علماء کا تہران یونیورسٹی میں پناہ لینا

روایت کنندہ: حجۃ الاسلام و المسلمین سید محسن موسوی فرد [کاشانی]
ترجمہ: سید سمیر علی جعفری

2018-9-1


محمد رضا پہلوی نے اپنے فرار ہونے سے قبل بختیار کو وزیر اعظم بنا دیا تھا۔ بختیار  جب امام خمینی کے ایران واپس آنے کے قصد سے آگاہ ہوا تو اس نے ہوائی اڈوں کو بند کرنے کا حکم صادر کر دیا تاکہ امام خمینی ایران نہ آ سکیں۔ اس زمانے میں لوگوں نے نعرہ بلند کیا " اگر امام  کل نہ آ ئے تو بختیار اپنی خیر منائے"۔

آیت اللہ مطہری نے ہمیں پیغام دیا کہ محترم لوگوں کو تہران یونیورسٹی میں جمع کیاجائے ہم وہاں پناہ لیں گے۔ تہران کے مشرقی حصے کے تمام کام میرے ذمہ لگا دئیے گئے تھے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو فون کیا کہ وہ بھی اس پناہ گزینی  میں شریک ہوں۔  جن لوگوں نے ہماری دعوت کو قبول کیا ان میں محترم امامی کاشانی، موحدی کرمانی، صفائی آشتیانی[ خیابان پیروزی میں امام جماعت تھے] مرحوم کرباسی[مسجد الرسول نارمک] شامل تھے۔ جن لوگوں کو میں نے اس بات کی دعوت کے لئے فون کیا تھا ان میں سے ایک جناب حقی صاحب بھی تھے جو مسجد امام حسین علیہ السلام کے پیش نماز تھے۔ محترم حقی صاحب نے کہا: " آپ مسجد امام حسین علیہ السلام آجائیں پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے"۔ میں مسجد امام حسین علیہ السلام کی جانب چل پڑا ۔۔۔ گاڑی میں سوار ہوئے اور تہران یونیورسٹی کی جانب چل پڑے۔ یونیورسٹی کی سڑک پر مڑے ہی تھے تاکہ یونیورسٹی کے مشرقی دروازے سے اندر داخل ہو جائیں کہ گولیاں چلنا شروع ہو گئیں۔ محترم حقی صاحب نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور نیچے کود کر سڑک کے کنارے لیٹ گئے میں نے کچھ دیر انتظار کیا اور جب گولیاں چلنا بند ہوگئیں  تو ڈرتے ڈرتے اٹھا اور پھر ہم یونیورسٹی میں داخل ہو گئے۔ جس وقت پناہ گاہ م یں پہنچے، بہشتی صاحب نے ہمارا استقبال کیا۔ شہید بہشتی کو مسکراتا ہوا چہرہ ہر کے جسم سے تھکن کو دور کر دیتا تھا۔ کاموں کا سارا بوجھ شہید بہشتی اور شہید مطہری کے کاندھوں پر تھا۔

رات ہوئی تو بہشتی صاحب نے مجھے آواز دی اور  کہا: ہمیں پناہ گزینوں کے لئے کمبل اور کھانے کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ ان کے گھر والے رات کا کھانا لے آئیں مگر ناشتے کے لئے آپ انتظام کریں"۔ میں نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر یہ لکھا اور یونیورسٹی کے ایک آدمی کو دے دیا اور کہا: " مسجد النبی نارمک  میں یہ پرچہ فلاں صاحب کو دے دینا تاکہ وہ  ان کا انتظام کر سکیں"۔ مسجدالنبی نارمک نے ایک گاڑی بھر کر صاف ستھرے کمبل اور ایک سوزوکی میں  تنوری روٹیا ں بھجوا دیں اور یوں میرا سر بہشتی صاحب کے سامنے سربلند رہا اور میں شرمندگی سے بچ گیا۔

یونیورسٹی میں قیام کے دوران  رات کو  بہشتی صاحب اور طالقانی صاحب تقاریر کیا کرتے تھے۔ ان دنوں کی بہت سی یادیں ہیں میرے پاس لیکن ایک ایسا واقعہ جو بھلائے نہیں بھولتا یہ ہے کہ ایک روز تہران کے جنوب سے بہت سے لوگ آئے  تھے۔ انہوں سروں پر طبق اٹھائے ہوئے تھے جن میں کوئی جلی ہوئی چیز رکھی تھی اور وہ فریاد کر رہے تھے  " اے رہبروں اے رہبروں ہمیں مسلح کرو"۔  طبق کے اندر ایک مظلوم شہید تھا جس کو پہلوی ظالموں نے جلا ڈالا تھا۔ لوگوں میں شدید غم و غصہ تھا اور میں انتقام کی آگ بھڑکی ہوئی تھی انہوں کسی بھی طرح آرام نہ آتا تھا۔  پورے شہر میں افراتفری اور پکڑ دھکڑ جاری تھی اور جو کوئی بھی پہلوی ظالموں کے ہتھے چڑھ جاتا اس کا حال بھی اسی شہید جیسا ہوتا تھا۔ ہاشمی صاحب تشریف لائے  اور نہایت عقلمندی اور ہوشیاری کے ساتھ لوگوں کو اس بات راضی کیا  وہ جنازہ کو بہشت زہرا لے جا کر دفن کر دیں اور سڑکوں پر شور و غوغا نہ کریں۔ ہاشمی صاحب نے لوگوں پر زور دیتے ہوئے کہا: "  مہربانی فرما کر ہمیں ہمارا کام کرنے دیں ۔ ہم حتمی نتیجے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں"۔ ہاشمی صاحب کی ان باتوں پر وہ لوگ راضی ہوگئے۔[1]

 

 

[1]  خاطرات حجۃ الاسلام والمسلمین سید محسن موسوی فرد کاشانی، جمع و تدوین مہدی قیصری، تہران، انتشارات مرکز اسناد انقلاب اسلامی چاپ اول ۱۳۸۷، صفحہ، ۱۲۶ تا ۱۲۸۔



 
صارفین کی تعداد: 2929


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
اشرف السادات سیستانی کی یادداشتیں

ایک ماں کی ڈیلی ڈائری

محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔