جنوبی یورپ میں ’’کوہ حضرت عباس علیہ السلام‘‘

محمد حسین جعفریان
مترجم: سید محمد جون عابدی

2016-02-14


بلقان اور وہاں کے مسلمانوں کے سلسلہ میں،میں نےایک ڈاکیومنٹری دیکھی جو اس بات کا پیش خیمہ بنی کہ میں ایک عجیب وغریب یادداشت کو بیان کروں۔ مجھے نہیں معلوم آپ کو پتہ ہے یا نہیں کہ بلقان میں تقریبا ۲۰ ملین (دو کروڑ) بکتاشیہ شیعہ رہتے ہیں۔ عثمانی حکومت کے ایک مبلغ شیخ بکتاش نے وہاں سالوں زندگی گذارکر آرتھڈکس اورکیتھولکوں کے درمیان نہ ختم ہونے والی جنگ سے پریشان اورخستہ حال عیسائیوں کو ایک جدید مذہب کی بشارت دی۔ شیخ بکتاش خراسانی ایرانی تھے۔ اگر آپ سبزوار کےراستہ مشہد سے تہران آئیں گے تو نیشاپور سے تھوڑا پہلے داہنی سمت ایک بورڈ لگا ہواجو شیخ بکتاش کی مزار کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

دسیوں سال تک کمیونسٹوں کے یورپ پر حکومت کرنے کی وجہ سے وہاں لوگوں نے اسلامی تعلیمات کو فراموش کردیا۔اوردنیائے اسلام سے ان کا کوئی گہرا رابطہ نہ رہا۔اسی وجہ سے میں نے بکتاشیوں کے رہنما کو البانیا کی دارالحکومت ’’تیرانا‘‘میں دیکھا کہ گلے صلیب ڈالے ہوئے ہےاوراس کے تینوں گوشوں پر اللہ محمد اورعلی لکھ اہواہے۔یعنی اب بھی انکے یہاں اس حد تک عقیدہ بچا ہوا ہے۔نیز البانیا کی سرحد پر’’مقدونیہ یعنی سابق یوگوسلاویا میں جناب ’’رقیہ سلام اللہ علیہا‘‘ سے منسوب ایک قبر ہے۔اور اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہےکہ تیرانا کے شمال میں’’تومور‘‘نامی ایک پہاڑ ہے جو ’’کوہ حضرت عباس علیہ السلام‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ عیسوی سال کےایک خاص دن جو روزعاشور یا اس کے نزدیک ہوتاہے، وہاں کی عوام حتیٰ وہاں کا صدر بھی پا پیادہ اس پہاڑ پر جاتے ہیں اورخاص تقریب انجام دیتے ہیں اور غذا تقسیم کرتےہیں۔ بوسنیہ کی جنگ اورتنازعات کی وجہ سے ایک بار میرا  بلقان جانا ہوا۔اور اس کے بعد ’’کوزوو‘‘ میں خانہ جنگی کی ڈاکیومنٹری بنانے کے لئے ایک بار پھر میں وہاں گیا۔اس دوسرے سفرمیں میرے ساتھ بہت ہی دلچسپ واقعات پیش آئے۔ اس پہلے کے وہاں کے واقعات کو بیان کروں سینیمائی زبان میں کہوں کہ میں تیس سال پہلےکے فلش بیک میں جاکر آپ کو یہ بتارہاہوں کہ اپنے شہر(مشھد) کے کنارے پر طلاب نامی گلی کے بغل میں واقع ’’پنجتن گلی ‘‘میں ایک ۶۰ میٹر کے کام مکان میں ہم کئی سالوں تک رہے۔ تازہ تازہ انقلاب آیا تھا اور ہم ہر وقت نئی خبرسننے کے لئے بےچین رہا کرتےتھے۔اوراس وقت خبر حاصل کرنےکے صرف دو ذریعہ تھے ایک ٹیلیوژن اوردوسرا ریڈیو۔

میرے ماموں نے انقلاب کے انہیں ابتدائی ایام میں مجھے ایک ٹیپ رکارڈر جسمیں ریڈیو بھی تھا،تحفہ دیا تھا۔انقلاب سے پہلے تک ہمارے والد کی طرف سے ریڈیو سننے اور ٹی وی دیکھنے پرپابندی تھی  لیکن انقلاب کی کامیابی کے بعد یہ پابندی انہوں نے ختم کردی تھی۔یہ ریڈیو سیکنڈ ہینڈ تھا اوراسمیں کچھ خرابیاں  بھی تھیں۔ایک پٹہ ہم نے اس کے دونوں طرف باندھا ہوا تھا تاکہ وہ کھلنے نہ پائے۔ ان سب کے باوجود وہ ریڈیوں بہت کام آتا تھا۔ ۱۳۵۷ کی گرمیوں میں رات ہوتے ہی میں چٹائی لیکر نکل  پڑتا اور اس پر بیٹھ کر ریڈیو کی بٹن کو گھمایا کرتا تاکہ اپنی آشنا زبان یعنی مادری زبان میں کچھ سن سکوں یہ تنہا زبان تھی جس سے میں آشنائی رکھتا تھا کیوں کہ اس وقت میں جونئرہائی اسکول کے تیسرے سال میں تھا ۔ایک دن ریڈیو میں ایک ایسا چینل ملا جس میں بائیں جماعت کی تبلیغ کی جارہی تھی۔ لیکن یہ چینل ماسکو سے چلایا جارہا تھا۔اور یہ’’صدائے ماسکو‘‘کے نام سے تھا۔اوریہ چینل دوسرے موارد سے مختلف تھا۔اس چینل میں دو خواتین تھیں جو پروگرام ہیش کیا کرتی تھیں۔وہ لوگ مریضوں کو اینٹی بائیٹک دینے کی طرح  روازنہ ایک گھنٹہ ’’انور خوجہ‘‘کے سلسلہ میں گفتگوکرتی تھیں۔اور اس کی افکار کو دنیا والوں کی نجات کے تنہا راستےاور ہر مشکل کے حل کے طور پر بیان کرتی تھیں۔

وہ ایک مختلف قسم کا ریڈیو تھا اور اس وقت میری متجسس طبیعت کی سرگرمی کا تنہا ذریعہ تھا۔اسی کے بعد مجھے انورخوجہ کے بارے میں آشنائی ہوئی۔وہ یورپ کے سب سے غریب ملک البانیا کہ عجیب وغریب ڈکٹیٹر تھا۔اس ملک کا سفر کرنے کے بعد میں نے وہاں کا نام جنگ کی سرزمین رکھا تھا۔ ہر روز عصر کے وقت ریڈیو پر’’میرا‘‘اوراشکیبہ‘‘نامی خواتین کا دلچسپ فارسی لہجے میں  گفتگو کرنا اس وقت اس۶۰ میٹر کے گھر میں میری سرگرمی کا ذریعہ تھا جس کے ذریعہ میں البانیا ،انوار خوجہ اور دیگر مسائل کے سلسلہ میں معلومات حاصل کرتا تھا۔

جس وقت کوزوو کے تنازعات شباب پرتھے،’’روایت فتح‘‘کے دفتر والوں نے مجھے بلایا۔میں بجلی کی تیزی سے’’رضا برجی ‘‘کے ساتھ یونان کے اینتھز اورمقدونیہ کے اسکوپیہ شہر کی جانب روانہ ہوگیا۔اور زمینی واستہ البانیہ کے ’’تیرانا‘‘ گیا۔ صربیوں کے مظالم اوج پر پہونچ چکے تھے اورانہوں نے نسل کشی کا ایک سلسلہ جاری کررکھا تھا۔ ہم چاہتے تھے کہ ان مظلوم عوام کی صداؤں کو کوئی اس ملک سے باہر لیجائے اور دنیا والوں کے کانوں تک پہونچائے اور ہمارا مقصد بھی یہی تھا۔ تیرانا میں ایرانی سفارت خانہ کی چھوٹی سی عمارت میں سفیر جناب بیگدلی صاحب نے بڑی کشادہ روئی کے ساتھ ہمارا استقبال کیا تھا۔ وہاں انگریزی،عربی۔۔۔۔ کا کوئی کام نہ تھا۔وہاں کی عوام البانیائی زبان کے علاوہ دوسری کوئی زبان جانتی ہی نہیں تھی۔اورہم بغیر مترجم کے اپنی ماموریت کو انجام دینے سے قاصر تھے۔ دو دنوں کے بعد سفیر محترم کے دفتر سے ہمیں ایک خوشی کی خبر ملی کہ دو مترجم ملے ہیں جو البانیائی سے فارسی میں ترجمہ کرکے ہماری مدد کرسکتے ہیں۔ وہ دفترمیں آئے اورسفیر نے ان سے ہمارا تعارف کرایا۔ کہ’’محترمہ میرا اورمحترمہ اشکیبہ یہ دونوں پہلے البانیائی ریڈیومیں فارسی زبان کے پروگرام نشر کرتی تھیں۔۔۔‘‘

اس کے بعد میں نےسفیر کی آواز نہیں سنی اور اپنے بچپن اورنوجوانی کی یادوں میں ڈوب گیا۔ اورسوچ رہا تھا تیس قبل مشہد کی طلاب گلی،وہ رسی سے بندھا ہوا ریڈیو اور۔۔۔ اے خدا یہ دنیا کتنی چھوٹی ہے اور تو کتنا بڑا ہے۔‘‘


سائٹ: تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 4744



http://oral-history.ir/?page=post&id=6183