ہمیں لوگوں کے درمیان رہنا چاہیے

ہمیں لوگوں کے درمیان رہنا چاہیے

مترجم: سید نعیم حسین شاہ

2019-5-22


۱۹۶۳ میں امام خمینی ؒ کی گرفتاری کے بعد ایران کے لوگوں نے قیام کیا اور سڑکوں پر آگئے جس کے نتیجے میں ۵ جون کو امام کی گرفتاری پر اعتراض کرنے والے مظاہرین میں سے ایک بڑی تعداد کو تہران، تبریز، ورامین اور بعض دیگر شہروں میں پہلوی حکومت کے حامیوں اور سیکیورٹی والوں نے قتل کیا۔اب اس  قیام میں شدت اور وسعت آنے کے خوف سے پہلوی حکومت نے نمایاں اور بڑی دینی شخصیات جو موثر اور انقلابی تھیں  کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔ ارومیہ کے پانچ چھ علماء کو اسی دن پولیس اسٹیشن لے گئے کیونکہ حکومت ان کو  اپنے لئے خطرہ سمجھتی تھی اور اس کا یہ خیال تھا کہ یہ افراد، امام کی گرفتاری پر عوام کو حکومت کے خلاف مزید اکسا سکتےہیں۔ ان گرفتار شدہ علماء میں سے ایک میں بھی تھا۔ ہمیں یہ لوگ ارومیہ پولیس اسٹیشن لے گئے جہاں تک مجھے یاد ہے بعض کو اُسی وقت اس تعہد پر کہ وہ آئندہ کبھی حکومت مخالف فعالیت میں حصہ نہیں لیں گے، دستخط لے کر فوراً  آزاد کردیا۔ مگر تین افراد نے دستخط کرنے سے انکار کردیا وہ تین افراد یہ تھے : معروف استاد اور مولانا صاحب شیخ محمد امین رضوی صاحب مروم، سید حمزہ موسوی عجب شیری مرحوم اوربندہ ناچیز۔ ہم تینوں نے یہ کہانی بنائی کہ ہم تینوں ارومیہ کے باشندے نہیں ہیں۔ جب کہ آپ تعہد  اہل ارومیہ سے لے رہے ہیں پس ہم تعہد نہیں دیں گے اور نہیں دیا۔ اہل کاروں نے کہا: "اگر تعہد نہیں لکھو گے تو گویا تم حکومت مخالف ہو اور تم لوگ پھر یہاں سے جاکر دوبارہ منبروں سے عوام کو حکومت کی مخالفت پر اُکساؤ گے۔ پس ہم (اہل کار) لوگ بھی مامور اور مجبور ہیں کہ تم لوگوں ہتھکڑی لگا کر تہران بھیجا جائے اور قزل قلعہ جیل کے حوالے کیا جائے۔ پولیس کی مخصوص گاڑی تیار ہے پس اگر شاہ کی مخالف کرنے کا ارادہ نہیں ہے تو تعہد نامے پر دستخط کرو اور آزاد ہوجاؤ۔"

ہم نے ان کا دباؤ قبول نہیں کیا اور دستخط نہیں کئے۔ انھوں نے بھی ہمیں نہیں چھوڑا۔ آدھی رات گزر گئی۔ پولیس اسٹیشن کا انچار ج کہن موئی جو تبریز کا باشندہ تھا ہمارے پاس بیٹھا تھا۔ نیند کا غلبہ تھا جس کی وجہ سے وہ اونگھ رہا تھا! ۔۔۔ وہ ہم سے کہنے لگا: "خدا کی قسم! اگر تعہد نامے پر دستخط نہیں کرو گے تو تہران بھیج دوں گا۔ وہاں وہ لوگ تمہارا جینا حرام کردیں گے۔ بہتری اسی میں ہے کہ دستخط کرو ، تم بھی اپنے گھروں کی راہ لو اور ہم بھی آرام کریں۔ تم بھی سکھی ہم بھی سکھی۔ پھر وہ اٹھا اور ہمیں کوریڈور تک لے آیا۔ وہاں ایک آفیسر ہاتھ میں تین ہتھکڑیاں لئے کھڑا تھا۔ کہن موئی نے اس سے کہا: "ان تینوں کو ہتھکڑی لگاکر لے جاؤ!"

ہم نے کہا: "ہم مجرم تھوڑی ہیں جو ہمیں ہتھکڑیاں لگا رہے ہو! تم نے ہمیں جہاں لے کر جانا ہے لے جاؤ، ہتھکڑی کیوں لگاتے ہیں؟!"

اس آفیسر نے کہا: "اوپر سے آرڈر ہے۔ اگر یہ انچارج بھی کہہ دے کہ ہتھکڑی نہ لگاؤ تو میں اس کی بات بھی نہیں مانوں گا اور تم لوگوں کو ہتھکڑی لگا کر تہران بھیجوں گا!"

ہم نے جب دیکھا کہ ہماری دال نہیں گل رہی اور یہ لوگ بالکل سنجیدہ ہیں اور ہتھکڑی لگا کر لے جائیں گے اور اس کے بعد کچھ پتہ نہیں کہ کہاں لے کر جائیں گے۔

اسی شش و پنج میں مرحوم رضوی نے ہم سے کہا :"اگر یہ لوگ ہم سے تعہد لے لیں تو ہم باہر جاکر اس پر عمل نہیں  کریں گے! ہم اپنا کام جاری رکھیں گے۔ وگرنہ تہران یا کہیں اور جانے کا مطلب یہ ہے کہ پھر جو ہوگا شاید تلافی کے قابل نہ ہو، ہم نے لوگوں میں اور لوگوں کے ساتھ رہ کر اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے۔ میرے خیال میں یہی بہتر ہے کہ تعہد نامہ پر دستخط کر دیتے ہیں اور پھر یہاں سے باہر جاکر منبروں سے اپنی بات لوگوں تک پہنچائیں گے اور یہ تعہد ہماری دینی و انقلابی فعالیت کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔"

مرحوم رضوی کی یہ بات سن کر ہم نے بھی بہتری اسی میں دیکھی کہ دستخط کرکے جان چھڑائی جائے۔ میں نے دستخط کرتے وقت کہہ دیا کہ "ہم اس تعہد پر عمل نہیں کریں گے۔"

کہن موئی میری یہ بات سن کر زور سے چلایا اور معاون کو پکارا اور کہنے لگا کہ یہ ابھی سے کہہ رہا ہے کہ یہ لوگ تعہد نامے پر عمل نہیں کریں گے۔۔۔ خیر دستخط کے بعد گھنٹہ بھر ہمیں بٹھایا اور آدھی رات کے بعد ہمیں چھوڑ دیا۔ ہم گھر پہنچے اور اگلے دن سے ہم نے تعہد نامے کی پرواہ کیے بغیر، اپنی شرعی ذمہ داری پر عمل کرتے ہوئے کام شروع کردیا۔ البتہ اس کے بعد ساواک ایجنسی کی ارومیہ برانچ  آئے دن مجھ سے اور دیگر علماء سے تعہد لیتی رہتی تھیں، وارننگ بھی دیتی، توہین بھی کرتی اور یوں آخرکار، بات کڑی نگرانی میں کنٹرول اور پھر کچھ علماء کی جلا وطنی تک جا پہنچی۔



 
صارفین کی تعداد: 3163


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔