یادوں بھری رات کا۳۰۹ واں پروگرام – پہلا حصہ

موصل چھاؤنی کے واقعات

مریم رجبی

مترجم: کنیز طیبہ

2020-6-8


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۳۰۹  واں پروگرام، جمعرات کی شام، ۲۶  دسمبر ۲۰۱۹ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اس پروگرام میں عبد الرحیم فرخ سہراب، سید یحیی رحیم صفوی اور فتح اللہ جعفری نے اپنی تقاریر میں اپنی اسیری کے زمانے، فاو اور کربلائے ۵  آپریشن کے بارے میں بیان کیا۔

پروگرام کے پہلے راوی شہید محمدی کے دوست تھے جنہوں نے اسیری کے ۹ سال اس شہید کے سال  گزارے۔ دفاع مقدس میں آزاد  ہونے والوں کی تنظیم کے سیکریٹری جنرل عبد الرحیم فرخ سہراب نے کہا: "کتنا اچھا قول ہے کہ جب  تک کوئی چیز ہاتھ سے چلی نہ جائے اُس کی قدر نہیں ہوتی۔حسن محمدی اُن افراد میں سے تھے جو لوگوں کا حوصلہ بڑھانے میں واقعاً لوگوں کے خادم تھے۔ میں ۱۱۸ مہینے اور ۷ دن قید میں تھا؛ تقریباً دس سال۔ موصل کی چھاؤنی میں داخل ہونے والا  دوسرا گروپ ہمارا تھا۔ ہم سے پہلے ۴۰ سے ۵۰  کے قریب ہمارے وہ دوست تھے جو سن  ۱۹۷۸ء سے  سن ۱۹۸۰ء تک عراقیوں کے قیدی بن چکے تھے۔ کوملہ پارٹی نے اُنہیں پکڑ کر عراقیوں کی تحویل میں دیدیا تھا۔ صدام کو پتہ تھا کہ جنگ ہوگی اور اُس نے جنگ سے پہلے کچھ لوگوں کو قیدی بنا لیا تھا۔ پہلے میں عراق میں قیدیوں کے رہنے کی جگہ خاص طور پر موصل کے  ماحول کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ موصل میں چار چھاؤنیاں تھیں؛ موصل ۱، ۲، ۳ اور ۴۔ موصل کی وہ چھاؤنی جس کا افتتاح پہلے ہوا، وہ موصل ۱ تھی۔ ایک چھاؤنی چھوٹی، دو چھاؤنیاں متوسط اور ایک بڑی چھاؤنی تھی۔ قلعہ کی طرح کی چھاؤنیاں تھیں اور ہمیں آسمان کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ چھاؤنی کے چاروں  طرف لمبی لمبی جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں۔ شروع  کے دنوں میں جب میری آقا حسن سے  جان پہچان ہوئی، اُن کا ایک ہدف وہاں کے لوگوں کو زندہ دل رکھنا اور خوش کرنا تھا۔ ایک دن جب سب افراد ایک  ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے کہا: پکنک پر چلیں؟ ہم نے حیرت سے پوچھا: پکنک؟ یہاں پر کیسے پکنک پر جاسکتے ہیں؟انھوں نے کہا: میں آپ لوگوں سے جن چیزوں کا کہوں آپ وہ فراہم کریں اور باقی مجھ پر چھوڑ دیں۔  انھوں نے پوچھا: ہمارے پاس سبزی ہے؟ ہمارے درمیان ایک بوڑھے شخص بھی تھی جنہوں وہاں پر لگی گھاس پھونس سے کوئی کھانے کی چیز ڈھونڈ نکالی تھی۔ میں نے حسن آقا سے کہا سبزی لانا میرے ذمہ۔ انھوں نے کہا بقیہ کام میرے ذمہ۔ وہاں پر موجود لوگ دنیا کے مختلف مقامات پر سفر کرنے کے بارے میں باتیں کرتے  اور سب کو سناتے۔ یہ بھی بتادوں کہ آپ یہ مت سوچیں کہ وہاں پر قیدی صرف ہماری طرح کے بسیجی اور جوان افراد تھے۔ ہمارے ساتھ اسیر ہونے والوں میں کچھ اساتید بھی تھے۔ جس نے بھی جو جگہ دیکھی ہوئی تھی وہ اس کے بارے میں وضاحت دے رہا تھا، اس طرح سے کہ جیسے ہم نے بھی وہ جگہ قریب سے دیکھی ہو۔ خلاصہ یہ کہ حسن محمدی نے کہا صحن میں جھاڑیوں کے پاس پکنک منائیں گے۔ میرے خیال سے جمعہ کا دن تھا۔ ہم نے اپنے کمبل اٹھائے اور پہلی مرتبہ وہاں پر پکنک منائی۔ ہم نے وہاں کمبل بچھائے۔ یہ کام بہت اچھا تھا۔ سب مل کر بیٹھ گئے اور سب نے اپنے واقعات سنائے۔ میں چھاؤنی میں تھیٹر کا انچارج تھا۔ آہستہ آہستہ میری حسن آقا اور دوسرے لوگوں سے جان پہچان ہوگئی۔ شروع میں کچھ وجوہات کی بناء پر ہماری کوشش یہ ہوتی تھی کہ ہم تاریخی تھیٹر شو کریں۔ افراد لکھتے تھے اور ہم ڈائریکٹری کرتے؛ جیسے طفلان مسلم اور حجر بن عدی وغیرہ۔ پھر جناب حاج ابو ترابی چھاؤنی میں آگئے۔ کچھ عرصے بعد میں حاجی صاحب سے آشنا ہوگئے۔ ہم نے حاجی کی باتوں سے انداز لگالیا کہ اُن کا ہدف یہ ہے کہ ہم اپنے جسموں کو صحیح وسالم رکھیں تاکہ ایران واپس جاسکیں۔  شروع کے دنوں میں ہم سوچتے تھے کہ عید پر جائیں گے لیکن وہ عید دس سال بعد آئی۔ کچھ لوگوں نے آکر کہا کہ ہمیں کامیڈی تھیٹر بھی کرنا چاہیے تاکہ لوگ خوش ہوں۔ میں نے کہا مجھے نہیں پتہ، جاکر حاجی سے بات کریں، اگر حاجی نے اجازت دیدی تو ضرور۔ دوستوں نے حاجی سے بات کی، انھوں نے کہا یہ کام صرف اچھا نہیں ہے بلکہ میں تو آپ لوگوں سے یہی چاہ رہا تھا۔ ان افراد کو حوصلہ چاہیے، انہیں خوش ہونا چاہیے۔ بہرحال ہم نے کامیڈی تھیٹر شو کو اُسی سال سے شروع کردیا اور اس کی ساری ذمہ داری میرے اور حسن آقا کے ذمہ تھی؛ حسن آقا ایسی شخصیت تھے کہ اگر وہ کچھ بولتے تو لوگ ہنسنے لگتے۔ اُن کی ہمیشہ سے یہ کوشش ہوتی تھی کہ لوگ ہنسیں۔ ایک دفعہ تھیٹر کے بعد پردے کے پیچھے ایک ضعیف شخص آئے۔ ہم نے اُن سے پوچھا:بابا جان آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟ انھوں نے کہا: آپ لوگوں نے ایسا کام کیا ہے کہ میں جب تک اسارت میں رہوں گا خوش  رہوں گا اور ہنسوں گا؛ یعنی ہم جو تھیٹر شو کرتے تھے اُس کی اتنی تاثیر تھی۔ البتہ ہم دوسرے موضوعات پر بھی شو کرتے تھے لیکن زیادہ تر کامیڈی شو کرتے تھے۔ حسن آقا اس ضعیف شخص کی باتوں سے بہت خوش ہوئے۔ قید کے دوران ہمارے پاس واقعاً اچھے وسائل تھے؛ یعنی وہ لوگ کسی بھی چیز سے سب چیزیں بنا لیتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم نے ایک تھیٹر کرنا تھا۔ ہمیں اُس تھیٹر شو کے لئے ایک گدھے کی ضرورت تھی۔ وہ تھیٹر شو باغبانی کے مسائل سے مربوط تھا۔ وہاں پر موجود چیزوں سے افراد نے گدھے کا بہت ہی بہترین سر بنالیا تھا۔ اس طرح سے کہ خود ہمیں یقین نہیں آرہا تھا۔ ہر ہاسٹل کی لمبائی بیس میٹر اور چوڑائی ۹ میٹر تھی۔ عام طور سے اُس میں ۱۰۰ سے ۱۲۰ لوگوں کی جگہ تھی؛ اس طرح سے کہ اگر ہم رات کو سوتے  تھے تو ہمارے کندھے  آپس میں لگتے تھے اور اسی وجہ سے ہمیں ٹیڑھا سونا پڑتا تھا۔ رات کو نگہبانوں کی رفت و آمد رہتی تھی اور اسی وجہ سے لائٹیں بھی کھلی رہتی تھیں۔ ہم نے دونوں طرف دو نگہبان کھڑے  کیئے ہوئے تھے کہ اگر کوئی آئے تو وہ ہمیں علامت سے اشارہ کردیں۔ وہ فوجی کے آنے سے پہلے لال رنگ کی علامت دیتے۔  جیسے ہی لال رنگ کی علامت دی جاتی، پورا پردہ نیچے آجاتا اور تمام چیزوں کو سمیٹ کر پہلے والی حالت میں آجاتے اور جب سفید رنگ کی علامت دیتے تو پھر دوبارہ سے پردہ اوپر کرکے تھیٹر کو شروع کردیتے۔ وہاں پر اتنی آسانی سے تھیٹر شو نہیں ہوتا تھا۔ وہ تھیٹر شو اتنا ہنسنے والا تھا کہ ہمارے نگہبان  کا دھیان نہیں رہا اور فوجی نے ہمارا تھیٹر دیکھ لیا اور اس نے حیرت سے پوچھا: گدھا؟! کہاں سے لائے؟!  ہم جب تک اُس کی وضاحت کرتے، وہ بھاگتا ہوئے چھاؤنی کمانڈر کے کمرے میں  گیا کہ اُسے بتائے کہ ہم گدھا لے آئے ہیں۔  ہم نے جلدی سے اس گدھے کے مختلف حصوں کو الگ کیا اور افراد کے درمیان تقسیم کردیا۔ کمانڈر اندر داخل ہوا اور گدھے کو ڈھونڈنے لگا  اور اُس نے کہا میرے فوجی جھوٹ نہیں بولتے۔ انہیں ہمارے فرار کرنے کا ڈر تھا۔ ہم نے انکار کیا اور یہی چیز اس بات کا باعث بنی کہ وہ ہمیں مارنے کی دھمکی دیں۔ محمد رضا ہراتی بھی وہاں تھے انھوں نے کہا مار نہ کھائی جائے ، ہم نے اُن کو گدھا بنا کر دکھایا، وہ کمانڈر ہنسا اور اُس نے کہا تم لوگوں نے یہ گدھا کس لئے بنایا ہے؟ ہم نے کہا ہم تھیٹر شو کر رہے تھے۔ اُس نے کہا اگر یہ گدھا تھیٹر کے لئے، تو ہمارے سامنے کیوں نہیں کر رہے؟ ہم نے کہا شاید تھیٹر شو کرنا ممنوع ہو۔ اُس نے کہا ممنوع نہیں ہے، لیکن یہ کہ ہم سے چھپ کر پروگرام کر رہے ہو، یعنی ہمارا مذاق اڑا رہے ہو؟ اور تم نے لوگوں نے یہ گدھا صدام کے عنوان سے بنایا ہے؟ ہم نے کہا نہیں! ایسا نہیں ہے۔ اُس نے پوچھا: اس کام کا ڈائریکٹر کون ہے تاکہ میں اُس سے کہوں کہ وہ باہر تھیٹر شو کرے۔ میرا اور ہراتی کا تعارف کروایا۔ وہ لوگ ہمیں باہر لے گئے، پہلے تو ہمیں مارا اور اُس کے بعد کہا آپ لوگ ایک تھیٹر شو کریں اور چھاؤنی کے بیچ میں کریں تاکہ ہم بھی دیکھیں۔ اُس کے بعد ہم نے دو بڑے شو کیئے جس کے لئے کچھ افراد مل کر بیٹھے اور اسکرپٹ لکھا۔ ایک شو میں ہم نے مزاحیہ باسکٹ بال کا کھیل پیش کیا، جس میں درحقیقت باسکٹ بال کی ایک ٹیم ہمارے افراد کی تھی۔ اور ایک مزاحیہ ٹیم تھے جن کے قد چھوٹے تھے اور وہ ایک دوسرے کی مدد سے گول کرتے تھے، جس ٹیم کا قد بلند تھا وہ بہت آسانی سے گول کرلیتے۔ شو ختم ہونے کے بعد کمانڈر ہمارے پاس آیا اور اُس نے کہا تم لوگ بہت مسخرے ہو، تم لوگوں نے پھر اپنا کام دکھا دیا، تم لوگوں نے یہ جو مزاحیہ ٹیم بنائی ہے یعنی ہم لوگ اور وہ د وسری ٹیم تم لوگ ہو!ہم نے اسی انداز میں ایک فوٹبال میچ کا مزاحیہ پروگرام بھی رکھا جسے عید الفطر کے دن صبح کے وقت ہونا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ کون سے سال کی عید فطر تھی۔ افراد عام طور سے پورے رمضان میں اپنی اضافی روٹی کو جمع کر لیتے تھے  اور اُس سے کیک اور بسکٹ بناتے تھے۔ ہم عید فطرکی نماز معمولاً ہاسٹل میں ہی پڑھتے تھے۔ ہم نے جو ڈرامہ شو کرنا تھا اُس کا ایک حصہ ہمارے لئے بہت اہم تھا۔ وہ یہ کہ ہمیں ایک چوہے کی تلاش تھی۔ ہم نے تمام ہاسٹلز والوں کو کہہ دیا تھا کہ جس کو بھی چوہا ملے وہ ہمیں دیدے تاکہ ہم اُس دن کے لئے سنبھال کر رکھ لیں۔ سب نے کوشش کی لیکن کوئی بھی زندہ چوہا نہیں پکڑ سکے۔ شو میں دو تین دن رہ گئے تھے اور ہمارے پاس چوہا نہیں تھا۔ ہم نے کہا، مینڈک یا کوئی بھی جانور مل جائے تو لے آئیں۔ فقط اُس دن کے لئے ہمیں ایک حیوان کی ضرورت ہے۔ حتی ایک دفعہ تمام ہاسٹلز میں پورے ۱۲۰ لوگ چوہے کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔  میں پریشان تھا کہ ڈرامہ میں فوٹبال میچ کے دوران بہترین حصہ وہ حیوان والا حصہ تھا۔ ہم نے ایک چھوٹے قد کی ٹیم بنائی اور دوسری لمبے قد کی۔ لمبے قدم کی ٹیم کا گول کیپر چھوٹے قد کا تھا اور چھوٹے قد کی ٹیم کا گول کیپر لمبے قد کا۔ ہمیں تقریباً صبح دس بجے  یہ کام کرنا تھا۔ وہ دن بہت ہی رش اور شور شرابے والا دن تھا اور پوری چھاؤنی کے افراد شو دیکھنا چاہتے تھے۔ ہم نے کچھ لوگوں کو نظم اور صفائی کے لئے رکھا ہوا تھا۔ ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے۔ مجھے حیوان نہ ملنے کا ابھی تک افسوس تھا چونکہ ڈرامہ کا بہترین  حصہ اُسی سے مربوط تھا۔ اچانک محمد رضا گلشنی بھاگتا ہوا آیا اور اُس نے کہا مجھے مل گیاہے۔ طے یہ تھا کہ صادق جہان میچ کے دوران چوہے کی دم پکڑکے مد مقابل ٹیم کے گول کیپر  کی طرف جائے۔ وہ ڈر کے مارے بھاگ جائے اور یہ لوگ گول مار دیں۔ میں نے چوہے کو دیکھا۔ بہت بڑا تھا، لیکن ڈرا ہوا اور بے حرکت تھا۔ میں نے چوہے کو ڈبے میں ڈال دیا  اور صادق جہان آرا کو دیدیا۔ اُس نے چوہے کو دیکھا، وہ ڈر گیا اور کہنے لگا میں نہیں کرسکتا۔ میں نے کہا کام خراب نہیں کرو۔ بہرحال وہ مان گیا اور اُس نے موقع پر چوہے کی دم کو پکڑا اور گول کیپر کی طرف بھاگا۔ گول کیپر ڈر گیا اور وہ ایک کونے میں کھڑا ہونے کے بجائے فرار کر گیا۔ صادق نے بھی چوہے کو چھوڑ دیا۔ وہ چوہا جس طرف بھی جاتا، اتنے سارے لوگوں کو دیکھتا۔ ایک ہزار کچھ سے لیکر دو ہزار تک لوگ تھے۔ چوہا ڈر گیا، اور وہ مرگیا۔ میرے پاس جو تعداد و شمار موجود ہے،  اُس کے مطابق پورے ایران میں آزاد ہونے والوں کی تعداد، چالیس ہزار، چھ سو چھیالیس ہے۔ اب تک ان عزیزوں میں سے پانچ ہزار لوگ شہید یا انتقال کرچکے ہیں۔"



 
صارفین کی تعداد: 2521


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔