شاہرود کے جوانوں کا فحاشی کے اڈوں سے مقابلہ

ترجمہ: سید رومیلہ حیدر

2022-02-08


علی آباد کے سفر اور آیت اللہ مدنی سے ملاقات کے بعد ہم دوستوں کے درمیان یہ طے پایا کہ اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کیا جائے اور شہر میں موجود فحاشی کے اڈوں کے خلاف اعتراض میں اضافہ کیا جائے۔ طے یہ پایا کہ چند مشن انجام دیئے جائیں جن میں کچھ خاص مقامات کو نشانہ بنایا جائے جن میں دو سینما گھر ایران اور مولن روژ بھی شامل تھے۔ کم از کم انکے شیشے توڑے جائیں اور اگر ممکن ہو تو آگ بھی لگا دی جائے۔ یہ مذہبی دوستوں کی تجویز تھی لیکن جب دوسرے عام افراد بھی شامل ہوئے تو بات اپنے ہدف سے تھوڑی بہت ہٹ گئی۔ طے پایا کہ دوست ساٹھ ستّر لوگوں کو جمع کر کے علی الصبح شہر کے کسی بھی ایک مقام سے مظاہرے شروع کریں گے اور پھر دو سینما گھروں اور دوسری جگہوں پر حملہ کریں گے۔ کچھ لکڑیاں اور دوسری چیزیں آمادہ کیں تاکہ پولیس سے جھڑپ کی صورت میں انہیں استعمال کیا جائے۔ پھر ہمیں خبر ملی کہ کچھ افراد مجاہدین خلق کی طرف رجحان رکھتے ہیں انہیں ہماری اس منصوبے کا علم ہوگیا ہے اور اسی رات جس کی اگلی صبح یہ مظاہرے ہونے تھے وہ ہمارے پاس پہنچ گئے اور ہمیں ساتھ مل کر کام کرنے کی پیشکش کردی۔ ہم نے بھی کہا کہ کوئی مشکل نہیں ہے اور آپ لوگ بھی ہمارے ساتھ کام کرسکتے ہیں۔ درحقیقت ہم یہ چاہتے تھے کہ ان کا آنا اور ہمارے ساتھ ملنا کسی مشکل کا سبب نہ بن جائے۔ طے یہ پایا کہ علی الصبح چھ بجے سے پہلے مسجد جوادالائمہ کے سامنے جمع ہوکر کام شروع کریں گے اور سب کے سب ایسی ٹوپیاں پہنیں گے جن میں سے صرف آنکھیں نظر آتی ہیں اور چہرہ پہچانا نہیں جاتا، صبح سب لوگ جمع ہوگئے بعض نے تو ٹوپیاں پہن رکھی تھیں لیکن بعض ایسے بھی تھے جنکے پاس ٹوپیاں نہیں تھیں تو انہوں نے کاغذ کے لفافوں میں آنکھوں کے پاس سوراخ کرکے پہن لئے تھے۔ مجاہدین خلق نے بھی دھماکہ خیز مواد نالوں میں چھپایا ہوا تھا اور ہمیں یہ بات معلوم نہیں تھی۔ ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ بات یہان تک پہنچ جائے گی۔ طے یہ پایا کہ جیسے ہی چھ بجیں گے میں سیٹی بجاؤں گا اور سب لوگ مل کر طے شدہ اہداف کی جانب بڑھیں گے۔ میں نے جیسے ہی سیٹی بجائی کسی نے آواز لگائی پولیس اور پھر سب لوگ بھاگنے لگے۔ ہم بھی ایک گلی میں گھس گئے۔ دور سے دیکھا کہ پولیس نے اس جگہ کا محاصرہ کرلیا ہے اور کچھ لوگوں کا پیچھا کررہی ہے۔ کچھ ایسے ساتھی بھی تھے جو شہر کی گلیوں سے واقف نہیں تھے انہیں پولیس نے پکڑ لیا اور بعض کو تو اتنا مارا کہ وہ بے ہوش ہوگئے۔ جو لوگ گرفتار ہوئے انہیں چار سے چھ مہینے کی جیل ہوگئی۔ ہمارے پھنسنے کی ایک وجہ شاید یہ تھی کہ جب اس علاقے کے رہائشیوں نے بعض افراد کو عجیب و غریب حلیوں میں دیکھا تو پولیس کو شکایت کردی۔

 

 

منبع: صاحبی، محمدجواد، در کشاکش سیاست و فرهنگ (خاطرات محمدجواد صاحبی)، تدوین حجت‌الله علیمحمدی، تهران، مؤسسه‌ فرهنگی هنری و انتشارات مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1393، ص 70 - 71.


http://22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 1546



http://oral-history.ir/?page=post&id=10381