اہواز میں باصلاحیت افراد کی شناخت اور انکی تنظیم -۱

تحریر: محسن رجائی میر قائد
ترجمہ: محب رضا

2023-05-24


5013-5113 کے تعلیمی سال کے دوران، میں نے سوچا کہ مجھے اس سال ٹیکنیکل کالج آنے والے نئے طلاب کی شناخت کرنا چاہیے تاکہ میں، ان میں سے مستعد مذہبی افراد کو، جو مسلح جدوجہد کا جذبہ رکھتے ہوں، جذب کر سکوں۔ اپنی اس تلاش میں مجھے، فریدون مرتضائیٰ، غلام رضا قمیشی اور دو تین دیگر افراد مل گئے۔ میں نے جناب مرتضائی کو، جو امیدیہ ​​سے ٹیکنیکل کالج  آئے تھے، کہا: "آپ کہاں رہائش اختیار کرنا چاہتے ہیں؟"، ان کی کوئی خاص رائے نہیں تھی۔ کچھ ابتدائی مدت وہ میرے گھر ٹہرےاور اس کے بعد میرے مشورے سے زیتون کارگری محلے میں ایک مکان کرائے پر لے لیا۔ اپنے گھر اور اس گھر میں، میرا آنا جانا جاری رہا۔ رفتہ رفتہ ایک بہت اچھی ٹیم بن گئی کہ کبھی کبھار دس بارہ لوگ اس گھر میں جمع ہو کر کام کرتے۔ اس طرح، عبداللہ ساکیہ کے ساتھ مسلح جدوجہدانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ، ہم نے ایک مربوط عمومی کام شروع کر دیا کہ جس میں بنیادی طور پر عملے کی بھرتی، انکی تربیت اور تنظیم کی توسیع شامل تھی۔ کچھ عرصے بعد جب مجھے احساس ہوا کہ اچھا گروہ تشکیل پا گیا ہے تو میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ وہ اہواز کی مختلف مساجد میں جائیں اور وہاں کے حالات کے بارے میں رپورٹ تیار کریں۔

مسلح جدوجہد کے دوران ہم اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مسلح جدوجہد کی بنیادی کمزوریوں میں سے ایک، جدوجہد کرنے والوں کا عوام سے رابطہ نہ ہونا اور ان کا معاشرے کی حقیقتوں سے دور ہونا ہے۔ لہٰذا، ایک اصول کے طور پر، ہم چاہتے تھے کہ جن بھائیوں کے ساتھ ہم کام کر رہے ہیں، وہ اپنے آس پاس ہونے والے احوال کی رپورٹ تیار کریں اور دیکھیں کہ ان کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے اور لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔ یا انکے اردگرد کے لوگوں میں کون مذہبی ہے اور ان کے گردونواح کا علاقہ کیسا ہے۔ کچھ دوست، جو زیادہ متحرک تھے، ایک کے بجائے دو مساجد میں گئے۔ مرتضائی،آسیہ آباد مسجد بھی گئے اور اصفہانی مسجد بھی، اور ان دونوں مساجد کے حالات کی رپورٹنگ کی۔ یہ کام محرم کے مہینے میں مزید توجہ کے ساتھ جاری رہا۔

جب ہم اس طرح آگے بڑھے اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں تو ہمیں خیال آیا کہ ہمارا گروہ، صرف اپنے تعلیمی سال کے دوستوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ ہمیں نئے اور پرانے طلاب، حتیٰ اساتذہ میں سے بھی افراد کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔ ٹیکنیکل کالج کے اساتذہ کے دو گروہ تھے: پہلا گروہ پرانے اور بڑی عمر کے افراد کا تھا، اور دوسرا گروہ ان افراد کا تھا جو تازہ تازہ کالج میں آئے تھے۔ ہم نے سینئر اساتذہ کو اس مقصد سے خارج کر دیا، کلاس ڈسکشنز کے دوران یا عمومی طور پر جس طرح کا رویہ وہ اختیار کرتے تھے، اس سے ہم سمجھ گئے تھے کہ ان کے ساتھ کام کرنے کا فائدہ نہیں ہے، کیونکہ جیسے ہی بحث سیاسی رخ اختیار کرتی، وہ یا تو بحث سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے یا منفی ردعمل کا اظہار کرتے۔ ہم نے دیکھا کہ سینئر اساتذہ سے بحث کرنا فضول ہے۔ لیکن نوجوان اساتذہ کے بارے میں، جو کالج میں تازہ وارد ہوئے تھے، ہم نے سوچا کہ اگر ہم ان پر کام کریں تو یہ کارآمد ہوگا۔ تاہم، ہمارے ذہن میں یہ آیا کہ اگر ہم، یعنی میں اور جناب ساکیہ یا جناب احمدی یا جناب دقایقی، ان پر کام کرنا چاہیں تو شاید یہ بے احتیاطی ہوگی۔ ہم نے سوچا کہ کالج سے فارغ التحصیل کچھ طلباء کو اعتماد میں لیں اور ان کی مدد سے ایک مرکزی انقلابی کمیٹی تشکیل دیں اور کچھ کام ان کے ذمہ لگا دیں تاکہ وہ فعال بھی ہو جائیں اور ہم خود پس پشت رہتے ہوئے، کالج کے اساتذہ سے ان کے ذریعے رابطے میں بھی رہ سکیں.

 

منبع: رضایی میرقائد، محسن، تاریخ شفاهی جنگ ایران و عراق روایت محسن رضایی، ج 1، به کوشش حسین اردستانی؛ تهران، سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس، 1394، ص 86 - 90.

 


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 638



http://oral-history.ir/?page=post&id=11245