حج میں شاہ کے خلاف مظاہرہ

راوی: آیت اللہ سید احمد علم الہدیٰ

ترجمہ: سیدہ رومیلہ حیدر

2019-2-2


سن ۱۹۷۹ میں ہم حج پر گئے اور وہاں منیٰ اور عرفات میں ہم نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کئے۔ رات کو جب عرفات سے نکلنے لگے، ہمارے ساتھ جتنے لوگ بھی تھے ہم نے مل کر مظاہرے شروع کردیئے۔ ہمارے اس عمل کی وجہ سے ایرانی نکک پڑے اور جب رمی جمرات کے لئے منیٰ جاتے تھے تو منیٰ میں شاہ کے خلاف مظاہرے شروع ہوجاتے تھے، حالانکہ وہاں پر ساواکیوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور سعودی سیکیورٹی اہلکار بھی بہت سختی سے پیش آتے تھے لیکن پھر بھی ہم کامیاب رہے۔

۷۹ میں منیٰ میں مختلف ممالک کے حاجیوں کے سامنے مظاہرے ایک دلچسپ عمل تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے کاروان میں ایک بندہ خدا تھا کہ جو پہلوی حکومت میں ولیعہد کا نوکر تھا اور اتفاق سے اس کاروان میں ہمارے ساتھ تھا۔ پہلے پہل تو اس بے چارے نے ناراضگی کا مظاہرہ کیا اور ہم سے بات کرنا چھوڑ دی۔ بڑا پریشان رہا حتیٰ کھانا بھی نہیں کھاتا تھا۔ خلاصہ یہ کہ یہ سلسلہ دو تین دن تک جاری رہا۔ ہمارے کاروان سالار نے کہا :" اس شخص نے ہماری ایسی تیسی کر رکھی ہے، جب تہران واپس پہنچے گا تو ہماری شکایت کرے گا"۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تم کچھ نہ کچھ کرو، کم از کم اس شخص کا لحاظ کرو۔ تین چار راتوں کے بعد ایک رات مجلس ختم ہوچکی تھی اور ہم کھانا کھانے جارہے تھے۔ میں نے دیکھا وہ شخص سیڑھیوں پر کھڑا ہے اور اس نے میرے پاس آکر کہا:" جناب مجھے آپ سے کام ہے"۔ پھر اس نے مجھ سے کہا میں پہلےچند دنوں تک تو مجلس میں بہت پریشان ہوتا تھا، لیکن آج میں آُ سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں نے اپنی پوری زندگی درباریوں کی خدمت میں گذار دی۔ آیا توبہ کا کوئی راستہ موجود ہے؟۔ میں سمجھ گیا کہ الحمد اللہ یہ شخص منقلب ہوچکا ہے۔ لہذا ہم نے اسکی رہنمائی کی، وہ اتنا بدل چکا تھا کہ اس کے بعد ہر رات وہ بڑے جوش و ولولے سے ہمارے گفتگو سننے وقت پر پہنچ جاتا تھا۔

اس طرح ہم اس سال حج میں بہت اچھی طرح جدوجہد تو نہیں کرسکے، اور ہم تقریبا تیار بھی تھے کہ جب ہم واپس ایران پہنچیں گے تو ہم سے پوچھ گچھ کی جائے گی لیکن خوشقسمتی سے کسی نے بھی ایران میں ہم پر حتیٰ اعتراض بھی نہیں کیا۔

 

 

منبع: خاطرات آیت‌الله سیداحمد علم‌الهدی، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1387، ص163 تا 164.



 
صارفین کی تعداد: 3701


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔