ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، تینیسواں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2023-04-20


ہمیشہ کی طرح ہم خانہ فرہنگ کی وین میں سوار ہوئے لیکن اثنائے راہ میں  انجن سے عجیب و غریب قسم کی آوازیں نکلنا شروع ہو گئیں  اور پھر وین بند ہوگئی۔ علی نے بارہا چابی گھمائی مگر وین کا انجن ٹس سے مس نا ہوا۔ بچوں کا گرمی سے برا حال تھا گاڑی میں ایئر کنڈیشن تو تھا نہیں اس لئے جب تک گاڑی چلتی رہی تھی  کچھ نہ کچھ ہوا تھی اور ہم نے گاڑی کے شیشے کھول رکھے تھے کہ ہوا کا گذر رہے۔ جب علی گاڑی کے اسٹارٹ ہونے سے مکمل مایوس ہو گیا تومجبوراً ٹیلی فون بوتھ کی جانب روانہ ہوا تاکہ حبیب کو فون کر سکے اس نے ہمیں ہدایت کی کہ گاڑی کے دروازے شیشے بند کر لیں۔ محمد بیچارا بہت بے چین ہو رہا تھا کیونکہ گاڑی کے شیشے چڑھے ہوئے تھے اور گرمی اپنی انتہاء پر تھی۔ ہماری گاڑی کے پاس سے جب بھی کوئی گذرتا  تو ہمارا تو دم ہی نکل جاتا کیوں کہ یہ پہلا موقع تھا کہ ہم  علی کے بغیر سڑک کے کنارے کھڑے تھے۔ کوئی ۲۰ منٹ بعد علی اور اس کے کچھ دیر بعد حبیب آیا۔ محمد گاڑی کی دونوں سیٹوں کے درمیان کھڑا ڈیش بورڈ اور گاڑی کے اسٹیرنگ کو تک رہا تھااور حبیب سے سوالات پر سوالات کر رہا تھا۔ مہدی گاڑی کے شیشے اوپر نیچے کر رہا تھااور ایک حیرت کے ساتھ گاڑی کی ہر چیز کو ہاتھ لگا لگا کر جائزہ لے رہا تھا۔ بچوں کو قرار نہ تھا وہ گاڑی کے سفر پر بہت خوش تھے ان کا خریداری کا پروگرام تو خراب ہوگیا تھا مگر BENZ  کا یہ سفر ان کے لئے بڑا خوشگوار تجربہ تھا۔ ان کے چہروں سے لگتا تھا جیسے ان کو کوئی بڑا خزانہ مل گیا ہو۔

خانہ فرہنگ  میں دو گاڑیا ں تھیں ایک وین اور دوسری یہ بینز ۔ علی نے بینز کو مہمانوں کے لئے مخصوص کر دیا تھا  ہر چند ہم قانون کی رو سے بینز اور اس کے ڈرائیوسے استفادہ کے حقدار تھے مگر علی اس اجازت کہاں دیتا۔ مہدی  اور محمد لڑکے تھے اس لئے ان کو ان چیزوں کا شوق بھی زیادہ تھا ۔ ہمیں اگر گھر سے باہر کوئی ضروری کام ہوتا تو ہمیشہ علی اپنی وین میں ہی لے کر جاتا تھا اور بینز  پارکنگ میں کھڑی رہتی کیونکہ علی کی کتاب قانون میں بینز صرف اور صرف  خانہ فرہنگ کے خصوصی مہمانوں کے لئے تھی اور ان کو لانے لے جانے کے لئے ہی پارکنگ سے نکالی جاسکتی تھی۔ دوسری طرف علی بچوں کا دل بھی نہ توڑ سکتا تھا اس کا حل اس نے یہ نکالا کہ بچوں کو چابی دے دیا کرتا تھا اور وہ پارکنگ میں جا کر دل بھر کر گاڑی سے کھیلتے اس کے اسٹیرنگ  کو گھماتے اور منہ  سے گاڑی چلنے اور ہارن کی آوازیں نکالتے اور محظوظ ہوتے۔

آہستہ آہستہ یہ چند ماہ میں ایک بار باہر جانا بھی بند ہوگیا اور بچوں کا باہر جانا صرف اسکول تک محدود رہ گیاحتیٰ خریداری کے لئے باہر جانا جو بچوں کے لئے تفریح کا نعم البدل تھا وہ بھی منسوخ ہو گیا ۔ یہ سب حساسیت علی جانب سے صرف ہمارے لئے تھی ورنہ اس کے اپنے کام تو پہلے کی طرح جاری تھے ان دھمکیوں اور گیدڑ  بھپکیوں کا وہ اپنے لئے اثر نہ لیتا تھا  جب بھی کوئی اس کو دعوت پر بلاتا وہ بے خوف و خطر چلا جاتا ۔ زہیر اس کو بہت منع کرتا سمجھاتا مگر وہ ایک نہ سنتا۔ جب زہیر دیکھتا کہ اس کے کہنے کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تو  وہ میرا دامن تھامتا۔ علی کا کہنا تھا کہ ہم یہاں صرف سیاسی روابط کی مضبوطی کے لئے نہیں آئیں ہیں ہمارا کام ثقافتِ انقلاب کا صدور ہے اور اس کے لئے تمام گروہوں اور قبیلوں سے روابط استوار کرنے کی ضرورت ہے  اور ہمیں لوگوں کے چھوٹے چھوٹے جلسوں اور گھریلو دعوتوں میں شریک ہونا ہوگا۔ علی اپنے طرزِ عمل کی وجہ سے لوگوں میں دن بدن مقبول ہوتا جارہا تھا ۔



 
صارفین کی تعداد: 737



http://oral-history.ir/?page=post&id=11156