ملتان میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے کلچرل اتاشی شہید رحیمی کی اہلیہ کی روداد

ملتان کا مصلح، بیسواں حصہ

زینب عرفانیان
ترجمہ: سید صائب جعفری
ویرائش: یوشع ظفر حیاتی

2022-06-19


ہندوستان میں گذارے ہوئے آخری سالوں میں ہمیں کئی ایک تلخ تجربات ہوئے  جیسے جنگ بندی کی قرارداد اور اس پر امام  خمینی کا ناخوش ہونا، خود امام خمینی کی رحلت اور ۱۳۶۹[1] میں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں تعینات ایرانی  سفیر شہید گنجی کی لاہور میں شہادت۔

میں نے شہید گنجی کی شہادت کی خبر اخبار میں پڑھی تھی اور ان کے معصوم یتیموں کی تصاویر دیکھ کر میرا دل بھر آیا تھا۔ اس واقعہ نے مجھ پر بہت برا اثر ڈالا تھا۔  میں ان کے خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک نہ پاتی تھی ان کے بچوں کے معصوم چہرے ہر وقت میرے سامنے رہتے تھے۔ میں خود کو ان کی زوجہ کی  جگہ رکھ کر سوچتی تھی کہ شوہر کی شہادت کے بعد چھوٹے بچوں کے ساتھ غیر ملک میں آخر کیسے رہی ہونگی؟ ان پر غریب الوطنی میں کیا گذر رہی ہوگی یہ سوچ کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔ میں جس کسی سے بھی ملتی شہید گنجی  کے گھر والوں کے بارے میں ضرور سوال کرتی خصوصاً ان کی بیوہ کے بارے میں تاکہ جان سکوں کہ اس دہشت گردی کے واقعہ کے بعد وہ کس حال میں ہیں۔ میں علی سے اکثر کہتی کہ یہ لوگ محتاط کیوں نہیں رہتے ان کی حفاظت کا مناسب انتظام کیوں نہیں کیا جاتا؟  میں نے  جتنی خبریں دیکھیں اور پڑھیں ان سے معلوم ہوا کہ  پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے ایک سپاہ صحابہ نامی گروہ کا ہاتھ ہے اور شہید گنجی کی شہادت بھی اسی سپاہ صحابہ کے ایک مسلح شاخ  جھنگوی گروپ کا کام ہے۔

میں مدتوں انہی خیالات میں گم رہی ، شہید اور ان کے گھر والوں کا سوچ سوچ کر دل بند ہوا جاتا تھا۔ میں جانتی تھی کہ غیر ملک میں رہتے ہوئے گھر والوں کے درمیان رابطے کس قدر مضبوط ہوجاتے ہیں اور ان کا لگاو ایک دوسرے سے کس حد تک بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ میں شہید کی بیوہ اور بچوں کی حالت کو اچھی طرح محسوس کر سکتی تھی۔

فہیمہ کے بھی اسکول جانے کے دن آ گئے تھے خدا کا شکر کہ ہمارے علاقے میں ایک ایرانی اسکول بھی کھل گیا تھا۔ مہر[2] کی پہلی صبح تھی فہیمہ کی آنکھیں رو رو کر سرخ ہو گئیں تھیں وہ میرے پیروں سے لپٹی کھڑی تھی اور کسی طرح اسکول جانے پر تیار نہ تھی ۔ ایک ہفتہ ایسا ہی چلتا رہا ،روز گڑیوں اور کھلونوں کے  وعدے پر روتے دھوتے اسکول جاتی۔ فہیمہ کے اس رونے دھونے کی وجہ سے علی کو روز  آفس سے دیر ہوجاتی ۔ وہ روز صبح صبح اس کو آغوش میں لئے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتا ، اس کو پیار کرتا، گدگداتا ، سو سو جان سے اس پر واری ہوتا اور اتنا مذاق کرتا کہ فہیمہ بھی روتے روتے ہنس پڑتی۔ مہدی بھی اسی اسکول میں تھا جس کی وجہ سے مجھے کچھ اطمینان تھا یہ بچہ  بھی بے چارہ ہاف ٹائم کی گھنٹی بجتے ہی بہن کی کلاس کی طرف دوڑ پڑتا  اور کلاس کے دروازے پر کھڑا ہوجاتا  اور فہیمہ کو رونے نہ دیتا۔ ان سب کاموں کے باوجود جب تک فہیمہ کو اسکول کی عادت نہ ہوگئی ہم سب بڑی مشکل میں گرفتار رہے۔ فہیمہ نے دوسال سے زائد ہندوستان میں نہ پڑھا تھا کہ علی کا کام مکمل ہوگیا اور اب ہمیں واپس ایران جانا تھا۔ جب علی نے اس کی اطلاع مجھے دی تو میں خوشی سے اچھل پڑی میری خوشی کہ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں اس سے زیادہ بچوں کی پڑھائی کا ہرج برداشت کرنے کے حق میں نہ تھی۔

علی کے پاس ہندوستان میں اور کاموں کے مشورے بھی تھے مگر وہ کام ادارہ تبلیغات کے زیرِ سایہ نہ تھے۔ کاموں کی نوعیت بھی پہلے جیسے ہی تھی یعنی اس کو اب بھی ثقافتی امور ہی انجام دینے تھے مگر جب اس نے یہ محسوس کیا کہ میں ان کاموں پر راضی نہیں ہوں تو اس نے ان کاموں کا ارادہ ترک کردیا اور ایران جانے کی ٹھان لی۔ فہیمہ ، ابتدائی اور مہدی ، ثانوی اسکول کی طرف گامزن تھا ۔ ثانوی اسکول کی تعلیم کے لئے ایرانی اسکول کا نہ ہونا پھر ایک مسئلہ تھا۔ میں جس قدر بھی پڑھی لکھی تھی اس کے حساب سے بھی میں صرف ابتدائی تعلیم ہی بچوں کو دے سکتی تھی اسکے بعد کی تعلیم اپنے خاص انداز کی خواہاں ہوتی ہے اور درس بتدریج مشکل ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ مجھے بچوں کا تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جانا کسی طرح قبول نہ تھا۔ میں چاہتی کہ میرے بچے ایرانی اسکول میں ایرانی تعلیم حاصل کریں اس لئے اب میں ہندوستان میں مزید قیام کے حق میں نہ تھی  اور واپسی پر مصر ۔

علی کے گریجویشن کے آخری سال کے امتحانات تھے اور ہم واپسی کی تیاریوں میں مشغول تھے۔ ۱۳۷۲[3] کی گرمیوں کے موسم میں ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ یہ فسادات شدت پسند ہندووں کی جانب سے بابری مسجد کو شہید کرنے کی وجہ سے پیش آئے تھے۔ ہر جگہ شور و غوغا تھا ہر روز بہت سے لوگ مارے جاتے تھے۔ یہ مسجد فیض آباد میں تھی اور شیعوں کے پاس ہوا کرتی تھی مگر آہستہ آہستہ ہندووں نے اس پر قبضہ جما لیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ بابری مسجد سے پہلے اس جگہ پر ایک مندر ہوا کرتا تھا مسلمان حکمرانوں نے اس کو گرا کر یہا ں مسجد بنائی تھی تو یہ جگہ ہندووں کی عبادت گاہ ہے مسلمانوں کی نہیں۔ پہلے بھی اس مسئلہ پر چند بار فسادات ہوئے تھے جو حکومتی مداخلت پر ختم ہوگئے تھے مگر اس بار کثیر تعداد میں ہندووں نے رات کے وقت مسجد پر حملہ کر کے اس کو شہید کر دیا تھا اس لئے اب جھگڑا تھمنے کا نام ہی نہ لیتا تھا اور اختلاف روز بروز بڑھتا چلا جارہا تھا۔ بد نظمی اور آشوب نے ہر جگہ ڈیرہ جمایا ہوا تھا۔ حالات اس قدر تناو کا شکار تھے کہ گھر سے نکلنا بھی خطرناک تھا۔ علی ،دہلی یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور یونیورسٹی مسلمانوں کی شہادت کے سوگ میں احتجاجاً بند تھی۔ یونیورسٹی بند ہونے پر علی نے اپنے لئے ایک اورمصروفیت تراش لی تھی۔ وہ غذا اور لباس ان گھروں تک پہنچاتا تھا جو جھگڑے کی جگہ سے نزدیک تھے اور وہاں کے لوگ مسلمان ہونے کی وجہ سے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ یونیورسٹی بند ہونے  اور ہندوستان کی آشفتہ حالت کی وجہ سے ہم علی کی ملازمت کے ختم ہوتے ہی ایران آ گئے۔ کچھ عرصہ بعد جب حالات کچھ بہتر ہوئے اور امن و امان کی صورت پیدا ہوئی تو علی تعلیم مکمل کرنے کے لئے پھر ہندوستان آگیا۔ مگر دو ہفتے کے بعد ہی واپس پلٹ آیا، میرے بار بار پوچھنے پر بھی اس نے کچھ نہ بتایا کہ کیوں جلدی آ گیا ۔ میں زیادہ اصرار کرتی تو آئیں بائیں شائیں کرتا رہتا۔ ایک بار تو یہ بہانا بنایا کہ یونیورسٹی ہی بند ہو گئی ہے۔

مدتوں بعد علی کے دوستوں نے مجھے بتایا کہ اس میں ہماری دوری سہنے کا حوصلہ نہیں تھا اس لئے امتحان دئیے بغیر پلٹ آیا۔

۔ ایک دن ہم ایک ساتھ  رسٹوران گئے تھے علی وہاں رونے لگا کہتا تھا کہ بیوی بچوں کے بغیر کھانا حلق سے  نیچے نہیں اترتا۔  کبھی کسی دکان کے پاس سے گذرتا تھا تو رو دیتا تھا کہ اس دکان میں جو کھلونے ہیں وہ مہدی کو پسند تھے اس نے فرمائش کی تھی اور میں خرید نہ سکا تھا۔ کبھی ایسے پارک کے پاس سے گذرتا جہاں بچوں کو لے کر گیا تھا  تو اس پارک میں بیٹھ کر رو دیتا کہ کاش بچے یہاں ہوتے۔

المختصر اس کے دوستوں نے زبردستی اس کو ایران بھیج دیا تھا وہ مذاق کرتے ہوئے کہتے تھے  ہم نے رحیمی صاحب کو ایران بھیجا یہ کہہ کر:

-رحیمی صاحب  ایران جاوتم امتحان دینے والوں میں سے نہیں ہو۔

 

 


[1] ۱۹۸۹-۹۰

[2] ۲۲ ستمبر

[3] جون جولائی ۱۹۹۳



 
صارفین کی تعداد: 1417



http://oral-history.ir/?page=post&id=10600