بغاوت ناکام بنانے میں ولی عصر (عج) چھاؤنی کا کردار

سید مہدی حسینی
مترجم: سید مبارک حسین زیدی

2016-08-11


۴ نومبر ۱۹۷۹ء کو امریکی جاسوسی اڈے کی فتح اور اپریل ۱۹۸۰ء میں واقعہ طبس کے فاش ہونے کے بعد، پہلوی حکومت سے وابستہ افراد نے سازشی منصوبوں کے تحت ایک پلان بنایا جو نوژہ بغاوت کے نام سے مشہور ہوا۔

باغی چاہتے تھے کہ  ۱۰ جولائی ۱۹۸۰ء  کو اپنے سازشی اہداف کو عملی جامہ پہنائیں۔ انھوں نے اپنے منصوبہ کا نام "نقاب" رکھا تھا جو نجات قیام ایران بزرگ کا مخفف تھا۔

اس معاملے میں جنرل اویسی اور پہلوی حکومت کے آخری وزیر اعظم  شاپور بختیار کے کچھ احباب مل بیٹھے؛ وہ چند بڑے افسروں اور پائلٹوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ جن میں سے اکثریت کو اصل بات کا علم ہی نہیں تھا۔ اس گروہ نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف بغاوت کے لئے چند اہداف کو مدنظر رکھا ہوا تھا۔ اُن کا ایک ہدف یہ تھا کہ فریب خوردہ پائلٹوں کے ذریعے تہران کے کچھ علاقوں پر بمباری کریں؛ اُن علاقوں کے نام یہ تھے: جماران  میں امام خمینی ؒ کا گھر، مہر آباد ایئرپورٹ،  وزارت عظمیٰ،  سپاہ پاسدران انقلاب اسلامی کا ہیڈ کوارٹر، بھارستان چوک پر کمیتہ انقلاب اسلامی کا ہیڈ کوارٹر، ولی عصر (عج) چھاؤنی، امام حسینؑ چھاؤنی، خلیج (شہید بہشتی) چھاؤنی، نویں اور چوتھے  منطقہ میں کمیتہ کے دفاتر، سعد آباد اور لویزان محل۔

گرفتار ہونے والے افراد جیسے جنرل محققی کے بقول، امامؒ کا گھر سب سے پہلا اور اہم ترین ہدف تھا جسے اُڑانا تھا۔

باغیوں کا ارادہ تھا کہ اپنے کام کو ہمدان کی تیسری فضائی چھاؤنی سے شروع کریں؛ انقلاب کے بعد اس چھاؤنی کا نام شہید محمد نوژہ رکھ دیا گیا۔ باغیوں کا ہر ہدف خاص اہمیت کا حامل تھا مثلاً ہر کام کو اصلی کام کے لحاظ سے دیکھ رہے تھے۔ لیکن یہاں  پر ولی عصر (عج) چھاؤنی چند زاویوں سے قابل غور ہے ، جن کے بعض نکات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔

۱۔ سپاہ پاسداران کی کاروائیوں کا مرکز تھا جن میں ہر کوئی ماہر، مجاہد، انقلابی، مسلحانہ جنگ میں کام آنے، اس طرح کے افراد یہاں سکونت پذیر تھے اور ہر طرح کی مسلحانہ جدوجہد کا سامنا کر چکے تھے۔

۲۔ چھاؤنی بالکل تہران کے مرکز میں واقع تھی اور بہارستان میں عوام اور کمیتہ انقلاب اسلامی کے ہیڈ کوارٹر  کے درمیان پل کا کام انجام دے رہی تھی۔ اس چھاؤنی سے تہران کے تمام حساس علاقوں کی طرف راستے نکلتے تھے۔ جنوبی طرف سے بہارستان اور خراسان چوک،  مشرقی طرف سے امام حسین ؑ چوک اور شاہراہ دماوند، مغربی طرف سے انقلاب چوک اور تہران یونیورسٹی اور شمال کی طرف شاہراہ شریعتی، خلیج چھاؤنی اور سپاہ کے ہیڈ کوارٹر سے متصل ہوتی۔

۳۔  ایک پائلٹ نے اپنی ماں سے مشورے کے بعد بیان دیا: "میری ماں بہت ناراض ہوئی اور کہا تمہیں اس کام میں شرکت نہیں کرنی چاہیے بلکہ جاکر اطلاع کرو اور یہ کام نہ ہونے دو؛ اگر اطلاع نہیں دو گے تو دودھ نہیں بخشوں گی اور تم سے راضی بھی نہیں ہوں گی۔" اس پائلٹ نے فیصلہ کرلیا کہ دفاعی سپریم کونسل میں امام کے نمائندہ (آیت اللہ خامنہ ای ) کو اس منصوبے سے آگاہ کرے۔ اُس نے اُس زمانے میں آیت اللہ خامنہ ای سے رابطے کیلئے کئی جگہ فون کئے لیکن رابطہ نہ ہوسکا؛ پھر اس نے ولی عصر (عج) چھاؤنی میں رابطہ کیا، اس چھاؤنی کے پاسدار اُسے خیابان ایران پر واقع آیت اللہ خامنہ ای کے گھر لے گئے۔ اُس نے صبح کی نماز کے بعد تمام باتیں امام کے نمائندے کے گوش گزار کردیں اور اس طرح بغاوت ناکام ہوگئی۔

۴۔ ولی عصر (عج) چھاؤنی کا بغاوت ناکام بنانے میں اہم کردار تھا اور باغیوں کو گرفتار کرنے کے معاملے میں بہت سے نکات ہیں۔ اس چھاؤنی کے سپاہیوں نے آپریشن میں شامل ہوکر تہران کے حساس علاقوں کی شناخت  کے بعد اُن کی گرفتاری کا شجاعانہ اقدام کیا۔ 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 5000



http://oral-history.ir/?page=post&id=6512