آیت اللہ کی یادداشتیں لکھنے کی سنت

حمید قزوینی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-01-16


آیت اللہ اکبر ہاشمی رفسنجانی ۸ جنوری ۲۰۱۷ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے اور اُن  کی سیاسی و اجتماعی سرگرمیوں کی فائل ۸۲ سال کی عمر میں بند ہوگئی۔ جناب ہاشمی، آپ گزشتہ چار دہائیوں میں ایران کے وہ نمایاں سیاستدان ہیں کہ جن کی اہم یادیں انٹرویو کی صورت میں شائع ہوچکی ہے اور اُسے بہت سے لوگوں نے پسند کیا ہے۔  یہ یادیں انقلاب اسلامی کی تاریخ اور اسلامی جمہوریہ ایران  کے نظام  کی وہ مستقل منابع اور اسناد ہیں کہ جو عام لوگوں کی دسترس میں ہے۔

پہلی دفعہ ۹۰ کی دہائی کے آغاز میں، "ہاشمی رفسنجانی، دوران مبارزہ" نامی کتاب کہ جس میں اُن کے انقلاب سے پہلے  کے سالوں میں اور نظام جمہوری اسلام کے آغاز میں دیئے گئے انٹرویوز ہیں، جو دو جلدوں میں شائع ہوئی کہ اُس کی دوسری جلد  اس دوران کی اسناد تھیں۔

اُس کے بعد ۹۰ دہائی کے وسط میں  اُن کی روزانہ لکھی جانے والی باتیں کچھ اخباروں میں حاشیہ کی صورت میں شائع ہوئیں اور  اس کے بعد آیت اللہ کی زندگی کے ہرسال کیلئے، کارنامہ و خاطرات ہاشمی رفسنجانی کے عنوان سے ایک کتاب لکھی گئی ہے۔

ہاشمی رفسنجانی جیسا کہ انھوں نے خود کئی بار کہا، انقلاب کی کامیابی کے اوائل میں انہیں محسوس ہوا کہ اہم موارد کے اندراج میں کوئی خاص نظم نہیں پایا جاتا، جیسا کہ مذاکرات کی اہم نشستوں کو لکھ کر محفوظ نہیں کیا جاتا۔ البتہ اُس زمانے میں کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ شاید انقلاب کی عمر اتنی زیادہ نہ ہواور وہ شکست سے دوچار ہوجائے اور سب گرفتار ہوجائیں،  بعض لوگ کہتے تھے جلسوں کی دستاویز نہ بناؤ، چونکہ وہ انقلاب کے مستحکم ہونے پر  مطمئن نہیں تھے۔ لیکن جناب ہاشمی نے یادداشت  لکھنے میں بہت سنجیدگی دکھائی اور  ۲۰ مارچ ۱۹۸۱ء والے دن سے روزانہ  ڈائری پر پڑی اُسی تاریخ والے صفحہ پر ذاتی معاملات اور ملک کے اندرونی اور بیرونی اہم حادثات کو یادداشت کی صورت میں لکھا ہے۔

آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی اپنی یادداشت لکھنے کی اہم ترین وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "مختلف ذمہ داریوں اور مصروفیات کے باوجود، چونکہ میں جانتا تھا  ایسے رجحانات اور وہ لوگ جو انقلاب سے میل نہیں کھاتے تھے، وہ اپنی نظر سے انقلاب کی تاریخ   بیان کریں گے، میں نے بہت زیادہ اہتمام کےساتھ یادداشتوں کو لکھ کر محفوظ کیا۔ انقلاب سے پہلے اور حتی اُس وقت جب جدوجہد اپنے عروج پر تھی یعنی زندان میں، یا سیاسی حالات کی وجہ سے جب میں روپوش تھا، میں ایسے موضوعات پر قلم اٹھاتا جسے معاشرے کیلئے ضروری سمجھتا تھا۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد مجھ پر جو بہت زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوئیں، اس وجہ سے کسی خاص موضوع پر توجہ نہیں دے سکتا تھا، لیکن ایسے رجحانات اور وہ افراد جو انقلاب کے ساتھ سازگار نہیں ہوسکے، انھوں نے اپنے نظریہ کے مطابق انقلاب کی تاریخ کو بیان کیا۔ ہم نے بھی  تاریخ تدوین کرنے کا ادارہ قائم کیا تاکہ اس اہم کام کو ادا کیا جائے۔  میں نے خود اس ادارے کے مسئولین کے ساتھ انقلاب کی گذشتہ تاریخ کے بارے میں انٹرویوز رکھے ، جو اسناد کے ساتھ دو جلدوں میں شائع ہوئے۔ مجھے معلوم ہے کہ میری زندگی میں اس طرح کی یادداشتوں کا شائع ہونا مؤلف اور کتاب میں مذکور بہت سے خاندانوں اور افراد کیلئے مشکل اور منفی آثار کا حامل ہے۔ لیکن میرے خیال سے اس کے مثبت اور  کارساز نتائج زیادہ ہوں گے۔"

شاید جناب ہاشمی کا اپنی یاد داشت شائع کرنے کا اہم ترین ہدف وہی انقلاب اور نظام کی مدد قرار دیا جا سکتا ہے کہ جس کے لئے انہوں نے اپنی تمام زندگی صرف کردی۔ درحقیقت جناب ہاشمی اپنی خود نمائی سے زیادہ اس چیز کی طرف زیادہ مائل تھے کہ نظام کی اعلیٰ سطح پر ہونے والے فیصلوں آشکار کریں اور مؤرخین و محققین کو اُن کی کیفیت سے آگاہ کریں۔

اس مجموعہ کی چھپنے والی کتابیں یہ ہیں: "انقلاب اور پیروزی" سن ۱۹۷۸ء اور ۱۹۷۹ء کی یادیں، "انقلاب در بحران" سن ۱۹۸۰ء کی یادیں، "عبور از بحران" سن ۱۹۸۱ء کی یادیں، "پس از بحران" سن ۱۹۸۲ء کی یادیں، "آرامش و چالش" سن ۱۹۸۳ء کی یادیں، "بہ سوی سرنوشت" سن ۱۹۸۴ء کی یادیں، "امید و دلواپسی" سن ۱۹۸۵ء کی یادیں، "اوج دفاع" ۱۹۸۶ء کی یادیں، "دفاع و سیاست" ۱۹۸۷ء کی یادیں، "پایان دفاع، آغاز باز سازی" ۱۹۸۸ء کی یادیں، "باز سازی و سا زندگی" ۱۹۸۹ء کی یادیں،  "اعتدال و پیروزی" ۱۹۹۰ء کی یادیں، "سازندگی و شکوفایی" سن ۱۹۹۱ء کی یادیں، "رونق سا زندگی" ۱۹۹۲ء کی یادیں، "صلابت سازندگی" ۱۹۹۳ء کی یادیں۔ ان کتابوں میں سے، سن ۷۸ء، ۷۹ء اور ۸۰ء سے مربوط کتابیں بعد میں لکھی گئیں، لیکن بعد والے سالوں کی یادیں روزانہ کی صورت میں لکھی گئی ہیں۔

جناب ہاشمی کی یادداشت کی کیا اہمیت ہے؟

ہاشمی رفسنجانی ۱۹۵۰ ء کی دہائی میں امام خمینی (رہ) سے وابستہ ہوگئے اور علماء کی تحریک کے آغاز سے  اُس کی قیادت کے ساتھ رہے۔ انھوں نے نظام جمہوری اسلامی ایران کے قیام کے مرحلے میں بھی اہم کردار ادا کیا  اور ہمیشہ اس نظام کے اراکین میں سے رہے۔ اسی وجہ سے اُن سے نقل ہونی والی بات اہمیت کی حامل ہے۔

ہاشمی رفسنجانی کی یاد داشت دوسرے پہلو سے بھی فکر کرنے کے قابل ہیں اور وہ یہ کہ راوی نے روزانہ اور اپنی زندگی میں وظائف کی ادائیگی کے دوران انہیں لکھا ہے۔ کیونکہ مورد اطمینان ہونے کے لحاط سے، وہ یادداشتیں جو روزانہ لکھی جائیں، اُن کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ کیونکہ واقعات کو بیان کرتے ہوئے بھولنے اور لاپرواہی کی مشکل پیش نہیں آتی۔

ان یاد داشتوں کی ایک اور خصوصیت، اُن کا خبری ہونا ہے۔ انھوں نے اپنی تحریر کے دوران قضاوت اور تجزیہ سے بہت کم استفادہ کیا ہے۔ جناب ہاشمی کی تحریر کا طریقہ کار نوٹس لکھنے کی طرح ہے اور تصور کیا جاسکتا ہے کہ اصلی یاد داشتیں  اور بھی مختصر تھیں۔  انھوں نے صرف حادثات  کے عناوین کو محفوظ کیا ہے اور عبارت مکمل کرنے کیلئے طولانی جملے نہیں لکھے۔

اپنوں اور غیروں کا ردّ عمل

آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کی یاد داشتوں اور ہاتھ سے لکھی تحریروں کا شائع ہونا، اُن کے انقلاب کے تاثیر گذار مواقعوں اور حساس عہدوں پر  بے سابقہ اور مؤثر  حضور کی وجہ سے کوئی غیر معمولی اور غیر متوقع کام نہیں ہے۔  لیکن ان یاد داشتوں  کے شائع ہونے کو ہمیشہ سے مختلف ردّ عمل اور اعتراضات کا سامنا رہا اور تعریف اور تحسین کے ساتھ ساتھ اس پر تنقید اور سوالات بھی ہوئے ہیں کہ عام طور سے جناب ہاشمی نے یا تو بالواسطہ اُن کے جواب دیئے، یا خاموشی اختیار کرکے انہیں رہا کردیا۔ شاید اسی طرح کی حساسیت کو کم کرنے کیلئے انھوں نے ان کتابوں میں سے سن ۱۹۸۱ء اور ۱۹۸۲ء کی یاد داشت کو شائع ہونے سے پہلے رہبر معظم انقلاب کو دیا تاکہ وہ بھی پڑھ لیں۔

بہرحال تاریخ اپنی ذات میں ایک مشکل میدان ہے اور ہاشمی رفسنجانی کی یاد داشت کو مختلف نقطہ نظر  سے روبرو ہونا کوئی عجیب نہیں اور اُن کی تالیفات میں مطالعہ کرنے والے مختلف مطالب موجود تھے اور ہیں۔  لیکن توجہ کرنی چاہیے کہ ایران میں سیاسی یاد داشت نگاری کی عادت  بہت کم رہی ہے اور یہ یاد داشت وہ واحد مجموعہ ہے جو حالیہ دور کے اس عظیم مرد کی حیات میں شائع ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے جناب ہاشمی کو سیاست کے میدان میں ایک شجاع ترین چہرہ سمجھنا چاہیے کہ جنہوں نے اپنی یادداشت شائع کرکے اُنہیں قضاوت کے کٹھرے میں قرار دیا۔ حتی اُن کے ذرائع ابلاغ، ادارہ جات اور محققین کے  ساتھ ہونے والے انٹرویو یا تو شائع ہوچکے ہیں یا مستقبل میں شائع ہوں گے اور اس لحاظ سے انھوں نے ریکارڈ قائم کیا ہے۔ شاید آنے والے وقتوں میں دوسرے بھی اُن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس طریقہ کار کو اپنالیں۔ 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4376



http://oral-history.ir/?page=post&id=6806