اخبارات کی کانٹ چھانٹ

پہلوی دور حکومت اور اخبارات میں سینسر شپ

میثم غلامپور

ترجمہ و تلخیص: یوشع ظفر حیاتی

2022-06-22


پہلوی دور حکومت میں اخبارات اور جرائد کے حوالے سے اس دور کے صحافیوں کے خاطرات بہت اہم ہیں جن سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں۔ انہیں مکتلف منابع میں دیکھا بھی جاسکتا ہے۔ اس زمانے کے صحافی حضرات نے اپنی اپبنی گفتگو کے دوران بہت سارے موضوعات کی جانب اشارہ کیا ہے جن میں سے ایک یہی اخبارات اور جرائد میں سینسر شپ کا مسئلہ تھا۔ اس سلسلے میں بہت ساری گفتگو اور یادداشتیں موجود ہیں جن میں سے بعض موضوعات کو آُ کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔

پرویز ناتل خانلری، سخن نامی مشہور و معروف ادبی میگزین کے مالک تھے۔ وہ اپنی یادداشتوں میں اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ سکں میگزین کو نشر ہوتے ہئے تیس سال کا عرصہ گذر چکا تھا لیکن اس کے مطالب کو سینسر نہیں کیا جاتا تھا۔ شاید اس وجہ سے کہ وہ فکر کرتے تھے کہ سخن ایک ادبی میگزین ہے جس کے قاریوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن اس سے کوئی خطرہ بھی نہیں ہے۔ لیکن ستر کی دہائی کے تقریبا ابتدائی ایام میں سینسر کرنے والوں نے ستانا شروع کردیا۔ شاید چھاپے گئے بعض اشعار نے وزارت اطلاعات کو حساس کردیا تھا۔ من جملی پولینڈ کے ایک شاعر کے شعروں کے ترجمے نے جس کا عنوان "سوشل ازم کیا ہے" تھا، اسی طرح ڈاکٹر مصدق کی تعریف میں لکھے جانے والے اشعار البتہ ان میں تعریف بہت زیادہ کھل کر نہیں کی گئی تھی اور ہوشنگ ابتھاج کے شعر جس میں انہوں نے صراحت کے ساتھ تو نہیں لیکن سیاہکل کے واقعے کی جانب اشارہ کیا تھا۔ ان چیزوں کے بعد ہی وزارت اطلاعات نے سخن میگزین کو مکمل طور پر چھان بین ہونے سے پہلے بازار میں بھیجنے سے منع کردیا۔ خانلری کے مطابق سخن میگزین کے دفتر میں پینتیس افراد کی لسٹ دی گئی جن کے بارے میں کہا گیا کہ ان لوگوں کے لکھنے پر پابندی ہے۔ ان میں سے ایک شخصیت ڈاکٹر محمد رضا باطنی صاحب تھے جو زبان شناسی کے علم کے ماہر تھے۔خانلری نے تھوڑی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کا ایک مقالہ میگزین میں چھاپا کیونکہ وہ مقالہ زبان شناسی سے متعلق تھا اور اس کا سیاسی مسائل سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔لیکن اس مگزین کو بازار میں تقسیم ہونے سے روک دیا گیا اور جب تک اس مقالے کے صفحات کو پھاڑ کر الگ نہیں کردیا گیا اسے اجازت نہیں ملی۔ ایک دفعہ نام کا مخفف لکھ کر ان کا مقالہ چھاپنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ طریقہ بھی کام نہیں آیا اور اس مقالے پر سیاہی پھیرنا پڑی تاکہ اسے چھپنے کی اجازت مل سکے۔

خانلری کے مطابق اس کے بعد سے تو سینسر کرنے والوں نے سختی بڑھا دی، مثال کے طور پر ایک میگزین میں مہدی اخوان ثالث کے کچھ اشعار چھاپے گئے جس میں سے ایک مصرعے کا موضوع کچھ اس طرح تھا: "ہماری گلی میں دھماکے کی آواز سنی گئی ہے" سینسر کرنے والے اسے حذف کرنے پر مصر تھے۔ خانلری کہتے تھے: "ارے دھماکے کی خبر تو ہر اخبار ہی چھاپ رہا ہے۔" جواب ملتا ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ کچھ اور ہی مسئلہ ہے شعروں میں ایسی چیزیں نہیں آنی چاہئیں۔

اسکی دوسری مثال ایک کسان کی داستان تھی۔ ہامون نامی جھیل کے کنارے واقع ا س کسان کا کھیت خشک سالی کہ وجہ سے خشک ہوگیا اور کسان پر یہ افتاد آن پڑی۔ اس میگزین کو اس کہانی کی وجہ سے چھپنے کی اجازت نہیں ملی۔ جب کانلری نے وزیر اطلاعات کو فون کیا اور گفتگو کے دوران وزیر اطلاعات سے سوال کیا کہ بارش کا نہ ہونا اور جھیل کا خشک ہوجانا ملکی سیاست سے تعلق رکھتا ہے یا خارجہ سیاست سے؟ خانلری نی دلیل پیش کررہے تھے کہ جھیل کا خشک ہونا بارش نہ ہونے کی وجہ سے ہے لیکن اس کہانی کی وجہ سے ہمارا میگزین چھپنے نہیں دیا گیا۔ وزیر اطلاعات نے اس مسئلے کی چھان بین کا وعدہ کیا اور ایک گھنٹے بعد وزارت اطلاعات میں میگزینز کا شعبہ دیکھنے والے ذمہ دار افسر کا فون آیا اور اس نے کہا کہ ملک میں زمین سے متعلق اصلاحات کے ہوتے ہوئے یہ نہیں لکھا جانا چاہئے کہ جھیل خشک ہوگئی۔ خانلری نے جواب دیا کہ یہ اصلاحات ہم سے اس بات کا وعدہ تو نہیں کررہی ہیں کہ بارش ضرور ہوگی، لیکن انہیں جواب دیا گیا کہ بہرحال اس طرح کے مضامین سے غیر ملکیوں کو حکومت کے عیب نکالنے کا بہانہ مل جاتا ہے ۔ ایسے افراد کے سامنے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ بادل نخواستہ اس دفعہ بھی میگزین کے کچھ صفحات نکال کر اسے نشر کردیا گیا۔

محمود افشار سینسر شپ کے بارے میں بہت مختصر لیکن عجیب سی حکایت بیان کرتے ہیں۔ وہ دراصل سینسر پر مامور افسر کی جہالت کا تذکرہ کرتے ہیں جو ان میگزینز کی سینسر شپ پر مامور تھا۔ ایک بار اس افسر نے اپنی جہالت کی وجہ سے حافظ کے ایک شعر کے بارے میں جس میں لفظ رضا استعمال ہوا تھا گھبرا کر اس میگزین پر پابندی عائد کردی تھی کیونکہ اسے گمان تھا یہ لفظ اس شعر میں اعلی افسروں من جملہ رضا شاہ کے لئے استعمال کیا گیا۔ اس نے اپنے ماتحت کو حکم دیا کہ اس شعر میں سے رضا کا لفظ نکال کر حسن کا لفظ رکھ دیا جائے۔

انہیں مشکلات کی وجہ سے سن ۱۹۷۸ میں پورے ملک میں سینسر کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ محمد بلوری جو اس زمانے کے معروف صحافی ہیں لکھتے ہیں کہ ۱۹۷۸ کے ایک دن تقریبا ساڑھے نو بجے صبح دو فوجی افسر آفس میں داخل ہوئے۔ اپنے تعارف کروائے بغیر وہ چیف ایڈیٹر کے دفتر میں گھس گئے۔ اس زمانے میں محمد بلوری بورڈ آف چیف ایڈیٹرز کے انچارج تھے۔ اسی دوران وہ ملازم جو خبر کو حروف چینی کے لئے لے جارہا تھا اس نے بلوری کے کان میں کہا کہ یہ افسران کہہ رہے ہیں خبر کو حروف چینی سے پہلے انہیں دیا جائے۔ تھوڑی دیر میں آفس میں سناٹا چھا گیا اور تمام ملازمین نے جنکی تعداد ساٹھ پینسٹھ افراد کے نزدیک تھی کام کرنا چھوڑ دیا۔ یہ واقعہ اس سال خزاں کے موسم میں ہونے والے مظاہروں کے دوران پیش آیا تھا۔درحقیقت ایسا ماحول بن چکا تھا جس میں رد عمل دکھایا جا سکتا تھا اور ایسا ہی ہوا۔ اس طرح اخبارات اور جرائد کے سلسلے میں پہلے احتجاج کی بنیاد ڈالی گئی۔
 

 


oral-history.ir
 
صارفین کی تعداد: 1564



http://oral-history.ir/?page=post&id=10609