تنہائی والے سال – چھبیسواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-12-16


ہم اسی طرح آگے بڑھ رہے تھے، ایک خاتون نے اپنے ہاتھوں کو مٹھی بناتے ہوئے بلند کیا اور ہماری طرف دیکھ کر کہا:

-  سلام بر خمینی! ہمارا سلام اُن تک پہنچائیے گا!

مجھے یقین نہیں آیا! خدایا!

میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو ٹپک پڑے۔ بعثیوں کے زندان میں، اتنے برے حالات میں ایک اکیلی عورت اس طرح سے کہے؟

میں رویا اور اُس خاتون کے عقیدے اور شجاعت  پر جھوم اٹھا۔ محترم امام کی محبت  نے اُس بہادر عورت کے دل کو ایسا مست کردیا تھا کہ اُس نے ہمارے جواب میں اس طرح سے اپنی رغبت اور دوستی کا اظہار کیا ۔ خدا کی قسم! اسیری کی باقی مدت میں  جب بھی مجھے وہ خاتون یاد آتی، اُس کے مضبوط دل ، ہمت اور امام سے عشق کی وجہ  میرے اندر جوش و ولولہ ابھرتا اور مجھے قلبی سکون میسر ہوتا ۔ وہ جو تھی، اُس پر کیا گزر رہی تھی؟ مجھے نہیں معلوم! شاید "آیت اللہ حکیم" کے گھرانے سے تھی یا عراق میں رہنے والے ایرانیوں میں سے تھی؛ مجھے صرف اتنا پتہ ہے کہ اُس کو  فارسی آتی تھی اور وہ امام سے محبت کرتی تھی۔

راہداری کے آخر میں ایک چھوٹا سا دروازہ تھا کہ جہاں سے ہمیں گزارا گیا  اور ہم ایک احاطہ میں داخل ہوئے۔ میں اُسے ہیڈ کوارٹر میں پہلے دیکھ چکا تھا جب کچھ منٹوں کیلئے ہوا کھانے باہر آیا تھا۔  وہ جگہ سو میٹر پر مشتمل تھی اور اُس کی چھت سوراخ والی جالیوں سے ڈھکی ہوئی تھی  اور اُس کی لمبائی تقریباً چھ میٹر تھی کہ جہاں سے آسمان دکھائی دیتا تھا۔

ہم نے صبح ہونے تک رات وہیں بسر کی۔ یہ اسیرہونے کے بعد پہلی رات تھی جب میں نے رات کے وقت آسمان کو اتنی اچھی طرح دیکھا! اُس آزاد فضا میں، نیلگوں آسمان کے نیچے، بہت ہی دلنشین اور یاد رہ جانے والا منظر تھا۔ زیادہ تر افراد صبح تک نہیں سوئے اور اپنی زندگی کے حسین واقعات، قسمت اور مستقبل کے بارے میں سوچتے رہے۔

اعظمی نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کھڑا ہوگیا؛ کیا زبردست نماز پڑھ رہا تھا!کانوں کو لبھانے والی بہت ہی دلنشین آواز تھی جو ہر سننے والے کو دیوانہ بنادیتی۔ وہ اس طرح سے اپنے اندر غرق  اور کھو گیا تھا جیسے دنیا میں – اُس احاطے میں نہیں – صرف خدا تھا  اور اعظمی! واقعاً میں اس کی نماز کو دیکھنے سے اور زیادہ نماز کا عاشق بن گیا۔

اعظمی بہت ہی ایماندار شخص تھا جس نے ایک مذہبی گھرانے میں پرورش پائی تھی  اور خدا اور اسلام کا عاشق تھا، اُس کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ اس کی باتیں اور اس کے اعمال قرآن مجید میں خداوند متعال کے فرامین کے مطابق ہوں۔ مادیات سے عاری، درگزر کرنے والا اور مہربان شخص تھا۔ اسیری کے دوران ہم نے اس بھائی کے بابرکت وجود سے بھی بہت استفادہ حاصل کیا۔ اُس کا بھی ایسے گوہروں میں شمار ہوتا تھا  جسے خداوند متعال نے بقیہ لوگوں کیلئے نعمت کے عنوان سے رکھا تھا۔

صبح ، چائے کے ساتھ تھوڑا سا سوپ لائے اور اس کے فوراً بعد نگہبان نے کہا:

- چلنے کیلئے تیار ہوجاؤ۔

واپس آتے ہوئے، خواتین راہداری میں نہیں تھیں۔ ہم سیڑھیوں کے ذریعے نیچے آئے اور اُسی پہلے دن والی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد ہم نے نگہبان سے پوچھا:

-  آپ اس کام سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

ہم  آپ کو کسی او رادارے کی تحویل میں دینا چاہتے تھے؛ لیکن فی الحال ایسا ممکن نہیں ہے اور ہم اُسی زندان میں واپس جا رہے ہیں جہاں تم لوگ تھے۔

ہم لوگ دوبارہ "ابو غریب"(جو بغداد سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر رمادی میں تھا) واپس آگئے؛  اس فرق کے ساتھ  کہ ہم لوگوں میں دو لوگوں کا اضافہ ہوگیا تھا۔

اُس دن ذوالفقاری نے جنگ کےمسائل، سپاہیوں  اور محاذ کی وضعیت اور ایران کی کامیابی کے بارے میں بہت باتیں کی  جو سب کیلئے سننے و الی اور دلچسپ تھیں۔

اگلے دن صبح، نگہبان آئے اور اس دفعہ تمام غیر پائلٹ ساتھیوں سے کہا:

-  تیار ہوجاؤ، ہم تم لوگوں کو لیکر  جانا چاہتے ہیں۔

ہمیں نہیں پتہ تھا کہ اصل بات کیا ہے، ہمیں کیوں واپس لائے اور اس دفعہ غیر پائلٹ ساتھیوں کو کیوں لیکر جا رہے ہیں؟

کچھ گھنٹوں بعد اُن ساتھیوں کو لے گئے اور اُنھوں  نے بھی پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت چچا (ریڈیو) کو ہمارے لیے سرف کے ڈبے میں رکھ دیا۔ ایسا لگ رہا تھا چچا کو ڈبے میں چھپاتے وقت کچھ تاریں ٹوٹ گئی تھیں۔ جب ہم اُس کو استعمال کرنا چاہ رہے تھے ، متاسفانہ باباجانی کی تمام کوششوں کے باوجود  اُسے ٹھیک کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے  اور ہم نے تقریباً اپنے پیارے چچا کو کھودیا تھا!

زندان ابو غریب کی عمارت کے اُسی پہلے طبقے پر  بیس سے کچھ زائد پائلٹ رہ گئے تھے۔

ایک دو دن بعد، ایک پروگرام کے تحت چچا کی موجودگی اور اس سے داستان (خبریں) سننے کے بارے میں، محمودی کے ذریعے ذوالفقاری اور اعظمی کو آگاہ کیا گیا۔

کچھ دن گزر گئے، زندان کے مسئولین بدل گئے اور ہمیں فضائی افواج کی تحویل میں دیدیا گیا۔ فضائی افواج کے سپاہی نگہبان تھے اور اُن کا انچارج ایک فضائی عہدیدار تھا۔ اُس سے بڑا انچارج جو کبھی کبھار ہمارے پاس چکر لگانے آتا تھا وہ  ایک کیپٹن تھا  جو اسٹاف کا رکن تھا۔ اُس سے اوپر یعنی اصلی انچارج  وہی میری اسیری کی ابتدا میں تفتیش کرنے والا میجر محمد رضا تھا۔

فضائی آرمی کے آنے کی وجہ سے، حالات کچھ حد تک تبدیل ہوگئے، حقیقت میں کچھ بہتر ہوگئے ۔ ہوا کھانے کیلئے باہر جانے کے وقت میں اضافہ کردیا؛ گدے، کمبل اور ضروریات کی دوسری اشیاء کی کیفیت اچھی ہوگئی اور چھوٹے قرآن کی کچھ نسخہ دیئے، لیکن اُن کے اختیارات کی حدود زیادہ نہیں تھی اور تمام کام جو انجام دیئے جاتے، اُسی زندان کے قوانین کی حدود میں انجام پانے چاہیے تھے۔ مثلاً ہماری ایک ہمیشہ کی مشکل، سردیوں کے موسم میں سخت سردی تھی کہ اُس زندان میں کمروں کو گرم کرنے کے وسائل سے استفادہ  کرنا ممنوع تھا اور اُس کا امکان نہیں تھا، یا گرمیوں کی شدید گرمیاں کہ اُس میں بھی کسی طرح کا کوئی کام انجام نہیں دے سکتے تھے۔ کھانے اور ہوا  خوری کیلئے جانا بھی اُسی زندان کے قوانین کے مطابق تھا اور اُس میں تبدیلی کا امکان نہیں تھا۔ سب سے اہم بات، ریڈ کراس والوں کو خط لکھنا اور ان سے ملنا کہ یہ چیز بھی فضائی آرمی کے اختیار میں نہیں تھی اور وہ کہتے تھے: "اس طرح کے کام صدام اور وزیر دفاع کی سطح کے لوگوں کے کام ہیں  اور یہ ایسا موضوع ہے جو دو ممالک کے سیاسی مسائل سے مربوط  ہے۔"

ہم نے اپنی اسیری کی مدت میں ایک بہت خاص نکتہ  کی طرف توجہ رکھی اور وہ نگہبانوں سے  بہت کم بات کرنا اور اُن سے رابطہ رکھنا تھا۔ اُس سے رابطہ کرنا صرف کیمپ کے کمانڈر کے ذریعے ممکن تھا؛ مگر ایسے مواقع پر جب نگہبان ہم سے چند معمولی اور مختصر سوال  پوچھتے اور ہم جواب دیدیتے تھے۔ اس کے علاوہ دوسری صورت میں ہم اس کام سے دور رہتے تھے اور اس مسئلہ کی وجہ سے تمام امور میں بہترین نظم  و ضبط  قائم رہتا۔ یہی نظم بیہودہ باتوں سے پرہیز کرنے کا باعث بنتا  جن کا انجام نگہبانوں کی بے احترامی ہونا تھا اور ہمیشہ ہمارے اور نگہبانوں کے درمیان احترام کے ساتھ ایک حجاب اور حیا کی حالت  موجود رہتی۔ نگہبان کو پتہ تھا کہ اگر کسی سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو اُس کی تفتیش یا تنبیہ کا حق کیمپ کا انچارج رکھتا ہے، اور اگر نگہبان کو بھی کوئی کام ہوتا تو وہ بھی کیمپ کے انچارج کے ذریعے انجام پاتا۔ ڈائریکٹ نگہبان کو ہر طرح کی درخواست اور تجویز پیش کرنا ممنوع تھا اور ضرورت پڑنے پر یہ کام انچارج کے  ذریعے انجام پاتا۔ نگہبان کے کمانڈر سے باتیں کرنے کے وقت ، ہمارے کسی فرد کو اس طرف جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اس طرح اور اس طریقہ کار پر عمل کرکےاور اسی طرح ہمارے درمیان جو بہترین اور دوستانہ رویہ قائم تھا، وہ ہمیں نگہبانوں کی بے احترامی کرنے سے روکتا تھا۔ البتہ سیکیورٹی ادارے کے نگہبانوں کی وضعیت دوسری تھی۔

نگہبانوں کی نظر میں، ہم متحد اور ایک دوسرے سے موافقت رکھنے والا گروپ تھے  جو ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے؛ اور اُن کی رائے اور نظر کے مطابق ہم دوسروں سے مختلف تھے۔ ہمارا یہ بہترین ماحول محمودی کے اچھے انتظام اور تمام ساتھیوں کی ہمت کے مرہون منت تھا۔

ان  ساری باتوں اور بعض نگہبانوں  کی عادت کی وجہ سے اُن میں سے کچھ لوگوں نے  خود کو ہم سے نزدیک کرلیا تھا، تاکہ کچھ حد تک اپنے خلوص اور محبت  کا اظہار کریں۔

فضائی افواج کا ایک نگہبان جو تقریباً ۲۲ سالہ  جوان تھا، اُس کا چہرا  بھرا ہوا، قد متوسط  اور وہ بہت ہی مودب اور مسلمان تھا؛ ایسا مسلمان جو دل سے امام اور اُن کی باتوں کی تائید کرتا تھا اور وہ کوشش کرتا تھا کہ خد ا اور قرآن کے احکامات پر بہترین عمل کرنے والا بنے ۔ وہ آرام کرنے اور تفریح کے وقت میں "قاری عبد الباسط" کی قرآن والی کیسٹ سنا کرتا ۔  جب سگریٹ پینے کی بات ہوتی تو وہ کہتا:

-  میں سگریٹ نہیں پیتا؛ چونکہ قرآن نے حکم دیا ہے کہ مسلمان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو نقصان  نہ پہنچائے۔

ایک دن جب وہ اپنے کمرے میں اکیلا تھا اور ہمیں کھانے لانے کیلئے اُس کے نگہبانی والے کمرے سے گزر کا جانا  ہوتا تھا، اُس نے دروازے کے پیچھے ایک ریڈیو رکھ دیا تھا تاکہ ہم اُسے اٹھا سکیں۔ ایسا ریڈیو جسے ہم خداوند  متعال کی ایک بڑی نعمت سمجھتے تھے اور اُسے کھوئے ہوئے ایک عرصہ ہوگیا تھا اور ہم شدت سے اُسے حاصل کرنے کی فکر میں تھے۔

ہم نے جیسے ہی اس مسلمان اور حق پرست نگہبان کی طرف سے ایسے اقدام کو ملاحظہ کیا، وہاں سے گزرتے وقت فوراً ریڈیو کو اٹھاکر کیمپ کے اندر لے آئے۔ ریڈیو ہمارے لیے جوش و  ولولہ اور خوشی کاباعث بنا  اور ہم سرگرم ہوگئے۔ راتوں کو ہم جنگ کے واقعات کی خبروں سے آگاہ ہوتے اور اپنے آپ کو بہادر سپاہیوں اور اپنی بہادر قوم کے شانہ بشانہ اور ساتھ سمجھتے تھے۔

کچھ دنوں بعد، ہوا کھانے والے صحن میں جہاں واش روم اور ٹوائلٹ کی کھڑکی کھلتی تھی، وہاں پر پانچ یا چھ بیٹریاں رکھ دیں کہ ہم نے اُنہیں بھی اٹھالیا۔ یہ سب خدا کا لطف و کرم تھا جو مختلف راستوں سے ہمیں نصیب ہو رہا تھا۔ اس دفعہ خداوند متعال کی نعمتیں اس عراقی نگہبان کے ذریعے  ہم تک پہنچیں کہ ہم سب اس کی بارگاہ میں شکر گزار تھے۔ انھوں نے ہمارے اختیار میں کاغذ اورقلم بھی دیااور سیل والی گھڑی کا وجود بھی ہمیشہ "ب" (بیٹری) کی ضرورت کو پورا کرتا تھا۔

اسی زمانے میں اور ہماری اپنی تجویز پر، صفائی اور ہوا خوری سے زیادہ استفادہ کرنے کیلئے،  احاطے میں سیمنٹ کا فرش بنانے کیلئے  ضروری سامان جیسے سیمنٹ بجری وغیرہ  لایا گیا اور صیاد بورانی کی قیادت میں کہ جس کا لقب "برادر " تھا اور وہ ہر فن مولا تھا، احاطے کی مٹی والی زمین پر سیمنٹ کا فرش کردیا گیا۔ ہمیں بال اور جالی بھی دیدی گئی اور ہم اُسی چھوٹے سے احاطے میں، فوٹبال اور والی بال کھیلا کرتے۔ ہماری زیادہ انجام دی جانے والی بہترین ورزش "دوڑ" تھی  کہ جس میں ایک آدمی آگے اور باقی سب اُس کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ بہرحال ہم نے ہر ورزش کیلئے ایک خاص وقت اور  دن مقرر کیا ہوا تھا اور منظم منصوبہ بندی کے تحت، تمام گروپس – چاہے ورزش کرنے والے ہوں،  چاہے وہ لوگ ہوں جو چہل قدمی کرنے جاتے ہیں –  وہ  اپنے حق کے مطابق ہوا خوری کے احاطے سے استفادہ کرتے تھے۔

جاری ہے ۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 3016


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔