راہیان نور کے پہلے روایت گر"خادم الشہدائے فکہ "سے گفتگو

واقعات سن کر سامعین کیسے متاثر ہوتے ہیں

گفتگو و تنظیم: علی تکلو
ترجمہ: سید محمد روح اللہ

2016-06-08


مسلط کردہ جنگ جن علاقوں میں لڑی گئی، لوگ وہاں زیارت اور شہداء کی یاد منانے جاتے ہیں ان کاروانوں  کو راہیان نور کے نام سے جانا جاتا ہے، جہاں روایت گر افراد اس دور کے واقعات سے لوگوں کے دلوں میں وہی تصاویر پیش کرتے ہیں کہ جب ظلم و بربریت کے نشے میں چور عراقی حکمران نے امریکہ اور دیگر  طاقتوں کی مدد سے اسلامی جمہوریہ ایران پر حملہ کیا تھا۔ لیکن خداوند متعال کے فضل سے وہ معجزات دیکھنے کو ملے کہ جن کوسننے کے بعد انسان کا دل نورانیت سے لبریز ہوجاتا ہے۔

انہی روایت گروں میں ایک مہدی رمضانی صاحب ہیں کہ جو عرصہ دراز سے اسی ذمہ داری کو نبھا رہے ہیں۔ ذیل میں تاریخ شفاہی ایران کے نمائندوں کا ان سے لیا گیا انٹرویو ہے، جس میں وہ اپنے تجربات کو بیان کررہے ہیں۔

 

سوال: اپنے بارے میں بتائیں؟ آپکی پیدائش، تعلیمی زندگی، آپکا سابقہ پیشہ اور کب اس موجودہ ذمہ داری کو اٹھایا ، یہ سب باتیں مختصرا بیان کریں تاکہ اصلی موضوع پر بات کی جا سکے؟

رمضانی: میرا نام مہدی رمضانی ہے، امام حسین کیڈٹ یونیورسٹی کی علمی انجمن رکن ہوں نیز آزاد یونیورسٹی میں بھی استاد کے فرائض انجام دے رہا ہوں۔ تحقیقاتی کام زیادہ ہے، تقریبا ۴۸ تحقیقی مقالے لکھ چکا ہوں۔ اور تا حال میری ۵ کتابیں نشر ہوچکی ہیں۔ جس میں مشہور ترین "راز کانال کمیل" ہے، یہ کتاب ان ۵ دنوں کے بارے میں ہیں کہ جب جوانوں نے کمیل نامی ندی اور فکہ کے مقامات پر مجاہدت کی تاریخ رقم کی۔ اس بارے میں ابھی تک کسی نے نہیں لکھا تھا نہ ہی کوئی گفتگو اس بارے میں کی گئی۔۔ عراقیوں نے اسی ندی  میں انہیں دفن کردیا لیکن انکے حماسی اور جہادی پہلو کو دفن نہیں کرسکے۔  تقریبا ۱۹۸۱ ء میں محاذ پر آیا تھا اور خدا وند متعال کی عنایت سے جنگ کے اختتام تک موجود رہا۔ اس کے بعد یونیورسٹی میں   تدریس کے پیشے  سے وابستہ ہوا اور تا حال اسی ذمہ داری کو نبھا رہا ہوں۔

 

سوال: کیا وجہ بنی کہ آپ نے راہیان نور کے ادارے سے وابستگی کا فیصلہ کیا تاکہ جنگ کے واقعات و یادوں کو بیان کریں ؟

رمضانی: میرا سارا وقت  تحقیقی کام  اور درس و تدریس میں لگا ہوا تھا۔ لیکن ایک اتفاق پیش آیا کہ جس کی وجہ سے میں اس ادارے سے وابستہ ہوا اور اسکام پر فخر کرتا ہوں، جس طرح رہبر معظم نے بھی فرمایا  ہے کہ "شہداء کی یاد  اور واقعات کو تازہ کرنا ، شہادت سے کم نہیں" تقریبا  ۹۴ء یا ۹۵ ء کی بات ہے کہ  شہداء کے کچھ خاندانوں کو ہم جنگی علاقوں کی طرف لے کر گئے۔  مجھ سے کہا گیا کہ کیونکہ آپ ان علاقوں کو اچھی طرح جانتے ہیں لہذا اپ انہیں لے جائیں اور بیان کریں۔  میں ان علاقوں کو اپنے وجود سے زیادہ بہتر پہچانتا تھا۔ ایسے خاندان ساتھ تھے کہ جن کے جوان یہیں رہ گئے تھے، انکے بچے بچیاں آج یہاں آئے تھے، انکی بیوائیں آج یہاں آئی تھیں انکے ماں باپ۔  میں نے بھی اس کام کی حامی بھری اور آگیا۔ بہت سخت منظر تھا۔ جب شہداء کے بچے ان مقامات پر آئے تو بہت حیرت سے اس زمین کو دیکھ رہے تھے۔ بہت حیران و پریشان تھے۔  میں نے جب بولنا شروع کیا تو ایک عجیب فضا وجود میں آچکی تھی۔ یہاں سے جوان آئے تھے، اس علاقے میں یہ یہ آپریشن ہوئے تھے، عراقیوں نے یہاں سے گولیاں برسائی تھیں اور قتل عام کیا تھا۔ بعض بچے کہنے لگے کہ ہمیں بتائیں کہ ہمارا والد کیسے اور کہاں شہید ہوئے تھے ۔ میں سو فیصد تو نہیں بتا سکتا تھا کہ ہر فرد کہاں شہید ہوا تھا ، کچھ سرسری یادیں تھیں جو بیان کی جاسکتی تھیں۔ جب میں نے انکو وہاں کے واقعات بیان کرنا شروع کیے تو ان پر بہت زیادہ اثر ہوااور انہوں نے بہت جوش و ولولہ کا اظہار کیا۔ اسی وقت میں نے ارادہ کیا اور کہا کہ"بار الہا، شاید یہ ایک حکمت تھی کہ جنگ کے اتنے عرصے بعد تک میں زندہ رہوں، شاید یہی وجہ تھی کہ میں ان جہادی اور حماسی واقعات اور داستانوں کو آئندہ نسل تک منتقل کرسکوں"

اسی وقت ارادہ کیا کہ اس کام کو مسلسل  انجام دوںگا ۔ اسی وقت اپنا نام میں نے "خادم الشہدائے فکہ" رکھا، یعنی جہاں بھی  جاتا تو خود کو ایک استاد ، محقق و مدرس کے عنوان سے پہچنوانے کے بجائے کہتا کہ  میں "خادم الشہدائے فکہ" مہدی رمضانی ہوں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ شہداء کے واقعات آپ کو سنا سکوں۔

 

سوال: مختلف زرائع  سے یہ واقعات اور داستانیں منتقل کی جاسکتی ہیں۔ کیا براہ راست  واقعات سنانا مشکل نہیں ؟

رمضانی: اسکا مشکل ہونا اس بات سے مربوط ہے  کہ انسان اس فضا میں چلا جاتا ہے یا نہیں۔ میری اپنی کوشش ہوتی ہے کہ کہیں ان حالات کے تصورات میں داخل نہ ہو جاوں ، سادہ الفاظ میں واقعات بیان کرتا جاتا ہوں اور گذر جاتا ہوں۔ لیکن کبھی غیر ارادی طور پر ذہن ان مقامات کی جانب چلا جاتا ہے۔  کیونکہ خود ہم وہاں موجود تھے، جب وہ حالات بیان کررہےہوتے ہیں تو  وہ  واقعات ایک فلم کی طرح سامنے چل رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت کا احساس ہونے لگتا ہے۔ مثلا جیسے ہی کہا کہ اس کو گولی لگی تو وہ منظر سامنے آجاتا ہے وہی دن وہی حالات سامنے آجاتے ہیں۔ اس وقت بیان کرنا سخت ہوجاتا ہے۔ لیکن میں عرصہ دراز سے اس کام میں مشغول ہوں کافی حد تک خود کو کنٹرول کرلیتا ہوں تاکہ یہ کام آگے بڑھ سکے۔ جس نے سارے کے سارے مناظر دیکھے ہوں محال ہے کہ وہ آسانی سے بیان کرسکے، یہ کام بہت سخت ہے۔

 

سوال: خصوصا جب اس فضا میں خود کو محسوس کیا جائے تو زیادہ تاثیر گذار ہوتا ہے؟

رمضانی: وہ فضا بہت حیرت انگیز ہے، کیونکہ اگر کوئی کسی ایکسڈنٹ کیس کو بیان کرنا چاہتا ہے یا مثلا کسی لڑائی کو تو ٹھیک ہے کہ وہاں بھی مثال کے طور پر دو افراد مرے ہیں لیکن یہ فضا ان داستانوں سے مختلف ہے، مقدس دفاع وہ مقام ہے جہاں جوان ایک دوسرے سے قربانی و ایثار میں جیتنا چاہتے تھے کہ پہلے کون قربان ہوتا ہے۔ بہت ساری باتیں بتائی نہیں جاسکتیں کیوں ایک تو ان باتوں کا قبول کرنا سخت ہے دوسرا یہ کہ بعض اوقات وہ باتیں ہماری عقل سے ماورا ہوتی ہیں۔ لہذا اپنے سینے میں رکھنی پڑتی ہیں یا کوئی خاص فرد ہو۔ کیونکہ جب آپ ایک ایسے جواn کو جو ابھی ۲۰ سال کا ہے جس  نےوہ مناظر نہیں دیکھے اسکو یہ واقعات سناتے ہیں کہ ایک ۱۷ سالہ جوان نے فلاں فلاں کام انجام دئیے، یہ کارنامہ کیا وہ کیا۔۔۔ وہ اس بات کو قبول نہیں کر پاتا۔ لہذا ہم مجبور ہوتے ہیں کہ اس بات کا خیال رکھیں اور بعض باتیں اپنے سینوں میں دبائے رکھیں۔ اور یہ بات مزید اس  کام کو سخت کردیتی ہے۔

 

سوال: جیسا کہ آپ نے کہا کہ بعض افراد کو کچھ واقعات بتاتے ہیں، بعض کو نہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا اس کام میں مختلف عمر کے افراد کے درمیان فرق ہوتا ہے کہ کس کو کیا بتانا ہے کس طرح بتانا ہے ؟

رمضانی: بالکل، سو فیصد فرق ہوتا ہے۔ شاید میرا یک ہنر یہی ہے جو خداوند متعال نے مجھے دیا کہ مخاطب شناس ہوں۔ یعنی جہاں بھی جاتا ہوں کوشش ہوتی ہے کہ میرے سامعین جن شہداء سے واقف ہیں انہیں انکے بارے میں  معلومات دوں۔ حتی اگر کوئی مسجد میں بھی مجھے بلائے، کیونکہ میں خود کو خادم الشہداء سمجھتا ہوں تو کبھی بھی کسی کی دعوت کا انکار نہیں کرتا۔  مسجد میں مختلف لوگ ہوتے ہیں، بچے بوڑھے، شہداء کے خاندان والے، یونیورسٹی کے طالب علم اسی طرح اسکول کے بچے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ تقریر سے قبل کچھ سامعین  کی اقسام سے متعلق اعداد و شمار جمع کرلوں پھر تقریر شروع کروں۔

افراد مختلف ہوتے ہیں، خصوصا جوانوں  میں بھی فرق ہوتا ہے ۔ یونیورسٹی کے طالب علموں میں اور اسکول کے طالب علموں میں فرق ہے۔ جیسے گذشتہ ہفتہ میں ملک کے کچھ بہترین طالب علموں کے ساتھ ان جنگ سے متاثرہ علاقوں کی جانب گیا۔ میں انکو بغیر مقدمہ کے نہیں بتاسکتا تھا، پہلے یہ بتانا تھا کہ ہم یہاں آئے کیوں تھے کیونکہ وہ ہر چیز میں عقلی دلیل مانگتے تھے۔ صحیح ہے کہ یہاں ایثار و قربانی کی تاریخ رقم ہوئی لیکن کیا یہ تاریخ عشق و عقل کی بنیاد پر تھی یاکسی کے ذاتی مفادات۔ تقریبا آدھا پونہ گھنٹا میں نے انکے سامنے وضاحتیں پیش کیں۔ اس کے بعد میں حسن زمانی کا قصہ سناسکتا تھا کہ جو کام  اس نے گھیراو اور حصار توڑنے کے لئے کیا۔اس وقت یہ جوان اپنے دلوں کی آواز کو سن سکتے تھے۔ لیکن میں اگر بغیر مقدمہ کے ہی شروع ہو جاوں کہ حسن زمانی نے ایک   فدائی لشکر ترتیب دیا  اور انکو حکم دیا کہ جاو اور عراقیوں سے لڑجاو سارے مر  بھی جاو مسئلہ نہیں، دوسری طرف ہم ندی پر پل بنانے میں لگ جائیں گے ۔ اگریہ باتیں بغیر مقدمہ کے بتائی جائیں تو یہ جوان کہیں گے کہ یہ پوری جنگ ہی پاگل پن اور دیوانگی کا منظر پیش کررہی ہے۔ لیکن جب اسکام کی منطق اور ہدف و مقصد انکے ذہن میں ہوگا تو اس وقت حسن زمانی انکے لئے ایک نمونہ اور اسوہ عمل ہوگا۔  یہ باتیں اسکول کے بچوں کے لئے بیان نہیں کی جائینگی بلکہ سرسری طور پر  ہدف و مقصد کو بیان کرکے بعض واقعات کی جانب انکی توجہ مبذول کی جائے گی۔ اگر عام لوگ ہوں تو ضرورت نہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ یہاں کیوں آئے تھے کیا ہدف و مقصد تھا  کیونکہ عموما لوگ جانتے ہیں بعض نے دیکھا ہوا ہے بعض نے اس کا احساس کیا ہےلوگ اس بات کو قبول کرتے ہیں لہذا ضرورت نہیں کہ انکو پورا واقعہ بتایا جائے۔  بلکہ وہ یہ سننا چاہتے ہیں کہ ان کے جوانوں نےکیا کیاکارنامہ انجام دیا۔ کس طرح لڑے، کیسے شہید ہوئے۔ پس مختلف طرح کے لوگ مختلف مزاج کے حامل ہوتے ہیں اور روایت گر کو اسکی تشخیص دینا ضروری ہے۔

ایک شہید کے جس کے بارے میں، میں جوانوں کو زیادہ بتاتا ہوں "ابراہیم ہادی" ہیں، کہ ابھی جوان لڑکے اسکے بہت عاشق ہیں اسکے بارے میں سننا چاہتے ہیں۔ اسکی دلیل کیا ہے ؟ سارے شہداء کا مقام یقینا بہت بلند ہے کہ ہم جیسے افراد انکے بارے میں کچھ کہیں، لیکن شہید ابراہیم ہادی جس منطق و  علمی دلائل  کی وجہ سے اپنے کام  انجام دیا کرتا تھا یہ چیز جوانوں پر بہت اثر کرتی ہے۔ جوانوں کو پہلی مرتبہ ہی اپنے حصار میں لے لیتی ہے اور وہ باتوں کو قبول کرنے لگتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ بہت سے واقعات جو بیان کیے جاتے ہیں جوان اسکو قبول نہیں کرتے  وجہ یہی ہے کہ پہلے ہم ان کے ذہنوں کو قانع نہیں کرتے چاہتے ہیں بغیر مقدمہ انکے دلوں میں جگہ بنالی جائے۔ اس طرح ہمارے جوان کبھی کچھ قبول نہیں کریں گے۔

 

سوال: جن گروہوں کو آپ واقعات سناتے ہیں کیا کبھی ایسا  ہوا کہ ان گروہوں میں مجاہدین بھی موجود ہوں جو اس وقت جنگ میں موجود تھے ؟ اور کیا ایسے افراد کے لئے جنگ کے واقعات کو بیان کرنا کوئی  آسان کام ہے ؟

رمضانی: ہاں کیوں نہیں، کئی بار اتفاق ہوا ۔ بہت سخت ہے کوئی آسان کام نہیں۔ لیکن نہیں معلوم کیا مصلحت ہے میں اس کو اللہ تعالی کی جانب سے ایک خاص توفیق و عنایت سمجھتا ہوں، آپ یقین نہیں کریں گے۔ مثال کے طور پر  ایک بار طے پایا کہ مجاہدین اسلام کے ساتھ ایک پروگرام ترتیب دیا جائے جو خود اس جنگ میں موجود تھے اور اپنی جانوں کو فدا کرنے کے لئے آمادہ تھے۔ جب میں انکے سامنے آیا تو خود سے مخاطب ہوا کہ انکو کیا بتاوں، انہوں نے تو سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ خدا پر توکل کر کے ابتداء کی اور شہداء سے توسل کیا آپ کو یقین نہیں ہوگا کہ میری باتیں تمام ہوچکی تھیں لیکن کبھی اگر بہشت زہرا جاتا ہوں اور وہ افراد ملتے ہیں تو آج بھی گلے لگ کر روتے ہیں کہ تم نے ہمیں اس وقت میں پہنچا دیا تھا ، جو چیزیں ہم بھولنے لگے تھے تم نے ذہن نشین کرادیں۔ ایسے افراد کے سامنے یہ باتیں بیان کرنا سخت ہے لیکن اسکا ایک طریقہ ہے ، ایسے بیان کی جائے کہ انکی یادیں تازہ ہوجائیں اس وقت وہ آپ کی باتوں کو سننے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔

 

سوال: خود کو انہی جنگی مقامات پر پانا ، روایت گر اور سامع دونوں پر کتنا اثر انداز ہوتا ہے ؟

رمضانی: اگر واقعات اسی جگہ بیان کیے جائیں جہاں پیش آئے تھے تو بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ میرے بیان کا اثر ایسی جگہوں پر سیکڑوں گنا زیادہ ہوجاتا ہے میں خود متوجہ نہیں ہوتا کہ کیا بیان کیا۔  بعد میں اگر وہ مناظر ریکارڈ کیے گئے ہوتے ہیں تو دیکھتا ہوں  دوبارہ سنتا ہوں اور روتا ہوں۔ سامعین پر بھی بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ جیسے جوانوں نے اکثر کمیل  ندی کے بارے میں کتاب پڑھی ہوتی ہے یا کچھ سنا ہوتا ہے اور میں ان کو اس مقام پر لیکر جاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ "دوستوں یہ وہ جگہ ہے جہاں شہداء کو لا کر ڈال دیا  گیاتھا" جب جوان اس جگہ کو اس انداز میں دیکھتے ہیں تو انکے چہرہ کا رنگ پیلا پڑ جاتا ہے ۔ اس طرح کی تاثیر ہوتی ہے ان مقامات کی۔

فکہ کی قتل گاہ میں، جنگ کے فورا بعد والے عرصہ میں ، میں شہداء کے خاندان والوں اور رشتہ داروں وغیرہ کو لیکر جاتا تھا۔ ایسے ہی ریت  پر بیٹھے  ہاتھوں سے ریت اٹھا رہے ہوتے تھے پھینک رہے ہوتے تھے کہ ہڈی کے ٹکڑے یا انگلی ان کے ہاتھوں میں آجاتی تھی۔ کیونکہ ان شہداء کے  سالم جسم تو آسانی سے مل جاتا تھا اور دفن کردیا جاتا تھا لیکن چھوٹی چھوٹی ہڈیوں یا کوئی اور جسم کا ٹکڑا بعض دفعہ ملنا مشکل ہوجاتا تھا اور اسی ریت میں گم ہوجاتا تھا۔ ایسے ہی ایک شہید کی ماں فکہ کی قتلگاہ کی ریت کو اپنے ہاتھوں سے اٹھا رہی تھی پھینک رہی تھی کہ اسکے ہاتھ میں ہڈی کا ایک ٹکرا، ایک جنگی شمارہ والی زنجیر، کوئی کپڑا  آگیا۔  یہ انسان کو پچھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔

ابھی بھی میں جب جوانوں کو لیکر جاتا ہوں تو کہتا ہوں "دوستوں یہ جگہ جہاں آپ ابھی بیٹھے ہیں، جانتے ہیں کونسی جگہ ہے ؟کہ اس ملک کے ۱۲۰ جوان زخمی یہاں لائے گئے، تاکہ  رات میں آپریشن کے بعد یہاں سے انکو لے کر جائیں۔ آپریشن ناکام ہوگیا، یہ افراد ۵ دن تک یہیں پیاسے، خون بہتا ہوا تڑپتے تڑپتے مر گئے۔  سن ۱۹۹۳ ء تک یہ لوگ یہی پڑے رہےاس کے بعد یہاں جب ان کو لینے کے لئے آئے تو صرف ہڈیاں تھیں۔"

آپ یقین کریں کہ جب یہ سنتے ہیں تو گوارا نہیں کرتے کہ اس زمین پر حتی بیٹھ سکیں۔ ایک جوان  اسی خاک پر بیٹھا مٹی سے کھیل رہا تھا، جب یہ سنا ۱۰، ۱۵ منٹ کے لئے سجدہ میں چلے گیا بعد میں بھی  اسے زبردستی ہم نے اٹھایا۔  یہ چیز اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ واقعات کا سنانا ان مقامات پر سو گنا زیادہ اثر کرتا ہے۔

 

سوال: کیا ان داستانوں کی کتاب پڑھنا، یا مقدس فاع کے بارے میں بنائی گئی فلمیں دیکھنا، وہی تاثیر رکھتا ہے جو براہ راست ان مقامات پر موجود ہوتے ہوئے واقعات سننے کی تاثیر ہے ؟

رمضانی: کتاب، فیلم، ڈاکیومینٹری، شہداء کی یاد میں مختلف پروگرام یہ سب چیزیں اقدار کو منتقل کرنے کا سبب ہیں اور انکا ہونا بہت ضروری ہے۔ لیکن میری نظر میں جنگی علاقوں کا اثر ان سب چیزوں سے بہت زیادہ ہے۔

یہ بات بھی ہے کہ جو کتاب پڑھتے ہیں، فیلم یا ڈاکیومینٹری دیکھتے ہیں اسکے بعد جب وہ ان علاقوں میں آتے ہیں تو اسکا اثر کئی گنا ہوجاتا ہے۔

کیونکہ طلائیہ، فکہ انکے بارے میں پڑھا ہے کہ فکہ ریت اور سخت گرمی والی زمین ہے۔ جوان یہاں پیاسے شہید ہوئے۔ زخمیوں کی مدد نہیں کی جاسکی۔ یہ تمام چیزیں ایک جوان کے ذہن میں ہیں۔

اسکے ذہن میں ہے کہ کچھ جوان تھے اسی ملک کے، اسی ملک کی خاطر انہوں مصیبتیں جھیلیں، زخمی ہوئے لیکن آہ تک نہ نکلی۔ یہ چیزیں تمام ارزش و اقدار اسکے ذہن میں منتقل کردیتی ہیں لیکن اپنا اثر نہیں دکھا پاتیں۔ لیکن جب وہ اپنے قدم اس زمین پر رکھتا ہے۔

میں ۲ مرتبہ یونیورسٹی کے طالب علموں کے ساتھ فکہ گیا ہوں، جب وہاں پہنچے تو میِں نے کہا کہ "جوانوں یہاں سے ہم ننگے پاوں آگے جائیں گے۔ جانتے ہو کیوں ؟ کیوں کہ یہاں ہمارے جوانوں کی لاشیں پڑی رہیں، اسی مٹی میں مل گئی، انکا گوشت، انکا خون سب اس مٹی میں مل گیا۔ ۹۳ء کے بعد انکی ہڈیاں ملیں لیکن گوشت و خون و کھال سب اسی مٹی میں ہے ہم فقط اس لئے کہ ان شہداء سے کہیں کہ ہم آپ کا احترام کرتے ہیں، یہاں سے پا برہنہ آگے جائیں گے۔ دوسری دلیل یہ کہ یہاں ابھی تک شہداء موجود ہیں، ان شہداء سے بھی مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ ہم آپ کا احترام کرتے ہیں ہم اپنے لئے مناسب نہیں سمجھتے کہ اس زمین پر جوتوں سمیتھ قدم رکھیں۔"

میں نے خود ۲ سال قبل یہاں ایک شہید ڈھونڈا، ایک سال پہلے ۳ شہید یہاں سے نکالے، ابھی بھی یہاں موجود ہیں۔

ایک جوان نے مجھ سے پوچھا کہ "رمضانی صاحب میرے پاوں میں زخم ہے، ٹانکے لگے ہوئے ہیں۔ کیا میں اگر اس مٹی پر پا برہنہ چلوں تو زخم بڑھ تو نہیں جائے گا" میں نے جواب دیا: "کس نے کہا یہاں تم ننگے پاوں جاو" کہنے لگا کہ "ٹھیک ہے پھر میں باہر کھڑا ہوں" میں نے اسے کہا کہ نہیں، تم ساتھ چلو جوتے پہن لو کوئی مسئلہ نہیں۔ آُپ دیکھیں اس بات کا اثر کتنا ہوا کہ وہ جوان آخر تک میری بات نہیں مانا میں نے کہا "یہاں زمین پر آیات نہیں لکھیں، یہ کسی معصوم کا نام ہے، میں نے کچھ باتیں کہیں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم یہاں باہر کھڑے رہو" کہنے لگا "اللہ کی قسم میں نہیں آونگا" کہنے لگا کہ "انشاء اللہ اگلے سال اگر شہداء نے بلایا تو پا برہنہ آونگا"
 

سوال : راہیان نور کے ان کاروان مِں کوئی بہت خاص واقعہ رونما ہوا ہو جو آپ بیان کرنا چاہیں ؟

رمضانی: عموما جوان یہاں سے جانے کے بعد مجھ سے رابطے میں رہتے ہیں، میں اکثر جوانوں کو شہید ابراہیم ہادی کے بارے میں بتاتا ہوں اور اکثر جوان اسکی معنویت کے سحر میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک لڑکی نے  مجھے بتایا  کہ "میں میڈیکل کی طالب علم ہوں، نماز روزہ کچھ بھی نہیں جانتی تھی، میرا پورا گھر ایسا ہی ہے۔ راہیان نور میں بھی جو آئی صرف دوستوں کی وجہ سے کہ کچھ ہلا گلا ہوجائے گا ایک ہفتہ سکون  و تفریح میں گذر جائےگا۔
جب اس شہید کے بارے میں سنا تو ایسا لگا کہ میری کوئی  چیز  گم ہوگئی ہے۔

شہداء کے بارے میں جب بیان کیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ، رسول ص اور آئمہ کے نزدیک آبرومند ہیں، مستجاب الدعا ہیں، میں نے سوچا یہ جو بیان کیا جاتا ہے ایک بار آزماوں۔
خلوص کے ساتھ بیٹھی اور شہید ابراہیم ہادی کو مخاطب کرکے باتیں کرنا شروع کیں۔ کہ اگر واقعی تم عزت مند ہو اللہ کی بارگاہ میں، اہل بیت ع کی بارگاہ میں تو میری یہ مشکل ہے اسے حل کروادو۔"

میں نے پوچھا کہ کیا مشکل ہے؟ کہنے لگی "بتا نہیں سکتی" یعنی راضی نہیں تھی کہ وہ مشکل کسی اور کو معلوم ہو۔
کہنے لگی "میں نے اس سے کہا کہ جیسا دیکھ رہے ہو ویسی ہی ہوں، اگر سچے ہوتو میری مشکل کو حل کرو۔ میں بالکل ایسے اس سے باتیں کررہی تھی جیسے اس نے کوئی مجھ سے کچھ قرض لیا ہوا ہو۔ رات میں دوا کھا کر سر درد کے ساتھ سویا کرتی تھی، لیکن اس رات سکون کی نیند سوئی۔ دیکھا کہ مجھے کوئی اٹھا رہا ہے کہ اٹھو نماز پڑھو، فجر کا وقت ہوگیا ہے۔ میں نے کہا کیا نماز وماز۔۔ میں نہیں پڑھتی۔ بار بارآواز آنے لگی ایک دم میں متوجہ ہوئی کہ یہ کس کی آواز ہے۔ دیکھا تو ابراہیم ہادی سامنے کھڑا مسکرا رہا ہے۔ کہہ رہا ہے کہ کیا نہیں چاہتیں تمہاری مشکل حل ہو ؟ کھڑی ہو نماز فجر کا وقت ہے نماز پڑھو۔ وعدہ کروکہ نماز کی پابندی کروگی۔  اللہ تعالی تمہاری مشکل حل کرےگا۔
میں کھڑی ہوگئی۔ صحیح وضو نہیں آتا تھا خیر جیسے تیسے وضو کیا اور اپنی پہلی نماز کا آغاز کیا۔ میں نے خدا سے کہا کہ اللہ میں نماز و وضو سیکھ لونگی۔"

واقعی جب وہ مجھ سے بات کررہی تھی تو اس سے چادر سنبھالی نہیں جارہی تھی۔ بہت مشکل سے پکڑی ہوئی تھے لگ رہا تھا کہ واقعی اسے ان چیزوں کی عادت نہیں ہے۔
کہنے لگی: "اس دن کے بعد سے میں نے اپنے وعدہ پر عمل کیا، ۳ دن نہیں گذرے تھے کہ میری مشکل حل ہوگئی۔ آج جو دیکھ رہےہیں کہ حجاب میں ہوں اور اپنے سے عہد کیا ہے کہ دینی امور سے آشنا ہونگی، یہ اسی شہید کی وجہ سے ہے"

اس طرح کے کئی واقعات ہیں۔ جو لوگوں کے ساتھ پیش آتے ہیں اور انکی زندگی بدل جاتی ہے۔

 


 

 


سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 6359



http://oral-history.ir/?page=post&id=6393