حوزہ ہنری کے فداکاروں سے گفتگو ۔۔۔ تیسرا حصہ

دولت خواہ: کربلائے( ۱) میرا پہلا اور آخری آپریشن تھا

سارا رشادی زادہ
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2016-12-16


فرق علی دولت خواہ ایران پر تھونپی گئی عراقی جنگ کے جانثاروں میں سے ہیں جو پہلے ہی آپریشن میں زخمی ہوجاتے ہیں اور اُن دنوں کے واقعات آج بھی اُن کے ذہن میں تازہ ہیں۔ ایرانی اورل ہسٹری سائٹ نے دفاع مقدس کے اس جانثار سے انٹرویولیا ہے۔

 

آپ کس طرح محاذ جنگ کی طرف روانہ ہوئے؟

میں فرق علی دولت خواہ، ۲۲ اپریل سن ۱۹۶۷ء والے دن اردبیل کے ایک گاؤں  میں پیدا ہوا۔ ۸ جون ۱۹۸۶ء کا دن تھا جب میں سپاہ پاسداران کے فوجی کے عنوان سے جنگی محاذ پر گیا۔ میں نے اپنی نوجوانی کے ایام بسیجی فورس میں گزارے تھے اس لئے میں نے ٹریننگ نہیں کی اور ڈائریکٹ مہران کے محاذ پر چلا گیا۔

 

آپ نے کسی آپریشن میں بھی شرکت کی؟

جی ہاں،  تقریباً ایک مہینے بعد مہران آزاد کرانے کیلئے کربلائے (۱) آپریشن شروع ہوا اور مجھے بھی اُس میں شرکت کرنا تھی۔ مہران میں مجھے  ۷۲ حُر بریگیڈ میں بھیجا گیا۔ لیکن آپریشن کی پہلی ہی رات تھی کہ  شیلوں کی بارش شروع ہوگئی اور میں سمجھ نہیں سکا کہ کیا ہوا ہے، جب میں نے آنکھیں کھولیں تو خود کو ہسپتال میں پایا۔

 

کیا آپ زخمی ہوگئے تھے؟

اُس رات، شیلوں کی بارش  کے وقت میں سکتے میں آگیا  اور اس بات کا مجھے اس وقت پتہ چلا جب مجھے ہسپتال میں ہوش آیا، میں شدید چکر آ نے اور غصے کی حالت میں ہونے سے سمجھا کہ میرے اعصاب اور دماغ پر چوٹ لگی ہے۔

 

اُس کے بعد کیا ہوا، آپ دوبارہ محاذ پر گئے یا آپ کو واپس بھیج دیا گیا؟

مجھے دوسرے زخمیوں کے ساتھ کرمانشاہ (اُس زمانے  میں جسے باختران کہا جاتا تھا) لے گئے تاکہ ہوائی جہاز کے ذریعے تہران پہنچایا جائے۔ وہاں پر کہا گیا کہ پہلے اُن زخمیوں کو منتقل کیا جائے گا جن کے اعضاء زخمی ہوئے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ میری حالت اتنی خراب نہیں ہے تو میں رُک جاتا ہوں ، پھر میں وہیں سے مہران واپس  آگیا ، اُسے کے بعد سرپل ذھاب چلا گیا۔

 

کیا آپ اس حادثے کے بعد بھی کسی آپریشن میں شرکت کرسکے؟

نہیں،اس کے بعد میں نے کسی آپریشن میں شرکت نہیں کی، بلکہ واچ مین بن گیا اور عراقی علاقے خانقین کے بالکل سامنے واچ مین کی ڈیوٹی انجام دینے لگا۔ اس کے بعد بھی سکتے کی وجہ سے، دوسرا آپریشن شروع ہونے سے پہلے مجھے تہران بھیج دیا گیا اور پھر میں دوبارہ محاذ پر نہیں گیا۔

 

آپ کو اُن دنوں کا کوئی خاص واقعہ یاد ہے؟

میں جنگی محاذ پر بہت ہی تھوڑا عرصہ رہا۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ ایک رات جب میری ڈیوٹی دینے کی باری تھی، ہماری فورسز نے وائرلیس کے ذریعے بتایا کہ کوملوں نے حملہ کردیا ہے۔ کمانڈر نے مجھے رُکنے کا حکم دیا، لیکن میں نے بات نہیں مانی اور مددگار کے طور دوسروں کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ میں نے وہاں دیکھا کہ کوملہ گروپ  ہمارے فوجیوں پر شیل برسا رہے ہیں اور ایک فوجی کو اسیربناکر بھی لے گئے ہیں۔ ہم نے اُن کے پیچھے جانے کا بہت اصرار کیا لیکن ہمارے کمانڈر نے نہیں مانا اور اگلے دن صبح، ہمیں تلاش و جستجو کرتے وقت اُس اسیر کے جو شہید ہوگیا تھا ٹکڑے ٹکڑے نظر آئے۔ 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3376



http://oral-history.ir/?page=post&id=6751