کنفیڈریشن کے رکن، بیزن کلانتریان ( بیزن سپاہی) کی یادیں


2015-11-07


خود پر نادم، لیکن کنفیڈریشن کا حصہ ہونے پر فخر

سن 1973 میں، میرے جرمنی جانے سے قبل، تمام جاننے والے و رشتہ دار، مجھے بس یہی تنبیہ کرتے تھے کہ خبردار کبھی ایسا نہ کرنا کہ، وہاں جاکر کنفیڈریشن والوں سے تعلقات بنالو اور دوستیاں کرو، کیونکہ وہ لوگ یا تو ، تودہ پارٹی کے ہیں یا کمیونسٹ اور یا ساواکی۔۔۔۔ کہ سب ہی خطرناک ہوتے ہیں اور بیرون ملک، ایران کی ساکھ خراب کرنے کے در پے ہیں، تم اپنی پڑہائی میں دل لگانا اور اپنے کام سے کام رکھنا۔ لہذا جرمنی پہنچ کر میں ، زاروبروکن شہر گیا ، جہاں سے مجھے ایک یونیورسٹی کے  ہاسٹل کی طرف گائیڈ کیا گیا کہ جس کی چھت انتہائی نیچی تھی پہلے ہی دن ایک ایرانی  جوان جو کہ اسی ہاسٹل میں رہتا تھا،میرے پاس آیا اور نہایت خوش اخلاقی سے مجھ سے ملااور کہنے لگا کہ اگر اس کے لائق کوئی خدمت ہو تو میں اس ضرور بتائں کہ میرے کام آکر اسے بہت خوشی ہوگی۔۔۔

غرضیکہ اگلے کئی دنوں تک وہ آتا رہا اور ہمارے درمیان کئی مباحثے اور معلوماتی گفتگو کا ردو بدل ہوتا کہ ایک دن یہ بحث چھڑ گئی کہ ہم تعلیم حاصل کرنے، یورپ کیوں آئے ہیں؟ اس بارے میں اس کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ایران میں سالانہ (اس زمانے میں) تقریبا دولاکھ طالب علم  میٹرک کرتے ہیں، جبکہ یو نیورسٹیوں میں صرف بیس ہزار کی گنجائش اور سیٹیں ہوتی ہیں، لہذا باقی بچنے والے طالب علم، البتہ وہ جو مالی لحاظ سے مستحکم ہوں، کوشش کرتے ہیں کہ بیرون ممالک جا کر اپنی تعلیم کو مکمل کریں۔ میں نے بغیر کچھ سوچے سمجھے اس کے نقطہ نظر کو رد کردیا اور بولا اگر تم بھی اچھے طالب علم ہوتے اور اچھا گریڈ لاتے تو تمہیں بھی داخلہ مل جاتا، اس بےچارے نے لاکھکوشش کی کہ مجھے سمجھا سکے کہ یہ بحث نمبروں کی نہیں بلکہ گنجائش کی ہے مگر میں نے ایک نہ سنی، اور کچھ نہ سمجھنے کی قسم کھاتے ہوئے، بے شرمی سے اس کو جھٹلاتا رہا اس کو توہین آمیز جملے کہے کہ تم جیسے لوگ ہی بیرون ملک ایران کا وقار اور عزت کم کرتے ہو۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔  اور دھکے دے کر اپنے کمرے سے نکال دیا۔

کچھ ماہ کے بعد، جرمنی کے ایک شہر میں، کچھ نئے دوست بنے اور 16سولہ آذر کو پہلی مرتبہ ورلڈ کنفیڈریشن کے اراکین سے ملا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پہلا مقالہ میں نے اسی دن پڑہا تھا جس کا عنوان تھا" دیہی علاقوں میں پڑہے لکھے فوجیوں کا کردار" اور کیونکہ میں خود ایک سپاہی تھا لہذا مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے  یہی سب کچھ حقیقت ہے اور درست ہے۔۔ اور اسی حوالے سے لکھنے کا رجحان میرے اندر بڑہتا گیا کہ تقریبا چھ ماہ کے بعدکنفیڈریشن کا سولہواں کانووکیشن ، فرانکفورٹ شہر میں منعقد ہوا اپنے ایک دوست کی درخواست پر بہت شوق سے وہاں گیا اورجب  وہاں ایرانیوں کی کثیر تعداد کو دیکھا تو سچ کہوں کہ ڈر گیا کہ کیا یہ ساواکی یا کمیونسٹ ہیں؟ یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس ذمانے میں مجھے ان دونوں کے درمیان فرق بھی معلوم نہ تھا۔

ہال میں تا حد نگاہ کتابوں سے بھری میزیں تھیں اور مجھے خود سے شدید نفرت ہو رہی تھی کہ کیوں یہاں پر ہونے والی باتیں مجھے سمجھ نہیں آرہیں؟ اور میں کیوں دنیا سے بے خبر ہوں؟ لہذا کچھ دوستوں سے سوالات کئے جن کا انہوں نے نہایت آرام سے اور شفیق انداز سے جواب دیا اور مجھے سمجھانے کی کوشش کی  ان کا یہ حوصلہ دیکھ کر مجھے خود پر اور بھی غصہ آیا کا آخر مجھے کیوں نہیں پتہ کہ سامراج کیا ہوتا ہے؟

اور سرمایہ داری کا کیا مطلب ہے؟ اور میں کمیونسٹوں کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتا؟۔۔۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہاں کی ساری کتابیں خرید کر لے جاؤں۔۔۔۔۔ میرا ایک دوست میری اس حالت کو سمجھ گیا اور کہنے لگا اے دوست جلد بازی سے کام نہ لو،ہم بھی پہلے تقریبا تمہاری طرح کے تھے ، ہم سب شاہ کے فرسودہ  نظام اورملک سے آرہے ہیں یہ تمہاری غلطی نہیں بلکہ شہنشاہی نظام کی غلطی ہے ، جس نے عقیدے کی  آزادی اور اس کے بیان کو چھین لیا ہے اور سب چیزوں کو معاشرے سے منہی کر دیا ہے۔میں نے نہایت شرمندگی سے اس سے پوچھا اچھا یہ بتاؤ فلانی ڈیموکریسی کا مطلب کیا ہے؟۔۔۔۔۔

غرضیکہ، بہت ساری کتابیں خریدیں دل چاہتا تھا، اوروں کی طرح میں بھی سب جان جاؤں۔۔۔ میں وہیں بیٹھا مطالعے میں مصروف تھا کہ تھوڑا جو سر اٹھا یا تو دیکھا کہ سامنے کی طوف وہی دوست بیٹھا ہے جس سے میں نے زاروبروکن شہر میں بد تمیزی کی تھی میں نے شرم کے مارے سولہ آذر کے رسالے کو اپنے منہ کے سامنے کر لیا مجھے بہت شرمندگی محسوس ہوریہ تھی کہ اچانک اس خیال کے آتے ہی کہ ہوسکتا ہے اس نے مجھے نہ پہچانا ہو۔۔۔۔۔ رسالے کو نیجے کیا تو وہ ابھی بھی مجھے ہی دیکھ رہا تھا اب خال یہ تھا کہ منہ کے آگے، رسالہ پکڑے پکڑے میرے ہاتھ دکھ گۓ تھے دل چاہتا تھا کہ یہیں موت آجاۓ۔۔۔۔ کہ ناگاہ میں نے محسوس کیا کہ وہ میری ہی طرف آرہا ہے اور میری سانس ہی رک گئی اور شرم سے پانی پانی ہوگیا کہ وہ میرے قریب آیا اور بولا : تم بیزن ہو ناں؟ میں نے ہکلاتے ہوۓ جواب دیا نہیں میں بہروز ہوں۔ کہنے لگا کہ تم تو بیزن ہو جو زاروبروکن میں تھے؟ میں نے کہا نہین میں تو نہیں تھا، کہنے لکا کیسی باتیں کر رہے ہو ابھی چھ ماہ قبل ہی تو ہم ملے تھے ، ساتھ تھے؟۔۔۔ میں مسلسل انکار کرتا رہا اور وہ مسلسل مجھے یاد دلاتا رہا۔۔۔۔

اسی دوران اس کے لب و لہجے سے مجھے احساس ہوا کہ وہ مجھ سے بدلہ لینے کی  غرض سے یہ سب نہیں پوچھ رہا اور اس کا ماضی کی کوئی بات چھیڑنے کا ارادہ بھی نہیں ہے تو میں مجبور ہوگیا کہ اسکو جواب دوں اور اّنا صحیح تعارف کرواؤں اور اپنے کۓ کی معافی بھی مانگوں لہذا میں فورا معافی تلافی کرنے لگا کہ میں ناسمجھ تھا احمق تھا با لائق تھا تم اپنی بڑائی سے مجھے معاف کردو۔۔۔ یہ سب سنتے ہی وہ ہنسنے لگا اور مجھے گلے سے لگا لیا، مجھے لگا میں پاگل ہوجاؤں گا اس کی یہ محبت مجھے حیران کر گئی تھی کہ وہ بولا تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ آج تمہیں یہاں دیکھ کر میں کتنا خوش ہوں، میڑا دل چاہ رہا تھا اس کے قدموں میں گر کر معافی مانگوں مگر اس کو معافی کی کوئی طلب ہی نہ تھی۔۔۔۔

وہ خوش تھا کہ میں کنفیڈریشن میں شامل ہوگیا ہوں اور اب اس کل ہم خیال ہوں، اس نے مجھے زندگی کا بہت بڑا سبق سکھا دیا تھا اس نے مجھے ادب ، محبت ، سیاسی حوصلہ اور  لحاظ سکھایا تھا۔۔۔

اس واقعے کے بعد ڈیڑھ سال تک میں نے خود کو مطالعے کے لۓ وقف کردیا تھا جتنا بھی ّپڑہتا لگتا ابھی بھی کم ہے بقول شاعر میرا علم و دانش اس حد کو پہنچا جہاں جاکر سمجھا کہ کچھ بھی نہ سمجھا کنفیڈریشن نے مجھ کو بدل کر رکھ دیا تھا، مجھے دانائی اور لڑنے کیلۓ درست سمت کی طرف رہنمائی کی تھی، میری یہ زندگی کنفیڈریشن کی مقروض ہے ، کنفیڈریشن کا نام ایران کی تاریخ میں ضرور رقم ہونا چاہیے کیونکہ یہ اس تاریخ کا درخشاں باب ہے، میں خوش ہوں اور اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ کنفیڈریشن کا، رکن ہوں اور فخر سے کہتا ہوں کہ میں نے شاہ کی سفاکانہ حکومت کے خلاف ہر مظاہرے میں شرکت کی ہے۔


حوالہ: سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 3750



http://oral-history.ir/?page=post&id=5878