وہ واقعہ جو رہبر انقلاب اسلامی نے یادوں بھری رات میں سنایا

ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-12-15


ایرانی اورل ہسٹری سائٹ کی رپورٹ کے مطابق،  رہبر انقلاب کی موجودگی میں یادوں بھری رات کا چوتھا خصوصی پروگرام ، بدھ کی شام ، ۲۶ستمبر ۲۰۱۸ء کو امام خمینی (رہ) امام بارگاہ میں منعقد ہوا ۔ آیت اللہ سید علی خامنہ  ای کے آثار کی نشر و اشاعت کرنے والے دفتر کی ویب سائٹ  کے توسط سےاس پروگرام میں ان کی مکمل گفتگو کے متن کی بنیاد پر شائع کیا، پروگرام میں شریک اکثر لوگوں نے تقاضا کیا کہ رہبر معظم انقلاب دفاع مقدس کے دوران اپنے واقعات  کے بارے میں بتائیں اور انھوں  نے کہا:

"میں آغاز جنگ کے اس واقعے کو بیان کرتا ہوں۔ جب جنگ شروع ہوئی، اُسی پہلے گھنٹے میں، میں ایئرپورٹ کے نزدیک تھا۔ مجھے اُس کارخانے میں تقریر کرنی تھی۔ کمرے کے اندر تقریر کرنے کے وقت انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے اور کمرے کے اندر – کھڑکی تھی – سے ائیرپورٹ کا منظر دکھائی دے رہا تھا  کہ دیکھا شور شرابا ہو رہا ہے اور ایک دفعہ ہم نے دیکھا کہ ہاں، طیارے آئے ہیں۔ شروع میں تو ہماری سمجھ میں نہیں آیا کیا ہوا ہے؛ بعد میں بتایا گیا کہ حملہ ہوا ہے اور مہر آباد ایئرپورٹ پر بمباری کی ہے۔ میں اُس میٹنگ میں شرکت کرنے کیلئے گیا جہاں کام کرنے والے افراد میرا انتظار کر رہے تھے کہ میں جاکر تقریر کروں۔ کچھ منٹوں پر مشتمل یعنی میں نے چار پانچ منٹ بات کی اور کہا  مجھے کام ہے، مجھے جانا پڑے گا؛ ہم پر حملہ ہواہے۔

میں مشترکہ اسٹاف آیا، وہاں پر سب لوگ جمع تھے؛ مرحوم شہید رجائی تھے، شہید بہشتی تھے، جناب بنی صدر تھے، بقیہ تمام افراد تھے۔ ہم وہاں گئے اور باتیں کرنے میں مصروف ہوگئے کہ اب ہمیں  کیا کرنا چاہیے، کہا گیا کہ – شاید یہ تجویز خود بندے نے دی تھی – ہمیں سب سے پہلے لوگوں سے بات کرنی چاہیے، [چونکہ] لوگوں کو نہیں پتہ کہ کیا ہوا ہے۔ ہم بھی ابھی تک قضیہ کی تمام جہات سے صحیح طور پرآگاہ نہیں تھے کہ کتنے شہروں پر بمباری کی ہے؛ [صرف] اتنا پتہ تھا کہ تہران کے علاوہ، دوسری جگہوں پر بھی حملہ ہوا ہے۔ بندے نے تجویز دی کہ ہمیں ایک بیانیہ دینا چاہیے؛ یہ تقریباٍ ً دوپہر کے دو یا تین بجے  اور امام (رضوان اللہ علیہ) کے پیغام سے پہلے کی بات ہے۔ مجھ سے کہا گیا کہ تم خود جاکر لکھو۔ میں ایک کونے میں چلا گیا اور کچھ لکھ لیا، ریڈیو کے افراد آئے [ اور وہ بیان] میری آواز میں منتشر ہوا – کہ البتہ باقاعدہ طور پر ریڈیو ، ٹی وی کے ادارے کے آرکائیو میں ہے – بالآخر ہم کچھ دنوں تک یہاں تھے؛ چار پانچ دن، پانچ چھ دن – تقریباً اتنے ہی دن –تھے۔ غالباً میں گھر بھی نہیں جاتا تھا؛ شاید کبھی ایک گھنٹے ، دو گھنٹے کیلئے گھر چلے گئے [لیکن] زیادہ تر دن و رات وہیں گزرتے تھے۔

دزفول ، اہواز اور اس طرح کے  دوسرے شہروں سے مستقل اُسی مرکز میں فون کر رہے تھے  اور کہہ رہے تھے کہ کمی ہے؛ افراد کی کمی، گولہ بارود کی کمی، وسائل کی کمی۔ جب افراد کی کمی کی بات آئی، میرے ذہن میں آیا کہ میں ایک کام کرسکتا ہوں اور وہ یہ کہ میں دزفول جاؤں، وہاں جاکر بیٹھ جاتا ہوں اور بیان دیتا ہوں ، اُسے اِدھر اُدھر تقسیم کرتا ہوں اور جوانوں سے آنے کی درخواست کرتا ہوں؛ اس طرح کی کوئی چیز میرے ذہن میں آئی۔ ٹھیک، امام سے اجازت لینا ضروری تھا؛ ان کی اجازت کے بغیر تو میں نہیں جاسکتا تھا؛ میں جماران گیا۔ میرا احتمال یہ تھا کہ امام منع کردیں گے، [چونکہ] بعض اوقات ہمارے اس طرح کے بعض اقدامات – دوروں وغیرہ پر جانا – کو امام ردّ کردیا کرتے تھے۔ میں نے مرحوم حاج احمد آقا سے کہا میں جاکر امام سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں  اور درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ وہ مجھے محاذ پر جانے – دزفول جانے – کی اجازت دیدیں اور آپ میری مدد کریں کہ امام مجھے اجازت دیدیں۔ حاج احمد آقا بھی مان گئے، انھوں نے کہا ٹھیک ہے۔ ہم کمرے کے اندر داخل ہوئے۔ دیکھا تو کمرے کے اندر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے، مرحوم چمران بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے امام سے کہا مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر میں جنگی علاقے میں چلا جاؤں تو میرا وہاں جانا یہاں رہنے سے زیادہ مؤثر ہے ؛ آپ مجھے جانے کی اجازت دیتے ہیں۔ امام نے کچھ سوچے بغیر کہا: ہاں،  ہاں، آپ جائیں! یعنی اس کے برخلاف جو ہم خیال کر رہے تھے  کہ امام کہیں گے نہیں، انھوں نے بغیر کسی لحاظ کے کہا ہاں، ہاں، آپ جائیں۔ جب انھوں نے مجھ سے کہا کہ آپ جائیں – کہ میں بہت خوش ہوگیا تھا – مرحوم چمران نے کہا: آقا! پھر اجازت دیں کہ میں بھی جاؤں۔ انھوں نے کہا: آپ بھی جائیں۔ اُس کے بعد میں نے مرحوم چمران کی طرف رُخ کیا، میں نےکہا اب اٹھ بھی جائیں، کس بات کا انتظار ہے؟ ہم چلنے کیلئے کھڑے ہوگئے۔ ہم باہر آئے، دوپہر سے پہلے کا وقت تھا۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ ہم اُسی وقت وہاں سے حرکت کر جائیں، انھوں نے کہا کہ نہیں، شام تک صبر  کریں۔ چونکہ میں اکیلا تھا، [یعنی] میں کسی کے ساتھ نہیں جانا چاہتا تھا، میں اکیلا جانا چاہتا تھا، ان کے ساتھ ایک لاؤ لشکر تھا – جب ہم بعد میں گئے، [ہم نے دیکھا] ان کے ساتھ تقریباً ساٹھ ستر لوگ تھے – جو آمادہ تھے اور ان کے ساتھ مشقیں کی ہوئی تھیں، کام کیا ہوا تھا اور وہ ان افراد کو اپنے ساتھ لانا چاہ رہے تھے ، ان سب لوگوں کو جمع کرنا تھا۔ مجھ سے کہا آپ شام تک صبر کریں، اور دزفول کے بجائے ہم اہواز جائیں گے، دزفول سے بہتر اہواز ہے؛ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ ہاں بھئی وہ ہم سے زیادہ سینئر تھے، زیادہ جانتے تھے، میں راضی ہوگیا۔ میں اپنے گھر آیا اور گھر والوں سے خدا حافظی کی۔ ہمارے چھ سے ساتھ محافظ بھی تھے؛ میں نے محافظوں سے کہا کہ آپ لوگوں کی چھٹی، میں اب میدان جنگ کی طرف جا رہا ہوں، آپ لوگ میرے ساتھ تھے کہ میں مارا  نہ جاؤں، اب میں میدان جنگ کی طرف جا رہا ہوں، [وہاں] اب محافظ کی کوئی ضرورت نہیں!یہ بیچارے رونے لگے کہ ایسا نہیں ہوسکتا اور اس طرح کی باتیں۔ میں نے کہا نہیں، میں آپ لوگوں کو  لیکر نہیں جاؤں گا۔ انھوں نے کہا ٹھیک ہے، پھر محافظ کے عنوان سے نہیں لیکن ساتھی کے عنوان ہم بھی آجاتے ہیں؛ ہم بھی محاذ پر جانا چاہتا ہیں، ہمیں ا س طرح لے جائیں؛ ہم نے کہا ٹھیک ہے، ہم جس علاقے تک گئے وہ ہمارے ساتھ آئے؛ پھر وہ ہمارے ساتھ آخر تک تھے۔

شام کو مرحوم چمران کے ساتھ روانہ ہوئے، ہم ایک C130  میں سوار ہوکر اہواز کی طرف  آئے۔ اہواز مکمل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا! اب بعض لوگوں نے جو جنگی علاقوں کے بارے میں ناول لکھے ہیں ، کچھ باتیں لکھی ہیں – بندے نے جنگی علاقے کو، یعنی اہواز کو جنگ کے اُنہی ابتدائی ایام میں نزدیک سے دیکھا ہے اور ہم کچھ عرصے تک وہاں رہے ہیں – کلی طور پر جو لکھا گیا ہے، وہ واقع کے خلاف ہے۔ یعنی یہ ناول لکھنے والے محترم غیر انقلابی افراد جنہوں نے جنگ کے بارے میں مثلاً ایک رپورٹ تیار کرنا چاہی اور کچھ لکھنا چاہا، انھوں نے جو اہواز کے بارے میں لکھا ہے، وہ واقع کے خلاف ہے؛ اور بعض دوسری جگہوں کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے؛ کسی نے تہران کے بارے میں لکھا ہے، وہ بھی واقع کے خلاف ہے، یعنی انھوں نے صحیح لکھنا چاہا ہی نہیں ہے ۔ خود ہمارے اپنے لکھاریوں کو، ہمارے ناول لکھنے والوں کو چاہیے وہ میدان میں اتریں، ان باتوں کو لکھیں۔ جب ہم نہیں لکھیں گے، دوسرے آکر کسی اور طریقے سے لکھیں گے۔

الغرض اہواز تاریک تھا؛ ہم اندھیرے میں ۹۲ ویں لشکر کی چھاؤنی  تک گئے اور وہیں رہے اور بعد میں گورنر ہاؤ س گئے پھر[وہاں] رہے۔ اُسی پہلی رات کو جب ہم پہنچے، مرحوم چمران نے اپنی پارٹی کے افراد کو جمع کیا اور کہا ہم آپریشن کرنے جا رہے ہیں؛ ہم نے کہا کون سا آپریشن؟ انھوں نے کہا ٹینک کا شکار کرنے جا رہے ہیں۔ بندے کے پاس بھی ایک کلاشنکوف تھی، میری اپنی تھی –  میری ذاتی کلاشنکوف  تھی جو میرے ساتھ تھی – میں نے کہا میں بھی چلوں؟ انھوں نےکہا ہاں، کیا مسئلہ ہے، آپ بھی آجائیں۔ میں نے بھی عمامہ، عبا اور قبا ایک جگہ رکھی اور ہمیں ایک ڈھیلا ڈھالا فوجی لباس دیا گیا ، ہم نے وہ پہن لیا اور رات کو اُن کے ساتھ چلے گئے؛ حالانکہ بندے نے نہ کوئی فوجی ٹریننگ کی تھی اور نہ میرے پاس کوئی مناسب اسلحہ تھا، یعنی کوئی ٹینک کا شکار کرنے کیلئے کلاشنکوف لیکر نہیں جاتا۔ البتہ اُن کے پاس بھی آر پی جی اور اس طرح کی چیزیں نہیں تھیں؛ وہ لوگ بھی اسی طرح اسی اسلحہ اور اس جیسے اسلحے  کے ساتھ[تھے]۔  ہم گئے ، ٹینک کا شکار بھی نہیں کیا اور  واپس آگئے! [رہبر اور شرکاء کا ہنسنا]"



 
صارفین کی تعداد: 2650


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔