اہواز میں باصلاحیت افراد کی شناخت اور انکی تنظیم -۲

تحریر: محسن رضائی میر قائد
ترجمہ: محب رضا

2023-05-24


ہم نے اگلے تعلیمی سال کے بیس افراد میں سے جناب قمیشی، جناب مرتضائی اور چند دوسرے دوستوں کا ایک مرکزی کمیٹی کے عنوان سے انتخاب کر لیا۔ نئے افراد مذہبی، حق کو ماننے والے اور مستعد تھے۔ یعنی جب ہم ان کے سامنے بات کرتے تھے، تو ہم نے دیکھا کہ وہ قبول کرتے تھے اور خوفزدہ نہیں ہوتے تھے۔ کچھ لوگوں نے ہماری بات مانی، لیکن ڈر کی وجہ سے وہ ہمارے ساتھ نہیں آئے۔ البتہ بعض لوگوں نے ان دلائل کو بالکل قبول نہیں کیا اور اس چیز کی انکے لیے اہمیت نہیں تھی۔ جنہوں نے اس موضوع کو قبول کیا وہ دو گروہ تھے: کچھ نے کہا: "ہم بات کو قبول کرتے ہیں، لیکن ہم اس قسم کے کام میں شامل نہیں ہونا چاہتے"، کچھ افراد جو زیادہ بہادر تھے انہوں اس کو قبول بھی کیا اور ہمارے ساتھ جدوجہد کے مرحلے میں داخل ہونے کے لیے تیار بھی ہو گئے۔ اگلے مرحلے میں، ہم نے معیار کی بنیاد پر ان کا مشاہدہ کرتے ہوئے، آپس میں بحث کی اور ایک ایک کرکے ان کو دوستان کے گروہ میں شامل کر لیا۔ مثال کے طور پر، اگر کسی کے بارے میں جناب قمیشی، جناب ساکیہ، میری اور دیگر دوستوں کی رائے یہ بنتی تھی کہ وہ گروہ میں شامل ہو سکتا ہے، تو ہم اسے ممبر بنا دیتے۔ اس طرح، ہم نے اگلے تعلیمی دور کے چار پانچ افراد پر مشتمل ایک انقلابی کمیٹی بنا لی۔ اب ہم دو مرکزی گروہ بن گئے تھے: ایک گروہ ہمارے اپنے تعلیمی دور کے افراد کا؛ یعنی سال 1349 میں داخلہ لینے والوں کا اور ایک سال 1350 کے داخلہ لینے والوں کا؛ جو طلاب 1350 میں کالج میں داخل ہوئے تھے، ہم نے ان سے کہا کہ آپ کالج کے نوجوان اساتذہ پر کام کریں۔

دیگر کاموں میں سے ایک کام جو اس دوسرے گروہ کو دیا گیا وہ یہ تھا کہ وہ ان افراد پر کام کریں جو اگلے سالوں میں کالج میں وارد ہوں گے اور نئے اساتذہ، معلمان اور مدیران کی شناخت کریں جو کالج آئیں۔ ابتدائی تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ دو اساتذہ شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔ ایک جناب حسینی اور دوسرے جناب روحی تھے، جو شمال سے تھے اور خیالات کے اعتبار سے کمیونسٹ تھے۔ ہم مرتضائی، قمیشی اور کچھ دوسرے دوستوں کے ساتھ ان کے گھر گئے اور ان سے گفتگو کی۔ انہیں ہماری گفتگو بہت پسند آئی۔ انہوں نے ہم سے پوچھا: "آپ کی جدوجہد کا رول ماڈل کون ہے؟" میں نے سوچا اور کہا: "مرزا کوچک خان جنگلی۔" پھر میں نے ان سے کہا: "آپ بھی مرزا کوچک خان کی طرح شمال سے ہیں"، پھر میں نے جناب مرتضائی سے کہا: "انہیں میر فخرائی کی کتاب دیں تاکہ یہ وہ پڑھیں اور یہ بات مزید واضح ہو سکے۔" جناب مرتضائی نے یہ کتاب اہواز کی ایک لائبریری میں ڈھونڈ نکالی اور انہیں دی، انہوں نے اسکا مطالعہ بھی کیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس رات ہم ان کے گھر میں ہی سوئے تھے۔ اہم بات یہ تھی کہ ہمارے جوانوں میں یہ جذبہ تھا کہ وہ اپنےاساتذہ کے ساتھ جا کر کام کرتے تھے۔ اگرچہ بعض اساتذہ معلومات رکھنے والے اور جدوجہد کرنے والے ہوتے تھے، لیکن جوان جاتے تھےاور ان سے بات کرتے تھے۔

 

منبع: رضایی میرقائد، محسن، تاریخ شفاهی جنگ ایران و عراق روایت محسن رضایی، ج 1، به کوشش حسین اردستانی؛ تهران، سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس، 1394، ص 86 - 90.

 

 


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 588



http://oral-history.ir/?page=post&id=11246