سردار سید رحیم صفوی صاحب کی ڈائری سے اقتباس

فائزہ ساسانی خواہ
سید نعیم حسین شاہ

2022-07-02


اپریل 1979 کے وسط میں میجر جنرل سردار شھید یوسف کلاھدوز، قائم مقام چیف آرمی اسٹاف نے تہران سے مجھے فون کیا۔ اس وقت میں اصفہان میں سپاہ میں آپریشن کمانڈر تھا، خیر انہوں مجھے حکم دیا کہ گذشتہ میٹنگ جو ہوئی تھی، اب اس کا اگلا مرحلہ ہے اور وہ یہ کہ آپ جتنی تعداد میں ممکن ہو اصفہانی بسیجی اور سپاہ پاسداران کے افراد کے ساتھ، ضد انقلاب گروہ سے مقابلہ کے لئے نکلیں اور سنندج شہر اور کردستان کے دیگر شہروں کی آزادی کے لیے قدم اٹھائیں۔

وہ میری، انقلاب اسلامی سے پہلے کی فعالیت سے آگاہ تھے۔ ویسے میں 1975 میں جیومیٹری کے مضمون میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوا تو کمشنڈ آفیسر کے طور پر شیراز میں ۵۵ویں ایئر برن بریگیڈ میں دوسال گزارے اور 1977 میں جب ڈیوٹی اپنے اختتام کو تھی تو اس وقت میں جنگی تربیت، نقشہ خوانی اور نیم وزنی اور لائٹ ویٹ ہتھیار چلانا سیکھ چکا تھا۔ سپاہ پاسداران اصفهان کا ایک طرہ امتیاز یہ بھی تھا کہ اس کے سپاہی بہادری اور تقوی میں نمایاں تھے، نیز یہاں کی کمانڈنگ ٹیم کا اساسی ڈھانچہ کافی مضبوط تھا (جس کے کمانڈرحجتہ الاسلام والمسلمین آقا احمد سالک تھے)، اور اسی طرح کمانڈنگ کمیٹی بھی نہایت مستحکم تھی۔ خیر، اس مسلے کو کمانڈنگ کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا اور تمام اراکین کی طرف سے یہ طے پایا کہ میں پاسداران اور بسیجیوں کو لے کر روانہ ہوجاوں۔

11اپریل 1980 کی صبح کو، جبکہ میری شادی ہوے ابھی تین ہفتے ہی ہوئے تھے، اصفهان کے پرانے ایر پورٹ پر ٹی وی اِنٹرویو میں میں نے کہا: "ہم پاسدار اور بسیجی ضد انقلاب گروپ سے لڑنے اور کردستان کو ان کے چنگل سے آزاد کروانے کے لیے نکل رہے ہیں۔" اور پھر اسی دن ہم، اچھا خاصا اسلحہ لے کر سپاہ پاسداران اصفهان کے تقریبا دو سو بہادر و متدین جوانوں کے ساتھ دو C-130 طیاروں کی مدد سے سنندج کے لئے روانہ ہوئے۔ طیاروں کو سنندج کا پرانا ایئرپورٹ ڈھونڈنے میں کافی دقت پیش آ رہی تھی، پائلٹ حضرات کا کہنا تھا کہ اصفهان واپس چلتے ہیں، جب کہ میرا اصرار اس کے بر عکس تھا۔ میں نے کہا ہمیں کم از کم آبادان کے ایئرپورٹ پہ اتار دیں۔ اسی اثنا میں اللہ کی مدد شامل حال ہوئی اور سنندج کا پرانا ایئرپورٹ مل گیا۔ اور دونوں طیارے وہیں اتر گئے۔ اور ہم نے کردستان کی راہ لی۔ سب جوان شہادت کا غسل کر کے بالکل  تازہ دم اور تیار ہوگئے، دنیا کے تمام تر تعلقات اور رعنائیوں سے بے نیازی ان کے چہروں سے عیاں تھی۔

کرمانشاه سے سنندج جانے والی سڑک ضد انقلاب گروہ کے قبضے میں تھی، سو ہمیں پہلے ہی مرحلے میں دو طیاروں کی مدد سے سپاہیوں کو سنندج لے کر جانا تھا۔ سنندج ایئرپورٹ تو پہلے سے ہی محاصرے میں تھا۔ طیارے اترنے سے پہلے ہی رن وے پہ مارٹر کا گولہ آ کر گرا۔ جوان تو سبھی بندوقوں  اور ہینڈ گرینیڈ سے مسلح تھے، سو سب جلدی سے اترے اور طیاروں نے فورا واپس تہران کا رخ کیا۔ ہم جس پل سے بھی گزرے، اسے تباہ کردیا تا کہ واپسی کا کوئی رستہ باقی نہ بچے۔ یوں اس معرکے کے لئے وہی فرد آگے بڑھ سکتا تھا جو جان ہتھیلی پہ رکھ کر پیش قدمی کرنا جانتا ہو۔ البتہ ہمارے لیے اس وحشتناک منظر میں صرف اور صرف ایک ہی چیز سکون کا باعث تھی اور وہ تھی اہل بیت علیھم السلام سے توسل اور اللہ کی عنایت۔ تمام جوان شکست ناپذیر ارادہ کئے ہوے تھے۔ جھڑپ شروع ہو گئی۔ ہم نے اپنے کام میں جلدی دکھانی تھی۔ پہلا کام ایئر پورٹ کو منافقوں سے چھڑانا تھا اور آگے بڑھتے ہوتے سنندج چھاؤنی تک جانا تھا جو ابھی کافی دور اور شہر کے اس طرف تھی۔ یعنی ہمیں پورے شہر سے گزر کر وہاں پہونچنا تھا۔ راستے میں جھڑپوں والے کئی محاذ تھے۔ چھاؤنی کے اندر والے فوجیوں کو جب ہمارے آنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے بھی مزاحمت شروع کر دی۔ "علی میر" اور "مھدی سلطانی" پہلے دو افراد تھے جو آفیسر باڈی بلڈنگ کلب کے پاس شہید ہوئے۔ ان کی جدائی ہمارے لیے بہت تکلیف دہ تھی۔ لیکن یہ بات بھی سچ ھے کہ کردستان کی اس لڑائی میں اور حتی بعد میں مسلط کردہ جنگ میں شہدا کی ہم سے ظاہری جدائی سے نہ صرف ہم میں کمزور نہی آئی بلکہ پاکیزہ اہداف تک پہونچنے میں ان شہدا کی رہنمائی او غیبی امداد ہمارے شامل حال رہی۔ جب ہم چھاؤنی پہونچے اور سنندج کا کچھ حصہ بھی آزاد کرایا تو خود ہمیں بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ استانداری کی عمارت کے سامنے گزرتے ہوے میں نے دیکھا کہ بیت المال سے متعلقہ تمام اموال کو چرا لیا گیا ہے۔ حتی عمارت کے سامنے رکھی گئی تزئینی اشیا کو بھی توڑ پھوڑ دیا گیا۔ کوئی بھی سرکاری ادارہ، عوامی دکانیں، گھر اور مساجد اس ضد انقلاب ٹولے سے امان میں نہ تھیں۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس ضد انقلاب مسلح گروہ کا عمل دخل اب کم ہورہا تھا۔ اور چونکہ یہ لوگ سنندج کے مقامی رہائشی اور کرد نہیں تھے، سو لوگوں کے ساتھ اپنائیت کے احساس سے بھی محروم تھے اور خصوصی جب کردوں کی جانب سے منفی رد عمل سامنے آتا تو غصے میں تلملا جاتے اور خیانتکاری کا سہارا لیتے۔

اب مرکزی ذمہ داران ہمارے ساتھ تھے اور ماضی والی الجھنیں اب نہیں تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہر طرح سے مدد کررہے تھے جس کی بنا پر ہم منظم طریقے سے آگے بڑھ رہے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری توانائی اور فتح میں  اضافہ ہو رہا تھا۔ یعنی ہماری ذمہ داری بڑھ رہی تھی۔ سقز، مریوان اور کامیاران سے لے کر کرمانشاه تک رسائی حاصل کرنا ابھی باقی تھا۔ اس کے بعد مجھے افواج سپاہ کی کمانڈ دی گئی اور آفیسر صیاد شیرازی شھید کو جوا۴نٹ چیف آف اسٹاف کا عہدہ سونپا گیا۔ جس کے بعد ہمارا پہلا قدم سنندج چھاؤنی میں مشترکہ ادارہ بنانے سے متعلق تھا جس کا مقصد فوج، سپاہ اور ادارہ امن و امان کے مابین ھم آہنگی ایجاد کرنا تھا۔

 


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 1245



http://oral-history.ir/?page=post&id=10629