جب میں قم پہنچا ۔۔۔

راوی: آیت اللہ علی احمدی میانجی

2018-12-20


اُن سالوں میں ہم میانہ کے اندر یا ماہ رمضان میں مجلسیں پڑھتے تھے یا محرم کے دنوں میں۔ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ اُن دنوں میں جب امام خمینی کو ۵ جون ۱۹۶۳ء میں گرفتار کرلیا تھا، مجھے دو مرحلوں میں پولیس تھانے میں بلایا گیا تھا۔ اس بارے میں لوگوں کو دور دور تک توقع نہیں تھی۔ مجھ پر دو الزام لگائے گئے تھے: ۱۔ گرلز ہائی اسکول پر حملہ؛     ۲۔ لوگوں کو مظاہرے کیلئے اُکسانا۔

وہاں پر ایک ہائی اسکول تھا جس کی حالت زیادہ اچھی نہیں تھی۔ اب میں نے وہاں کیا کہا تھا، مجھے نہیں معلوم۔ لیکن وہ لوگ کہتے کہ ہائی اسکول والوں کی توہین کی ہے۔ مجھے ان دو مسئلوں کی وجہ سے بلایا گیا تھا۔ جب مجھے پہلی دفعہ بلایا گیا۔ شہر کی کچھ محترم شخصیات تھانے آئیں اور کہا کہ آپ نے فلاں شخص کو تھانے میں کیوں بلایا ہے۔ تھانے کے انچارج ایس ایچ او کا ارادہ تھا کہ میں شاہ کیلئے دعا کروں اور اس کے بعد صلح کریں۔ میں نے کہا میں منبر پر نہیں جاؤں گا۔ اگر آپ لوگ شاہ کیلئے دعا کروانا چاہتے ہیں تو میں بالکل بھی منبر پر نہیں جاؤں گا۔ یعنی میں شاہ کیلئے دعا کرنے کے بجائے منبر پر جانے سے صرف نظر کرتا ہوں۔ بہرحال یہ مسئلہ اس طرح ختم ہوگیا۔

دوسری دفعہ ...کہ جب مجھے تھانے میں بلایا گیا، میں نہیں گیا۔ اس کے بجائے میں امام جمعہ کے گھر چلا گیا۔ امام جمعہ نے تھانے کے انچارج کو اپنے  گھر  پر بلالیا تھا۔ تھانے کے انچارج نے امام جمعہ کے گھر پر مجھ سے کہا: اگر آپ یہاں رہے تو مجھے آپ کو گرفتار کرنا پڑے گا۔ آپ انتشار پھیلانے والے کے عنوان سے متعارف ہوئے ہیں اور اگر میں آپ کو گرفتار نہیں کروں تو میں خود خطرے میں ہوں۔ اٹھیں اور چلیں جائیں۔ البتہ اٹھ کر چلے جانے سے اُس کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے تو اپنی باتیں کہہ دی ہیں ، آپ کے بیوی بچے بھی یہاں نہیں ہیں، تو پھر آپ یہاں کیوں رکے ہوئے ہیں؟ بہرحال ہم نے آپس میں طے کرلیا کہ مثلاً ایک دو راتوں بعد میں میانہ سے چلا جاؤں گا۔ میں امام جمعہ کے گھر سے اپنے گھر واپس آگیا، بتایا گیا کہ آج امام کو گرفتار کرلیا ہے اور قم میں قتل و غارت گری ہوئی ہے۔

میرا میانہ میں جو ایک دو دن ٹھہرنا طے پایا تھا ، اُس کے بعد مجھے ریلوے اسٹیشن لے آئے تاکہ وہاں سے زنجان اور پھر تہران کی طرف چلا جاؤں۔ میں تہران سے قم آگیا۔ مجھے پتہ چلا کہ میرا بیٹا ٹی بی کی بیماری میں مبتلا  ہوگیا اور ہسپتال کے بستر پر لیٹا ہوا ہے۔ اچانک میرے ذہن میں یہ بات منتقل ہوئی کہ میرا دوسرے شہروں میں جانے  کیلئے برا استخارہ آنے کی وجہ یہی مسئلہ ہے ۔ وہ واحد شہر جہاں جانے کیلئے استخارہ اچھا آیا تھا وہ شہر قم تھا۔ قم کا موسم گرم تھا اور ہم بھی اپنے بیٹے کے علاج معالجہ میں مصروف ہوگئے اور کچھ دنوں بعد میں نے اُسے تہران بھیج دیا۔

جب میں قم پہنچا تھا اس وقت امام کو گرفتار کرچکے تھے لیکن مسجد امام کے اوپر اور بازار کے سامنے ہیوی مشین گنیں ابھی تک نظر  آرہی تھیں۔ قم کا ماحول حال ہی میں ہونے والی قتل و غارت گری کی وجہ سے بہت وحشت پھیلانے اور رعب ڈالنے والا ماحول تھا۔ وہ پہلی جگہ جہاں جھڑپیں ہوئی اور قتل عام ہوا، پل آھنچی اور اس کے بعد بازار میں تین اطراف میں جانے والا راستہ تھا۔ مجھے شہید اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں کیونکہ میں قم میں نہیں تھا لیکن زخمیوں کی تعداد زیادہ تھی اور پولیس کے سپاہیوں نے بھی بہت زیادہ خباثت دکھائی تھی۔ ہمارا ایک دوست جو سیکیورٹی ادارے میں تھا اُس نے بتایا: میں نے اور فلاں نے اپنے ساتھی کو فائرنگ کرنے نہیں دیا، لیکن یہ بات صحیح ہے کہ سیکیورٹی ادارے کے سپاہیوں اور پاسبانوں نے یہ کام کیا تھا۔



 
صارفین کی تعداد: 2896


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔