پائلٹ لیڈر کیومرث حیدریان کی یادیں

آپ صدام کو نیچا دکھانے کیلئے تیار ہیں؟

مرتب: سہیلا حیدریان
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2018-12-8


پائلٹ لیڈر کیومرث حیدریان، ایئر فورس پائلٹ کورس میں قبول ہونے کے بعد اپنی علمی اور خاص پائلٹ ڈگری حاصل کرنے کیلئے ، پہلوی حکومت کے زمانے میں امریکا کے صوبہ ٹیکساس کے شہر شیفرڈ میں  بھیجے جاتے ہیں۔ وہ کورس کے آخر میں چھ ممالک سے آئے اسٹوڈنٹس کے درمیان برتری کا رتبہ حاصل کرتے ہیں۔ عراقی افواج کی اسلامی جمہوریہ ایران پر مسلط کردہ جنگ کے دوران، سرحدی حدود سے باہر ۵۰ سے زائد پروازیں اور ۲۰۰۰ گھنٹے فضائی گشت کیا ہے اور اپنی ذمہ داریوں کو بنحو احسن انجام دینے کی وجہ سے، جس میں ۲۵ مارچ ۱۹۸۸ء کو ملک کے مغربی علاقے میں فضائی گشت کے  دوران اپنے فانٹوم طیارے سے عراقی ۲۲ سوخو طیاروں کی تین جوڑیوں کو سرنگون کرکے، پوری دنیا میں بہترین پائلٹ کے عنوان سے پہچانے گئے۔ انھوں نے اپنے کرمانشاہ کے ساتھیوں سے بھی  پہاڑی عقاب کا لقب پایا ہے۔ آنے والی گفتگو میں ہم ان  کے واقعات کو پڑھیں گے۔

 

صدام کا انعام اور صحافیوں کا طعنہ

مسلط کردہ جنگ کی ابتدا سے ہی، ایران کی فضائی افواج نے قدرتمندانہ طور پر عمل کیا؛ عراق کے حملے کا جواب فضائی حملے کی صورت میں دیا اور وطن کے دفاع کے معاملے میں اپنے مقام اور مرتبہ کو ثابت کیا۔ پائلٹ شجاعانہ پروازوں کے ساتھ، بغیر کسی خوف کے صدام کے ٹھکانوں کو ہدف قرار دیتے۔ ابھی جنگ شروع ہوئے چند مہینے نہیں ہوئے تھے کہ عراق کا آسمان ایران کی فضائی افواج کے پائلٹوں کی قلابازیاں کھانے کا میدان بن چکا تھا۔ عراقی سرحدوں پر بہترین اور اعلیٰ درجہ کا دفاعی سسٹم ہونے کے باوجود، کوئی بھی شخص پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا اور پرواز کے معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت لیتے تھے۔ ایرانی پائلٹوں کیلئے خوف کوئی معنی نہیں رکھتا تھا، اکثر اوقات وہ دفاعی پوسٹوں کو عبور کرجاتے اور اپنی ڈیوٹی اور وظیفے کو کامیابی سے انجام دیتے۔

اُنہی دنوں میں فضائی افواج کے ایک پائلٹ نے بوشہر کے چھٹے شکاری کیمپ سے بصرہ کی ریفائنری پر بمباری کرنے کے مشن پر  جانے کیلئے پرواز کی تھی۔ اپنا وظیفہ انجام دینے کے بعد اور واپس آتے وقت، زمین سے آسمان کی طرف فائر ہونے والے دو میزائل سام ۳ اور سام ۶ اُس کے طیارے پر لگے اور وہ عراقی سرزمین پر گر گیا تھا۔ سب پریشان تھے کہ اُس کی طرف سے کوئی خبر ملے۔

صبح تقریباً گیارہ بجے کا وقت تھا کہ ہم اپنے کچھ دوستوں جیسے شہید علی رضا یاسینی  اور شہید عباس دوران  کے ساتھ ضروری پروازوں کیلئے تیار پائلٹوں کے عنوان سے کیمپ  کے کانفرنس والے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اندرونی پروگرام دیکھنے سے  ہمیں کوئی خبر نہیں ملی۔ اس بات سے آگاہی رکھتے ہوئے کہ اس طرح کے مسائل میں عراق کا پریس میڈیا بہت تبلیغاتی پروپیگنڈہ کرتا ہے اور ٹی وی وغیرہ پر کانفرنس منعقد کرتا ہے اور اپنی فضائی طاقت کو دکھانے کیلئے مبالغہ سے کام لیتا ہے ، اور اسی طرح پریشانی کی وجہ سے، ہم نے عراقی ٹی وی چینل لگایا جو بوشہر میں آرام سے سگنل پکڑلیتا تھا، اس اُمید کے ساتھ کہ شاید ہمارے ساتھیوں کی خبر مل جائے۔

عراقی ٹی وی  ایک پریس کانفرنس کو دکھا رہا تھا جس میں صدام موجود تھا، جس میں ایک بیرونی صحافی نے اُس سے سوال کیا:"جناب وزیر اعظم، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ایرانی پائلٹ بہت آسانی سے عراق کے زیادہ تر علاقوں پر حملہ کر رہے ہیں، آپ  اپنے اقتصادی وسائل جیسے بجلی گھر کا دفاع کیسے کریں گے؟"

ٹی وی کی پوری اسکرین پر صدام کا چہرہ نظر آرہا تھا، حالانکہ وہ سوال کی طرف متوجہ ہونے کیلئے اپنے عربی مترجم کی باتوں کو سن رہا تھا ۔ اُس کے غصیلے چہرے سے پتہ چل رہا تھا کہ اُسے اس طرح کے سوال  اچھے نہیں لگتے ہیں۔ اُسی غصیلے چہرے کے ساتھ اور  کرخت آواز کے ساتھ اُس نے عربی  میں کچھ مطالب بیان کیے کہ اُس کے مترجم نے اُن باتوں کا ا س طرح ترجمہ کیا: " میرے دفاعی کمانڈر نے مجھے بتایا ہے کہ حالیہ دنوں میں شہروں اور بجلی گھروں کے ا طراف میں مضبوط اور مستحکم فضائی دفاعی قلعوں کا اضافہ کیا ہے کہ کوئی بھی ایرانی کوے کا بچہ  ہمارے اسٹریٹجک علاقوں میں کسی صورت بھی داخل نہیں ہوسکتا! لیکن اگر کوئی ہمارے بجلی گھر کے پچاس مائل کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا تو میں اُسے عراقی فضائی افواج کے ایک سال کی تنخواہ انعام کے طور پر دوں گا۔"

مترجم کے باتیں کرنے کے وقت، ٹی وی اسی طرح صدام کا غصیلا چہرہ اور درحقیقت اُس کا مغرور چہرہ دکھا رہا تھا۔ اسی وقت میری نگاہ یاسینی اور دوران کے چہرے پر پڑی، اُن کی آنکھوں میں غیرت کی چمک  دکھائی دے رہی  تھی۔ انٹرویو ختم ہونے کے فوراً بعد، یاسینی سے برداشت نہیں ہوا اور انھوں نے دوران کی طرف منہ کرکے کہا: "عباس ہم چلیں، کیا آپ صدام کو نیچا دکھانے کیلئے تیار ہیں؟"

عباس نے اُسی چمک کے ساتھ جو اُس کی آنکھوں میں تھی، بہت اشتیاق سے جواب دیا: " یااااا۔۔۔ علی، چلیں۔۔۔"

میں بھی اُن کے ساتھ گیا۔ ہم نے فوراً  بیس میں موجود آپریشن کے ڈپٹی کمانڈر سے ضروری اجازت نامہ لیا۔ عباس دوران نے آپریشن میں پرواز لیڈر کے عنوان سے، پرواز کی وضاحت دینا شروع کی۔ فوری طور پر دی جانے والی لازمی بریفنگ کے بعد ہم  وسائل  کے کمرے میں گئے، ساز و سامان تحویل میں لینے کے بعد ہم  دو مسلح فانٹوم کی ٹولیوں  کے ساتھ پرواز کیلئے آمادہ ہوگئے۔

اس مشن  اور پیش آنے و الی پرواز کا ہدف بصرہ کا بجلی گھر تھا۔ ہم پرواز کے دوران زیادہ تر کلمہ شہادت پڑھتے تھے اور اسیر ہونے، سقوط کرنے اور شہادت کے بارے میں سوچتے رہتے لیکن وہ فکر جو ہمیشہ میرے ذہن اور فکر پر غالب رہتی تھی، وہ کام کو صحیح سے انجام دینا اور ہدف کو صحیح سے نشانہ بنانا  اور اسی طرح میرے نزدیک مشن اورپرواز سے سربلند اور کامیاب واپس آنا تھا۔ اگر میں کہوں کہ خوف نام کی کوئی چیز نہیں تھی تو میں جھوٹ بولوں گا لیکن میرے اندر  حب الوطنی کی جو حس تھی اُس نے میری تمام دوسری حسوں پر  غلبہ کیا ہوا تھاالبتہ موت کا خوف نہیں تھا، اس بات کا خوف تھا کہ  میرے بعد میرے گھر والوں کا کیا ہوگا؟ اور ۔۔۔ میرے اس طرف مائل ہونے کی ایک اور وجہ کہ میں اپنے مشن اور پرواز سے صحیح و سالم واپس آجاؤ ، بعد والے مشنز اور پروازیں اور میرا اپنے وطن کیلئے مفید ہونا تھا۔

نچلی سطح پر تیزی کے ساتھ اڑتے ہوئے ہم سرحد سے گزر ے اور بغیر کسی مشکل کے عراقی سرزمین میں داخل ہوگئے۔ جب ہم بجلی گھر سے کچھ مائلز کے فاصلے پر رہ گئے اس وقت عراق کا فضائی ڈیفنس ہماری طرف متوجہ ہوا اور اُس نے گولے برسانے شروع کیے۔  مختلف اقسام کی اینٹی ایئر کرافٹ گنوں سے ہماری طرف فائرنگ ہو رہی تھی۔ چاروں طرف سے ہماری طرف میزائل آرہے تھے اور ہم نے ایک ایک کرکے تمام رکاوٹوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ہم دوپہر کے ڈیڑھ بجے اپنے ہدف کے اوپر پہنچ گئے۔ ہم نے اُسی نچلی سطح پر رہتے ہوئے ہدف پر بمباری کی۔ اسی دوران ضروری چکر کاٹتے ہوئے، اپنے ہدف کو مکمل طور پر نابود کرنے کے بعد ہم نے سرحد کی طرف حرکت کی۔ ہم ہلکے اور میزائل سے خالی طیاروں کے ساتھ سرحد کی طرف آرہے تھے  کہ ہماری طرف اُن کی توپوں اور میزائلوں کی بارش کا رخ اسی طرح جاری تھا۔ ہم نے بصرہ بجلی گھر کو اڑا کر اُنہیں جو نقصان پہنچایا تھا، اس  کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ لوگ ہر صورت سے ہم سے انتقام لینا چاہ رہے تھے اور ہماری طرف فائرنگ کر رہے تھے تاکہ صدام کے سامنے صفائی پیش کرنے کیلئے اُن ک پاس کچھ تو ہو۔ خداوند متعال کے لطف و کرم اور ایرانی پائلٹوں کی  ثابت قدمی سے وہ لوگ کامیاب نہیں ہوئے  اور ہم صحیح و سالم اپنے وطن کی سرزمین پر اتر گئے۔

اب صدام کی شکل دیکھنے کے قابل ہوگی، جب اُسے بصرہ کے بجلی گھر پر فضائی بمباری کی خبر دی گئی ہوگی اور یہ کہ اُس کے انٹرویو کے صرف ۱۵۰ منٹ بعد، ایرانی پائلٹوں نے ایسے مقامات کو ہدف بنایا کہ جن کے بارے میں کہا گیا تھا وہ محفوظ اور  پر امن ہیں، اور اُس کے بعد وہ صحیح و سالم واپس بھی چلے گئے۔

اُسی دن مغرب کے وقت بی بی سی کے رپورٹر نے اعلان کیا: "میں ابھی ایرانی پائلٹوں کے عراقی سرزمین پر نفوذ کے بارے میں عراق کے وزیر اعظم کے انٹرویو کے مطالب مرتب و منظم نہیں کرپایا تھا کہ میں نے ایرانی فانٹوم طیاروں کے غرانے کی آواز سنی۔ میں جس ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا میں نے اُس کے کمرے کی کھڑکی سے طیارے کے اندر ایرانی پائلٹ کے سر کو دیکھا اور اُس کے کچھ دیر بعد بجلی کٹ گئی۔ ہم نے پوری رات تاریکی میں گزاری۔ حتی بازاروں میں ٹارچ بھی نایاب ہوچکی ہے اور میں اس فکر میں ہوں کہ وزیر اعظم ایرانی پائلٹوں کو  انعام کیسے دیں گے!"

اس حادثے کے کچھ دن بعد، صدام نے عراق کی فضائی دفاع کے کمانڈر کو اُس کی نا اہلی کی وجہ سے معطل کردیا اور اُسے جیل میں ڈال دیا۔

سقوط سے لیکر دو نظر آنے تک

جنگ کے ابتدائی سالوں میں بوشہر کے چھٹے شکاری ایئربیس سے میں نے منوچہر محققی کے ساتھ ایک پرواز کی، بغداد کے آسمانوں پر اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد ہم سرحد کی طرف پرواز کر رہے تھے۔ منوچہر محققی ہمیشہ آمادہ رہنے والے پائلٹوں میں سے ایک تھے جو ریٹائرمنٹ کے وقت  بیرونی پروازوں  کے عالمی ریکارڈ یافتہ تھے، لیکن متاسفانہ بہت کم جگہوں پر  ان کا نام آتا ہے۔ اگرچہ محققی اور محققی جیسے لوگوں نے نام کمانے کیلئے جنگ نہیں لڑی تھی بلکہ انھوں نے وطن  کی خاطر جنگ کی اور کئی مرتبہ موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا۔

معمول کے مطابق عراق کی دفاعی اینٹی ایئر کرافٹس  میزائلوں  اور گولوں کی تعداد زیادہ تھی اور وہ ہر طرف سے ہم پر برس رہے تھے۔ جہاں تک ہم سے ہوسکا ہم میزائلوں اور گولوں  سے بچے، لیکن متاسفانہ میزائلوں اور توپوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی  کہ نویز(noise) ، رپیٹر (repeater) اور چف (chaff)بھی اب بے اثر ہوچکے تھے۔ بالآخر ہم نے موقع پر آخری خبردار کرنے والے چراغ کو دیکھ لیا اور فانٹوم پر میزائل لگنے سے پہلے باہر کود کر جہاز کو چھوڑ دیا۔ محققی کے بائیں ہاتھ پر مشین گن کی گولیاں لگی تھیں۔ اُسی تھوڑے سے وقت میں جب  میں زمین اور آسمان کے درمیان معلق تھا، میرے ذہن میں بہت سے خیالات آئے۔ میری بیوی، میرے شاہین اور شہرام کے چہرہ میرے آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوئے۔ میرے بعد اُن کا کیا ہوگا؟ حتی گزشتہ رات جب ہم ایک ساتھ بیٹھے تھے مجھے اُس کا بھی خیال آیا کہ پائلٹ منوچہر شیر آقایی نے ہنستے ہوئے مذاق میں کہا تھا: "کیومرث تمہارے پاس سے شہادت کی خوشبو آرہی ہے، اس دفعہ تم بچ کر نہیں آؤ گے، وصیت کرلو وغیرہ" آسمان اور زمین کے درمیان شیر آقایی کی پیشن گوئی سے مجھے ہنسی بھی آئی اور مجھے حرص بھی ہوا کہ اُس کی بات بالکل صحیح نکلی۔

پیراشوٹ کھل جانے کے باوجود، ابتداء میں جہاز سے تیزی سے باہر آنے کی وجہ سے میں زورد ار طریقے سے زمین سے ٹکرایا۔  میں زمین پر گرا ہوا تھا اور مجھ میں ہلنے کی ذرا سی بھی سکت نہیں تھی۔  میرے پیر بے حس ہوچکے تھے۔ مجھے کسی تکلیف کا احساس نہیں ہورہا تھا، لیکن میں تو اپنے ہاتھوں کا بھی احساس نہیں کر رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ میرے ہاتھ جدا ہوگئے ہیں۔ میں نے اپنے آنکھوں کی طرف نگاہ ڈالی وہ اپنی جگہ پر تھے، لیکن میں انہیں بالکل بھی حس نہیں کر رہا تھا۔ میں چاروں طرف دیکھ رہا تھا، میں اس فکر میں تھا کہ میں عراق میں گرا ہوں یا ایران میں؟ اسی وقت ایک جوان میرے پاس آیا۔ اُس نے عربی میں کچھ کہا جو میں صحیح سے سمجھ نہیں سکا۔ میرے وجود میں جو بھی خوف تھا اور زندہ رہنے کی جو ہلکی سی بھی خواہش  نہیں تھی وہ اسیر ہونے کی وجہ سے تھی، میں نے مضبوط لہجے میں کہا: میں ایرانی ہوں۔

جوان مسکرایا  اور اس نے ایک خاص لہجے  کے ساتھ فارسی میں کہا: میرا ماموں ایرانی ہے۔

میں نے جوان کی مسکراہٹ کا جواب تبسم سے دیا، میں نے اپنے دل میں کہا ایسا لگتا ہے میری قسمت اچھی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا وہ جوان لڑکا عراقی چرواہا تھا۔ اُس کے سر پر جو کپڑا بندھا ہوا تھا اُس نے اُسے کھولا۔ وہ میرے ہاتھوں کو آگے لایا اور کپڑے میں رکھ دیا اور کپڑے کے دونوں سروں کو میری گردن میں باندھ دیا۔ میرا دایاں پیر بھی شاید ٹوٹ گیا تھا۔ جوان لڑکے نے مجھے میرے بائیں پیر پر کھڑا کیا۔ وہ اپنی موٹر سائیکل میرے قریب لایا۔ میرے پیراشوٹ کو تہہ کیا  اور موٹر سائیکل کی سیٹ پر رکھ دیا اور مجھے پیراشوٹ پر بٹھا دیا۔

میرے ہاتھوں میں بالکل بھی جان نہیں تھی کہ میں توازن برقرار رکھنے کیلئے جوان لڑکے کی کمر کو پکڑلیتا۔ میں اپنے دانتوں سے اُس کی قمیض کے پچھلے کالر کو مضبوطی سے پکڑنے پر مجبور تھا۔ موٹر سائیکل چلنا شروع ہوئی۔ موٹر سائیکل کی ہر حرکت سے جب وہ چڑھائی اور ڈھلان سے گزرتی،  جوان چرواہے کی قمیض کا کالر میرے دانتوں سے چھٹنے لگتا۔ میں دانتوں سے قمیض پر اور زیادہ دباؤ دیتا۔ میرا جبڑا، ناک اور  پیشانی بھی جوان کے جسم سے ٹکرا رہی تھی۔ ایسے میں اپنی آنکھوں کے کنارے سے ایسی ہموار سڑک کو دیکھا جو ہمارے جانے والے راستے کے برابر میں تھی اور میں نے خود سے کہا: عجیب! یہ جوان تو مجھے بغیر پانی کی اس نہر کے اندر سے لے جا رہا ہے جو نشیب و فراز سے بھری ہوئی ہے۔

میرے ذہن میں بہت سے خیالات آئے۔ شاید یہ جوان مجھے لے جاکر بعثیوں کی تحویل میں دینا چاہتا ہے! شاید ایسا ہو ۔۔۔ لیکن بہرحال میرے پاس اس جوان عراقی چرواہے پر اعتماد کرنے  کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

تمام مشکلات سہتے ہوئے ہم ایرانی سرحد کے اندر آگئے۔ جوان نے موٹر سائیکل روک لیا۔ ہم نے تھوڑا سا سانس لیا۔ میرا منہ خشک ہو چکا تھا۔ میرے لعاب دہن  کی وجہ جوان چرواہے کی قمیض پیچھے سے گیلی ہوچکی تھی۔ جیسے ہی وہ جوان موٹر سائیکل سے نیچے اترا میں نے مسکراتے ہوئے شکایت بھرے لہجے میں کہا: " پیارے لڑکے ہم کس لیے ہموار راستے سے نہیں آئے اور ۔۔۔"

جوان چرواہے نے مجھے اپنی بات پوری کرنے نہیں دی اور اپنے اُسی خاص فارسی لہجے میں بولا: "پورے راستے  میں مائنز بچھی ہوئی ہیں، اور جس راستے سے ہم آئے ہیں چونکہ نہر کا پانی خشک ہوگیا تھا، وہاں مائنز نہیں بچھائی ہیں ورنہ تو ہمارے پاس آنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔"

جوان چرواہے نے مجھے اپنے ایرانی ماموں کے سپرد کردیا۔ وہ خود موٹر سائیکل سے اتر گیا اور اُس کا ماموں موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا۔ماموں نے بھی کچھ راستہ موٹر سائیکل پر طے کیا اور مجھے ہمارے اپنے سپاہیوں کی تحویل میں دیدیا۔ اُن کے پاس کوئی لوگو اور کوئی نشان نہیں تھا جس میں سمجھ سکتا کہ  اُن کا تعلق کس شعبے سے ہے۔ انھوں نے میرے پیراشوٹ کو لینڈ کروزر کے پیچھے پھیلایا اور مجھے پیراشوٹ کے اوپر لٹا دیا۔ راستے کے دوران دشمن کے مارٹر گولے  ہم سے خدا حافظی کر رہے تھے۔ میں نے خود سے چند میٹر کے فاصلے پر مارٹر گرتے دیکھے۔  اُن کی خطرناک آواز سے کانوں میں تکلیف ہو رہی تھی۔ لینڈ کروزراپنی پوری رفتار سے جارہی تھی یہاں تک کہ ہم دشمن کی نگاہ سے دور ہوگئے۔ میں تو پیچھے لیٹا ہوا تھا اور آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس دوران میں نے اپنے f14 طیارے کو آسمان پر دیکھا۔ میں نے فوراً اپنے بائیں پیر سے آگے والی سیٹ کے شیشے پر مارا۔ لینڈ کروزر روک گئی اور ایک سپاہی مجھ سے یہ پوچھنے  کیلئے نیچے اترا کہ تمہیں کیا چاہیے۔ حالانکہ میں پرواز کرتے f14 کی طرف اشارہ کر رہا تھا، میں نے تیزی سے کہا: "وہ جہاز مجھے ڈھونڈنے کیلئے آیا ہے، تم میری پائلٹ جیکٹ  کو جو اورنج کلر کی ہے اُسے، اُسے باہر نکالو تاکہ وہ لوگ دیکھ لیں۔"

سپاہی سوچ رہے تھے میرا سر کہیں ٹکرا گیا ہے اور میں دیوانہ ہوگیا ہوں۔ ان کے لبوں پر تمسخر والی مسکراہٹ آئی اور جیسا کہ وہ مجھے ناراض کرنا نہیں چاہتے تھے، میری جیکٹ کو باہر نکالا او اُسے اگلے کیبن کی چھت پر رکھ دیا۔ f14 نے جیسے ہی اسے دیکھا، اُس نے ہمارے سر کے اوپر ایسی قلا بازی کھائی کہ سپاہی گاڑی سے دور ہوگئے۔ f14 نے اپنے پروں کو ہلاتے ہوئے سلام کیا اور ہمیں مطمئن کردیا کہ اُس نے مجھے دیکھ لیا ہے۔ f14 چلے جانے کے بعد سپاہی دوبارہ چلنا چاہتے تھے کہ میں نے اُن سے کہا کہ مدد آنے تک وہیں پر کھڑے رہے ہیں۔ وہ تردید کا شکار تھے، لیکن اب وہ سمجھ گئے تھے کہ نہ میں دیوانہ ہوں اور نہ ہی میر سر کہیں ٹکرایا ہے ، اطمینان سے میری باتوں کو ماننے لگے۔ کچھ منٹ گزرنے  کے بعد، آسمان پر f14 کی ہمراہی میں ایک ہیلی کاپٹر نمودار ہوا۔ ہیلی کاپٹر نیچے اترا۔ انھوں نے مجھے ہیلی کاپٹر پر سوار کیا اور جب تک میں ہیلی کاپٹر پر سوار نہیں ہوگیا، f14 ہمارے سروں پر پرواز کرتا رہا اور واپسی کے راستے میں بھی ہمارے ساتھ تھا۔ مجھے ماہ شہر کے ہسپتال لے گئے۔ میرے دونوں ہاتھ اور سیدھا پیر ٹوٹ چکا تھا۔ وہیں پر میں نے پائلٹ منوچہر محققی کے بارے میں پوچھا۔ مجھے پتہ چلا کہ اُس کے بائیں ہاتھ پر گولی لگنے کے علاوہ اُس کا دایاں ہاتھ بھی زمین پر گرنے کی وجہ سے ٹوٹ گیا ہے اور اُسے اہواز کے ہسپتال لے گئے ہیں۔

حادثہ والے دن، جب میں اپنے مشن پر تھا، اس وقت کا وزیر اعظم بنی صدر بوشہر آتا ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ میں اُس زمانے میں بوشہر کا میئر بھی تھا، وہ میرے بارے میں پوچھتا ہے۔ اُسے بتایا جاتا ہے کہ میئر فضائی مشن پر ملک سے باہر گئے ہیں۔ کچھ گھنٹے گزرنے کے بعد وہ دوبار بوشہر کے میئر کے بارے میں پوچھتا ہے ، اُسے پورے ماجرے کی اطلاع دی جاتی ہے۔ وہ بھی میرے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ اس بات کو میرے گھر والوں کو بتادینا چاہے تاکہ مثلاً ان لوگوں کی پریشانی دور ہوجائے ۔

جب بھی کوئی پائلٹ شہید ہوتا تھا میں اپنی زوجہ سے کہا کرتا تھا کہ شہید کے گھر جاؤ اور اُس کی زوجہ سے کہو کہ تمہارا شوہر اہواز کے ہسپتال میں ایڈمٹ ہے، اُس کی حالت ٹھیک ہے، صرف اُس کے ہاتھ اور پاؤں ٹوٹے ہیں اور یوں اُسے آہستہ آہستہ شہادت کی خبر سے آگاہ کرو۔ ہم جھوٹ بولنے والے چرواہے کی طرح ہوچکے تھے اور اب تو واقعاً میرے ہاتھ پاؤں ٹوٹ چکے تھے۔ حادثے والی رات جب میرے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی، میری زوجہ علت معلوم کرنے کیلئے بٹالین کے ہیڈ کوارٹر فون کرتی ہے۔ پائلٹ شیر آقایی فون اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ پریشان نہ ہوں، کیومرث کے طیارے کو مورد ہدف قرار دیا گیا ہے، لیکن خوش قسمتی سے اُس کی حالت ٹھیک ہے، اُس کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے ہیں اور وہ ماہ شہر کے ہسپتال میں ہے، اُسے تہران کے ہستپال منتقل کرنا چاہتے ہیں میری بیوی جیسے ہی یہ باتیں سنتی ہے چیخ مارتی ہے اور اُس کا جسم بے حس ہوجاتا ہے۔ ٹیلی فون اُس کے ہاتھ سے گر جاتا ہے اور وہ سوچتی ہے کہ میں شہید ہوگیا ہوں۔

شیر آقایی تیزی  کے ساتھ میرے گھر پہنچتے ہیں۔ خود جناب شیر آقایی کہ بقول انھوں نے میری زوجہ کے سامنے جتنی قسمیں کھائی کہ خدا کی قسم اسے کچھ نہیں ہوا اور صرف کیومرث کے ہاتھ اور پاؤں ٹوٹے ہیں، اُسے یقین نہیں آرہا تھا اور وہ تاکید کے ساتھ کہہ رہی تھی: "نہیں! مجھے پتہ ہے کہ کیومرث شہید ہوچکا ہے۔" آخر میں شیر آقایی کو غصہ آجاتا ہے اور وہ کہتے ہیں: "ارے بابا خدا کی قسم وہ زندہ ہے، ہماری قسمت میں اُس کی موت کا حلوہ کھانا نہیں لکھا۔" شیر آقایی کی یہ باتیں سننے سے میری بیوی تھوڑا پرسکون ہوجاتی ہے۔

مجھے اسٹریچر پر ڈالا تاکہ فضائی افواج میں حمل و نقل  والے طیارے c130 کے ذریعے مجھے  تہران میں موجود فضائی افواج کے ہسپتال منتقل کر دیں۔ دو لوگوں نے اسٹریچر کو معمول کے مطابق دو طرف سے اٹھایا ہوا تھا۔ جب ہم ہوائی جہاز کے قریب پہنچے، لال رنگ کا سائرن بج اٹھا اور اُس کے فوراً بعد بمباری کی آواز بھی کانوں  تک پہنچی۔ وہ دو لوگ جنہوں نے اسٹریچر کو دونوں طرف سے پکڑا ہوا تھا وہ بہت تیزی سے ہوائی جہاز کی مخالفت سمت کی طرف دوڑے۔ اتنا تیز دوڑ رہے تھے کہ میں نے ایک وقت اپنے آپ کو ہوا میں معلق پایا اور زبردست طریقے سے منہ کے بل زمین پر گرا۔ انھوں نے اسٹریچر کو زمین پر رکھا اور مجھے رنگ کی طرح گھماتے ہوئے دوبارہ اسٹریچر پر رکھا۔ سفید سائرن کی آواز بلند ہونے کے بعد مجھے ہوائی جہاز کے اندر لے گئے اور جہاز کے بیچ میں رکھ دیا۔ میں نے اپنے اطراف میں دیکھا۔ میرے چاروں طرح زخمی ہی زخمی تھے۔ جہاز کے ایک طرف بہت زیادہ تعداد میں جنازے بھی رکھے ہوئے تھے۔ میری حالت خراب ہوگئی۔ میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ مجھے تہران جانا ہی نہیں ہے، مجھے نیچے اتار دو  کہ ایک جانی پہچانی آواز نے مجھے سلام کیا۔ وہ اُسی جہاز کاپائلٹ تھا ۔ وہ گھٹنے کے بل بیٹھا اور مجھے پیار کیا۔ جب اس کو میری اندرونی کیفیت کے بارے میں پتہ چلا تو اُس نے مجھے پائلٹ کے کیبن میں لے جانے کا دستور دیدیا۔

جیسے ہی مجھے ہوائی جہاز سے نیچے اتارا گیا، مجھے ایک ایسی ایمبولنس میں رکھا گیا جو خون سے بھری ہوئی تھی۔ میری حالت ایک بار پھر خراب ہوگئی۔ اس دفعہ فرسٹ ایڈ دینے والے اور ایمرجنسی ٹیکنیشن نے اگلے کیبن میں ڈرائیور کے برابر میں اپنی جگہ  مجھے دیدی۔ تہران کی سڑکیں خالی تھیں۔ ہر جگہ خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ہمیشہ رہنے والے رش  نظر نہیں آرہا تھا اور سڑکوں پر صرف چند گاڑیاں حرکت کر رہی تھیں۔ جب ہم آزادی اسکوائر کے قریب پہنچے، میرے کانوں میں جانی پہچانی آوازیں آنے لگیں۔ آوازیں زیادہ اور زیادہ ہو رہی تھیں۔ میں نے اپنے سر کو اُن کی طرف گھمایا۔ مجھے یقین نہیں آیا، میرے بیٹے شاہین اور شہرام تھے جنہوں نے ایئرپورٹ ٹیکسی کے شیشے سے اپنے سر کو باہر نکالا ہوا تھا اور چلا رہے تھے: "بابا، بابا، ۔۔۔"

ایمبولنس سڑک کے کنارے رک گئی۔ ایئرپورٹ کی ٹیکسی بھی رک گئی۔ ایمبولنس کے دروازے کو کھولا گیا۔ میرے بیٹے مجھ سے لپٹ گئے اور مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔ میں نے اپنی زندگی کے بہترین لمحات میں سے ایک لمحہ کو اس وقت اشکوں کے ساتھ تجربہ کیا۔ آزادی اسکوائر کے قریب وہی کم تعداد میں جو گاڑیاں  تھیں، رک گئی تھیں اور لوگ اشکبار آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔

بیہوشی کے بعد ، جب مجھے ہسپتال میں ہوش آیا، مجھے ایسا لگا مجھے ہر چیز دو دو نظر آرہی ہے۔ ۱۵، ۱۶ سالہ لڑکی جو میرے سامنے کھڑی ہوئی تھی اور جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی مجھے دو نظر آرہی تھیں۔ میں سوچنے لگا کہیں ایسا تو نہیں میرے سر پر کوئی چوٹ لگی ہو، پس مجھے ہر چیز دو کیوں دکھائی دے رہی ہے؟ میں نے تھوڑی دقت کی، میں نے دیکھا ہسپتال کے کمرے کا بلب مجھے ایک ہی نظر آرہا ہے۔ میں مسکرایا اور میں نے لڑکیوں کی طرف رُخ کرکے کہا: "آپ  دو بہنیں ہیں؟"

اُن میں سے ایک نے جواب دیا: "ہاں ہم دونوں جڑواں ہیں" اور اُس نے میری طرف ایک برتن کوآگے کرتے ہوئے کہا: " آ پ نے کہا تھا کہ آپ کو میگو اچھے لگتے ہیں، ہم نے بھی اپنی ماں سے میگو بنانے کیلئے کہا اور آپ کیلئے لائے ہیں۔"

مجھے تو بالکل بھی یاد نہیں آرہا تھا کہ میں نے کہیں ان لڑکیوں کو دیکھا ہو۔ مجھے کچھ بھی یاد نہیں آیا۔ میں نے اس وجہ سے کہ وہ لوگ ناراض نہ ہوجائیں کچھ نہیں کہا اور اُن کے مہربانی کے ساتھ پیش آنے پر اُن کا شکریہ ادا کیا۔

اس پورے عرصے میں پائلٹ منوچہر شیر آقایی نے بھی زحمت اٹھائی۔ ہر دفعہ جب ہم آپس میں مذاق کرتے تھے، میں جو کہ اُس کی تند و تیز زبان کا مقابلہ نہیں کرپاتا تھا، لہذا میں مذاق ہی مذاق میں اُس پر مکے اور لاتے برساتا تھا۔ اب اُسے پاس بدلہ لینے کا وقت مل گیا تھا۔ اُس نے مجھے اتنا تنگ کیا اور مجھے اتنے چکر دیئے کہ مجھے اُسے ہسپتال میں اپنے کمرے سے باہر نکالنے کیلئے نرسوں سے مدد لینی پڑتی۔



 
صارفین کی تعداد: 2928


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔