پاوہ شہر کے اہل سنت امام جمعہ ماموستا ملاقادر قادری کی یادداشتیں

ماموستا 15

مصنف: علی رستمی
ترجمہ: افشین زہرا
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2024-02-15


ایک دفعہ میں اپنے دوست  کے ساتھ  جو میرے ساتھ ہی اُسی کمرے میں رہتے تھے اور ان کا نام عبد الرحمان رحیمی تھا اطراف کے گاؤں اور مضافاتی علاقے میں گیا   وہاں کے رہائشیوں نے اپنی استطاعت کے مطابق ہماری مدد کی ۔ چرواہوں نے زیادہ تر حیوانی تیل دیا، ہر گھر سے گھر کے استعمال کے تیل اور مکھن میں سے ہمیں ہمارا حصہ دیا گیا اور ہم نے بھی اس کے عوض ان کو خوب دعائیں دیں۔

جب تیل جمع ہو جاتا تو ہم اسکو پانچ کلو کے دھاتی ڈبے میں انڈیل کر محفوظ کر لیتے تھے۔ ان علاقوں میں کچھ لوگ اسے بھی تھے جو اس تیل کو پیدل مسافت طے کر کے اپنے گاؤں تک لانے کی زحمت سےہمیں  نجات دلانے کیلئے  وہ جمع شدہ تیل ہم سے خرید لیتے تھے۔ اس طرح وہ نہ صرف ہمیں سفر کی زحمت اور نقل و  حمل کی مشکلات سے بچالیتے تھے بلکہ ہم اس پریشانی سے بھی بچ جاتے تھے کہ  کیسے تیل کو بیچنے کیلئے اچھا، منصف خریدار ڈھونڈیں جو صحیح اور اچھے داموں ہم سے  اس تیل کو خرید  کر ہمیں اچھے دام دے سکے۔

 اس کام کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ہم نے یہ کام ہفتے کے دن شروع کیا اور ہم دونوں ہفتے کے دن دشہ گاؤں سے روانہ ہوئے، ہماری پہلی منزل مضافاتی، بلبزان گاؤں، تھا پھر وہاں سے عشیره های امامی ایناخی زردوئی گاؤں، تین، اور پھر شمشیر پہنچے، پھر وہاں سے شاہو کو ہستان مکے لیے روانہ ہوئے ۔

ہم نے رات خودیلہ کوہستان عشیره امامی میں گزاری۔ گرچہ گرمیوں کا موسم تھا مگر وہاں کی  راتیں  بہت ٹھنڈی تھیں۔ رات گزار کر صبح ہوتے ہی پلنگان جولاندی ، دیوزنا اور دلہ کی سرحد پر گئے اور پیاز دول سے  گزرتے ہوئے نوریاب کے قریب سے گزرے۔ یہ سارے علاقے اور امی نشین علاقے تھے یعنی یہاں کے رہنے والے اورامانات سے تعلق رکھتے تھے۔

 

ان دیہاتوں کے ساتھ ساتھ کامیاران اور سروآباد جیسے شہر بھی واقع ہیں۔ ان سارے علاقوں میں ہم نے بہت آرام سے اور بغیر کسی شرم و حیاء کے لوگوں سے چندہ اور زکات جمع کرلی مگر جب ہم پیاز دول کے علاقے پہنچے جو نوریاب کے اطرافی علاقوں میں سے ایک علاقہ ہے تو ہمیں وہاں کے لوگوں سے چندہ اور زکات لینے میں بہت شرم محسوس ہوئی کیونکہ وہاں کے لوگ مجھے پہچانتے تھے حالانکہ مجھے معلوم تھا وہ مجھے پہچاننے اور جاننے کی وجہ سے گرم جوشی سے میرا  استقبال کریں گے اور خندہ پیشانی سے ملیں گے اور ہماری خوب مدد بھی کریں گے ۔ مگر اس شرم و حیاءنے مجھے وہاں نہ جانے دیا اور ہم بغیر ان سے ملے اور وہاں داخل ہوئے بغیر آگے بڑھ گئے ۔

آٹھ دن ہم گاؤں گاؤں  پھرے اور ان آٹھ دنوں کی انتھک محنت کے بعد ہم ۴۳ تومان (ایرانی روپے) جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے ، جس کو ہم نے اگلے سال کے کپڑوں اور ضروری اشیاء کی خریداری کیلئے رکھ دیا، ہماری زندگی مشکل اور دشوار ہونے کے ساتھ ساتھ غربت اور تنگدستی کی آزمائش ہے کے ہمراہ تھی۔ ہم مشکل سے گزارا کرتے تھے مگر لوگوں کی نظر میں ہماریبہت عزت تھی اور لوگ ہمارے ساتھ بڑے احترام سے پیش آتے تھے۔

اس سفر سے واپسی پر ہم نے دلہ کی سرحد کے پاس  نماز عصر پڑھی اور اپنے راستے پر ہو لئے ابھی مغرب میں دو گھنٹے باقی تھے کہ ہم ہوار اور کپر ہا   نوریاب کے مضافاتی علاقوں کے قریب تھے وہاں سے گزرتے ہوئے ، زاولی کی بلند پہاڑی چوٹی سے ہوتے ہوئے پاوہ پہنچے اور تیز  تیزسرعت کے ساتھ خود کو ہانہ ساو کے چشمے تک پہنچایا۔ یہ چشمہ اس پہاڑی کے دامنمیں واقع ہے پھر بید میری کے سیاحتی و تفریحی مقام سے ہوتے ہوئے پاوہپہنچ گئے ۔

اذان عشاء کا وقت تھا ہم مسجد حضرت عبد اللہ کے سامنے سے گزرے اور آدھے گھنٹے کی مسافت طے کر کے  عشاء کے وقت کو ابھی آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ ہم اپنی بہن زرین باجی کے گھر پہنچ گئے ان کا گھر نوریاب  گاؤں کے مشہور چشمے، "کانی چرمگ" کے پاس تھا۔  وہاں سے اپنی والدہ کے پاس گیا اور ان سے ملا ، دوسرے دن ہی ہم دشہ گاؤں کیلئے روانہ ہو گئے اور دشہ پہنچ کر اپنے تعلیمی  اوقات کو منظم کیا اور نئے سرے اور نئے عزم کے ساتھ پھر سے تحصیل علوم دینی میں مشغول ہوگئے۔

 

 

 

 



 
صارفین کی تعداد: 310



http://oral-history.ir/?page=post&id=11732