تنہائی والے سال – ستائیسواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ:سید مبارک حسنین زیدی

2018-12-20


ایک شیعہ نگہبان جو صدام اور بعث پارٹی کے ظلم و ستم کے بارے میں بہت باتیں کرتا تھا، وہ ہمارے لیے کئی مرتبہ دودھ اور انڈے لیکر آیا اور ایک دفعہ اُس نے ہمیں چھپا کر نگہبانوں کا چولہا   بھی دیدیا تاکہ ہم ہاف فرائی انڈا بناکر تمام افراد میں تقسیم کرلیں۔ شاید ہم لوگ تقریباً تین سال  کے عرصے سے صرف اُبلے ہوئے کھانے کھا رہے تھے۔ متاسفانہ زیادہ تر افراد  کی حالت ہاف فرائی انڈا کھانے کی وجہ سے  خراب ہوگئی اور اُنہیں اُلٹیاں لگ گئیں؛ چونکہ اُن کے ہاضمہ کے نظام نے تلی ہوئی چیزوں کو  برداشت نہیں کیا تھا۔ البتہ اس بات سے تجربہ حاصل ہوگیا  اور بعد میں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا۔

کچھ عرصے بعد، افراد کی تجویز اور درخواست اور محمودی کی بہترین  تدبیر سے، کیمپ کے داخلی امور کے فیصلے مشورے کی صورت میں  انجام پانے لگے  اور ان پر عمل درآمد ہوا۔ اُن مسائل میں سے ایک موضوع جس پر مشوروں کے ساتھ سنجیدہ طور پر عمل ہوا، وہ فرار کا احتمالی منصوبہ تھا جسے ہم نے بالائی طبقے پر حاصل ہونے والی معلومات کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا تھا اور مختلف راستوں کی تحقیق کرنے کیلئے ہم میں سے چھ لوگ ہفتہ میں دویا تین میٹنگ رکھتے اور تمام موارد کو زیر مطالعہ قرار دیتے۔

سب سے بڑا عنصر جو ہمارے کام کی گرہ کو کھول سکتا تھا اور ہمارے منصوبے کو تیزی آگے بڑھانے میں مؤثر ثابت ہوسکتا تھا،  وہ ایک خارجی عنصر کا تعاون تھا۔ خاص طور پر اگر یہ تعاون کسی ایک نگہبان کی طرف سے انجام پاتا۔ اسی وجہ سے، دو افراد کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ بعض نگہبانوں سے قریب ہوں  تاکہ شاید اُن سے تعاون اور معلومات حاصل کرسکیں۔

ساتھیوں کا ایک گروپ جسمانی طور پر آمادہ رہنے کیلئے  سخت ورزشیں کرنے میں مصروف ہوگیا تاکہ فرار کے منصوبے پر عمل کرنےکی صورت میں، اُن کے اندر کافی اور مناسب آمادگی موجود ہو۔

اس عرصے میں ہمیں اُن افراد کی کوئی خبر نہیں تھی جو چلے گئے تھے اور عمارت کے پہلے طبقے پر صرف ہم لوگ تھے۔ ایک دن ہمیں پتہ چلا کہ اوپر والے طبقے پر ۱۲ افراد کو لایا گیا ہے۔ ہم نے جتنی بھی دقت کی لیکن ہم اُن کو پہچاننے میں کامیاب نہیں ہوسکے چونکہ اُن کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور اُنہیں پہچاننے کا امکان  نہیں تھا۔ ہم نے صرف یہ دیکھا کہ اکثر  ادھیڑ عمر افراد ہیں۔

ہم نے رات کو  کولر کی ہوا آنے والے راستے سے اُن سے رابطہ قائم کیا۔ ان ساتھیوں میں سے ڈاکٹر پاک نژاد نے ہم سے  رابط کیا اور کہا:

- ہم ایک طویل مدت تک ہیڈ کوارٹر والے کمرے میں رہے  تھے اور ہم بہت زیادہ مسائل کا شکار رہے۔  میرے ساتھ، کچھ ڈاکٹر اور انجینئر ہیں؛ اسی طرح ایک لبنانی، پٹرولیم وزیر کا ڈرائیور اور ایک بسیجی ۔۔۔

ہم نے پہلی فرصت میں ان افراد کے ناموں کی لسٹ لی اور اپنے کوائف بھی اُنہیں دیدیئے تاکہ ہم میں سے جو بھی جلد آزاد ہوجائے، وہ دوسرے ساتھیوں کے کوائف کےبارے میں ایرانی عہدیداروں تک اطلاع پہنچا دے۔

ہم نے ان عزیزوں کے ساتھ جو ایک  سال کا عرصہ گزارا، ڈاکٹر پاک نژاد ایک گرم خورشید کی مانند، اپنے اطراف کی پوری فضا کو نورانی اور معطر کرتے رہے۔ وہ ایک سرجن ڈاکٹر تھے جو اوائل جنگ میں – راستے میں – گرفتار ہوگئے اور قیدی بنالئے گئے  تھے۔ ایک ذاتی ڈاکٹر  جنہوں جنگ کے کسی آپریشن میں شرکت نہیں کی تھی اور بین الاقوامی اور اسلامی قوانین کے برخلاف انہیں ایک جنگی قیدی کے عنوان سے رکھا  ہوا تھا۔

اس عظیم انسان کو دعائے کمیل زبانی یاد تھی اور انھوں نے دوسری دعاؤں کے ساتھ اور نماز شب پڑھنے کا طریقہ وغیرہ ہمارے لیے لکھ کر بھیجا۔ ہمارے مذہبی سوالوں کا بہت ہی دقت اور حوصلے کے ساتھ جواب دیتے اور ان میں سے اکثر کو تو بہت ہی اچھے خط میں لکھتے  اور ہمارے لیے بھیجتے۔ ہمارا رابطے کا ذریعہ ایک تھیلا تھا  کہ جس میں ہم وسائل کو اِدھر سے اُدھر ردّ و بدل کرنے کیلئے رکھتے تھے۔

چند دنوں بعد، ہم نے ڈاکٹر سے سوال کیا کہ کیا وہ اپنے ساتھیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں اور اُن پر اطمینان رکھتے ہیں؟

ڈاکٹر نے مثبت جواب دیا۔ محمودی نے اُنہیں عمو (ریڈیو) کی موجودگی کے بارے میں خبر دی۔ اسی طرح اُس نے دوسرے  قوانین کے بارے میں بھی بتایا جیسے قسم کھانے، خبروں کی حفاظت ، انہیں دوسروں کو نہ بتانا اور ایران ریڈیو پر خبروں والی فریکوینسی کے علاوہ  کوئی دوسری فریکوینسی لگانے کی درخواست نہ کرنا۔

ڈاکٹر نے اپنے قیدی ساتھیوں سے گفتگو کرنے کے بعد کہا:

- ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے ہم پر اطمینان کیا اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ میرے ریڈیو  کے قوانین پر عمل درآمد کرنے والے قول کو قبول کرلیں گے۔ ہم بھی اپنی طرف سے لکھنے کا سامان اور بیٹری مہیا کرنے کی کوشش کریں گے۔

یہ بات بتانا رہ نہ جائے کہ نئے چچا (ریڈیو) مل جانے کے بعد، نام رکھنے والی ایک تقریب میں، "خدا بخش" کی تجویز  پر سب نے موافقت کا اظہار کیا۔ کیونکہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ ہمیں نئے چچا کو خداوند نے بخشا (عطاکیا ) ہے اور وہ خود ہی اُس کی حفاظت بھی کریگا۔

بابا جانی اُسی طرح خبروں والی فریکوینسی لگاتے اور چند ورق پر فاؤنٹین پین سے لکھنے کے بعد، اُسی وقت کی مدت کا لحاظ رکھتے ہوئے اور باری باری  دو سے تین لوگ اُسے پڑھتے۔ اُس کے بعد اوپر والے طبقے میں دیدیا جاتا ، کہ وہ  لوگ استعمال  اُسے پڑھنے کے بعد واپس  بھیج دیتے تھے۔ آخر میں تحریر کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا جاتا، تا کہ سمجھنے کے قابل نہیں رہے۔ لکھنے کے بعد یہ کام کسی ایک ساتھی کے ذریعے انجام پاتا جسے "تقسیم کرنے کا انچارج" کہتے اور کچھ مدت بعد یہ ڈیوٹی کوئی اور فرد  انجام دیتا۔

بابا جانی کے علاوہ جو خدا بخش کے دائمی انچارج تھے، دوسرے افراد دوسرے عنوان سے اُس کے وسائل کو مہیا کرنے میں اُن کی مدد کرتے تھے؛ جیسے لکھائی کا سامان مہیا کرنا، اُس کے بعد جب یہ سامان ناپید ہوگیا، ایک بھائی کی ہمت اور ذوق کے بل بوتے پر جس کا نام سلمان تھا، ہم نے بال پین  کی نلکی  بنائی کہ جس کی کیفیت دن بدن بہتر ہوتی گئی یہاں تک کہ وہ فاؤنٹین پین کی طرح لکھنے لگا  اور اُس کی سیاہی کو کنٹرول کیا جاسکتا تھا؛ وہ سیاہی جو ہم انار کے چھلکے کو گیلا کرنے سے حاصل کرتے تھے۔

جناب بورانی ، کاغذ جمع کرنے اور اُسے کاپی کی صورت میں بائنڈ کرنے کے انچارج تھے۔ کاغذوں کو سگریٹ کے سلور کاغذ، پیکٹ اور گتے سے بنایا جاتا۔ ہم سرف کے گتے کے ڈبے کو پانی میں ڈال کر گیلا کرلیتے  اور اُس کے بعد گتے  کی ایک ایک پرت کو کاغذ کی شکل میں اُس سے الگ کرلیتے، خشک ہوجانے کے بعد  اُسے کاپی کی صورت میں لے آتے تھے۔

کچھ افراد پر ڈیوٹی دینے کی ذمہ داری تھی جنہوں نے پورے احاطے کو اپنے کنٹرول اور زیر نظارت رکھا ہوا تھا تاکہ جیسے ہی کوئی غیر متوقع مسئلہ پیش آئے تو فوراً داستان (خبریں) لگانے والے انچارج  کو آگاہ کردیں۔ ریڈیو کے برابر میں ایک تکیہ بھی رکھا ہوا تھا  - کہ جیسے ہی خطرے کی گھنٹی بجے – فوراً خدا بخش کو اس کے اندر رکھ دیں  اور اپنے روز مرہ کے کاموں  کو، جس کا بھی ایک منظم شیڈول تھا انجام دینے لگتے۔

جب سے ڈاکٹر پاک نژاد ہمارے پڑوسی بنے تھے، ہم سب کے اندر ایک تبدیلی آگئی تھی۔ انھوں نے اپنی عظیم روح کی وجہ سے ہم سب کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا  اور ہم سب اُن کی باتوں اور اُن کی تحریروں کے مطیع بن گئے تھے۔ جیسے وہ تمام چیزوں کے بارے میں جانتے ہوں اور ہمیں قانع کردیتے تھے۔ وہ محبت اور مہربانی کا دریا  تھا۔ حالانکہ ہم دن رات اُن کا وقت لیتے تھے؛ پھر بھی انھوں نے ایک بار تھکاوٹ اور سستی کا اظہار نہیں کیا۔ ہم اُن سے جتنا زیادہ درخواست کرتے وہ اتنا ہی زیادہ لکھتے؛ نماز، روزہ، اصول دین ، فروع دین ، دعا، تفاسیر سے لیکر مختلف سیاسی مسائل، علاقے کے حکمرانوں کے ظلم  و غارت گری  اور اُن کے قبضہ کرنے سے لیکر، اُن کے اپنے اور ان کے شہید بھائی کے بارے میں، خلاصہ یہ کہ ہم جس  بھی چیز کے مشتاق ہوتے، وہ کسی بات سے دریغ نہیں کرتے۔

ان کے بہترین کاموں میں سے ایک، زندگی نامہ امام حسین (ع) کی تالیف تھی جو تدریجاً چند جلدوں میں لکھی گئی۔ خاص طور سے انھوں نے واقعہ کربلا کی عجیب جذبات اور احساسات سے  تشریح کی تھی۔ جب ہم نے اُسے فاؤنٹین پین سے لکھا اُس کا ۲۰۰ صفحات والی تین کاپیوں سے زیادہ حجم بنا۔ میں اپنی قید کے دوران، ہر سال ماہ محرم کے دنوں میں،  اُسے ایک بار پڑھا کرتا اور ڈاکٹر صاحب پر درود  و سلام بھیجتا۔

جب ہم نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ ہمارے پاس جو قرآن ہے وہ ترجمہ والا نہیں ہے، آپ اُس کا فارسی میں ترجمہ کردیں، انھوں نے اس بات کو  بہت دلچسپی سے  قبول کرلیا اور کہا: "  اس سے بڑی کیا خدمت ہوگی؟" اور جب انھوں نے ترجمہ کرکے بھیجا، ہم نے واقعاً اس سے لذت اور فائدہ اٹھایا۔

ایک دن، اُن کی اپنی لکھی ہوئی تفسیر پر کئی جگہ قلم سے کاٹنے کے بعد لکھا ہوا تھا، وہ اس بات پر ہم سے معذرت کرتے ہوئے کہہ رہے تھے:

- میں عینک لگاتا ہوں؛ لیکن جب میں اسیر ہوا ، ان لوگوں نے میری عینک لے لی۔ جب آپ لوگوں نے مجھ سے لکھی ہوئی تحریر مانگی، میں نے ایک بلب کے اندر سوراخ کرکے اُس میں پانی ڈالا  اور اب تک میں اسے عینک کے جگہ  استعمال کر رہا تھا؛ آج وہ بلب ٹوٹ گیا اور اسی وجہ سے میری تحریر میں ایسا ہوا کہ جگہ جگہ لکھنے کے بعد کاٹنا پڑا ہے۔

خدایا! میں کیا سن رہا ہوں؟ ڈاکٹر صاحب اتنی ضعیف آنکھوں اور عینک کی محتاجی کے ساتھ  اس عرصے میں ہمارے لیے مطالب لکھتے رہے اور کچھ بھی نہیں کہا؟

ہم نے اُن کے اس قدر زحمت  اٹھانے پر ان کا خلوص کے ساتھ شکریہ ادا کیا اور کہا:

- ڈاکٹر صاحب! ہم راضی نہیں ہیں کہ خدانخواستہ آپ کی آنکھوں کو کوئی بڑا نقصان ہو جائے؛ برائے مہربانی اب آپ تفسیر لکھنے کا کام بند کر دیں۔

- بالکل نہیں! میں خوش ہوں اور میری خواہش ہے کہ میں اپنی آنکھوں کو اس راستے میں قربان کردوں؛ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے؟

اللہ اکبر!یہ ڈاکٹر کیسے انسان ہیں؟ کاش میں اُنہیں دیکھ سکتا اور اُن کے ہاتھوں اور پیروں کو چوم سکتا۔

وہ حقیقت میں خوشبوؤں کا سورج تھے؛ ان برکتوں کے علاوہ، وہ علاج معالجہ سے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور کولر کی ہوا آنے والے راستے سے،  جتنا ممکن ہوسکتا ، شرائط کی بنیاد پر، ہمارے اور اپنے افراد کا علاج کرتے تھے۔

جاری ہے ۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 2759


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔