مشترکہ کمیٹی کے زندان میں تبدیلی، سال ۱۳۵۷، پچاس کی دہائی

سیدهادی خامنه‌ای
ترجمہ: محب رضا

2023-01-29


ہمیں ایک سیل کے اندر، وارڈ 6 میں بھیج دیا گیا۔ جیسا کہ پہلے اشارہ کیا تھا، ڈکٹیٹر حکومت کی حالت، سال 1357 کے دوسرے نصف حصے میں اس قدر بگڑ چکی تھی کہ مجھے یاد ہے کہ کسی نے مشترکہ کمیٹی سیل کے اندر سے چیخ کر کہا: " زندان کی کوٹھڑی کا دروازہ کھولو! اپنے افسر سے کہو کہ باہر کا چکر لگائے اور دیکھے کہیں معاملہ ختم تو نہیں ہو گیا! کیا تم سمجھتے ہو کہ ابھی بھی پچھلا وقت ہی چل رہا ہے؟!"

مجھے یاد ہے کہ مشترکہ کمیٹی کے جیل میں انہوں نے ٹی وی رکھا تاکہ قیدی ٹیلی ویژن دیکھ سکیں، اس جگہ، جہاں چند ماہ پہلے تک کاغذ اور قلم تک ممنوع تھے اور اگر کسی قیدی سے ایسی چیزیں برآمد ہو جاتیں تو اسے بہت مہنگا پڑتا۔ان چند ہفتوں کے دوران، جب میں وہاں قید تھا، ہم نے وارڈ 6 میں بہت سے مختلف لوگوں کو دیکھا۔ جناب مفتح، جناب سید جواد ہشترودی جو کہ تہران کی امام حسین سکوائر مسجد میں تبلیغ کیا کرتے تھے، جناب مقدم مراغہ ای جو کہ انقلاب کے بعد تبریز کے پہلے گورنر بنے، انجینئر غلامرضا اربابی جو انگریزی سکھاتے تھے اور سرکاری چنیل ان کی انگریزی کلاسوں کی تشہیر کرتے تھے اور کہتے تھے: "پانچ گھنٹے میں مکمل انگریزی سیکھیں!" بعد میں معلوم ہوا کہ وہ تودہ پارٹی کے رکن تھے۔ میں نے کمیٹی کی جیل میں، جن دیگر لوگوں کو دیکھا، ان میں گیشا کی جعفری مسجد کے امام شیخ عباسعلی سرفرازی، بہبہان کے تین علماء؛ ان میں سے ایک جناب موسوی تھے جن کا پورا نام میں نہیں جانتا، ایک بہبہان کے امام جمعہ تھے اور تیسرے شخص کا نام غالباً جناب معادی تھا۔ آقا شیخ یحییٰ نوری کو بھی 17 شہریور کے واقعات کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں ہم سے الگ رکھا ہوا تھا۔

ایک اور تبدیلی، جو مشترکہ کمیٹی جیل میں وقوع پذیر ہوئی اور جس سے ظاہر ہوا کہ جیل کے باہر تبدیلیاں آئی ہیں اور جس کے نتائج مشترکہ کمیٹی اور شاید دوسری جیلوں پر بھی پڑے، قیدیوں سے ملاقات کا مسئلہ تھا۔ اب تک مشترکہ کمیٹی میں قیدی کی، اسکے اہل خانہ سے ملاقات کے نام کا کوئی موضوع نہیں تھا۔ میں نے بھی جس ملاقات کا تذکرہ کیا، وہ کچھ جاننے والے برادری کے افراد کی آذری زبان بولنے والے اعلیٰ عہدےداروں سے سفارش کا نتیجہ تھی، ورنہ مشترکہ کمیٹی کی جیل میں کسی ملاقات کا امکان نہیں تھا۔ لیکن اس وقت طریقہ کار بدل گیا تھا اور میں نے اپنی اہلیہ سے، جو تہران میں ہوتی تھیں، ملاقات کی۔ ہمارا پہلا بچہ ایک یا دو ماہ کا تھا جب میری بیوی اسے کپڑے میں لپیٹے، مجھ سے ملنے آئی اور ہم ایک دوسرے سے ملے۔

ہم جیل سے باہر واقع ہونے والے بعض سیاسی واقعات اور تبدیلیوں سے ٹی وی کی خبروں کے ذریعے آگاہ ہو جاتے تھے۔ جب ٹی وی پر خبریں شروع ہوتیں اور شاہ کے بارے میں کوئی خبر اس طرح پڑھی جاتی کہ اعلٰی حضرت شہنشاہ نے فلاں فلاں بات کی ہے تو ہم طنزیہ انداز میں ہنس پڑتے اور محافظین جو ابھی تک ڈکٹیٹر حکومت کی طرفدار تھے، غصے میں وہاں سے چلے جاتے۔

جیل کے باہر کی خبریں آسانی سے مل جاتی تھیں، ماضی کی طرح نہیں تھا کہ ایک کوٹھڑی کو دوسری کوٹھڑی کی خبر نہ ہو۔ مجھے یاد ہے کہ ہم نے مشترکہ کمیٹی کی جیل میں امام خمینی کی نجف سے پیرس کی طرف ہجرت کی خبر سنی تھی۔ خبر اتنی خاص تھی کہ ہم پرجوش ہونے کے ساتھ ساتھ حیران بھی رہ گئے تھے۔ جوش و جذبہ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن حیرت اس بات کی وجہ سے تھی کہ ہم نے محسوس کیا کہ کچھ ہونے والا ہے اور امام کی جدوجہد اور تحریک ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ یہ خبر ہمارے لیے عجیب اور ایک حد تک غیر معمولی تھی۔ ہمارے پاس گزرنے والے واقعات کی تفصیل نہیں تھی اس لیے درست طریقے سے تحلیل کرنا ممکن نہیں تھا، بس اتنا ہی جانتے تھے اور محسوس کرسکتے تھے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اس دن پیش آنے والے ان تمام احساسات اور جذبات کو بیان نہیں کر سکتا، انکا اظہار بھی مشکل ہے۔ لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اپنے دوستوں کو کہا تھا کہ یہ عام بات نہیں ہے۔ میں اس مسئلے پر سوچتا رہا اور میری رائے یہ ہے کہ امام خمینی کی نجف سے پیرس کی جانب ہجرت ایک غیر معمولی چیز تھی اور یقیناً ایک الہی امر تھا۔

مجھے مشترکہ کمیٹی کی جیل کے بارے میں زیادہ یاد نہیں، سوائے جیل کے اندر ادھر ادھر آنے جانے اور اس قسم کی چیزوں کے۔ مجھ سے چند بار پوچھ گچھ کی گئی۔ آخری بار میں نے تفتیشی افسر سے احتجاج کیا اور کہا: "ہماری گرفتاری کی وجہ کیا تھی؟" وہ ہمیں یہاں کیوں لائے؟ وہ اب ہمیں رہا کرنے کا کیوں سوچ رہے ہیں؟" اس کے پاس دینے کے لیے کوئی جواب نہیں تھا! اور آخر کار 29 یا 30 مہر 1357 کو اکتالیس بیالیس دن کے بعد، بغیر کسی تمہید کے ہمیں رہا کر دیا۔ شاید مشترکہ کمیٹی جیل کے ذمہ داروں کو معلوم تھا کہ جو واقعات رونما ہو رہے ہیں، اب ایسی جگہوں کو خفیہ رکھنا ضروری نہیں ہے۔ انہوں نے نا ہماری آنکھیں بند کیں اور نا ہی ہمیں کسی دوسری جگہ منتقل کیا۔ مجھے اس دن پتہ چلا کہ تہران شہر میں مشترکہ کمیٹی کی جیل کہاں واقع ہے، البتہ اس سے قبل اور پہلے جب فروردین 1353 میں گرفتار کیا گیا تھا، مجھے اس علاقے کا  ایک حد تک اندازہ تھا۔ کیونکہ مجھے یاد ہے کہ میں صبح کی آذان کی آواز اپنے سیل میں سنا کرتا تھا اور ایک بار جب میں نے سیل کے محافظ سے پوچھا: "یہ کہاں کی آذان کی آواز ہے؟" تو اس نے کہا تھا: ’’یہ مسجد مجد کی آذان ہے، جو بالکل پیچھے واقع ہے۔‘‘ میں سمجھ گیا کہ میں اندازاً کس جگہ قید ہوں، لیکن اس بار میں نے اردگرد کی گلیوں کو پہچان لیا اور مجھے پتہ چل گیا کہ میں کہاں ہوں۔

منبع: قبادی، محمدی، یادستان دوران: خاطرات حجت‌الاسلام والمسلمین سیدهادی خامنه‌ای، تهران، سوره مهر، 1399، ص 539 - 544.

 

 


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 872



http://oral-history.ir/?page=post&id=11024