"مؤرخین اور میدان جنگ میں موجود راویان" کے مجموعہ کی چوتھی کتاب

پڑھائی بھی، محاذ بھی، نقل داستان بھی

محمد علی فاطمی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-1-2


"مؤرخین اور میدان جنگ میں موجود راویان؛ مفید سیکنڈری اسکول کا دور" نامی کتاب سمیہ حسینی اور مرتضی قاضی کی تحقیق اور مرتضی قاضی کی تصنیف کے ساتھ سن 2017ء میں دفاع مقدس کے مرکز اسناد و تحقیقات  کے توسط سے منظر عام پر آئی۔

کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ "سن 1981ء کے دوسرے حصے  میں اور طریق القدس آپریشن سے پہلے، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سیاسی دفتر  میں  "جنگی راویوں"  کا گروپ بنا۔ اس گروپ کے بننے سے لیکر آج تک جنگی دفتر، مرکز مطالعات، جنگی تحقیقات اور دفاع مقدس میں اسناد اور تحقیقات کا مرکز اس گروپ کے تنظیمی عناوین رہے ہیں۔ راویوں نے آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے دوران، افراد کی کمی، محدود وسائل، اسٹریکچر کی خرابی اورموجود  مختلف دشواریوں کے باوجود، جنگی محاذ کی ہزاروں مستند اور اہم گزارشات، کیسٹ کی شکل میں، راویوں کی ڈائریاں،  آپریشن کی رپورٹ، کاغذات، نقشوں اور اسناد وں کو جمع کیا، لکھا اور ریکارڈ کیا ہے کہ یہ گروپ [اسی کتاب کی روایت میں: ایک ملین سے زیادہ کاغذوں پر مشتمل رپورٹ اور تقریبا پچاس ہزار کیسٹیں] اس وقت  واقعات کو زندہ و جاورید رکھنے  اور دفاع مقدس  کی حقیقتوں کو تحریف سے بچانے کے علاوہ، ایران عراق جنگ کا پہلا اہم ترین تحقیقی منابع شمار ہوتا ہے ․․․ اسی چھوٹے سے گروپ نے جنگی محاذوں پر 17 شہیدوں کو  اسلام پر نچھاور کردیا کہ دوسرے دستوں سے مقایسہ میں، یہ زیادہ شہدا پیش کرنے پر سب سے آگے ہے۔ ان سب کے باوجود جنگ کے کافی عرصے بعد تک، مورخ اور راوی شہداء سے متعلق تحریری اور باقی رہنے والا کام انجام نہیں پایا تھا اور وہ اب تک اسی طرح  گمنام رہے تھے یہاں تک کہ سن  2009ء میں دفاع مقدس کے مرکز اسناد و تحقیقات   کے اجتماعی اسٹڈی گروپ  نے ان عظیم شہداء کی زندگی  کے کچھ حصے کی تالیف  کا بیڑا اٹھایا اور طے پایا کہ راوی شہداء کے زندگی نامہ کو ایک کتابی مجموعہ "مؤرخین اور میدان جنگ میں موجود راویان" کی صورت  بیان اور شائع کیا جائے۔ موجودہ کتاب، اس مجموعہ کی چوتھی کتاب ہے جس میں دفاع مقدس  کے تین مورخین اور راویوں (شہید  حسین جلائی پور، شہید محسن فیض اور شہید حمید صالِحی) کی مفید اسکول میں پڑھائی، محاذ اور خاص طور سے جنگ کے اسٹڈی اور ریسرچ سنٹر میں حاضر ہونے کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ مذکورہ تین شہداء کا تعلق مفید سیکنڈری اسکول کے طالب علموں میں سے تھا جو کسی زمانے میں دفاع مقدس میں جنگ کے اسٹڈی  اور ریسرچ سنٹر میں مورخ اور  راوی کے عنوان سے کام کرتے رہے ، اس کے باوجود کہ اُن  کی روایت نقل کرنے کی عمر کم تھی، لیکن اُس زمانے میں دفاع مقدس کی تاریخ میں اسناد کو جمع کرنے اور ثبت کرنے میں اُن کی کوشش جاویدانی ہے۔"

اس 912 صفحات پر مشتمل کتاب کی چھ فصلیں ہیں اور ہر فصل اُس انٹرویو دینے والے سے مخصوص ہے جس نے اُس فصل کے موضوع کی مناسبت سے اپنے مشاہدات کو بیان کیا ہے؛ پہلی فصل: مفید اسکول (پہلا حصہ: مفید پرائمری اسکول، دوسرا حصہ: مفید ہائی اسکول، تیسرا حصہ: وہ ایام، چوتھا حصہ: ساتھیوں کا گروپ، پانچواں حصہ:  پرائمرای اسکول کے طالب علموں کی تعیناتی، چھٹا حصہ: سب سے پہلا میدان، ساتواں حصہ: صادق شہید، آٹھواں حصہ: اور لیکن پڑھائی)، دوسری فصل: دفاع مقدس (پہلا حصہ: محاذ بھی، پڑھائی بھی، دوسرا حصہ: خیبر آپریشن، تیسرا حصہ: محترم اساتید، چوتھا حصہ: بدر آپریشن، پانچواں حصہ: انجمن فتح اللہ غریب ، چھٹا حصہ: آٹھواں و الفجر آپریشن، ساتواں حصہ: طالب علموں کی تعیناتی، آٹھواں حصہ: حسین کی شہادت، نواں حصہ: وہ یادگار فلم، دسواں حصہ: آخری تعیناتی، گیارہواں حصہ: شہادت کے بعد)، تیسری فصل: روایت نقل کرنا، چوتھی فصل: شہید حسین جلائی پور، پانچویں فصل: شہید محسن فیض، چھٹی فصل: شہید حمید صالِحی۔

مرتضی قاضی نے اپنی کتاب کے مقدمے میں، اس کتاب کے آمادہ ہونے کی کیفیت، اُس کے انٹرویو لکھنے اور اُن فصلوں کے طریقہ کار کے بارے میں اس طرح توضیح دی ہے: "پہلی فصل مفید اسکول کے تمام لڑکوں کے نوجوانی کے زمانے کو آٹھ حصوں میں بیان کر رہی ہے۔ دوسری فصل اسکول کی تعلیم کے بعد، کالج میں داخل ہونے اور دفاع مقدس میں حاضر ہونے سے لیکر شہداء کی شہادت کے زمانے تک اور دوستوں کی شہادت کے بعد اس گروپ کے باقی بچ جانے والے افراد کے احوال کے بارے میں بیان کرتی ہے۔ تیسری فصل خاص طور سے تین مورخ اور راوی شہداء کے اسٹڈی اور تحقیقی مرکز میں داخل ہونے کے پس منظر اور طریقے کو بیان کرتی ہے۔ اس فصل کے آخر میں ایک اہم حصہ "شہید، اسناد ی روایت کے مطابق" کا موضوع ہے۔ اس حصے کی روایت ایسی اختراعوں میں سے ایک ہے جس میں تین مورخ اور راوی شہداء کی بچی ہوئی  اسناد، رپورٹوں اور آڈیو کیسٹس کو بولنے والی زبان دی گئی ہے اور یہ طریقہ کار مورخین اور  دفتر  مطالعات و تحقیقات کے راویوں کے  مکتوب  اور صوتی اسناد  کو بولتی زبان دینے کیلئے مورد استفادہ قرار پایا ہے۔ زبان دینے کا طریقہ اس طرح سے ہے: جیسا کہ اُن تین شہداء کے روایت نقل  کرنے والے کام کے وقت  کوئی اُن کے پاس نہیں تھا اور اس وجہ سے راویت کرنے والے پہلے راوی سے استفادہ کرنا ممکن نہیں تھا، میں نے  مرکز کے مسئولین سے مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ ماحول اور  حالات سے استفادہ کرتے ہوئے، شہداء کی اُن باتوں کو حاصل  کروں جو اُن کے کام کرنے کے دوران مدارک اور آڈیو کسیٹس میں باقی رہ گئیں اور شہید کے روایت نقل کرنے کے کام کی وضاحت دینے کیلئے روایت کرنے والے ایک تیسرے شخص  کا انتخاب کروں اور تخیل  سے استفادہ اور کہانی بنائے  بغیر صرف اتفاقی روایت کو بیان کروں جو مورخ اور راوی کیلئے واقع ہوا ہے؛  البتہ اس تیسرے شخص کے روایت کرنے کے دوران، میں نے ہاتھ سے لکھے ہوئے اصلی متن اور وہ باتیں جو شہید نے راوی کی ڈائری پہ لکھی ہوئی تھیں، سے استفادہ کیا  تاکہ قاری، راوی اور اُس کے کام کی فضا کے ہمراہ ہو جائے۔ یہ حصے جن میں خود شہید کے ہاتھوں کا لکھا ہوا متن ہے  یہ کسی تبدیلی کے بغیر اور دوسرے فونٹ سے مشخص ہیں۔ شروع کی تین فصلوں میں، ہر حصے کے شروع میں ایک مقدمہ ہے جس میں ہر حصے کی بنیادی باتیں ہیں جو قاری کو  اس  حصے میں موجودواقعات کی فضا اور حالات سے آگاہ کرتی ہیں  اور تھوڑا کلی نگاہ سے اس حصے کے مقام کو کتاب کے دیگر حصے سے مشخص کرتی ہے۔ کتاب کی آخری تین فصلوں میں تین شہیدوں کی الگ الگ روایت ہے اور ہر حصے میں موجود اصلی روایت کرنے والے، شہید کے بھائی یا والدہ ہیں۔"

مجموعہ کی چوتھی کتاب "مؤرخین اور میدان جنگ میں موجود راویان" اگرچہ تین شہید راویوں کے  پیش نظر تشکیل پائی ہے لیکن ان راویوں کے مقاصد کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ ان مقاصد کو دو زاویوں سے دیکھا گیا ہے، اجتماعی پہلو، جو اُس کی زندگی کے آخری سالوں سے حاصل ہوا، یعنی مفید اسکول اور اس گروپ کے ساتھی، یہ حاصل ہونا برجستہ ہے اور اس کا اثر پڑا ہے۔ لہذا آدھی کتاب میں ان مقاصد اور ساتھیوں کا تعارف کروایا ہے۔ ساتھیوں نے اپنے بارے میں بھی، اسکول کے بارے میں بھی، کتاب کے مطلوبہ شہید راویوں کے بارے میں بھی اور مفید اسکول کے دفاع مقدس میں شہید ہونے والے دوسرے شہداء کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ کتاب کی تصویروں نے بھی اس مکتوب روایت کی مدد کی ہے اور ان سب نے مل کر ، سن 1981ء میں ایک اسکول کی  دفاع مقدس سے نسبت کو آشکار اور واضح کیا ہے۔

مجموعہ کی چوتھی کتاب "مؤرخین اور میدان جنگ میں موجود راویان" کی روایتیں بہت زیادہ ہیں اور  اس میں اہم نکات ہیں اور اُن کوششوں کا نتیجہ ہیں جو ایک محقق اور ناشر کتاب کی پیداوار اور شائع ہونے کیلئے کرتا ہے، کاش کم سے کم  اس کتاب کے حاشیے میں، لوگوں کے نام کی ایک فہرست  ہوتی جو کتاب کی معلومات کو نمایاں کرتی اور اُس کے محققانہ پہلو کو ظاہر کرتی۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3452


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔