کتاب "زیتون کی شاخوں سے عروج" کا جائزہ

احمد متوسلیان کی بچپن سے اسیر ہونے تک کی زندگی

تحریر: محبا حافظی
ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2024-04-13


"زیتون کی شاخوں سے عروج" نامی کتاب کے مصنف جواد کلاتہ ہیں جو گذشتہ سال شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کے پہلے صفحے پر سورہ نساء کی آیت نمبر ۱۵۸ تحریر ہے: " اور یقیننا ان(عیسی ع) کو انہوں نے نہیں مارا بلکہ خدا نے ان کو اپنی جانب اوپر بلا لیا"

یہ کتاب احمد متوسلیان کی زندگی کے مختلف مراحل پر اکتیس راویوں کی جانب سے بیان کردہ واقعات پر مشتمل ہے، اب تک کسی کو بھی واضح طور پر انکے متعلق کچھ نہیں معلوم کہ وہ کس حال میں ہیں۔ ان کی ذاتی زندگی من جملہ انکے گھر، اسکول، محلہ، دوستوں اور اپنے والد کے مٹھائیاں بنانے کے کارخانے، ان کے کالج، انقلابی سرگرمیوں اور انقلاب کی کامیابی سے پہلے انکے قید ہونے، ملک کے مغربی علاقوں میں نا امنی، مریوان کی آزادی، سپاہ مریوان کی کمان سنبھالنے، محمد رسول اللہ ص آپریشن اور محمد رسول اللہ ص بریگیڈ کی تشکیل، فتح المبین آپریشن، الی بیت المقدس آپریشن، غاصب صہیونی حکومت کے خلاف شام کے محاذ پر سرگرمیوں اور انکی قید کے واقعات اس کتاب میں شامل ہیں۔

اسی انتیس سالہ زندگی اور انکی زندگی کے جامع واقعات ہی دراصل مصنف کا سب سے اہم ہدف تھے تاکہ اس روایت کو کسی نتیجے تک پہنچایا جاسکے، اور اسی چیز نے اس کتاب کو وہ منفرس انداز عطا کیا ہے جس کی بدولت یہ کتاب احمد متوسلیان پر لکھی جانے والی تمام کتابوں میں منفرد نظر آتی ہے۔

اس کتاب میں ایران کے کرد نشین علاقوں میں نا امنی کے واقعات کی جانب بھی اشارہ کررہی ہے۔ یہ واقعات چونکہ احمد متوسلیان کی زندگی سے براہ راست مربوط نہیں ہیں اسی لئے انہیں کتاب کی اصل روایات میں شامل نہیں کیا گیا بلکہ الگ رکھا گیا ہے۔ ملک کے مغربی حصوں میں ضد انقلاب قوتوں کی جانب سے بحران پیدا کئے جانے کے دوران احمد متوسلیان کا اس سے نمٹنا اور حسن نیت اور داریوش فر جیسے افراد سے رابطہ برقرار کرنے کے واقعات کی وجہ سے ان واقعات کو اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔

حاج احمد کے والدین یزد سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن حاج احمد تہران میں پیدا ہوئے اور اسی شہر میں پلے بڑھے۔ اپنی ٹریننگ کے دوران انقلابی سرگرمیوں کی وجہ سے جیل بھی گئے اور انقلاب کی کامیابی کے بعد انہوں نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اسی دوران علم و صنعت یونیورسٹی میں انکا داخلہ ہوگیا۔ کردستان میں نا امنی شروع ہونے کے بعد آپ کو وہاں بھیجا گیا اور آپ نے اس محاذ پر اپنا لوہا منوالیا۔ تہران میں محمد رسول اللہ ص بریگیڈ کی تشکیل کے بعد انہیں اس کا پہلا کمانڈر تعینات کیا گیا۔ اس بریگیڈ نے کردستان میں کوملہ دہشتگردوں کے خلاف متعدد گوریلا آپریشنز انجام دیئے اور اسکے بعد حاج احمد کو فتح المبین اور الی بیت المقدس آپریشنز کے لئے ملک کے جنوبی علاقوں میں بلا لیا گیا۔ حاج احمد متوسلیان کے ماتحت سپاہیوں نے الی بیت المقدس آپریشن کے سخت ترین حالات میں شدید استقامت کا مظاہرہ کیا۔ اسکے بعد اسرائیل نے لبنان کے جنوبی علاقوں پر حملہ کردیا اور لبنان کے صدر نے پوری دنیا کے ممالک سے ممد کی درخواست کی۔ ایران سے بھی محمد رسول اللہ ص بریگیڈ کو شام بھیجا گیا۔ اگرچہ یہ مشن مکمل نہیں ہوسکا چونکہ امام خمینی رح کی نگاہ میں ایران عراق جنگ کے محاذ پر تمرکز اسوقت زیادہ ضروری تھا۔ حاج احمد متوسلیان نے اسکے بعد ایک سیاسی ڈپلومیٹ کے عنوان سے لبنان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ انہی دنوں انہیں دیگر تین افراد کے ہمراہ ایک مسلح گروہ نے اغوا کرلیا۔


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 191



http://oral-history.ir/?page=post&id=11813