مرتضی الویری کے واقعات

انتخاب: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: صائب جعفری

2023-08-17


انقلاب اسلامی کے اوئل میں کردستان فسادات کی لپیٹ میں تھا۔ ہم نے مجاہدین انقلاب اسلامی کی ایسوسیایشن کی جانب سے کچھ لوگوں کو کردستان بھیجا تاکہ وہاں کی صحیح صورت حال پر مطلع ہو سکیں۔ ایک گروہ کو مسلح کر کے انقلاب مخالف عناصر سے  لڑنے کو بھی روانہ کیا گیا۔ کچھ لوگ محترم رفیق دوست کی جانب سےبھی اس علاقہ میں بھیجےگئےتھے۔

جب یہ فیصلہ ہوا کہ میں بھی کردستان میں انجام دئیے جانے والےکاموں کی دیکھ بھال کے لئ وہاں جاؤں تو میں نے ایک دستی بستہ اپنے ہمراہ لیا اور مہاآباد کی جانب چل پڑا۔ اس سوقت کمیٹی کا کارڈ بھی میرے بستہ میں ہی تھا۔ مہا آباد میں مجھے سپاہ پاسداران انقلاب کے ہیڈ کوارٹر جانا تھا۔ شہر میں جا کر دیکھا تو پتا چلا کہ سارےشہر کی فضا سپاہ مخالف فضا ہے۔ سارا کا سارا شہر انقلاب کا مخالف ہے۔ اس عالم میں میں ڈر گیا، مجھ میں ہمت نہ تھی کہ کسی سے سپاہ  کے ہیڈ کوارٹر  کا پتہ دریافت کروں ۔ مجھے یہ خوف لاحق تھا کہ کہیں سپاہ کا پتا پوچھنے پر میری مرمت نہ ہوجائے۔ اس لئے میں نے بڑی مشکل سےایک شخص سے پوچھا: ’’شہری پولیس کا ہیڈ کوارٹر  کہاں ہے؟‘‘

اس نے مجھے ہیڈ کوارٹر کا پتا دیا اور میں اس جانب نکل کھڑا ہوا۔ میں وہاں پہنچا ہی تھا  اور چاہتا تھا کہ وہاں کے گارڈ سے سپاہ کے ہیڈ کوارٹر کا پتہ لوں کہ نا گہاں کوملہ اور جمہوریت پسندوں نے پولیس ہیڈ کوارٹر پر دھاوا بول دیا۔

پولیس کے ایک مامور کو گولی لگی تھی۔میں نے خود کو بمشکل عمارت میں پہنچا دیا۔ پولیس کا ہیڈ بھی اپنے بچاؤ کے لئےبندوق اٹھائے گولیاں برسا رہا تھا کہ اس کو بھی ایک گولی لگ گئی اور کچھ دیر بعد وہ شہید ہو گیا۔ ہیڈ پولیس کے شہید ہوتے ہی کوملہ اور جمہوریت پسندوں کے کارندے پولیس ہیڈ کوارٹر میں در آئے۔ میرے بستہ میں کمیٹی کا کارڈ موجود تھا جس کے سبب مجھے یقین تھا کہ اگر انہوں نے اس کا سراغ لگا لیا تو میرا سر  تن سے جدا کر دیں گے۔

میں نے اپنے بستہ کو وہیں پھینکا اور بھاگ کر چھت پر چلا گیا اور ایک چھپر کے نیچے چھپ گیا۔  وہاں چائے والے کا شاگرد بھی چھپا بیٹھا تھا۔ کچھ دیر مہم چھپر میں رہے تو میں نے محسوس کیا کہ چھپر میں گاڑھا دھواں بھر گیا ہے۔ ان کمبختوں نے ہیڈ کوارٹر کی عمارت پھونک ڈالی تھی۔ ایک طرف تو چھپر کے نیچے اس دھویں میں رہتے تو کچھ دیر میں ہی ہمارا دم گھٹ جاتا ۔ باہر نکلنا بھی خطرہ سے خالی نہ تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب تو زندگی کا خاتمہ ہوا ہی ہوا۔

چائے والے نے چھپر سے منہ نکال کر دہشت گردوں کو آواز دی اور کہا کہ میں اس عمارت میں ’’چپڑاسی ‘‘ ہوں میں یہاں پھنس گیا ہوں مجھے آکر یہاں سے نکالو۔ اس نے میرا تعارف اپنے دوست کی حیثیت سے کروایا۔ میرا بستہ وہیں نیچا پڑا رہ گیا تھا۔ کوملہ کے ایک فرد کا دل اس چائے والے کے لئے بھر آیا اور اس نے اس کو باہر جانے کی اجازت دے دی ۔ اس کے پیچھے پیچھے میں بھی چھپر سے باہر آگیا  اور دیوار پھلانگ کر نیچے آیا اور ہیڈ کوارٹر کی عمارت سے باہر نکل گیا۔

میں نے راستہ میں اس چائے والے کو بتایا کہ میں یہاں مسافر ہوں ۔ میں تو اس شہر سے گذر رہا تھا کہ یہاں ہیڈ کوارٹر میں پھنس گیا۔ اس  بتایا کہ وہ  یہیں قریب میں ایک چھوٹے سے کمرے میں کرایہ پر رہتا ہے۔

رات ہو چکی تھی  اور وحشت نے میرے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ میں اسی چائے والے کے ہمراہ اس کے گھر جا پہنچا۔ اس کا گھر ایک بڑے سے صحن میں واقع تھا۔ اس صحن کے چاروں طرف کمرے ہی کمرے بنے ہوئے تھے۔ اس نے تمام کرایہ داروں سے میرا تعارف کروایا تو ان میں سے ایک مجھے اپنے کمرے میں لے گیا۔ اس نے بتایا کہ اس کا پیشہ سبزی بیچنا ہے اور مہا آباد اسکوائر پر اس کی سبزی کی دکان ہے۔ باتوں باتوں میں ہی اس نے مجھے یہ بھی بتا کہ یہاں اسلحہ کیسےآتا ہے اور اس کی قیمت کیا ہوتی ہے۔ اس رات اس سبزی فروش نے مجھ سے  اپنی بہت سے باتیں کیں جو میرے لئےاہم اطلاعات تھیں جن  کو میں نے بعد میں استعمال کیا۔

علی ٰ الصبح میں اس سبزی فروش کا شکریہ ادا کرکے اس کے کمرے سے نکل گیا۔

سبزی فروش کی باتوں سے ہی میں یہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوگیا تھا کہ سپاہ پاسداران کا ہیڈ کوارٹر کہاں ہے۔ پس میں اندازے لگاتا ہوا  اسی کوشش میں تھا کہ کسی طرح سپاہ پاسداران کے ہیڈ کوارٹر پہنچ جاؤں۔

بمشکل تمام اور سرگرادانی بالاخر  میں سپاہ کے ہیڈ کوارٹر پہنچ گیا اور وہاں پر اپنی داستان سنائی۔

سپاہ کی عمارت کے اطراف سے گولیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ معلوم ہوا کہ یہاں پر مسلسل حملے جاری  رہتے ہیں۔ سپاہ کے جوان بھی کئی ایک گرفتار کر چکے ہیں جو زندان میں رکھے گئے ہیں اور ان قیدیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔[1]

 

 

 

 

 

 

 


[1] خاطرات مرتضی الویری، ص ۸۳۔ دفتر ادبیات انقلاب اسلامی، حوزہ ہنری تہران۔ ۱۹۹۶


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 608



http://oral-history.ir/?page=post&id=11391