11 ویں امیر المومنین ڈویژن کے شہدا کے کمانڈر کی یاداشت

ہیلٹی- 5

شهید مرتضی ساده‌میری
ترجمہ: ابو زہرا

2021-08-07


حاج یادگار اس مقام پر پہنچے جو اس جھڑپ کے لئے معین تھی انھوں  خود کو معرکےکے لیے تیار کیا۔  مجھے بھی اس مقام پر پہنچنا تھا جس کو میرے لیے چناگیاتھا ۔ ابھی پہنچاہی ناتھاکہ  میں نے دیکھا کہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ایک ایک  محافظ کھڑا ہے اور انکے کے سروں  پرمخصوص جال ڈالا گیاہے تاکہ وہ نظر ناآٸیں۔وہ گارڈ کسی خاص فکر میں گم تھا وہ حفاظت کے کام بھول بیٹھاتھا، وہ محافظ تھا۔  میں اس صورت  کو سمجھانے کے لئے حاجی کو اشارے دے رہا تھا ، جب اچانک اس کا دماغ حاضرہوا ،  اس نے اپنا سر اٹھایا اور مجھے دیکھ لیا۔

 حاجی یادگار ،اس وقت انکے سروں پر قہر بن کر ٹوٹے جب وہ دسترخوان بچھاٸے ہوٸے تھے،نگہبان کے دیکھتے ہی ان پر ہینڈگرنیڈ سے حملہ کیا اور ان سب کو ہلاک کردیا۔  حاجی کے اس عمل سے گارڈز فرار ہونا شروع ہوگٸے، جنھیں پیچھے سے گولی مار دی گئی اور وہ بھی موقع پر ہی ہلاک ہوگٸے۔  دھماکوں اور گولیوں کی آوازوں سے، ایسالگاجیسے کسی نے شہدکی مکھیوں کے چھتے پر حملہ کردیاہو سارے محافظ اپنی اپنی کمین گاہوں سے باہر نکل آٸے اور دوبدو لڑاٸی شروع ہوگٸی۔


اسی وقت، کردی زبان میں چلایاکر کہاگیا: "تم لوگ محاصرے میں ہو، ‌ کوٸی راہ فرار نہیں ، ہتھیار ڈال ددو!"


یہ کہنا انکاہمیشہ کا ڈرامہ تھا۔  ہم نے بھی ان کو جواب دیا ، اونچی آواز میں چیخ کر۔  ان میں سے کچھ نے خودکو اس بلندی تک پہنچا دیا جہاں ہم تعینات تھے۔  حاجی نے دوسرا دستی بم پھینکا۔  حاجی یادگار نے اپنا سر اٹھایا اور دیکھا کہ اچانک ہی انکے کے سر میں گولی لگ گٸی انکی  اونی ٹوپی ہوا میں اُڑ گٸی۔

 میں نے فورا. خود کو حاجی کے تک پہنچایااور انکے سر کو اوپر اٹھا لیا۔  وہ شہید ہوگٸے تھے ۔  خدا جانے ہمیں اس حادثے نے کتنا غم پہنچایا!

 جھڑپیں سہ پہر تین بجے تک جاری رہیں۔اس کے ساتھ آنے والے جوانوں  میں سے ایک "کیومرس مطلبی" تھا - جو ایک زمہ دار اورفرض شناس  گارڈ اور ملاٸر  کے رھنے والے تھے - وہ بھی حاجی کے ساتھ شہید ہوگیے، لیکن اس کے بدلے میں ، اس تصادم کے موقع پر بارہ دشمن مارے گئے۔  ہماری دوسری جاسوسی ہم  سے مل گٸی۔  اگرچہ حاجی کا جسم خون میں ڈوبا اپنے غمگین ساتھیوں کے ہاتھوں میں تھا، مگرنہ حاجی یادگار کی باتیں تھیں اور اور ناہی انکے لبوں پر مسکراہٹ۔  کولک کی بلند و بالا چڑھاٸی چڑتے ہوٸے تین دن لگ گے وہ بھی بغیر پانی کے حاجی یادگار نے خشک ہونٹوں کے ساتھ مولاحسین علیہ السلام کی غلامی میں شہادت پاٸی۔ کلک میں ہم ان جوانوں تک پہنچے جو ہماری مدد کو آئے تھے۔  خدا جانتا ہے کہ جوان  ایک دوسرے سے ملتے  ہوئے کیسے رو پڑے!  انہوں نے حاجی کی گردن پر ہاتھ رکھا اور اسے الوداع کہا۔  انہوں نے حاجی کے سوکھے ہونٹوں کو چوما اور  کے پیکر پر آنسو بہائے۔

 اگلے ہی روز ، سردار رشید سپاہ ، حاجی یادگار کے سوگ میں ایلام کے وفادار لوگوں کے غم نے شہر کو شدید غم زدہ کردیا۔  ایلام کو بند کردیا گیا اور لوگوں نے اس ہیرو کی آخری رسومات میں شرکت کی ، جس نے اپنی زندگی کو محاذ پرگزارا تھا ،  ہر ایک حیرت میں تھا کہ کون حج یادگار کی جگہ لے گا۔  وہ کوئی اور نہیں تھا لیکن گیارہویں امیر المومنین ڈویژن کے کمانڈر اور پرچم بردار غلام ملیحی [1] تھے۔

 جاری ہے

 

 [1]  بعد میں وہ شہید ہوگٸے۔


ویب سائیٹ تاریخ شفاہی ایران
 
صارفین کی تعداد: 2103



http://oral-history.ir/?page=post&id=10030