مظاہرے کی سربراہی

ترجمہ: یوشع ظفر حیاتی

2021-11-21


عید فطر کے دن جب مظاہرے ختم ہوئے تو اعلان کیا گیا کہ تین دن بعد اسی جگہ مظاہرے کئے جائیں گے۔ دو دن اس کی تبلیغ کی گئی اور تیسرے دن تہران کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں ہر طرف سیکیورٹی اہلکاروں نے ڈیرے دال لئے۔

سحر کے وقت کچھ لوگ میرے گھر آئے اور کہا کہ حاج آقا پرسوں اعلان کیا گیا ہے کہ اگر آقائے غفاری آئے تو انہیں گولی مار دی جائے گی۔ اس لئے آج وہ نہیں آئیں گےاور انکی جگہ آپ کو چلنا ہوگا۔ چونکہ میرا اس کام کا تجربہ تھا۔ میں نے غور و فکر کی اور استخارہ نکالا۔ یہ آیت نکلی۔ «فَأَسْرِ بِعِبادی لَیْلاً إِنَّکُمْ مُتَّبَعُون»  میں نے یہ استکارہ سحر کے وقت نکالا تھا۔ جس میں خطاب ہورہا ہے کہ اے موسی رات کے وقت بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر نکل پڑو۔ وہ تمہارے پیچھے پیچھے چلیں گے۔ اس آیت سے مجھے بہت حوصلہ ملا۔ میں کوئی بزرگ عالم دین تو تھا نہیں ایک جوان طالبعلم تھا اور مجھے توانائی اور قلبی قوت کی ضرورت تھی جو مجھے قرآن نے عطا کردی تھی۔ اسی لئے میں نے جانا قبول کرلیا اور ان لوگوں کو کہا کہ میں آرہا ہوں۔ جب میں گھر سے نکلنے لگا تو میں نے یہ نیت کی کہ جو گولی آقائے غفاری کو لگنی ہے وہ مجھے لگ جائے اور میں شہید ہوجائوں۔ اب جب بھی وہ واقعہ یاد آتا ہے تو مجھے معلوم ہے کہ میں نے قربۃ الی اللہ کی نیت کی تھی یعنی میری نیت خالص تھی بس خدا کے لئے نیت کی تھی اور اس کام میں کوئی شائبہ نہیں تھا۔

ہم مسجد کے کچھ سرگرم نوجوانوں کے ساتھ نکلے جن کا کام یہی ہمیشہ یہی ہوا کرتا تھا۔ اپنی اپنی گاڑیوں میں قیطریہ کی جانب نکل پڑے۔ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ سیکیورٹی فورسز کے کارکنوں سے وہ علاقہ بھرا ہوا ہے اور عوام میں نعرے لگانے کی ہمت نہیں نہیں ہورہی۔ وہ بس چپ چاپ ایسے ہی چلتے چلے جارہے ہیں۔ لہذا ابتدائے راہ میں ہی میں ایک گاڑی پر چڑھ گیا اور میں نے "اللہ اکبر" کا نعرہ لگایا۔ عوام نے بھی جب ایک عالم دین کو دیکھا تو ہمت کرکے "اللہ اکبر" کے نعرے کا جواب دینے لگے اسکے بعد میں نے "خمینی پر درود" کا نعرہ لگایا اور اسی طرح ہم آگے بڑھتے رہے آہستہ آہستہ ہمارے ارد گرد عوام جمع ہوگئی اور عوام بھی متوجہ ہوگئی کہ نعرہ بس یہاں سے لگنا ہے۔ میں نے بھی کئی مرتبہ اعلان کیا کہ نعرہ بس یہیں سے لگے گا اور آپ نے اسکا جواب دینا ہے۔ ہم جو نعرے لگارہے تھے اسکا جواب جولس کے آکری فرد سے بھی مل رہا تھا۔یعنی ایسیا نہیں تھا کہ میں نعرہ لگاتا اور فورا جواب آجاتا نہیں، بلکہ جب میں نعرہ لگاتا تو عوام توڑ توڑ کر جواب دیتی اور اول سے آخر تک سب ہی نعرے کا جواب دیتے۔ اس طرح ایک نعرے کا جواب مکمل ہونے میں کئی منٹ لگ رہے تھے۔ جب ایک نعرہ ختم ہوتا تو میں دوسرا نعرہ لگاتا۔ البتہ مجھے نعرے یاد نہیں تھے میرے ساتھ موجود افراد مجھے نعرے یاد دلا رہے تھے۔

 

منبع: مهاجر الی‌الله (خاطرات شهید آیت‌الله مؤیدی)، تدوین حسین مهدیه، تهران، مؤسسه فرهنگی هنری و انتشارات مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1397، ص 98 - 100.

 


22bahman.ir
 
صارفین کی تعداد: 1705



http://oral-history.ir/?page=post&id=10224