونکہ عجیب تباہی کا عالم تھا۔ دائیں طرف سے عراقی ہماری طرف فائرنگ کر رہے تھے۔ میں نے ایک لمحہ کیلئے اپنی دائیں طرف نگاہ دوڑائی، مجھے یقین نہیں آیا، ۱۰۰ سے لیکر ۱۲۰ سے زیادہ عراقی ٹینک جو ہماری طرف گولے برسا رہے تھے۔ مجھے یاد ہے مجھ سے آگے ڈاکٹر مجید مرادی تھے۔ ایک کیپ اُن کے سر پر تھا، ایک کیپ میرے سر پر بھی تھا۔ ہم ہوا کے مخالف ہونےاور زیادہ طولانی چلنے سے اتنا تھک گئے تھے کہ اب بیٹھنے کی ہمت نہیں تھی۔ پوری لائن ایسے ہی چلے جا رہی تھی اور میں دیکھ رہاتھا کہ میرے اور مجید کے کیپ کے درمیان سے گولیاں گزر رہی تھیں۔ نہ مجھے لگ رہی تھیں، نہ مجید کو، نہ آگے والے کو اور نہ پیچھے والے کو۔ اتنا وحشت ناک ماحول تھا کہ پھر مجھ سے دیکھا نہیں گیا۔ میں اسی طرح سامنے کی طرف دیکھتا رہا یہاں تک کہ ہم مورچے تک پہنچ گئے۔ اس مورچے میں ناصر کو اٹھایا گیا، ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ دو تین راتوں سے سویا نہ ہو۔ ناصر ہم سب کو تعینات کر رہا تھا۔ ہر کسی کو ایک خاص جگہ بٹھاتا اور خود کھڑا تھا۔ مورچے کی بلندی بھی ایک میٹر سے زیادہ نہیں تھی۔ گولیاں ناصر کے کان کے پاس سے گزر رہی تھیں اور میں کہہ رہا تھا: " بھائی ناصر،  تمہاری ماں کا واسطہ بیٹھ جاؤ، جہاں جہاں تم نے کہا ہم بیٹھ گئے۔" کہنے لگا: "تو کچھ نہیں بولو، ابھی وہ مار رہا ہے۔" عجیب و غریب آدمی تھا۔ ناصر، موسوی کو ڈھونڈنے چلا گیا وہی جو مستقل ناصر کو پکار رہا تھا۔ ہم نے خندق بنانا شروع کردی۔ ہم اپنے بیگوں میں بوریاں لے گئے تھے۔ بوریوں کو مٹی سے بھر کے اُن سے خندق بنائی، دوسروں سے مذاق بھی کرتے۔ اُدھر سے ایک شیل مارا گیا جو ہمارے سامنے گرا۔ خندق میں جگہ کم تھی۔ میں نے خود کو سجدے کی حالت میں گرا دیا۔ جب میں نے سجدے کی حالت سے پلٹ کر بیٹھنا چاہا مجھے اپنے کولھے میں ایک عجیب سے چبھن محسوس ہوئی۔ میں نے دیکھا جو ٹکڑے مورچے کے بالائی حصے سے ٹکرائے تھے وہ پھسل کر نیچے گر گئے تھے۔  میں ایک ٹکڑے پر بیٹھ گیا تھا جو بہت ہی گرم تھا۔ مجھے ہنسی آگئی۔

میری بائیں طرف جناب میناپرور اور حمید صالِحی تھے۔ بچپن سے ہی گلی کوچوں میں میرا نشانہ بہت اچھا تھا اور میں پتھر کو بہت اچھی طرح پھینکتا تھا۔ حمید سے ہمارا ایک جھگڑا اور تو تو میں میں اسی بات پر ہوتی کہ میں چھوٹے پتھر پھینکتا تھا جو کسی کے بھی سر پر لگ جاتا۔ حمید ہمیشہ یہی کہتا: "یہ کام نہیں کرو، قوم لوط والے یہ کام کرتے تھے۔" میں نے بڑھ کر ایک چھوٹا پتھر  اُن کی طرف پھینکا چاہا۔ حمید اور جناب مینا پرور دونوں نے اپنی ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں۔ میں نے سوچا پھینکتا ہوں تاکہ وہ سمجھے کوئی ٹکڑا ہے۔ وہ لوگ بہت ہی سنجیدگی سے بوریوں کو بھر رہے تھے تاکہ اپنی لئے پناہ گاہ بنائیں۔

 

یہ مذاق سخت مشکلات اور سنجیدہ کاموں میں تھا؟

جی ہاں۔ مجھے یاد نہیں کہ اُسی لمحہ شیل گرا  تھا یا نہیں۔ لیکن میں نے اُس وقت پتھر نہیں پھینکا صرف اُس کا خیال آیا تھا۔ لیکن ایک نے آکر کہا: "ساتھیوں قویدل کا مار دیا۔" قویدل، جنوبی مہر آباد کا رہنے والا اور ہمارے ساتھ آنے والوں میں سے تھا۔ ہم اسٹریچر اٹھا کر بڑھے تاکہ اُسے لے آئیں۔ مجھے اس کی عرفیت یاد نہیں، لیکن قویدل کو اٹھانے کیلئے ہم دو لوگ گئے۔ میرے خیال سے ہمارے اور اُس کے درمیان ۱۰۰ میٹر کا فاصلہ تھا۔ وہ ہمارے اور عراقیوں کے مورچوں کے بیچ آر پی جی چلانے گیا تھا ۔ انھوں نے شیل مارا جو اُس کے سر پہ لگا اور وہ گر پڑا۔ میں نے قویدل کے سر کو اپنی طرف رکھا اور اُس کے پیر کو آگے والے کی طرف رکھا۔ میں پیچھے کی طرف تھا۔ میں نے کہا: "ایک دفعہ "وجعلنا۔۔۔" پڑھتے ہیں اور پھر اٹھائیں گے۔" ہم نے "وجعلنا ۔۔۔" پڑھی اور آگے بڑھنے کیلئے اسٹریچر کو بلند کیا ۔ دشمن کے اسنیپر نے سیمونوف سے میری گردن پر مارا، ابھی تک اُس کا نشان ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے قویدل کو گرایا نہیں۔ اُسے زمین پر رکھ دیا۔

جب مٹی سے اٹی میری قمیض کے کالر پر گولی لگی تو میں نے اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ یہ جو گولی گزری میرے دائیں ہاتھ کے کنارے پر پھٹی اور میں وہیں زمین پر گر پڑا۔ ہم کچھ لوگ زخمی ہوگئے۔ میں تھا اور اُس طرف ایک بسیجی تھا۔ ہمارے مورچے کے قریب آر پی جی کا ایک گولہ بھی آکر گرا۔ مجھے یاد ہے کہ میں اوپر اچھل کر زمین پر گرا تھا۔ اُس بسیجی کے کان سے خون بہہ رہا تھا اور اب ہم سے کچھ نہیں ہو پا رہا تھا۔ مہدی موسوی نے آکر مجھ سے کہا: "کیا تم کھڑے ہوسکتے ہو؟" میں بولا: "ہاں، ہوسکتا ہوں، میرے پیر سالم ہیں۔" اُس نے کہا: "نہیں، اگر کھڑے ہوئے تو دوسرا بھی لگ جائے گا، میں کرولنگ کرتا ہوا بڑھتا ہوں تم اپنے اُلٹے ہاتھ سے مجھے پکڑ لو، میں تمہیں گھسیٹ کر لے جاتا ہوں۔" میں تقریباً ۱۰ سے ۱۵ میٹر تک اُس کے ساتھ آیا اور اُس کے بعد میں بیٹھنے میں کامیاب ہوگیا اور ہم دشمن کی فائرنگ سے دور ہوگئے۔

 

آپ زخمی ہوگئے، اُس کے بعد کیا ہوا؟

جی، جناب موسوی مجھے گھسیٹ کر پیچھے کی طرف لے آئے۔ اُسی جگہ جہاں حمید اور میرے دوسرے ساتھی  تھے۔ اُس وقت تک لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ میں زخمی ہوگیاہوں۔ حمید صالِحی میرے پاس آیا اور اپنا وصیت نامہ میری جیب میں ڈال کر بولا: "عباس تم پیچھے جا رہے ہو۔ میں نے اپنا یہ وصیت نامہ تمہاری جیب میں ڈال دیا ہے۔" ایک سوزوکی آئی، دو تین زخمیوں کو پیچھے ڈالا ہوا تھا اور مجھے ڈرائیور کے پاس آگے بٹھا دیا۔ کسی اور کو بھی میرے ساتھ بٹھا دیا۔ ڈرائیور صرف گاڑی بھگا رہا تھا اور سب لوگ فریاد کر رہے تھے۔ رات ہوگئی تھی۔ مجھے بھی اندرونی خونریزی ہو رہی تھی اور کوئی خاص جگہ مشخص نہیں تھی۔

 

اسنیپر والا آپ کے سر کا نشانہ لینا چاہ رہا تھا، گولی آپ کی گردن پر لگ گئی تھی؟

جی ہاں، مجھے یاد ہے  میں ہیلمٹ پہنا ہوا تھا اور وہ گولی ابھی تک میری یادوں کا حصہ ہے۔ چونکہ کوئی چیز باہر نہیں نکلی۔ میں بھی گولی لگنے کی جگہ کو دیکھ نہیں سکتا تھا، مجھے صرف اتنا پتہ تھا کہ میرا سیدھا ہاتھ کام نہیں کر رہا اور میری گردن اور کندھے میں شدید درد ہے۔ اندرونی خونریزی کی وجہ سے میری گردن سے لیکر کمر تک کا حصہ سوجھ چکا تھا۔ میں بار بار بیہوش ہو رہا تھا۔ ہمیں ایئر کرافٹ کے ذریعے اہواز کے شہید بقائی ہسپتال میں لایا گیا۔ اُس سے پہلے ہمیں کسی بڑے سے ایک اسٹور میں رکھا گیا تھا ۔ایک ایسا عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جو میرے لئے کبھی بھی حل نہیں ہوسکا اور میں جسے بھی بتایا مجھے کوئی جواب نہیں مل پایا۔ میں ایسے ہی لیٹا ہوا تھا اور ہوش میں تھا کہ کوئی میرے پاس آیا اور اُس نے میری پسلیوں میں انجکشن لگایا۔ میں بھی ۱۹ سال کا ایک لڑکا تھا مجھے کیا سمجھ آتا؟ مجھے ایسا درد اٹھا کہ مجھے اپنے ہاتھ اور گردن ٹوٹنے کا درد بھول گیا۔ ایسی حالت ہوگئی تھی کہ سانس نہیں لیا جا رہا تھا۔ کبھی بیہوش ہوتا کبھی ہوش میں آتا۔ ہم لوگ شہید بقائی ہسپتال پہنچ گئے۔ میں خیالوں میں دعا کر رہا تھا۔ مجھے لگا کہ سانس نہیں آرہی ہے۔ ایک نرس نے میرے پاس آکر پوچھا: "کچھ چاہیے تو نہیں؟" میں بولا: "مجھ سے سانس نہیں لی جا رہی، کسی نے میری پسلیوں پر ایک انجکشن لگا دیا ہے۔ مجھ سے بالکل بھی سانس نہیں لی جا رہی۔" اس نرس نے دوسری نرس سے کہا: "کیا یہ آدمی بہکا ہوا ہے!"

خلاصہ یہ ہے کہ میں نے جس ڈاکٹر سے بھی جتنا کہا وہ جواب میں کوئی نہ کوئی بات کہہ دیتا اور پھر میں نے اسے قصہ کو چھوڑ ہی دیا۔ میں سخت جان تھا، لیکن ایسا ہوا کہ میں اگلے دن صبح تک اپنی آنکھوں کے سامنے موت کا نظارہ کرتا رہا اور دعائیں پڑھتا رہا کہ اگر شہید ہوجاؤں تو میں نے کلمہ شہادت پڑھ لیا ہو۔ میری گردن سے کمر تک کا حصہ بہت سوجھا ہوا تھا۔ میں کہا کرتا: "میری گردن پر مارا اور میرے کندھے پر پھٹا ..."اور جب لوگ دیکھتے تو کچھ بھی نہیں تھا،  صرف دال کے دانے کے برابر ایک چھوٹا سا زخم دکھائی دیتا اور وہ لوگ سمجھتے کہ میں اول فول بک رہا ہوں۔ اگلے دن صبح مجھے اہواز کے ایئرپورٹ لے آئے  جہاں سے مجھے سی ۱۳۰ کے ذریعے تہران بھیج دیا۔ پھر ہم لوگ کو تقسیم کردیا اور مجھے شاہراہ میر عماد پر مھراد نامی ہسپتال بھیج دیا  اور میں وہاں ایڈمٹ ہوگیا۔

میرے ساتھ یہاں بھی ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ میرے پاس ایک ڈاکٹر آیا جس کا نام ڈاکٹر گرجی تھا۔ اچھی خاصی عمر کا تھا۔ ڈاکٹر گرجی ٹائی لگائے ہوئے اور میرے خیال سے وہ مھراد ہسپتال کے شیئر ہولڈر تھے۔ انھوں نے میرا چیک اپ کیا۔ پوچھا: "کیا ہوا ہے؟" میں نے ساری بات بتائی۔ میری گردن بہت زیادہ سوجھی ہوئی تھی، یعنی کان کے برابر تک آگئی تھی۔ میرے بازو بھی سوجھے اور نیلے پڑ گئے تھے۔ اس ڈاکٹر نے بھی کہا کہ یہ ہذیان کہہ رہا ہے، احتمالاً گاڑی سے نیچے گر گیا ہے۔ میں بھی کچھ نہیں بولا۔ خدا کا شکر ہے کہ میں آج بھی باصبر انسان ہوں۔ البتہ ڈاکٹر گرجی نے کہا: "اس نیچے راڈیولوجی میں لے جاؤ...۔" جب اوپر آیا تو اُس نے فقط یہ کہا: "لڑکے کیا نصیب ہے تمہارا۔ ایکسرے میں گولی کی حرکت کا راستہ بالکل واضح ہے  اور پٹھوں اور ریڑھ کی ہڈی پہ کیسی لگی ہے کہ تمہیں کوئی شدید نقصان نہیں ہوا؟" اُس نے گولی دیکھ لی تھی۔ ایسی گولی جو پھٹ چکی تھی، اُس کا اگلا حصہ الگ ہوگیا تھا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ گولی پر ایک لائن ہوتی ہے؟ اُس لائن سے جدا ہوگئی تھی اور تصویر میں سب کچھ واضح تھا۔ میں تقریباً ۱۰۔ ۲۰ دنوں تک ہسپتال میں رہا پھر مجھ سے کہا اب جاؤ۔ میں بھی شدید درد کے ساتھ ڈسچارج ہوگیا۔

 

آپ کا کوئی آپریشن نہیں ہوا؟

کچھ بھی نہیں کیا۔بس مجھے درد بہت ہو رہا تھا۔ خدا مغفرت کرے مجھے اپنے والد کی ایک بات یاد ہے۔ بابا نے آکر مجھ سے کہا: "بیٹا، کیا میں نے تمہیں جانے سے منع نہیں کیا تھا؟" میں نے کہا: "بابا جان آپ نے کہا نہ جاؤ، لیکن ہمارے ایک مرجع تقلید بھی ہیں کہ جنہوں نے کہا جاؤ اور میں نے بھی اُن کی بات مانی۔" یہ بات میرے بابا پر بہت گراں گزری۔ آخری وقتوں تک کہتےرہے۔ جبکہ میں نے بہت ہی مؤدبانہ انداز میں کہا تھا، لیکن انھوں نے اپنے حساب سے کہہ دیا تھا کہ تم نے میری بات چھوڑ کر کسی دوسرے کی بات مانی۔ ایک دوسرا واقعہ بھی پیش آیا۔ سید حسن کریمیان جو بعد میں شہید ہوگئے، ایک رات میرے پاس آکر رُکے۔ مجھے بہت زیادہ درد ہو رہا تھا اور میں درد کی وجہ سے کئی دنوں سے سو نہیں سکا تھا۔ بعض باتیں انسان کے ذہن میں نقش ہوجاتی ہیں۔ جو بات سید حسن سے نقش ہوئی، وہ یہ تھی کہ وہ ایسے کام کی کوشش میں تھے کہ جس سے مجھے نیند آجائے۔ وہ بولے: "میں تمہارے پیروں سے چادر ہٹا  رہا ہوں، جب اُنہیں ہٹاؤ گے اور تمہارے پیر پرسکون ہوں گے تو تمہیں نیند آجائے گی۔" یہ بات میرے رگوں میں اُتر گئی  اور ابھی بھی اگر میں اپنے پیروں کو چادر یا کمبل سے باہر نکالتا ہوں تو مجھے سید حسن یاد آتے ہیں۔

۱۰۔ ۲۰ دنوں بعد جب مجھے گھر بھیج دیا گیا تو میری سوجھن ختم ہوچکی تھی اور میرا ہاتھ پتلا ہوچکا تھا، لیکن اب کام نہیں کر رہا تھا۔ نہ اوپراٹھتا اور نہ ہی کوئی حرکت کرتا۔ میں بہت تکلیف میں رہا۔ میری جلد کا ایک حصہ پھول گیا تھا۔ میں ایک دن اُسی مھراد ہسپتال گیا۔ میں نے ڈاکٹر گرجی سے کہا: "جناب ڈاکٹر میرے اس ہاتھ کو دیکھیں گے؟" انھوں نے کہا: "کیا ہوا ہے؟" میں بولا: "میرا ہاتھ ایسا ہوگیا ہے۔" وہ بولے: "تم بسیجیوں کا بس یہی دل چاہتا ہے کہ ہم تمہارے جسم سے گولی اور ٹکڑے نکالتے رہیں۔" میں لیٹ گیا اور انھوں نے ایک انجکشن لگایا ۔ ایک چیز جو جراثیم  سے پاک(sterilized) تھی اور سبز کپڑے میں لپٹی ہوئی تھی اُسے کھول کر میرے زخم میں ڈال کر باہر نکالا۔ تھوڑا سا خون نکلا اور انھوں نے کہا: "یہ لو اپنا گولی کا ٹکڑا!" چوٹ پر پٹی باندھ کر کہا: "گھر جاؤ" میں نے بھی ٹکڑا اٹھایا اور گھر آگیا۔

ایک دو ماہ بعد میں نے دیکھا کہ مستقل میرے کپڑے نجس ہو رہے ہیں۔ اُن دنوں میں ورزش کیلئے جاتا اور فزیوتھراپی کرواتا ، میں چاہتا تھا کہ میرا ہاتھ ٹھیک ہوجائے۔ میں نے فزیوتھراپی کرنے والی نرس کو بتایا تو کہنے لگی یہ اچھی علامت نہیں ہے، آپ کو کسی ڈاکٹر کو دکھانا چاہیئے۔ میں مصطفی خمینی ہسپتال میں ایک جوان ، خوبصورت، لمبے قد اور ۳۲ سالہ  ملنسار ڈاکٹر کے پاس گیا جس کا نام ڈاکٹر امامی تھا۔ اُس نے میرا معائنہ کیا اور رنگین ایکسرے نکالنے کو کہا۔ جب رزلٹ آیا تو ڈاکٹر نے تشخیص دیا کہ شدید قسم کا اسٹئوملیٹ ہوگیا ہے۔ جب میں وہاں تھا تو صبح کے ۱۰ بج رہے تھے، اس نے کہا: "ایڈمٹ ہوجاؤ، کل تمہارا آپریشن ہونا چاہیے۔" یہ سن ۱۹۸۴ء کی بات ہے۔ میں ابھی بیس سال کا ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کوئی بھی میرے ساتھ نہیں تھا، یعنی مجھے ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کہ کوئی میرے ساتھ آئے۔ البتہ میں نے اپنی والدہ اور بہنوں کو بتایا۔ ہڈی میں انفیکشن ہوگیا تھا اور مجھے پتہ ہی نہیں تھا۔ ہڈی کو چھیلا گیا اور میں کچھ عرصے تک مصطفی خمینی ہسپتال میں ایڈمٹ رہا۔

ایک دلچسپ بات یہ کہ جب میں خیبر آپریشن کیلئے محاذ پر جا رہا تھا تو میں نے اپنے گھر والوں سے خدا حافظی نہیں کی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب تو میں جا رہا ہوں؛ اچھا احساس تھا۔ ہم دو کوھہ چھاؤنی پہنچے اور دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ابھی ہمیں گروپس میں تقسیم نہیں کیا گیا تھا۔ میں ریت پر لیٹا ہوا تھا کہ کسی نے چھاؤنی کی بلڈنگ کے اندر سے چیخ کر پکارا:"عباس ..." دیکھا تو یہ ہمارا بڑا بہنوئی تھا۔ میں نے پوچھا: "تم یہاں کیا کر رہے ہو؟"وہ بولا: " ایسا ہوگیا ویسا ہوگیا، تم خدا حافظی کئے بغیر ہی آگئے،  تمہارے والد کو دورہ پڑ گیا!" میں بولا: "رضا جان، مجھے پتہ ہے کہ کچھ نہیں ہوا ، صحیح بات بتاؤ!" رضا کے یہاں اولاد ہونے والی تھی۔ میری بہن پریشان تھی اور اُس نے مجھے گھر لانے کیلئے رضا کو بھیجا تھا۔ خلاصہ یہ کہ رضا مجھے لے گیا۔ اندیمشک میں رضا کا ایک دوست رہتا تھا جو ایئر فورس میں تھا۔ ہم اُس کے گھر گئے۔ اُس زمانے میں اُس علاقے کے ٹی وی عراقی چینل پکڑتے تھے۔ عجیب مناظر دکھا رہے تھے۔ رضا کہہ رہا تھا: "تم کہاں جا رہے ہو؟ قتل گاہ جزیرہ مجنون!" عراقی ٹی وی دکھا رہے تھا کہ عراقی افواج نے کس طرح لوگوں کو شہید کیا تھا۔ رضا اپنے چکر میں مجھے ڈرا رہا تھا تاکہ میں واپس آجاؤں۔ میں نے کہا: "رضا جان، میں نے فیصلہ کرلیا ہے۔ میں یہاں تک اس لئے آیا تاکہ ہم ایک دوسرے سے مل لیں وگرنہ تو مجھے جانا ہے۔ جاؤ جاکر کہہ دینا کہ مجھے عباس نہیں ملا۔ اگر چاہتے ہو کہ تمہیں کوئی کچھ نہ کہے، کہہ دینا کہ عباس نہیں آیا۔" اُنہی راتوں میں میرے والد خواب دیکھتے ہیں کہ وہ کسی لائن میں لگے ہوئے  ہیں۔ جب اُن کی باری آتی ہے تو کوئی اُن سے کہتا ہے: "جناب چلے جائیں، آپ کی باری نہیں ہے ... عباس آئے گا،  لیکن صحیح و سالم نہیں۔ وہ واپس لوٹے گا لیکن اُسے ایک حادثہ پیش آئے گا۔"

 

آپ کتنے عرصے تک زخمی رہے؟

آپریشن  اگلے سال ہونا تھا ۔ اس عرصے میں ، میں اپنے زخم میں الجھا رہا اور محاذ پر نہیں گیا۔  میں سن ۸۴ء کے مارچ  میں زخمی ہوا تھا اور ستمبر میں میرا آپریشن ہوا۔ چھ مہینے کا  عرصہ لگا۔ سب ساتھی بدر آپریشن کیلئے چلے گئے اور میں نہیں جاسکا۔ میں  ۸۵ء میں ہونے والے آٹھویں و الفجر آپریشن میں بھی نہیں تھا۔ میں یونیورسٹی جاکر پڑھائی کرتا۔

 

شہید صالِحی کون سے آپریشن میں شہید ہوئے؟

وہ کربلائے ۵ آپریشن میں شہید  ہوا۔ ہم سن ۸۷ میں دوبارہ محاذ پر گئے، پنج ضلعی کے علاقے میں نوح ہیڈ کوارٹر میں۔

 

شہید صالِحی بھی شہید بلورچی کے ساتھ شہید ہوئے تھے؟

یہ چند لوگ ایک ساتھ تھے؛ شہید بلورچی، شہید صالِحی، جناب ڈاکٹر کرمی، جناب ڈاکٹر مرادی، سید حسن کریمیان اور محسن فیض۔ کچھ اور لوگ بھی تھے کہ جن کے گروپ کا کمانڈر شہید صالِحی اور اُن کی بٹالین کا کمانڈر محمد نوری نژاد تھا۔ ان کی شہادت کی رات بہت ہی عجیب و غریب رات تھی۔ ہم نے بہت سے ساتھیوں کو حنوط کیا، یعنی سجدے کی سات جگہوں پر کافور لگایا اور بہت سے دوستوں کو میں نے کافور لگایا۔ اس کے بعد جو چیز میرے ذہن میں رہ گئی وہ یہ تھی کہ شہداء کے گھر والے کس طرح ان شہداء کی عظمت کو بھلا پائیں گے؟

 

آپ کا مطلب اُن سے بچھڑ جانے کا غم اور اُن کے فرزندوں کی شہادت ہے؟

غم تو نہیں، وہ عظمت و بڑائی جو ساتھیوں کی شہادت میں تھی۔ سید حسن کریمیان کی والدہ نے کیسے برداشت کیا؟ یا محسن فیض کے ماں باپ؟ ہم تو اُن کے دوست تھے جبکہ ہمارا دل پھٹا جا رہا تھا، اُن کے والدین نے کس طرح برداشت کیا؟ یا محترمہ بلورچی نے کس طرح برداشت کیا؟ اس خاتون کے گھر والے خدا مغفرت کرے، بہایی تھے اور یہ ۱۵۔ ۱۶ سالوں سے ایک مالدار اور  ثروتمند گھرانے سے دور  تھی۔ انھوں نے توبہ کرکے شیعہ مذہب اختیار کیا اور جناب حسین بلورچی سے شادی کرلی۔ اس شادی کا ثمر ایک بیٹی اور بیٹا تھے۔  علی جب تین سال کا ہوا تو اُس کے والد خدا سے جاملے۔ اس ماں کا اپنے شوہر کے گھر والوں سے کوئی خاص رابطہ نہیں  تھا۔بہت کوششوں اور اتنی زحمتیں اٹھانے کے بعد اس نے دو بچوں کو پروان چڑھایا  اور علی ۱۹ سال کی نوجوانی میں شہید ہوجاتا ہے۔ 

 

جب علی بلورچی کی شہادت کی خبر آئی  تو کس نے اُس کی ماں کو بتایا؟

میں اور محمد تقدیری گئے۔ علی کی والدہ  کرج میں رہتی تھیں۔ علی وہاں سے مفید اسکول میں پڑھنے آتا تھا۔ کبھی  وہ تہران میں اپنی بہن کے گھر رُک جاتا۔ لہذا دوستوں کو اُس کی بہن کا گھر معلوم  تھا۔ میں اور محمد تقدیری  نے جاکر اُس کی بہن کو بتایا کہ علی شہید ہوگیا ہے اور اُس رات مفید اسکول میں ایک بہت ہی خاص پروگرام منعقد ہوا۔ ہم جاکر دوستوں کے جنازے لے آئے تھے اور ہم نے ہائی اسکول میں قرآن خوانی کروائی۔ اُس رات صبح تک دوستوں کے ساتھ رہے اور صبح اُن کی تشییع جنازہ ہوئی۔

 

ایک دوسرے کے برابر میں دفن ہیں؟

جی،  بہشت زہرا کے چالیسویں حصے میں، یہ چند لوگ ایک دوسرے کے برابر میں دفن ہیں۔ علی بلورچی، محسن فیض، سید حسن کریمیان، منصور کاظمی، کامیار قدس، علی رضا ربیعی اور تھوڑےسے فاصلہ پر عباس یزادنی ہے کہ یہ سب مفید ہائی اسکول کے لڑکے ہیں جو ایک آپریشن میں ایک ساتھ شہید ہوئے۔ ان کے گروپ کا کمانڈر حمید صالِحی تھا۔ حمید کا جنازہ ایک ہفتہ دیر سے آیا۔ سب کو اُسی رات پتہ چل گیا تھا کہ حمید شہید ہوگیا ہے۔ میں نے حمید کو حنوط کیا۔ اُس کے سر پر بہت چوٹیں لگی تھیں لیکن اُس کا بدن سالم تھا۔ میری اور حمید کی یادوں میں ہمیشہ ہنسی مذاق ہوتا، چونکہ اُس کے ساتھ کوئی خاص واقعہ پیش آتا۔ حمید کی بہن کا ایک بیٹا تھا جس کا نام سعید امیری مقدم تھا جو سید تھا۔ وہ حمید سے ایک سال چھوٹا تھا۔ حمید کی تشییع جنازہ کے وقت، اچانک پتہ چلا کہ جنازہ نہیں ہے۔ جتنا ڈھونڈا لیکن نہیں ملا۔ ہم بھی کھڑے ہوئے تھے۔ احمد عباسی نے کہا: "اُس کے جسم اطہر کو بھی کنگالی کھا گئی۔" سعید بھی کھڑا ہوا تھا اور حمید اُس کا ماموں تھا۔ ہنس نہیں سکتے تھے، چونکہ بہت ہی سخت ایام تھے۔ اب ہم نے خود کو کسی طرح سنبھال لیا لیکن سعید کی ہنسی چھٹ گئی۔ بہرحال دو دن بعد اُس کا جنازہ مل گیا اور تشییع ہوگئی اور اسی وجہ سے دوستوں کے درمیان فاصلہ آگیا۔حمید کسی اور حصے میں دفن ہوا؛ دعائے ندبہ پڑھنے والے ہال کے نزدیک دفن ہوا۔ بہت ہی سخت دن تھا، خاص طور سے سعید کیلئے۔ ذرا سوچو سعید قبر میں اترا اور میں نے حنوط شدہ بدن کو قبر میں اُتارا۔ سعید نے سب سے کہا: "یہ برابر والی میری قبر ہے!" بالکل ایک سال بعد وہ دوسرے بیت المقدس آپریشن میں شہیدا ہوا اور وہیں حمید کے برابر میں دفن ہوا۔

 

آپ لوگ ڈرتے نہیں تھے؟ میرے خیال سے آپ کے زمانے کے لوگوں نے موت کو آسان سمجھا ہوا تھا!

البتہ شہادت ہماری آرزو تھی۔ میں جنگ کے ایک منظر میں دیکھتا ہوں کہ ہم ۲۷ لوگ ہیں اور اُس طرف ٹینک ہی ٹینک ہیں اور ٹینکوں میں بہت سارے لوگ۔ ایسے میں ایک لڑکا ایک قیدی پکڑ لیتا ہے۔ ایک گولہ آکر مورچے پہ لگا  تمام عملہ فرار کر گیا۔ اُن میں سے ایک کو قیدی بنالیا تھا۔ کہا جا رہا تھا کہ سوڈانی ہے ، عراقی نہیں ہے۔ اُس کی شکل سے پتہ چل رہا تھا کہ بیس سال سے بڑا نہیں ہے لیکن اس کا قد دو میٹر سے زیادہ تھا، لیکن جس لڑکے نے اُسے قیدی بنایا تھا، وہ اپنی ٹوپی کے ساتھ بھی اُس کی ناف تک آرہا تھا۔ اسیر اس طرف آگیا تھا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو سر کے پیچھے رکھے ہوئے  ہمیں دیکھ رہا تھا۔ خود سے کہہ رہا تھا کہ یہاں تو کوئی نہیں ہے۔ میرے خیال سے ایک غوغا تھا اور موت سے نہ ڈرنا شاید ایک فن تھا۔ شاید اُس زمانے اور اُن حالات  نے ایسا  سکھا دیا تھا اور لوگ ان عجیب و غریب مناظر کو دیکھ رہے تھے۔ میں ہمیشہ قرآن کی یہ آیت تلاوت کرتا رہتا «رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَهَ لَنَا بِهِ...» (سوره بقره، آیه 286) یعنی خدایا مجھ سے کوئی بڑا امتحان نہ لے، لیکن بعض لوگ بہت ہی عجیب و غریب حالات  میں تھے اور جب وہ بیان کرتے ہیں تو میں حیرت زدہ رہ جاتا ہوں۔

اس اُمید کے ساتھ کہ ہمیں دوبارہ اپنی یادوں کی دنیا میں آنے کی فرصت فراہم کریں گے اور ہم انشاء اللہ دوبارہ آپ کو زحمت دیں گے۔

 

ملاقات کی اُمید کے ساتھ خدا حافظ۔


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4792



http://oral-history.ir/?page=post&id=6871