میں اپنی یادوں سے پیچھے نہیں ہٹونگا

منصور اوجی

2015-09-02


ایک جگہ لکھا کہ بیژن جلالی مجھ سے ۱۰ سال بڑا تھا اور دوسری جگہ کہ شاپور بنیاد ۱۰ سال مجھ سے چھوٹا تھا اور  دونوں چل بسے اور میں نے لکھا کہ اگر ملک الموت باری باری پھرتا تو بیژن کے بعد میری باری تھی نہ کہ شاپور کی اور یہاں لکھ رہا ہوں کہ ھوشنگ گلشیری میرے ھمسن و سال تھے وہ بھی چلے گئے اور اگر مدت زمان کا حساب کتاب ہوتا، مجھے بھی اسکے مرنے کے ساتھ اس جہان سے کوچ کرجانا تھا۔ مجھ سے بڑا، چھوٹا اور میرے برابر کی عمر کے سب لوگ چلے گئے اور وہ بھی بہت ہی کم مدت کے فاصلے سے، تقریبا ایک سال کچھ مہینے، ان سب کو مرے ہوئے ۱۰ سال گزر چکے ہیں اور میں ابھی تک زندہ ہوں تاکہ اپنی یادوں اور واقعات کو دہراوں اور دہرائوں گا:

ھوشنگ ٹھیک ۴۰ سال کا تھا کہ میں اس سے آشنا ہوا جب تک وہ زندہ تھا، ۱۳۴۰ سے جب میں نیا نیا ہائر کالج سے فارغ ہوا تھا اور تدریس کے لئے شیراز پلٹ گیا تھا۔ ہائر کالج میں محمد حقوقی اور میرا بیج ایک ہی تھا وہ ادبیات فارسی کے ڈپارٹمنٹ میں تھا اور میں فلسفلے کا طالب علم، وہ اپنے شھر اصفہان پلٹ گیا اور میں اپنے شھر، شیراز۔ ھم دونوں آپس میں خط و خطابت کرتے تھے، ہم شیراز میں ایک میگزین "دریا" شائع کیا کرتے اور اس میں حقوقی کے شعر بھی شامل کرتے۔ وہ خط میں اکثر اپنے شعر بھی بھیجتا تھا اور میں بھی اپنے شعر۔ وہ اور گلشیری اور دوسرے افراد جنہوں نے بعد میں "جنگ اصفھان" شائع کیا آپس میں بیٹھا کرتے تھے، حقوقی کے خط ابھی بھی میرے پاس موجود ہیں، وہ اپنی ملاقاتوں میں میرے شعر بھی پڑھا کرتے۔ کبھی حقوقی خط میں اپنی ملاقاتوں میں پیش آنے والی باتوں کی جانب اشارہ کرتا خصوصا جب سے ابوالحسن نجفی فرانس سے واپس آیا تھا اور کچھ عرصے بعد "جنگ اصفھان" کو شائع کیا کہ جس کے پہلے اور دوسرے مجلے میں گلشیری کے بھی شعر تھے اور قصہ کہانیاں بھی، جو شروع شروع میں خاصے دلچسپ نہیں تھے اور اسکے شعر کہیں زیادہ بہتر تھے کہ اسکا مجموعہ"شانزدہ احتجاب" شائع ہوا اور اسی کتاب کے ذریعے اپنی کم عمری کے باوجود صادق ہدایت کے ھم پلہ اور برابر آکھڑا ہوا اور اسکے بعد اسنے سلسلہ وار "معصوم" شائع کئے۔  حقوقی اور اس سے قبل گلشیری اور باقی افراد سے میرا رابطہ باقی تھا اور ایک سفر میں وہ لوگ شیراز بھی آئے اور ہمارے تعلقات میں مزید مضبوطی آئی۔ یہاں تک کہ "مرکز نویسندگان" کی تاسیس کا سال یعنی۱۳۴۶ آگیا،  اس کی تشکیل کے بیانیہ میں شیراز سے صرف میں نے دستخط کئے تھے اور اصفہان کے دوستوں میں سے گلشیری اور حقوقی نے، انہی ایام میں، میں کم و بیش ہر مہینے مرکز کے جلسات میں شرکت کرنے، جو خیابان شاہرضا –موجودہ انقلاب- میں موجود تالار تندریز میں منعقد ہوتے تھے، تہران جاتا تھا اور گلشیری اور حقوقی بھی اصفھان سے آتے تھے۔  ان جلسوں میں جلال آل احمد، سیمین دانشور، بھآذین، ساعدی، براھنی، نادرپور، آشعری، سپانلو، کسرائی، نوری علاء، نادر ابراھیمی اور کچھ دیگر افراد دائمی حضور رکھتے تھے، ایک جلسے میں مجھے یاد ہے کہ گلشیری نے اپنے کچھ شعر کہے تھے کہ بعد میں اسپر حکومت کا پریشر تھا اور مرکز کا رجسٹرڈ نہ ہونا اور پھر ۱۳۴۸ اور جلال کی موت اور اسی سال میرا دوبارہ پڑھائی جاری رکھنے کی غرض سے تہران چلے جانا اور اسکے اگلے سال ایک دو بار گلشیری سے  زمان بک سینٹر میں ملاقات، وہ اپنے کاموں کے بارے میں بتاتا تھا "چرواہے کے گمشدہ بھیڑ"  اور میرے کام کے بارے میں پوچھتا۔ وہ ابھی اصفھان میں تھا اور جنگ اصفھان شاٰئع کرتا تھا لیکن شعر کہنا چھوڑدیئے تھے۔ حقوقی نے ۱۳۵۰ میں اپنی کتاب "جدید شعر، آغاز سے ابتک" شائع کی اور گلشیری کے اشعار پر اظہار نظر کیا لیکن اس کا نام وہ چالیس کی دہائی کے شاعروں میں نہیں لایا، کچھ سال مزید بیت گئے، ۱۳۵۶ تھا میں ملک سے باہر ایک سفر سے واپس آچکا تھا کہ ایک دن شیراز کے انجمن ایران و برطانیہ کے پرانے کتابخانے میں کہ جس کا میں رکن تھا، ایک شعر کی محافل کے اشتہار والے اخبار نے میری نظروں کو اپنی طرف متوجہ کیا، خوشی ہوئی کہ ایک لمبی خاموشی کے بعد مرکز کی جانب سے شعر کی ۱۰راتیں کے نام سے ایک نئے سلسلے کا آغاز کیا گیا ہے، پڑھنا شروع کیا تو دیکھا کہ پہلی رات کے اسامی میں میرا نام بھی، دانشور صاحبہ، اخوان ثالث، ھنرور شجاٰعی اور سیاووش مطھری کے ساتھ شامل ہے۔ تعجب خیز انداز میں خود سے کہا کہ کسطرح انہوں نے مجھ سے بغیر پوچھے میرا نام لکھ دیا۔ دانشور صاحبہ کو فون کیا اور تفصیلات دریافت کیں تو کہا کہ پہلی رات کے لئے کچھ افراد نے اپنی خواہش کا اظھار کیا تھا، اخوان نے کہا تھا کہ میں ہوں، دانشور صاحبہ بھی امیدوار تھیں اور کہا تھا کہ اوجی کا نام بھی لکھ لیں اور بلکل متوجہ نہیں تھیں کہ میں ایران میں نہیں ہوں۔ مقررہ دن میں تہران میں تھا، ۱۸ مھر ۱۳۵۶، ایک دو گھنٹہ قبل ہی محفل میں پہنچ گیا تھا ، کوئی بھی نہیں آیا تھا، صرف ۲ افراد ایسے ہی چہل پہل کررہے تھے ایک گلشیری اور دوسرا غلامحسین ساعدی مرحوم، گلشیری سے سلام دعا اور گلے ملا اور پھر ساعدی کی باری آئی، میری آنکھوں کا بوسہ لیا، دونوں آنکھوں کا، گلشیری نے اپنے اصفہانی لہجے میں پوچھا: اب یہ کون سی قسم ہے ؟ اور ساعدی نے جواب دیا: اوجی نے راہ دیکھ لی ہے اور جسنے راہ دیکھ لی اسکی آنکھوں کا بوسہ لینا چاہئے۔ یہ راتیں دس راتوں تک چلیں، ۱۰ با اثر راتیں۔ اس رات – پہلی رات- دانشور صاحبہ نے تقریر کی اور باقی: اخوان، ہنرور شجاعی، سیاووش مطہری اور میں نے اس تاریک کھلی فضا میں، ایک شمع کی روشنی میں بارش کے دوران جو لوگوں کے سروں پر برس رہی تھی، شعر کہے ان تمام دس راتوں میں ھوشنگ صرف ۲ مرتبہ سٹیج پر گیا۔ ایک چھٹی رات کو اور "نثر معاصر میں مردانگی" کے موضوع پر تقریر کی اور ایک بار آخری رات، جب اسکی تقریر کا موضوع "پیام" تھا: "ہم پر تہمت لگائی۔۔۔"
ان راتوں کے بعد سے مرکز کے جلسات، انقلاب کی کامیابی تک تسلسل کے ساتھ "گلیری خانہ" سمیت مختلف جگہوں پر منعقد ہوتے رہے اور اسی ترتیب کے ساتھ مرکز ایک اچھی شکل اختیار کرگیا اور پھر بعد میں تہران یونیورسٹی کے سامنے والی خیابان فروردین کے ایک علاقے میں دفتر بھی بنادیا گیا، لوگ آتے تھے، چھوٹے شھروں سے بھی آتے تھے اور گلشیری بھی مینجمنٹ کمیٹی کا حصہ بن چکا تھا۔ چہل پہل، لوگ، کاغذات لانا لیجانا، گلشیری نے کچھ عرصے بعد "مفید میگزین" شائع کردیا، لیکن پڑھنے کے قابل یہ میگزین زیادہ چل نہ سکا، ایک دو بار مجھ سے بھی شعر مانگے اور پھر شائع بھی کیے تھے اور ٹیلیفون پر تعریف بھی کی تھی، ایک دو سال گزرگئے تھے، مجھے معلوم تھا کے اسے میرے اشعار سے لگاو ہے، ۱۳۶۸ چل رہا تھا۔ ایک بار جب شھریار مندنی پور اس سے ملنے جانا چاہتا تھا تو میں نے پیغام بھجوایا کہ نوید پبلیکیشنز میرے ۳۰ سال کے کاموں کے انتخاب کو شائع کرنا چاہتی ہے، تو جب تمہیں میرے اشعار اچھے لگتے ہیں تو میرے اشعار کے انتخاب کی زحمت بھی جھیلو، اسنے قبول کیا، میری تمام کتابیں سوائے "این سن است" کے اسکے پاس تھیں، کہہ رہا تھا کہ یہ بھی تھی کوئی لےگیا اور واپس نہیں کی۔ وہ کتاب میں نے اسے بھیج دی بہت ہی کم عرصے میں انتخاب کر لیا اور میرے لئے پیغام بھیجا کہ اس انتخاب پر کچھ باتیں لکھنا چاہتا ہوں جو لمبی ہوجائیں گی۔ انہی دنوں اس نے موجودہ ایران کے اشعار کے متعلق تقاریر کے لئے ہالینڈ، سوئیڈن اور برطانیہ کا سفر کیا تھا، گیا اور واپس آگیا اور مجھے ۱۵ دی ماہ ۱۳۶۸ کو اپنے سفر کے بارے میں ایک خط لکھا، ایمسٹرڈیم، ہالینڈ کی تقریر میں ایران کے موجودہ اشعار کے عنوان سے تقریر کی، شعراء کا الف باء کی ترتیب سے انتخاب کیا ہوا تھا ہر ایک کے کچھ شعر پڑھے  اور ہر شاعر کے اشعار کی خصوصیات بیان کیں۔ میرے بھی کچھ شعر کہے جن میں سے بعض پر کافی تاکید کی اور لکھا کہ انکو اس کاپی میں جو شعراء کے بہترین اشعار کے لئے بنائی تھی، لکھا ہے، وہ کاپی کہ جب بھی خودکشی کرنے کا سوچتا ہوں تو اس کو اٹھا کر دیکھ لیتا ہوں تاکہ میری زندگی کا باعث بنے اور میں نے ان میں سے میں نے ایک دو نظم جو اسے اس انتخاب میں سے جو اسنے میرے اشعار کا کیا تھا پسند تھیں، انکو "ھوائے باغ  نکردیم" میں اسی کو پیش کیا۔ ایک "حافظہ بی خاطرات" اور دوسری "لحظہ را بشمار"  سفر سے واپسی پر کے بعد انتخاب مکمل ہوچکا تھا اور وہ اس مقالہ کے لکھنے میں مشغول ہوگیا جس کا اس نے لکھنے کا کہا تھا۔ میرے اشعار کا انتخاب "ھوائے باغ  نکردیم" کے نام سے نوید پبلیکیشنز شیراز نے شاپور بنیاد کی زیر نظر "حلقہ نیلوفری" کے سلسلہ میں شائع کردیا اور وہ باتیں جو گلشیری نے اسکی بنیاد پر لکھی تھی ایک کتاب کی صورت میں "در ستائش شعر سکوت" کے عنوان سے نیلوفر پبلشر نے شائع کی اور گلشیری نے اسکے کچھ نسخے بھی مجھے بھیجے تھے  جس میں سے ایک پر میں نے آٹوگراف بھی دیا تھا، اسکے انتساب میں گلشیری نے لکھا تھا کہ: عزیز اوجی کے لئے تاکہ دائرہ مکمل ہوجائے اور میں نے بھی ایک خط میں اس چھوٹی سی نظم کو اسکے لئے لکھ بھیجا:


" این همه راه آمده / ... ای به تماشای ما / دایره کامل شده است / بدر تمام است و / ماه!"


انہی دنوں میں کہ ایک تھران کا سفر تھا تو دوپہر کے کھانے پر اسکے گھر دعوت تھی ایئرپورٹ سے سیدھا اسکے گھر گیا تقریبا ۱۰ بجے صبح اور پھر ۵ بجے شام باھر نکلا، جب پہنچا تو فرزانہ اپنے کام پر گئی ہوئی تھی اور  غزل اور باربد گھر میں تھے، ھوشنگ ایک نظر انکو دیکھتا اور ایک نظر آبگوشت کو جو دوپہر کے کھانے کے لئے چولہے پر چڑھایا ہوا تھا۔ وہ ابھی تک "آئینہ ھای دردار" کے لکھنے میں مشغول تھا، اور یورپ کا یک نقشہ اسکی دیوار پر چسپاں تھا اور کھانے کی میز کو اس نے اپنی دفتری میز بنایا ہوا تھا، اس تحریر کے تقریبا مختلف حصے وہ مجھے گھنٹوں سناتا رہا، جو حصے سنائے وہ خزاں اور وہ پیدل چلنا، وہ پانی وہ پتے اور۔۔۔۔ ایسا ٹکڑا بلکل ایک شعر، ھوشنگ شاعر بھی تھا اور شعر شناس بھی، اسنے شعر چھوڑدیے تھے تاکہ قصوں کہانیوں میں شعر استعمال کرے کہ جو کام اس نے کیا بھی، پھر بعد میں میں نے اسکو چند شعر سنائے اور پھر اسنے اپنے بیٹے باربد کو بھیجا، ایک نان سنگک لی اور واپس آگیا، سہ پہر تھی کہ ہم نے کھانے میں آبگوشت کھایا، میں نے مزے لیکر کھایا اور اسکے بعد بچے سکول چلے گئے، کھانے کے بعد چائے آئی اور پھر سگریٹ، وہ میز کے اس طرف اور میں اس طرف۔ اسنے اپنے گزری ہوئی یادیں سنائیں، اپنے والد کی، خصوصا اپنی والدہ کا سختیاں جھیلنا اور مقاومت اور میں نے بھی وہ حالات جو شادی  کے بعد پیش آئے اور پہلی بار اپنی زبان پر جاری کررہا تھا اور وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ اسنے کہا کہ یہ لکھنے کے قابل ہیں اور اگر فرصت ملی تو اسکو داستان کی صورت میں لکھے گا اور پھر یہ داستان دیگر افراد کو بھی سنائی اور ناقدین کو بھی، خاص طور پر ایک واقعہ ایک ناقد، ایک مشھور ناقد جنہوں نے اجتماعلی ریالزم پر کافی کام کیا تھا اور سوائے اجتماعی ریالزم کے کسی اور مکتب فکر کو قبول نہیں کرتے تھے۔ گلشیری نے بتایا کہ ایک دن ہماری بحث ان صاحب کے ساتھ ہوئی وہ ساعدی کی لکھی گئی چیزوں پر جملے کستے تھے اور کہتے تھے کہ ساعدی گائے صرف لغویات ہے۔ کیا ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی گائے ہوجائے، کیا ساعدی نے یہ لکھا ہے ؟ میں نے کہا ہاں ہوسکتا ہے۔ بولا کب ؟ میں نے کہا سرکار جناب محترم! عصر کا وقت ہوگیا، اور فرزانہ صاحبہ بھی اپنے دفتر سے واپس آگئیں، ایک دو تصویریں ھوشنگ کے ساتھ کھینچیں جس کی زحمت فرزانہ نے کی اور اسکے بعد میں نے خداحافظی کرلی۔ اسکی اگلی رات بہبھانی صاحبہ کے گھر مھمان تھا، ھمیشہ کی طرح دوستوں اور احباب کو جمع کیا ہوا تھا مجھے یاد ہے گلشیری، براھنی، جواد مجابی، عباس معروفی، صدیق تعریف اور بقیہ تمام شاعر دوستوں نے شعر کہے، ھر ایک نے تین تین، چار چار، یہاں تک کہ میری باری آگئ اور میرے پاس اسوقت کوئی شعر موجود نہیں تھا بہبھانی صاحبہ نے مجھے میری کچھ کتابیں دیں میں نے جو اشعار وہاں پڑھے ان میں سے ایک نظم "چہ آواز سبزی" تھی جس پر ھوشنگ نے اہنی کتاب "در ستائش شعر سکوت" میں نظر دی تھی جب میری باری ختم ہوئی تو آیا اور گلے لگا کر میرے گالوں پر بوسہ دیا اور جب محفل تمام ہوئی تو بولا، اب ھم قصے کہانیاں لکھنے والوں کی باری ہے۔ آپ سب افراد نے کچھ اشعار یہاں آکر پڑھے اب ہماری باری ہے  اب ہم بھی کچھ قصے کہانیاں آپکو سنائیں گے سب ہنس دیئے اور کسی نے قصے بھی نہیں سنائے ھوشنگ تیز و چالاک تھا مجلس آرا وقت گذر گیا اور اعلانیہ پر ۱۳۴ لکھنے والے افراد کے دستخط کا مسئلہ ۔ کچھ یوں ہوا کہ بعض افراد نے اپنی دستخط واپس لے لئے، یہاں تک بعض اہم افراد نے اور پھر ان افراد کے لئے جنہوں نے اپنے دستخط واپس نہیں لئے تھے مجھ سمیت انکے لئے مشکل پیدا ہوگئی اس حادثے کے بعد گلشیری ایک سفر پر اپنی فیملی کے ساتھ شیراز آیا اور ایک رات وہ میرے یہاں مھمان تھے۔ منصور کوشان بھی اپنی فیملی کے ساتھ شیراز آیا ہوا تھا وہ لوگ بھی اس رات آگئے تھے اور شیراز کچھ دوست بھی۔ میری بیٹی نے اچھا خاصا طرح طرح کا کھانا بنایا ہوا تھا گلشیری نے میز کی طرف رخ کیا اور اپنی بیوی کی جانب اشارہ کرکے بولا کہ سیکھ لو ہم نے اوجی کو چھولے پانی کی دعوت پر بلا یا اور اسنے۔۔۔۔ اسکے بعد ارمنستان کا سفر آگیا۔۔۔
اسکے کچھ عرصے بعد شھریار مدنی پور کی کتاب "دل اور دلداگی" بھی شائع ہوگئی۔    ایک دفعہ جب گلشیری سے اس موضوع پر پوچھ رہا تھا بولا کہ میں نے اسکو بھی بولا ہے اور دانشور صاحبہ کو بھی کہا ہے کہ اس کتاب کے کچھ حصے اضافی ہوگئے ہیں اگر ان کو ہٹا لیا جائے تو ایک شاہکار ہے۔  مزید کہا کہ دانشور صاحبہ کو بھی کہہ دیا ہے لیکن یہ ہنس کر کہتی ہے کہ تم خردہ شیشہ داری  اور میرے ھمشھری سے حسد کرتے ہو اور نہیں چاہتے کہ کسی کو اپنے سے بلند قد دیکھو بعد میں جب دانشور صاحبہ سے فون پر بات ہوئی اور یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے بھی ھوشنگ کی باتوں کو دہرایا اور کہا کہ میں نے اسکو کہا تھا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ناول "دل اور دلدادگی" بغیر کسی چیز کہ کم کیئے سارا کا سارا عمدہ ہے۔ اور کہنی لگیں کہ گلشیری نے کہا کہ تم کو اپنے ھمشھری کی عجیب ھوا ہے اور کہا کہ اس سے کہہ چکا ہوں کہ میں اوجی کہ کاموں پر ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں، دانشور صاحبہ نے کہا کہ میں نے اس سے کہا کہ تم نے خود جو اوجی پر کتاب لکھی ہے اب کیوں کہہ رہے ہو ؟ گلشیری نے اپنا آخری سفر جرمنی کا کیا اور پھر پلٹ آیا، "اریش ماریا رمارک" ایوارڈ حاصل کیا تھا۔ اسکو ٹیلیفون کیا اور مبارکباد پیش کی، کہا کہ وہ مسئلہ "کارنامہ" میں دیدیا ہے تاکہ شائع کریں اور شائع ہوچکا ہے۔ لیکن جہاں تک مجھے یاد آرہا ہے میری اس سے آخری بار بات ۱۳۷۹کی عید کے دنوں میں ہوئی تھی، عید کی مبارکباد بھیجی تھی جس پر خوبصورتی کہ ساتھ یہ آدھا شعر کہ: تو را من چشم در راهم / گرم یادآوری یا نه / من از یادت نمی‌کاهم لکھا ہوا تھا اور اسکے بعد عید کی صبح اسکو ٹیلیفون کیا۔ مبارکباد دی اور اسکے بعد اسنے شاپور بنیاد کی اچانک موت کے بارے میں پوچھا اور اسکی موت کا سبب اور بیماریاں جس کا وہ شکار ہوا جو کہ میں نے تفصیل کے ساتھ اسکو بتائیں۔ اپنے اصفہانی لھجہ میں بولا کس قدر سخت حادثہ ہے، وہ اور میں دونوں نہیں جانتے تھے کہ ابھی چند مہینے نہیں گزرے تھے کہ وہ بھی اسی طرح چل بسا، اور واپس نہیں پلٹے۔ اسکی بیماری کے بارے میں سنا تو فرزانہ کو ٹیلیفون کیا بولی کہ پیپ اسکے دماغ تک پہنچ گئ ہے البتہ دوائی کے ذریعے خشک ہوسکتی ہے۔ اسکا حال پوچھا تو بولی کہ کوما کی حالت میں ہے۔ اسکو صبر و حوصلے کی تلقین کی۔ آخر میں اسنے سپانلو کو ٹیلیفون کیا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور طے ہوا تھا کہ اگر کوئی خاص خبر ہو تو مجھے اطلاع دے، صبح جو ہوئی، ایک دو گھنٹے صبر کیا اور اسکے بعد دانشور صاحبہ کو ٹیلیفون کیا، خود انہوں نے ہی ٹیلیفون اٹھایا، انکے سامنے یہ معاملہ اور گلشیری کے بارے میں پوچھا۔ کہا کہ مجھے نہیں معلوم شاید میری حالت کی وجہ سے مجھے اطلاع نہیں دی اور کہا کہ میں نے کل رات خواب میں دیکھا کہ گلشیری مر گیا ہے اور میں سیاہ لباس میں ملبوس اسکی قبر پر سخنرانی کررہی ہوں۔ کہا کہ میں ٹیلیفون کروں اور صورتحال پوچھ کر اسے اطلاع دوں اور وہ دن، اتوار کا دن تھا ۱۵ خرداد ۱۳۷۹ اسکے اگلے دن یعنی پیر ۱۶ خرداد کو میں یونیورسٹی گیا، کلاس تھی۔ رات کو جو واپس آیا تو لندن ریڈیو نے محمد مختاری کی قبر پر جو گلشیری نے تقریر کی تھی، چلائی ہوئی تھی۔ میں زمین پر بیٹھ گیا، معلوم تھا کہ گلشیری بھی چلا گیا ہے۔ میری بالکل ویسی ہی حالت ہو گئی جو فروغ کے مرنے پر ہوئی تھی، وہ مرد جو اپنی خلاقیت کی اوج پر تھا، شیر، فولاد کا پہاڑ، لاجواب لکھنے والا، ھدایت کا ھم پلہ و ھم مرتبہ، میرا ھم عمر، اور ابھِی ۱۰ سال اسکو گئے ہوئے ہوگئے ہیں کب میری باری آتی ہے؟ پتہ نہیں کب؟

 

 



 
صارفین کی تعداد: 4256



http://oral-history.ir/?page=post&id=5619