"غربت کے ایام" دو خواتین کی زبانی

امام موسی صدر کے بارے میں حاصل ہونے والی زبانی تاریخ

محمد علی فاطمی

مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2019-10-13


"ایام غربت: فرشتہ اعرابی اور فاطمہ طباطبائی کے واقعات" نامی کتاب امام موسی صدر کے تحقیقاتی ثقافتی مرکز میں "یادوں"  کے مجموعہ کی ۵۴ ویں کتاب اور "زبانی تاریخ" کے مجموعہ کی پانچویں کتاب ہے ۔ اس مرکز اور امام خمینی کے آثار کو نشر اور منظم کرنے والے مرکز  نے "ایام غربت" نامی کتاب کو سن  ۲۰۱۹ء میں، ۳۶۰ صفحات پر پہلی مرتبہ چھپوایا ہے۔ یہ کتاب مہدیہ پالیزبان کی محنتوں اور کوششوں کی وجہ سے کتابی شکل میں سامنے آئی ہے۔

انھوں نے اپنے مقدمہ میں وضاحت دی ہے: "اس کتاب کی تالیف امام موسی صدر تحقیقاتی ثقافتی مرکز کی زبانی تاریخ کے پروجیکٹ میں انٹرویو سننے سے شروع ہوئی ۔۔۔ انٹرویو دینے والے دو افراد ایک دوسرے سے کچھ شباہتیں رکھتے ہیں؛ دونوں افراد دو خاندانوں صدر اور خمینی کے افراد سے مربوط تھے  اور لبنان کے اندر بھی ایک مشترکہ دورے میں  ان  کے ایک ساتھ  واقعات گزرے ۔۔۔ [یہ] واقعات ۔۔۔ امام موسی صدر کے بارے میں دو ایرانی خواتین کی سب سے پہلی خاص روایت ہے۔ ایسی روایت جو گھر کے اندر سے بھی تعلق رکھتی ہے اور لبنان کے ماحول سے بھی تشکیل پاتی ہے ۔۔۔ اس کتاب کے واقعات سن ۲۰۱۱، ۲۰۱۳ اور ۲۰۱۶ میں فرشتہ اعرابی سے چار نشستوں میں ہونے والی گفتگو اور ۲۰۱۱، ۲۰۱۳ اور ۲۱۰۵  کے سالوں میں فاطمہ طباطبائی سے پانچ نشستوں میں ہونے والی گفتگو کا حاصل ہے۔ کتاب کی پاورقیاں مطالب کو واضح اور سادہ بنانے کیلئے اضافہ ہوئی ہیں اور تاریخی وضاحتوں کا اصلی منبع امام موسی صدر اور ڈاکٹر [مصطفی] چمران کی ہونے والی گفتگو ہے کہ  پہلے درجے کے منابع لبنان میں ہونے والی تبدیلیوں کے مورد میں ایک دورے میں روایت ہوئے ہیں۔ ۔۔ کتاب کی تالیف اور تکمیل کے وقت جس چیز نے میرے ذہن میں نقشہ بنایا، امام موسی صدر کی اُن تمام افراد کی حمایت کرنا تھا جو کسی بھی دلیل کی وجہ سے غربت میں تھے؛ نزدیکی افراد سے لیکر ایرانی مجاہدین تک ۔۔۔ ان حمایتوں کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ وہ خود ہر طرف سے بے بہا دباؤ، بحران اور ہجوم  کا شکار تھے اور بہت سے ایسے افراد جن سے توقع کی جا رہی تھی کہ اُن کی کوششوں میں اُن کا ساتھ دیں گے، مخالف اور تنقید کرنے والے تھے۔ یہ و اقعات "ایام غربت" میں کتاب کے اصلی راویوں اور موضوع سے تشکیل پائے ہیں اور کتاب کا نام ان تمام رابطوں اور مناسبتوں سے لیا گیا ہے۔"

کتاب میں پیش گفتار والا حصہ زبانی تاریخ کے بارے میں وضاحت دینے سے شروع ہوتا ہے: تاریخ کے علم نے جدید طریقوں اور روشوں سے واقعات کی جمع آوری اور اُن کے بیان سے  فائدہ اٹھایا ہے۔ "زبانی تاریخ" جو تاریخی حوادث کی زبانی روایتوں اور واقعات کی جمع آوری کا نام ہے ان روشوں میں سے ایک ہے۔ شاید یہ جدید روش ایک جہت سے تاریخ نگاری کے قدیمی ترین شیوہ سے بھی ملتی ہو۔ لیکن بے شک اصلی فرق کو روش شناسی کے اندر ڈھونڈنا چاہیے ۔۔۔ زبانی تاریخ کے مطالب جو سرگرم اور بامقصد گفتگو کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں، اُس میں تاریخی شخصیتوں کے مشاہدے اور تجربے ہیں یا وہ تاریخی مناظر جو دوسرے بازیگروں کے اقوال کو نقل کر رہے ہوتے ہیں۔ زبانی تاریخ میں انٹرویو لینے والا راوی کی مدد کرتا ہے کہ وہ اپنے واقعات بیان کرنے کے علاوہ تاریخی واقعات کی تشریح، اُن موضوعات کے بارے میں اپنی رائے اور احساسات کو بھی بیان کرے۔ حقیقت میں زبانی تاریخ انٹرویو لینے والے اور انٹرویو دینے والے کی مشترکہ تلاش کا محصول ہے اور حاصل ہونے والے بیان کی کیفیت، انٹرویو لینے والے کے مورد بحث موضوع اور اُس کے حافظے کی قدرت کی استعداد اور تسلط سے بہت نزدیکی رابطہ رکھتی ہے اور البتہ انٹرویو دینے و الے کے مشاہدے اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ راوی مصلحت انگاری سے کام لینے کو بہت حد تک کم کردیتا ہے اور یہ اس بات کا سبب بنتا ہے کہ وہ اور زیادہ اطمینان کے ساتھ اپنے واقعات کو بیان کرے۔ شاید بہت سے واقعات – چاہے وہ کم ہوں – جنھوں نے تاریخی مشاہدے کے سینے میں عمر گزار دی ہو، صرف وہی تنہا کسی شخص یا حادثے کے بارے میں ایسی معلومات ہوں کہ جس کی بہت زیادہ اہمیت ہو۔ جو چیز اس طرح کی تاریخ نگاری سے ہاتھوں میں آتی ہے وہ ایک مستند روایت ہوتی ہے جو دوسری معلومات کے ساتھ، تاریخی معمّوں کے کچھ حصوں کو – خاص طور سے تاریخ معاصر کے دائرے میں –  کافی حد تک  حل کردیتی ہے۔ یہ طریقہ کار محقق کیلئے یہ سہولت فراہم کرتا ہے کہ وہ حادثات کو صرف ایک نگاہ سے نہیں بلکہ اُسے ایک طرح سے مختلف تجربات سے حاصل کرتا ہے اور اُسے دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔"

پیش گفتار کے تسلسل میں امام موسی صدر کی زبانی تاریخی کی تدبیر کو لکھا گیا ہے اور یہ کہ "مئی ۲۰۱۰ میں امام موسی صدر تحقیقاتی  ثقافتی مرکز میں زبانی تاریخ کا گروپ تشکیل ہوا اور اُس نے لکھے جانے والے مربوط منابع کا دقیق مطالعہ کا آغاز کیا تاکہ امام موسی صدر کی زندگی اور نظریے کے بارے میں مختلف زاویوں سے اور زیادہ آگاہی حاصل کرنے کے ساتھ، اولاً اصلی ہیڈنگ کو معین کیا جائے، ثانیاً سوالات اور ابہامات کو مشخص کیا جائے اور ثالثاً اُن سے مربوط واقعات کی آگاہی رکھنے والے افراد ، مقامات اور جغرافیے کے بارے میں چھان بین کی جائے تا کہ انٹرویوز ایک مقصد اور منسجم انداز میں انجام پائیں۔ اس کے بعد والا قدم لوگوں سے رابطہ اور اُن کے واقعات کو ریکارڈ کرنا تھا ۔۔۔ موجودہ کتاب [ایام غربت] انہیں تدابیر کا ثمرہ ہے۔"

ان مقدموں کے بعد صفحہ ۱۹ سے لیکر صفحہ ۱۴۱ تک "محترمہ فرشتہ اعرابی سے ہونے والی گفتگو" آئی ہے۔ وہ امام خمینی کی دوسری بیٹی ہیں اور "اس گفتگو میں انھوں نے تاکید کی ہے کہ وہ اپنی باتوں میں کبھی "امام موسی صدر" کے عنوان سے استفادہ کریں گی، کبھی اپنے رشتہ کی نسبت کی وجہ سے، "ماموں جان" اور کچھ موارد میں بھی "جناب موسی"البتہ اُن کیلئے لفظ ماموں جان سب سے زیادہ مٹھاس رکھتا ہے۔" اُن سے انٹرویو اُسی صورت میں لیا گیا ہے، یعنی سوال و جواب کی صورت میں ہے اور بیوی کے گھرانے اور صدر کا خاندان، صدیقہ خانم صدر، ڈاکٹر صادق طباطبائی، آیت اللہ سید محمد باقر صدر، بنت الہدیٰ صدر، امام موسی صدر، امام موسی صدر کے مخالفین، پروین خانم (امام موسی صدر کی زوجہ)، ڈاکٹر مصطفی چمران، رباب خانم صدر، انقلاب اسلامی ایران، حاج آقا مصطفی خمینی، ڈاکٹر شریعتی، امام موسی صدر کا اغوا ہونا، ان جیسے عناوین اُن کے موضوع کی مرکزیت کی علامت ہیں۔

ان عناوین میں زیادہ تر اشخاص ہیں اور مشہور اشخاص ہیں اور راوی اپنی خاص رائے کو ان کے بارے میں بیان کرسکا ہے۔ ان خصوصیات کے ساتھ اُن کے واقعات پڑھے جانے کے لائق ہیں۔ وہ امام موسی صدر کی زوجہ کے بارے میں یاد کرتی ہیں کہ: "جناب صدر جب باہر سے آتے تھے سب سے پہلے پروین خانم کے بارے میں پوچھتے تھے۔ جیسا کہ وہ زیادہ تر باورچی خانہ کے اندر گھر کے امور کی دیکھ بھال کرتی تھیں؛ جناب صدر بھی عام طور سے جب اندر آتے تھے تو سب سے پہلے باورچی خانے میں جاتے تھے۔ وہ لفٹ جو اوپر جاتی تھی ایک راہداری کے اندر لگی ہوئی تھی کہ جس کی بائیں طرف باورچی خانہ تھا اور اُس کی دائیں طرف ڈرائنگ روم تھا۔ جناب صدر جب لفٹ سے باہر آتے تو باورچی خانے کی طرف جاتے، چونکہ عام طور سے پروین خانم وہاں پر ہوتی تھیں۔ میرے لئے کہ مجھے شادی کئے ہوئے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا یہ توجہ بہت دلچسپ تھی کہ وہ گھر میں داخل ہوتے ہی اُن کے دیدار کیلئے جاتے  تھے۔ حتی اُس زمانے میں بھی جب ہم مہمان تھے ۔۔۔ اُن کی سب سے پہلی توجہ پروین خانم ہوتی تھیں۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد بھی عام طور سے کھانے کی تعریف اور اپنی زوجہ  کا شکریہ ادا کرتے تھے۔"

"محترمہ فاطمہ طباطبائی سے گفتگو" صفحہ ۱۴۳ سے شروع ہوتی ہے اور صفحہ ۲۴۶ تک جاری رہتی ہے۔ وہ آیت اللہ سید محمد باقر سلطانی اور سیدہ صدیقہ صدر کی اکلوتی بیٹی ہیں کہ جنہوں نے سن ۱۹۶۹ء میں حجت الاسلام و المسلمین سید احمد خمینی سے شادی کی۔ اُن سے ہونے والے انٹرویو کے موضوع اور محور کے عناوین جو سوال اور جواب کی صورت میں ہوئے ہیں، آیت اللہ صدر کا گھرانہ، آیت اللہ سید محمد باقر سلطانی طباطبائی، ڈاکٹر صادق طباطبائی، حاج آقا رضا صدر، اُن کے عراقی رشتہ دار، بنت الہدیٰ صدر، سید اسماعیل صدر، سید حسین صدر، امام موسی صدر، خالہ رباب، ڈاکٹر چمران، امام موسی صدر کا اغوا ہونا اور  امام خمینی ہیں۔

اس راوی نے تشریح اور وضاحت کے ساتھ سوالوں کے جواب دیئے ہیں اسی وجہ سے انھوں نے جن دنوں اور واقعات کا مشاہدہ کیا  تھا اُس کے بارے زیادہ جزئیات کو بیان کیا ہے۔ ان خصوصیات کے ساتھ اُن کے واقعات اور زیادہ پڑھنے کے قابل ہوگئے ہیں اور انھوں نے شخصیتوں کے بارے میں بات کی ہے، اُن کے بہت سارے نکات پڑھنے والے کے ذہن میں نقوش چھوڑتی ہیں۔ انھوں نے امام خمینی کیلئے امام موسی صدر کی تقدیر کی اہمیت کے بارے میں بیان کیا ہے: "امام موسی صدر کی تقدیر اُن کیلئے بہت اہم تھی۔ وہ اُن کے بارے میں بہت پوچھا کرتے تھے۔ وہ انہیں بہت زیادہ نیکی اور محبت سے یاد کرتے تھے۔ دینی لحاظ سے بھی اور انتظامی امور کو چلانے کے لحاظ سے بھی۔ وہ انہیں بہت پسند کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے کہ ہمارے اپنے جناب موسی۔ جب یہ حادثہ پیش آیا (امام موسی صدر کا اغوا ہونا) قذاقی [اُس وقت لیبیا کا صدر] نے بہت کوشش کی کہ وہ ایران آئے اور امام سے ملاقات کرے۔ امام نے بھی واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ جب تک جناب موسی کا قضیہ حل نہیں ہوگا مجھے وہ قبول نہیں ہے اور میں اُس سے نہیں ملوں گا۔ اُس وقت امام کا یہ موقف اختیار کرنا بہت سوں کو نا مناسب لگ رہا تھا۔ وہ کہا کرتے کہ اس وقت جنگ ہے اور جنگ کی ضروریات۔ ہمیں ایک فرد کی خاطر رابطوں کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔ وہ خیال  کرتے تھے کہ موضوع صرف ایک فرد سے دلچسپی ہے  اور صحیح نہیں ہے کہ ہم فرد کی خاطر اُن تمام وسائل سے ہاتھ دھو بیٹھیں جو ایران کے اختیار  میں آئیں گے۔ حالانکہ امام کہا کرتے تھے کہ یہ ایک مظلوم کا دفاع کرنا ہے اور فرد بھی کوئی معمولی نہیں ہے ۔۔۔"

صفحہ ۲۴۷ سے کتاب کے آخر تک کا حصہ پی نوشت (وضاحتوں)، تصاویر  اور فہرست سے مخصوص ہے۔ پی نوشت کا زیادہ تر حصہ اُن اشخاص کے زندگی نامہ سے مختص ہے جن کا کتاب میں نام آیا ہے اور اُن کے بارے میں بات چیت ہوئی ہے۔ اُن میں سے ایک زندگی نامہ جو کتاب پڑھنے کیلئے دلچسپ ہوگا، وہ امام موسی صدر کی زوجہ، محترمہ پروین خلیلی سے مربوط ہے۔ تصاویر والے حصے میں واقعات سے مربوط تصویریں، امام موسی صدر کے آیت اللہ سلطانی طباطبائی کو لکھے جانے والے خط کی تصویر اور ساواک کی اُن رپورٹوں کی تصویر ہے جو حجت الاسلام و المسلمین سید احمد خمینی کے لبنان کے سفر  اور اُن کے امام موسی صدر سے رابطے سے مربوط ہے۔ فہرست میں بھی اُنہی لوگوں کے نام ہیں جو اس راہنمائی سے شروع ہوتی ہے: "ان نشانوں کی علامت متن کے اندر لگائے گئے نمبر کی بنیاد پر ہے۔"



 
صارفین کی تعداد: 3408


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔