سید یحیی صفوی کی داستان

سنندج سے خرم شہر تک

دفاع مقدس کی زبانی تاریخ

ریحانہ محمدی
مترجم : محسن ناصری

2020-7-3


مرحوم ڈاکٹر حسین اردستانی کی کتاب کی پہلی جلد جس کا عنوان " سنندج سے خرم شہر تک" ہے اس کتاب کو سن ۲۰۱۸ء میں "مرکز اسناد" اور تحقیقات دفاع مقدس" کی جانب سے شائع کیا گیا۔ یہ کتاب دفاع مقدس کے دوران سید یحیی(رحیم) صفوی کے واقعات کی بیان گر ہے۔ یہ کتاب ۲۸نشستوں میں سردار یحیی صفوی کے ساتھ ہونی والی گفتگو کا حاصل ہے جس میں ان کی ابتدائی زندگی سے لے کر بیت المقدس آپریشن اور خرم شہر کی آزادی تک کے حالات کو قلم بند کیا گیا ہے۔ اس گفتگو میں ان کی زندگی کے ذاتی ، اجتماعی اور سیاسی پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سردار لشکرڈاکٹر سید یحیی(رحیم) صفوی نے اصفہان کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے مذہبی، روایتی اقدار کے حامل گھرانے میں آنکھ کھولی۔ تبریز یونیورسٹی میں داخلے کے بعد سید یحیی کی اجتماعی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا اور اپنے اردگرد کے مذہبی اور جوشیلے نوجوانوں کے درمیان آپ کا اٹھنا بیٹھنا بڑھنے لگا یہ جوان تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ اپنے تعلیمی حقوق کے لیے بھی سرگرم تھے جس کے باعث سید یحیی کی شخصیت میں مزید سنجیدگی اور فکری پختگی کو ارتقا حاصل ہوا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد فوجی ٹریننگ حاصل کی اور شیراز کی فضائی بریگیڈ میں شامل ہو گئے جس نے ان کی فوجی معلومات اور صلاحیتوں میں بھی اضافہ کیا۔ انقلاب اسلامی کے دوران سید صفوی بھی دوسرے انقلابی جوانوں کی طرح اپنے ساتھیوں کے شانہ با شانہ پہلوی استکبار کے خلاف انقلابی سرگرمیوں میں شامل رہے۔ جس کے بعد سید صفوی کو فروری ۱۹۷۸ء میں گولی لگنا، ان کے والد کے گھر پر ساواک اہلکاروں( پہلوی حکومت کی خفیہ ایجنسی) کا حملہ ، بھائی کی گرفتاری کے بعد سید صفوی کا شام ، لبنان اور پھر فرانس فرار کرنا اور پھر ایران واپس آکر اصفہان میں ساواک کی عمارت پر قبضہ کرنے جیسے واقعات پیش آئے۔ کردستان میں آشوب گری اور شورش کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرکے سید صفوی نے لشکر کی سربراہی کی اہلیت کو ثابت کیا۔ جب بعث پارٹی (عراقی فوج) نے خوزستان پر حملہ کیا تو سید صفوی وہاں موجود تھے اور انہوں نے جنگ میں انتہائی کم فاصلے سے دشمن کے حملوں کا جواب دے کر انتہائی موثر کردار ادا کیا۔ جنگ کے ابتدائی سال میں اہواز کی محدود فوجی کاروائیوں میں انہوں نے حسن باقری اور غلام علی رشید کی مدد سے دفاعی خطوط کی تشکیلات اور سپاہ پاسداران اور بسیج کی سربراہی کی۔ بنی صدر کی معزولیت کے بعد سید صفوی نے سپاہ پاسداران کے اعلی درجے کے سربراہان کے ساتھ خرم شہر کی آزادی کے لیے پانچ فوجی آپریشن تشکیل دیئے اور ان تمام کاروائیوں میں صفوی کا اہم اور مرکزی کردار رہا۔ سید صفوی کی فوجی کاروائی کی تشکیلات میں اعلی صلاحیت باعث بنی کہ ان کو سپاہ پاسداران کا سربراہ بنا دیا گیا۔ سب سے پہلی نشست میں سردار سید صفوی نے اپنے بچپنے اور جوانی کے ادوار سے متعلق گفتگو کی اور اُس کے بعد اپنے یونیورسٹی اور فوجی تجربات کے ساتھ ساتھ انقلابی سرگرمیوں کی تفصیل بھی بیان کی۔ اس حصے میں ان کی انقلاب کے بعد اور کردستان میں پوسٹنگ سے پہلے کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے جن میں شہری دفاعی کمیٹی کی تشکیل، اصفہان میں سپاہ پاسداران کی تاسیس اور دیگر موضوعات شامل ہیں۔ اس کے بعد کے حصے میں انہوں نے فروری ۱۹۷۹ء سے لے کر مارچ ۱۹۸۰ء تک کے واقعات کے ساتھ کردستان کی شورش اور فسادات کے خاتمےمیں اپنے کردار پر تفصیل سے بات کی ہے۔ اسی طرح تیسری نشست سے لے کرساتویں نشست تک انہوں نے سنندج کے حالات اور وہاں انقلابی اور ضد انقلابی قوتیں، صیاد شیرزای اور محمد بروجردی کے ہمراہ سنندج کی آزادی کے منصبوے کی تشکیل ، کردستان میں عوام کی خدمات کی فراہمی اور ایرانی فوج اور سپاہ پاسداران کی تشکیل اور کردستان کی سیاسی تنظیموں کے درمیان اخلاقی مشکلات کے حل کے لیے اقدامات جیسے موضوعات کو شامل بحث کیا ہے۔ سردار سید صفوی نے کتاب میں گفتگو کو مزید بڑھاتے ہوئے عراق کی جانب سے ایران پر حملے کی صورت حال کو بیان کرتے ہوئے بنی صدر اور اعلی سربراہان جن میں صیاد شیرازی،بروجردی ، کاظمی اور لطیفیان کے ساتھ اعلی سطح کی دفاعی اجلاس کے قیام کی صورت حال کو بیان کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ " عراق کے ایران پر حملے کے کیا اہداف تھے اور عراق ایران کے کن علاقوں تک قبضہ کرنا چاہتا تھا" کا جواب دیا۔ دسویں نشست میں دارخوین میں اپنے کردار پر بھی گفتگو کی اور ایران میں عراقی فوج کے داخلی مقامات اور خوزستان میں فوج کے توازن کو بیان کیا ہے۔ بارہویں نشست میں جنگ میں ان کے موثر کردار اور مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس کے بعد رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای کی جنگ کے میدان میں اہم سرگرمیاں اور اسی طرح جنگ کے ابتدائی سال میں سابق صدر بنی صدر کے کردارپر گفتگو کی گئی ہے۔ مزید گفتگو میں جنگ میں شوش کی محاصرہ شکنی، سوسنگر اور آبادان کے شمال میں ایران کی محدود عسکری سرگرمیاں کو بیان کیا گیا۔ ثامن الائمہ نامی فوجی آپریشن جس میں آبادان کے محاصرے کے خاتمے کو بیان کرنے کے لیے کتاب میں دو نشستوں کو مخصوص کیا گیا ہے کہ جس میں سردار صفوی نے یہ بتایا کہ اس آپریشن کی منظوری کس طرح لی گئی اور اس کا طریقہ کار کیا تھا اور انھوں نے بتایا کہ اس منصوبہ میں وہ خود، غلام علی رشید اور حسن باقری شامل تھےاور اعلیٰ دفاعی شوریٰ نے اس کی منظوری دی۔ کتاب کے بارے میں بعد میں ہونے والی دو اور نشستوں میں طریق القدس آپریشن کے طریقہ کار کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد سرداری صفوی نے فتح المبین آپریشن سے پہلے سپاہ کے ادارے میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں بیان کیا اور بعد والی تین نشستوں میں فتح المبین آپریشن کی سرنوشت میں فتح ہیڈ کوارٹر کے کلیدی کردار کو بیان کیا اور اس آپریشن کی خصوصیات اور اس کے معنوی اور مادی عوامل کو بیان کیا۔ کتاب کی ۲۳ ویں نشست کا موضوع خاص طور سے فتح المبین اور بیت المقدس آپریشنوں کے درمیان محاذوں کے حالات، ایران اور عراق کے مابین تنظیمی اور تشکیلاتی طاقت کا موازنہ اور ایران کی فوجی حکمت عملی میں بیت المقدس آپریشن کی اہمیت کا بیان ہے۔ اس سلسلے میں بعد والی نشستوں میں بیت المقدس آپریشن میں ایران او رعراق کی فوجی توانائی، آپریشن کی صورت، آپریشن انجام دینے کی کیفیت اور اُس کے مراحل اور خرم شہر کی فتح پر مؤثر عوامل کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔ ۲۹ ویں نشست میں بھی کچھ موارد کا جواب دیا گیا ہے جیسے بیت المقدس آپریشن کے تلخ و شیریں واقعات، تاریخ نگاہی سے خرم شہر کی آزادی کا ادراک، فوجی کارناموں اور بیت المقدس آپریشن کے نتائج کی مقدار، اور کتاب میں گفتگو کی آخری نشست میں راوی کے جنگ کے شروع کے دو سالوں کی جمع بندی کی گئی ہے۔ " سنندج سے خرم شہر تک" نامی کتاب ۶۳۲ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے ہزار نسخوں کی اشاعت ہوئی، دلچسپی رکھنے والے اور دفاع مقدس کی زبانی تاریخ میں تحقیق کرنے والے افراد کے لئے اس کتاب کی قیمت پچاس ہزار تومان رکھی گئی ہے۔


 
صارفین کی تعداد: 3037


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔