مت بتانا کہ مجھ پر تشدد ہوا ۔ ۲

تحریر: محسن رجائی میر قائد
ترجمہ: محب رضا

2023-05-24


بعد میں پتہ چلا کہ جتنا تشدد انہوں نے ہم پر کیا، وہ اس سے کہیں اور زیادہ کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ مجھے یہ اس وقت سمجھ میں آیا، جب ان ساواکیوں میں سے ایک، مجھے عدالت لے جا رہا تھا۔ اس کی عمر تقریباً 54، 55 سال تھی۔ اس کے بال چھوٹے اور قد درمیانہ تھا۔ میرا خیال اس کے کوٹ کا رنگ بھورا تھا، لیکن مجھے اس کا نام یاد نہیں۔ البتہ وہ سب عرفی نام استعمال کرتے تھے، لیکن مجھے اب اس کا عرفی نام بھی یاد نہیں۔ عدالت کے راستے میں، اس نے مجھ سے پوچھا: " انہوں نے تم پر تشدد تو نہیں کیا؟" " کیا مطلب؟" میں نے پوچھا۔ اس نے کہا: "انہوں نے تم پر کوئی تشدد نہیں کیا ہے!" میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے سمجھانا چاہتا ہے کہ عدالت جا کر یہ نہیں کہنا ہے کہ مجھے مارا گیا ہے۔ ہمیں گرفتار کئے رکھنے میں ایک مشکل یہ تھی کہ انہیں معلوم تھا کہ اس قسم کی کاروائیوں میں شامل ہونے کے لحاظ سے ہم بہت کم عمر ہیں؛ یعنی اگر ہماری عمر اٹھارہ یا انیس سال سے زیادہ ہوتی تو وہ ہمارے بارے میں زیادہ محتاط ہوتے اور ہم پر اس پر کہیں زیادہ تشدد کرتے۔ تاہم، انہوں نے اتنی چھوٹی عمر ہونے کے باوجود، جس قسم کا تشدد ہم پر کیا تھا، وہ بذات خود کم تشدد نہیں تھا۔ مثال کے طور پر، انہوں نے ہمیں قاتلوں کے ساتھ ایک ہی کوٹھری میں بند رکھا، یا، مثلاً، دو گھنٹوں تک، دو افراد ہمیں مارتے رہے، یا ہم 45 دن مسلسل قید تنہائی میں رہے۔ عدالت کے راستے ہی مجھے سمجھ آ گیا کہ دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں؛ یا تو احتیاط کر رہے ہیں کہ قیدیوں پر اس  طرح کے تشدد کی خبریں اعلیٰ حکام تک نہ پہنچیں اور باہر نہ نکلیں اور یہ بات ان کے لیے اہم ہے یا پھر انکا عدالتی حکام سے کوئی اختلاف چل رہا ہے۔

کافی عرصے تک یہ سوال میرے لیے باقی رہا کہ اس نے مجھے ایسا کیوں کہا تھا؟ ایک لمحے کے لیے مجھے یہ خیال آیا کہ اس کی خواہش کے برعکس میں اپنی بات پر مضبوطی سے قائم رہوں اور کہوں کہ ہمیں جیل میں مارا پیٹا گیا ہے اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن میں نےسوچا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو جو کھیل ہم کھیل رہے ہیں یہ اس کے مطابق نہیں ہوگا۔میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اب تک ہم نے بہت سنجیدگی سے یہ کھیل کھیلا ہے تاکہ ہم ان ظالموں کو یہ باور کروا سکیں کہ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اس طرح کی مسلح جدوجہد درست نہیں ہے۔ اب اگر میں عدالت میں یہ کہوں کہ ہمیں مارا پیٹا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس سے ہماری حالت مزید خراب ہو جائے۔ میں نے دیکھا کہ اسکا فائدہ نہیں ہے۔ لہذاٰ میں نے اس سے کہا: ’’نہیں، انہوں نے ہمیں نہیں مارا۔ کون کہتا ہے کہ انہوں نے ہمیں مارا ہے؟!" میرے مثبت رویے سے افسر مطمئن ہو گیا کہ جب میں عدالت جاؤں گا تو تشدد کے بارے میں بات نہیں کروں گا۔ لیکن عدالت میں بطور کامل سب کو معلوم تھا کہ ساواکی مار پیٹ کرتے ہیں۔ تب سے، میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ اس نے ایسا کیوں کہا اور ان کا مسئلہ کہاں تھا؟ بعد میں جب انسانی حقوق کا مسئلہ سامنے آیا تو مجھے پتہ چلا کہ انہیں جو مسئلہ درپیش تھا وہ حکومت کے اندر سے نہیں، بلکہ حکومت کے غیر ملکی حامیوں اور عالمی رائے عامہ کی وجہ سے تھا۔

 

منبع: رضایی میرقائد، محسن، تاریخ شفاهی جنگ ایران و عراق روایت محسن رضایی، ج 1، به کوشش حسین اردستانی، تهران، سپاه پاسداران انقلاب اسلامی، مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس، 1394، ص 132 – 146.


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 734



http://oral-history.ir/?page=post&id=11243