تنہائی والے سال – پچیسواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-12-9


خداوند متعال کی ایک اور عنایت ایسے محترم بھائیوں کا وجود تھا جو ہمارے لئے واقعاً ہیرے اور گوہر کی مانند تھے  تاکہ اسیری کی سختیاں ہمارے لئے آسان ہوجائیں۔ وہ لوگ حقیقت میں کسی بھی زحمت، فداکاری اور تکلیف اٹھانے میں – کمال صبر اور تواضع کے ساتھ-  دریغ نہیں کرتے تھے۔

اسیری ہمارے لئے ایک الٰہی امتحان تھا اور ہم ہمیشہ اپنی گفتگو میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خداوند متعال سے التجا کرتے تھے کہ ہم اس الٰہی امتحان سے سربلند ہوکر نکلیں۔ اگرچہ میں اپنے جلدی اسیر ہوجانے پر بھی اپنے افسوس کو چھپانے کی قدرت نہیں رکھتا تھا؛ لیکن میں خدا کی مرضی پر راضی تھا اور میں ہمیشہ دوسرے سے کہا کرتا: "قیدی بننا محاذ پر جانے کا حصہ ہے؛ اس فرق کے ساتھ کہ اُس میں ذمہ داریاں کچھ مختلف قسم کی ہوتی ہیں ۔ قید میں رہتے ہوئے بھی ایسا شخص کامیاب ہوسکتا ہے  جو اپنے سے مربوط ذمہ داریوں کو اچھی طرح سے انجام دے۔" وہ ذمہ داریاں، تین سے زیادہ نہیں تھیں۔ اولاً، دشمن کے ساتھ تعاون نہ کرنا۔ ثانیاً، فرار کرنے کیلئے مسلسل کوششیں کرنا؛ البتہ مناسب حالات میں اور دوسرے اسیروں کو نقصان پہنچائے بغیر۔ ثالثاً، مقدس اسلامی حکومت کے قیام اور تشکیل میں شہیدوں کے مقاصد پر اعتقاد اور اُن کی حفاظت کرنا۔

ہمارے نچلے طبقے پر آنے کے تقریباً ایک سال بعد، ایک دن کچھ نگہبان اندر آئے، انھوں نے تمام پائلٹوں کے نام پکارے اور کہا:

- اپنا اپنا سامان جمع کرو اور چلنے کیلئے تیار ہوجاؤ۔

ہمیں نہیں پتہ تھا کہ کیا پروگرام ہے؟اہم ترین مسئلہ جو ہمیں درپیش تھا، وہ چچا (ریڈیو) کی موجودگی تھی۔ اس طرح پیش آنے والے موارد کیلئے  ہم پہلے سے تیار تھے اور ہم نے ایسے حالات کیلئے کچھ قاعدے اور ضابطے بنائے تھے اور انہیں لکھ لیا تھا کہ جس کے مطابق چچا کو باقی رہ جانے والے لوگوں کے پاس رہنا تھا۔

سامان سمیٹنے کے بعد، اُسی دن شام کو اپنے دوسرے بھائیوں سے خدا حافظی کرتے ہوئے ہم لوگ ایسی گاڑی پر سوار ہوئے جس کی کھڑکیاں بند تھیں اور بغداد کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم تمام افراد جن کی تعداد ۲۲ تھی، اس میں فضائی افواج اور ایوی ایشن کے پائلٹ شامل تھے۔

ہم بغداد میں چند جگہوں پر رکے اور نگہبانوں نے ہمارے بارے میں مسئولین سے گفتگو کی۔  ایسا لگ رہا تھا کہ ان لوگوں کو ہمارے آنے کے بارے  میں کوئی خبر نہیں تھی۔ ان کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ پہلے سے موافقت نہیں ہوئی  تھی۔ خلاصہ یہ کہ ہمیں جس جگہ بھی لے گئے، وہاں کے مسئولین نے ہمیں تحویل لینے سے انکار کردیا۔ اسی وجہ سے چونکہ بہت دیر ہوچکی تھی، ہمیں ہیڈ کوارٹر والے کمرے میں لے گئے تاکہ ہماری وضعیت مشخص ہوجائے۔ در اصل وہ ہمیں کسی دوسرے ادارے کی تحویل میں دینا چاہتے تھے کہ جس کے بارے میں ہمارا گمان یہ تھا کہ وہ ہمیں ریڈ کراس والوں کو دینا چاہتے ہیں۔

ہیڈ کوارٹر جو بغداد کے سیکیورٹی ادارے کی اصلی عمارت تھی، وہ باہر سے ایک ۵ سے ۶ منزلہ اپارٹمنٹ کی طرح لگتی تھی، جس کے دو بالائی طبقے  پر زندان تھا  اور اس میں ایک بہت وسیع صحن تھا جس میں پھول اور بیل بوٹے وغیرہ لگے ہوئے تھے ۔

گاڑی صحن میں داخل ہونے کے بعد سیدھی تہہ خانے میں گئی اور ہم سے کہا گیا: "گاڑی سے باہر نکلو!"

اُسی تہہ خانے میں ہمیں صف کی صورت میں ایک کمرے کے اندر لے گئے کہ جس کے ایک کونے میں کمبل، لباس اور جوتے کی طرح کا کچھ سامان رکھا ہوا تھا۔ کمرا مستطیل شکل میں تھا جس کی چوڑائی تین میٹر اور لمبائی پانچ میٹر تھی،  جس میں ایک دروازہ تھا جو دو میٹر چوڑائی اور  لمبائی والے ایک اور کمرے میں کھلتا تھا جس میں ایک میز تھی اور اس  کی الماری میں کافی تعداد میں  فائلیں، جزوے اور بائنڈر دکھائی دے رہے تھے۔

ہمیں آئے ہوئے کچھ دیر ہوئی تھی کہ بغیر کسی مقدمے کے نئے اسیر ہوئے دو پائلٹوں   کا ہماری تعداد میں اضافہ ہوا، ہمیں  جن کے اسیر ہونے کے بارے میں عراقی اخبار سے  پتہ چل  گیا تھا۔ ہم انہیں ایران سے ہی پہچانتے تھے؛ پائلٹ ذوالفقاری، میرے شاگردوں میں سے تھا  جسے ایف– ۴ اڑانا خود  میں نےسکھایا تھا۔ وہ بہت ہی ہوشیار اور چالاک پائلٹ تھا جس نے پروازوں کے مختلف دوروں کو بہت ہی جلدی اور کامیابی کے ساتھ گزارا تھا۔ مجھے اس کو دیکھ کر واقعاً خوشی ہوئی؛ زیادہ خوشی اس بات پر ہوئی کہ وہ صحیح و سالم تھا۔ اُس کے پچھلے کیبن کا پائلٹ اعظمی بھی تھا جس کا بہت ہی مومن اور نیک افسروں میں شمار ہوتا تھا ، میں اسے بوشہر سے جانتا تھا۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد، پرواز کرنے والی بٹالین میں نماز، جماعت سے ہوتی تھی، وہ پیش نماز کے عنوان سے جماعت کرواتا تھا۔ بہت ہی نرم مزاج، عقلمند اور صابر تھا۔ میں اُسے دیکھ کر اور اس کے صحیح و سالم ہونے پر خوش ہو ا اور اُسے گلے سے لگا کر پیار کیا۔

انھوں نے ایران کے حالات اور محاذ کی صورت حال کے بارے میں بتایا، دشمن کی ناتوانی ، شرمندگی  اور اسے کس طرح اپنی مقدس سرزمین سے باہر نکالنے کے بارے میں بتایا، جنگ میں سپاہیوں کے ایثار اور فداکاری کے بارے میں بتایا۔۔۔ اُن کی باتیں سن کر میں اندر ہی اندر خوش ہو رہا تھا اور اس بات سے کہ ایک پڑھا لکھا سولہ سالہ نوجوان اور ایک ۶۰ سے ۷۰ سالہ بوڑھا شخص  دونوں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ  امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام اور ملک کی حفاظت اور پائیداری کیلئے اپنی جان کی بازی لگا رہے تھے، میں خوشی، مسرت اور سربلندی کا احساس کر رہا تھا۔

ہم نے پائلٹ افراد سے اپنے گھر والوں کے بارے میں پوچھا، اُن کے پاس کہنے کیلئے بہت سی باتیں تھیں اور ہم بھی سننے کیلئے مشتاق اور پیاسے تھے۔

کئی گھنٹے اسی طرح گزر گئے۔ اس موقع پر ایک دبلا پتلا شخص اندر داخل ہوا جس کی شکل نشہ کرنے والوں سے مل رہی تھی، اس نے کوٹ پینٹ پہنی ہوئی تھی  اور نگہبان سے کچھ باتیں کرنے کے بعد – ہماری طرف توجہ کئے بغیر – اس نے کمرے کے ایک کونے میں اپنے کپڑے اتارے اور سلوٹوں سے بھرپور  زندان والا لباس پہن لیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے بالوں کو اپنے ہاتھوں سے خراب کیا اور ایک نگہبان کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا۔ پتہ چل رہا تھا کہ وہ کوئی مخبر ہے جسے بھیس بدل کر قیدیوں کی کوٹھڑیوں میں بھیجا جا رہا ہے تاکہ وہ اُن سے معلومات حاصل کرے۔ البتہ ہم نے پہلے سن رکھا تھا کہ اپنے آپ کو بیچنے والے دو ایرانی بھی تھے جن سے دشمن اس طرح سوء استفادہ کر رہا تھا، لیکن ہم نے انہیں ہرگز اپنی آنکھوں سے نہیں  دیکھا تھا۔

رات کو نگہبان نے ہم میں سے ہر ایک کا نام لیکر پکارا۔ ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ کر ہمیں ایک لائن میں کھڑا کردیا اور سیڑھیوں کے ذریعے عمارت کے آخری طبقے پر لے گئے۔ وہاں پر ایسا زندان تھا جس میں ایک لمبی راہداری تھی اور اس کے ایک طرف کوٹھڑیاں بنی ہوئی تھی جو نیچے والے کمروں سے تھوڑی بڑی تھیں۔ ہر کوٹھڑی میں کبھی ۱۹ افراد تک کو بھی رکھتے تھے۔ یہ بات ہمیں ان ساتھیوں نے بتائی جو پہلے کچھ عرصے تک وہاں رہ چکے تھے۔حقیقت میں وہاں حتی بیٹھنے اورسونے کی بھی جگہ نہیں تھی ، سب کو کھڑا رہنا پڑتا تھا اور اپنی باری پر سونے اور استراحت کرنے کیلئے  بیٹھتے تھے۔

ہم اس لمبی راہداری سے گزرے۔ تقریباً راہداری کے آخر میں، میرا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا اور اچانک کسی دودھ پیتے بچے کے رونے کی آواز آئی! میں نے قوانین اور نگہبان کا لحاظ کئے بغیر ، اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی کو ہٹایا؛ میں نے دیکھا میرے پیروں کے سامنے زمین پر ایک نوزاد بچہ  کمبل میں لپٹا پڑا ہے اور اُس کے برابر میں ایک باپردہ خاتون – نیند کی حالت میں اور شاید  بیہوشی کی حالت ہو – دیوار سے ٹیک لگائے  بیٹھی ہے۔ تھوڑا سا اُس طرف،  اسی طرح تقریباًٍ ۱۵ باپردہ خواتین تھیں  کہ جن میں سے بعض کے پاس چھوٹے بچے تھے۔

بچے کے ر ونے کی آواز سے، نگہبان میرے پاس آیا اور چیختے چلاتے ہوئے بولا:

- کیا تمہیں نظر نہیں آرہا  کہ زمین پر بچہ سویا پڑا ہے؟

- نہیں!

اُس نے اپنی آنکھوں کو باہر نکالا اور میں نے اپنی بات کو جاری رکھا:

- کیا تم نے خود میری آنکھوں پر پٹی نہیں باندھی تھی، بندھی ہوئی آنکھوں سے کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟

اُس نے بڑبڑاتے ہوئے کچھ کہا اور آگے چلا گیا۔ میری توجہ خواتین کی طرف چلی تھی اور میں ان کی حالت سے متاثر اور غمگین تھا۔  میں ان کے سامنے سے گزرتے ہوئے ان کی طرف رُخ کرکے کہہ رہا تھا:

- ہم ایرانی لوگ ہیں؛ ہم جنگی قیدی ہیں!

عام طور سے ایسی باتیں سب ہی لوگ کہتے ہیں؛ یہ بات زیادہ تر اس وجہ سے کہی جاتی تھی کہ شاید ہمارے اسیر ہونے کی خبر کسی طرح زندان اور عراق سے باہر جائے او ر اس طرح ایرانی حکام  ہمارے قید میں ہونے سے آگاہ ہوجائیں۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ یہ طریقہ کار موثر ثابت ہوا اور بعض  برادران اور ایسی نرسیں جو جلدی آزاد ہوگئی تھیں، انھوں نے عراق کے سیکیورٹی ادارے میں ہماری موجودگی کے بارے میں ایران تک اطلاع پہنچا ئی ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 2846


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔